Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا عبدالعزیز میمن

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا عبدالعزیز میمن
ARI Id

1676046599977_54338201

Access

Open/Free Access

Pages

386

مولانا عبدالعزیز میمنی راجکوٹی
عربی زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے مولانا عبدالعزیز میمنی کی وفات بڑی افسوس ناک ہے، انھوں نے خاصی طویل عمر پائی، انتقال کے وقت ۹۶ برس کے تھے، لیکن عربی علم و ادب اور تاریخ و تحقیق کے میدان میں ان کا جو مرتبہ تھا، اس کی بناء پر درازی عمر کے باوجود ان کا انتقال بہت محسوس ہوگا، اور عرصہ دراز تک انھیں یاد کیا جاتا رہے گا۔
وہ ۱۸۸۹؁ء میں راجکوٹ (کاٹھیاواڑ) میں پیدا ہوئے، عنفوان شباب میں تحصیل علم کے لئے دہلی کا سفر کیا، اور وہاں ایک عرصہ تک تحصیل علم میں مشغول رہے، انھوں نے باقاعدہ کسی درس گاہ سے سند فراغ نہ لی تھی، لیکن اہل کمال کی خدمت میں رہ کر عربی ادب میں کمال پیدا کیا، شیخ طیب عرب سے مدتوں اکتساب فیض کیا، ڈپٹی نذیر احمد سے بھی کافی استفادہ کیا، مطالعہ کتب کا خاص اہتمام تھا، اس طرح کامل دستگاہ حاصل کرلی اور اقران و اماثل میں ممتاز سمجھے جانے لگے، تلاش معاش کے لئے پہلے اسلامیہ کالج پشاور پہنچے، وہاں عربی کے استاد کی حیثیت سے کچھ عرصہ تک درس و تدریس کی ملازمت انجام دی، اپریل ۱۹۲۱؁ء میں اورینٹل کالج لاہور میں ایڈیشنل مولوی کی حیثیت سے ایک سو روپیہ ماہوار تنخواہ پر تقرر ہوا، یہاں کی علمی و ادبی فضا نے ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کیا، چنانچہ درس و تدریس کے ساتھ تصنیف و تحقیق کا ذوق پروان چڑھا، چار سال بعد آخر ۱۹۲۵؁ء میں یہاں سے علی گڑھ چلے آئے، پہلے شعبۂ عربی میں استاد ہوئے، پھر صدر شعبہ ہوگئے، ۱۹۴۹؁ء میں یہاں سے ریٹائر ہوکر کراچی چلے گئے، وہاں کراچی یونیورسٹی کے قیام پر شعبۂ عربی کے صدر منتخب ہوئے، یہاں سے سبکدوشی کے بعد اکتوبر ۱۹۵۴؁ء میں مرکزی ادارۂ تحقیقات اسلامی کے پہلے اعزازی ڈائرکٹر مقرر ہوئے، یہاں مولانا کے فرائض میں ایک اعلیٰ درجہ کے کتب خانہ کا انتظام تھا، اس غرض سے پاکستان کی وزارت تعلیمات نے ان کے لئے مختلف ممالک کے سفر کا انتظام کیا، تاکہ نادر و نایاب کتابیں فراہم ہوسکیں، مولانا نے اس علمی سفر میں مصر، شام، تونس، الجزائر، سعودی عرب، عراق، ترکی اور ہندوستان کا دورہ کیا، ان کی نظر انتخاب نے اس ادارہ کے کتب خانہ کو قیمتی کتابوں سے مالا مال کردیا۔
مولانا کا اوڑھنا، بچھونا عربی زبان و ادب کی خدمت تھا، اس سلسلہ میں انھوں نے ایسے نقوش جاوداں ثبت کئے ہیں، جو عرصہ تک ان کی یاد دلاتے رہیں گے، ان کا پہلا علمی و تحقیقی کارنامہ ’’ابوالعلاء وما الیہ‘‘ ہے، اس کتاب میں انھوں نے ادبائے مشرق و مغرب کے افکار و خیالات کا جائزہ لیا، اس کی اشاعت کی بعد ادبائے عرب اور مستشرقین یورپ نے ان کی دیدہ وری، شان تحقیق اور وسعت نظر کی دل کھول کی داد دی، علامہ سید سلیمان ندوی ان کے علمی و تحقیقی کاموں کے بڑے قدر شناس تھے، انھوں نے اس تحقیقی شاہکار کو دارالمصنفین کے سلسلہ تصنیفات میں شامل کیا، اور ۱۳۴۴؁ھ میں بڑے اہتمام کے ساتھ اسے قاہرہ میں طبع کرایا۔ اس کے شروع میں میمن صاحب نے دارالمصنفین کی خدمات، سید صاحبؒ کے علمی شغف اور علامہ شبلی کا ذکر خیر کیا ہے اور اس کتاب کو دارالمصنفین کے سلسلۃ الذہب میں شامل کئے جانے پر تشکر و امتنان کا اظہار کیا ہے، اس سے عالم اسلام میں دارالمصنفین کی خدمات کا بھی تعارف ہوا، اس کتاب کی اشاعت پر سید صاحب بہت خوش ہوئے اور قارئین معارف کو اس علمی تحفہ کی خبر شذرات میں اس طرح دی:
’’دارالمصنفین کی طرف سے ایک نئی عربی کتاب ابوالعلاء معری پر جو عربی زبان کا خیام ہے، مصر کے مطبعۂ سلفیہ سے چھپوا کر منگوائی گئی ہے، یہ ہندوستان کے مشہور فاضل و ادیب مولانا عبدالعزیز صاحب میمن استاذ عربی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کی تصنیف ہے، اب تک بلادِ عربیہ میں اس شاعر پر جو کچھ لکھا گیا تھا، اس سے بہت زیادہ بڑھ کر اور ان سے زیادہ صحت اور استیعاب کے ساتھ اس کتاب میں معلومات فراہم کی گئی ہیں، لوگوں کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ وسعت معلومات ایک طرف ایک ہندی نژاد کے عربی قلم نے خود اہل زبان سے خراج تحسین وصول کیا ہے‘‘۔ (معارف جنوری ۲۸؁ء)
سید صاحب ان کے علمی و تحقیقی کام کے بڑے قدرداں تھے، ان سے مضامین طلب کرتے، سید صاحب کی فرمائش پر انھوں نے معارف میں متعدد مضامین لکھے، جنھوں نے اہل علم سے خراج تحسین حاصل کیا، پہلا مضمون جولائی ۱۹۲۴؁ء میں کتب خانہ جامع القرویین فاس کے بارے میں شائع ہوا، اس کے بعد اسی سال ابن رشیق اور المعزبین بادیس پر ایک مضمون نکلا، جس کے شروع میں سید صاحب کا ایک نوٹ بھی تھا:
’’مولانا نہ صرف عربی زبان و ادب پر کامل عبور رکھتے ہیں بلکہ علم کا خالص مثالیں ملک کے سامنے آچکی ہیں، ذیل کا مضمون تلاش کامل مطالعہ عمیق اور سخت کاوش و محنت کا نتیجہ ہے‘‘۔ (معارف ۲۴؁ء)
اس کے بعد ۲۵؁ء میں ’’ابوالعلاء اور معارضہ قرآن‘‘، ’’ابوتمام کی نقائص جریر و اخطل کا ایک واحد نسخہ‘‘ کے عنوان سے دو اور مضامین شائع ہوئے، ابوالعلاء معری اور گاندھی جی کا چرخہ ایک مضمون لکھا․․․․․ تو سید صاحب نے تحریر فرمایا کہ:
’’ہمارے دوست مولانا عبدالعزیز کو آج کل ایسی ہی دھن ہے جیسی گاندھی جی کو چرخہ کی، چنانچہ ابوالعلاء معری کا چرخہ آج وہ نکال کر لائے ہیں‘‘۔
سید صاحب نے ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم کی حیثیت سے ندوہ میں توسیعی خطبات کا سلسلہ شروع کرنے کا عزم کیا تو اس سلسلہ میں سب سے پہلے مولانا عبدالعزیز میمن نے جون ۲۵؁ء میں طلبائے ندوہ کے سامنے ایک خطبہ دیا جو سید صاحب کے ایک طویل نوٹ کے ساتھ ’’خطبۂ علمی ابوالعلاء معری کے متعلق مستشرقین یورپ کی غلطیاں‘‘ کے عنوان سے ستمبر، اکتوبر، نومبر ۲۵؁ء میں معارف میں شائع ہوا۔
ان کے علاوہ قابل ذکر مضامین میں ’’علامہ ابن الجوزی کے افکار یا ان کا روزنامچہ‘‘ مئی ۲۸؁ء میں ’’ابن رشیق صقلیہ میں‘‘ جولائی ۲۹؁ء میں شائع ہوا۔
میمن صاحب کا دوسرا اہم علمی کارنامہ امالی کی شرح سمط اللآئی کو ایڈٹ کرنا ہے، یہ دو جلدوں میں قاہرہ سے شائع ہوئی، ایک جلد فہرست کی اس کے علاوہ تھی، جس میں اماکن وامصار اعلام و اشخاص کو حروف تہجی کے اعتبار سے تحریر کیا ہے، یہ فہرست بھی تلاش و تحقیق کرنے والوں کے لئے بڑی کارآمد ہے۔
ابوعلی القالی (متوفی ۳۵۶؁ھ) کی الامالی عربی ادب کی امہات کتب میں شمار ہوتی ہے، مورخ ابن خلدون کا مقولہ ہے، ’’جسے ادب عربی حاصل کرنا ہوا، اسے اس فن کی ان چار اصل الاصول کتابوں کو یاد کھنا چاہئے: ۱۔البیان و التبیین للجاحظ، ۲۔الکامل للمبرد، ۳۔الامالی لابی علی القالی، ۴۔ادب الکاتب لابن قتیبہ‘‘۔
ابوعبید البکری (متوفی ۴۸۷؁ھ) نے امالی کی ایک بلند پایہ شرح اللآلی کے نام سے لکھی، مولانا میمنی نے سات سال کی تلاش و تحقیق کے بعد اسے مرتب کیا، سمط اللآلی کے نام سے اس پر بڑا بیش قیمت حاشیہ لکھا،․․․․․ ۱۹۳۶؁ء میں یہ کتاب مصر سے شائع ہوئی تو میمنی صاحب کا نام ساری دنیا میں پھیل گیا۔
مولانا محمد عبداﷲ سورتی نے معارف ۳۸؁ء میں تین قسطوں میں اس پر تبصرہ کیا، اور غلطیوں کی نشان دہی کی میمنی صاحب نے برہان ۳۸؁ء و ۳۹؁ء کے سات شماروں میں اس کا پرزور جواب لکھا، افسوس ہے کہ اس جواب میں شدت جذبات کی بناء پر علمی مباحث کے ساتھ نامناسب الفاظ میں سورتی صاحب کی ذات کو بھی ہدف طنز و تعریض بنایا ہے۔
الندوہ کے دور جدید میں ’’میری محسن کتابیں‘‘ ایک مفید سلسلہ شروع کیا گیا تھا، جس میں مشاہیر اہل علم نے اپنے تجربات کا نچوڑ پیش کیا تھا اس میں مولانا میمن نے بھی اپنی محسن کتابوں کا ایک جائزہ پیش کیا ہے، جو اس کے مجموعہ ’’مشاہیر اہل علم کی محسن کتابیں‘‘ مرتبہ مولانا محمد عمران خان ندوی میں دیکھا جاسکتا ہے۔
مولانا کو جاہلی اور اسلامی شعراء کے ہزاروں بلکہ شائد لاکھوں اشعار ازبر تھے، قدیم ادب پر بھی ان کی نظر بہت عمیق تھی، الفاظ کی تحقیق میں ان کو خاصا درک تھا، انساب بھی ان کا خاص موضوع رہا ہے، ہندوستان میں جب تک آپ کا قیام رہا علی گڑھ سے تعلق کے ساتھ ہندوستان کے عربی مراکز اور اسلامی اداروں سے بھی گہرا ربط رہا اور مختلف علمی و ادبی انجمنوں کے رکن رہے، عالم اسلام میں اپنی خدمات کی بناء پر انھیں بڑی شہرت حاصل تھی، ۲۸؁ء سے دمشق کی مشہور علمی اکیڈمی ’’المجمع العلمی‘‘ کے رکن منتخب ہوئے، اس کے ترجمان ’’المجلہ العربی‘‘ میں آپ کے بہت سے مضامین شائع ہوئے، عربی کے سب سے اہم لغت لسان العرب کی اشاعت کے لئے جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس میں بھی میمن صاحب کا نام شامل تھا، ان کی ان وسیع خدمات کے صلہ میں جامعہ ازہر کی طرف سے انھیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی سند دی گئی۔
آپ کی دو منذکرہ بالا کتابوں کے علاوہ دوسری قابل ذکر علمی و ادبی کتابیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ ابن رشیق
۲۔ نسب عدنان وقحطان
۳۔ نظرۃ علمی دیوان نعمان بن بشیر الانصاری
۴۔ مااتفق لفظہ واختلف معناہ
۵۔ النتف
۶۔ الطرائف الادبیۃ
۷۔ اکلید الخزانۃ
۸۔ عرام بن الاضبع السلمی الاعرابی کی، اسماء حیال تھامہ
۹۔ زیادات المتنبی
۱۰۔ ثلاث رسائل
۱۱۔ المداخل
۱۲۔ فرائد القصائد
۱۳۔ دیوان الشنفرسی
۱۴۔ دیوان ابراہیم الصولی
۱۵۔ دیوان حمید بن ثور
۱۶۔ الفاضل للمبرد
۱۷۔ حواشی اللسان
۱۸۔ اغلاط معجم الادباء یاقوت
۱۹۔ خلاصہ السیر
۲۰۔ ابواب مختارہ
۲۱۔ الفائت
۲۲۔ اختیار الجرجانی
۲۳۔ دیوان صحیم العبد
۲۴۔ دیوان کعب
۲۵۔ المقصور للفراء
۲۶۔ التنبیہات
وغیرہ وغیرہ۔ (’’م ، ن ، ن‘‘۔ دسمبر ۱۹۷۸ء)

مولانا عبدالعزیز میمن: چند یادیں
( شیخ نذیر حسین)
مولانا عبدالعزیز میمن نے نوے (۹۰) برس کی عمر میں ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۷۸؁ء کو کراچی میں انتقال کیا۔ وہ عہد حاضر میں عربی زبان کے مشہور ادیب، محقق، عالم اور انشا پرداز تھے، اور اپنی عربی تصانیف کی بدولت ہند و پاکستان سے زیادہ عرب ممالک کے علمی حلقوں میں معروف اور روشناس تھے، مولانا میمن صاحب کا وطن مالوف راج کوٹ (کاٹھیاواڑ) تھا، جہاں وہ ۱۸۸۸؁ء میں ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے آبائی پیشہ زمینداری تھا، بچپن ہی میں وہ حصول علم کے لیے دہلی چلے آئے، ان دنوں دہلی علوم اسلامیہ کا سب سے بڑا مرکز تھا، شہر میں باکمال علما کے درس و تدریس کے حلقے جگہ جگہ قائم تھے، میمن صاحب نے مولانا محمد بشیر سہیسوانی سے جو نواب صدیق حسن کے زمانہ عروج میں بھوپال میں قاضی رہ چکے تھے، درسیات کی تحصیل کی، ادب کی تعلیم کے لیے وہ ڈپٹی نذیر احمد مرحوم کی خدمت میں حاضر ہوئے جو عربی علم و ادب کے مسلم الثبوت استاد تھے، انھوں نے حماسہ، متنبی، مقامات اور سقط الزنذ ڈپٹی صاحب سے پڑھی میمن صاحب بیان کرتے تھے کہ ڈپٹی نذیر احمد مرحوم ترجمہ اس قدر خوبصورت کرتے تھے کہ تعریف نہیں ہوسکتی، امیر حبیب اﷲ خاں والیٔ افغانستان ایک دفعہ دہلی تشریف لائے تو ڈپٹی صاحب امیر حبیب اﷲ خاں سے ملنے گئے، اتفاق سے عید کا دن تھا، ڈپٹی صاحب نے متنبی کا عید اور وجہ حبیب والا شعر پڑھا، عید کے دن اور امیر صاحب کے نام سے مناسبت نے عجیب لطف پیدا کردیا، اور امیر صاحب بہت محظوظ ہوئے، اس زمانے میں معقولات کا بڑا شہرہ تھا، قدیم فلسفہ اور منطق کی کتابیں پڑھے بغیر کوئی شخص صحیح معنوں میں عالم کہلانے کا مستحق نہیں سمجھا جاتا تھا، ان علوم کا سب سے بڑا مرکز مدرسہ عالیہ رام پور تھا، علامہ محمد طیب مکی صدر مدرس تھے،جو بلند پایہ ادیب تھے، ان کی علمی شہرت کی وجہ سے نہ صرف ہندوستان بلکہ افغانستان اور ترکستان تک کے طلبہ رام پور کھنچے چلے آتے تھے، میمن صاحب نے رام پور جاکر علامہ طیب صاحب سے استفادہ کیا اور فراغت کے بعد دہلی چلے آئے، جہاں رہ کر پنجاب یونیورسٹی کے مشرقی امتحانات منشی فاضل اور مولوی فاضل ۱۹۰۸؁ء اور ۱۹۰۹؁ء میں پرائیوٹ طور پر پاس کئے اور یونیورسٹی میں اول آئے۔
اس وقت شہر دہلی مجمع الکمال بنا ہوا تھا، بڑے بڑے علماء، ادباء اور صلحاً وہاں موجود تھے، لیکن مولانا میمن افسوس سے ذکر کیا کرتے تھے، کہ دہلی احناف اور اہل حدیث علماء کے فقہی اختلافات کا اکھاڑہ بنی ہوئی تھی، فریقین میں مناظرے ہوا کرتے تھے اور یہ مناظرے بسا اوقات مجادلے اور مقاتلے بن جایا کرتے تھے، وہ بیان کرتے تھے کہ مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو انتقال کیے ہوئے تقریباً نصف زمانہ گذر چکا تھا، لیکن لوگوں کے دلوں میں بہادر شاہ کی یاد تازہ تھی، اس کی یہ غزل:
گئی یک بیک جو ہوا پلٹ نہیں دل کو میرے قرار ہے
بچے بچے کی زبان پر تھی۔ دہلی کا خونی دروازہ، جہاں شہزادوں کو سولی دی گئی تھی، زیارت گاہ عوام و خواص تھا، ارزانی کا یہ عالم تھا کہ مصر کی چھپی ہوء صحیح بخاری ڈھائی تین روپے میں مل جاتی تھی۔
اس اثنا میں ان کو مشن کالج پشاور میں عربی و فارسی کے لکچرار کی جگہ مل گئی اور وہ پشاور چلے آئے، اس زمانے میں انھوں نے لاہور کے مشہور ادبی رسالہ مخزن میں عر بی نصاب تعلیم کی اصلاح پر کئی مضامین لکھے، جن میں کافیہ اور شرح ملا جامی کے بجائے ابن ہشام کی کتابوں (شرح قطر الندیٰ اور شرح شذ ورالذہب) اور الفیہ کی شروح کو اختیار کرنے اور منطق و فلسفہ میں زیادہ انہماک کے بجائے علم حدیث کے اشتغال اور مزادلت پر زور دیا گیا تھا۔
اپریل ۱۹۲۱؁ء میں وہ مولوی محمد شفیع کی قدردانی سے اورینٹل کالج لاہور میں ایڈیشنل مولوی کی حیثیت سے تشریف لے آئے، یہ زمانہ اورینٹل کالج کے شباب کا تھا، شعبہ عربی میں مولوی محمد شفیع کے علاوہ مولوی نجم الدین اور مولانا سید محمد طلحہ (سید ابوالحسن علی ندوی کے پھوپھا) بھی تھے، جب کہ شعبہ فارسی میں ڈاکٹر محمد اقبال (ڈاکٹر داؤد رہبر کے والد) اور سید وجاہت حسین بلگرامی (رام پوری) تدریسی خدمات انجام دیتے تھے، ان اساتذہ کے علم و فضل اور تدریسی مہارت کی شہرت سن کر یو۔پی، بہار، ریاست ہائے راجپوتانہ بلکہ حیدرآباد (دکن) تک سے بھی طلبہ لاہور کھنچے چلے آتے تھے، مولانا میمن کالج میں تدریس کے علاوہ اورینٹل کالج کے ہوسٹل کے بھی نگراں تھے، اس دور کے شاگردوں میں مولوی امتیاز علی عرشی، ڈاکٹر شیخ عنایت اﷲ مرحوم اور ڈاکٹر سید عبداﷲ قابل ذکر ہیں، سید صاحب بیان کرتے ہیں کہ مولانا میمن سبعہ معلقہ اس مہارت اور عمدگی سے پڑھاتے تھے کہ تعریف نہیں ہوسکتی، لاہور کے زمانہ قیام میں انھوں نے مولوی محمد شفیع مرحوم کی ترغیب اور تشویق سے خزانتہ الادب (عبدالقادر بغدادی) کا انڈکس کلیدالخزانہ کے نام سے شائع کیا، مشہور عرب شاعر ابوالعلاء المعری کے حالات اور فلسفہ شاعری میں ابوالعلاء المعری وما الیہ کے نام سے ایک جامع کتاب لکھی جو دارالمصنفین کی طرف سے قاہرہ سے چھپ کر شائع ہوئی، اس کے علاوہ انھوں نے ابن رشیق کے اشعار کا مجموعہ مختلف ادبی کتابوں کو کھنگال کر شائع کرایا۔ اورینٹل کالج میگزین کا اجرا ہوا تو مولوی محمد شفیع صاحب نے میمن صاحب کو بھی اردو میں لکھنے کی ترغیب دی اور ان کی ہر طرح سے علمی رہنمائی کی، حیرت ہے کہ میمن صاحب نے شفیع صاحب کے احسانات کا کبھی بھی اعتراف نہیں کیا۔ اس زمانے میں وہ معارف میں بھی لکھتے رہے۔
۱۹۲۵؁ء میں مسلم یونیورسٹی میں عربی کے ریڈر کی اسامی خالی ہوئی تو وہ غالباً علامہ اقبال مرحوم و مغفور کی سعی و سفارش سے علی گڑھ چلے گئے میمن صاحب کے تقرر پر مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم نے معارف کے شذرات میں اظہار مسرت کیا تھا، میمن صاحب ۱۹۵۰؁ء میں صدر شعبہ عربی کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے، ان کی آمد سے قبل عربی شعبہ کا صدر جرمن یا برطانوی مستشرق ہوا کرتا تھا، جس کی وجہ سے یہ شعبہ خاطر خواہ ترقی نہیں کرسکا تھا۔
معیار تعلیم کی پستی کا یہ عالم تھا کہ ایم۔اے (عربی) کے کورس میں بائبل کا عربی ترجمہ شامل تھا، میمن صاحب نے نصاب تعلیم کی اصلاح کی، عربی ادب کی امہات کتب، مثلاً الکامل (المبرد) اور کتاب العمدہ (ابن شیق) نصاب میں داخل کیں، شعبہ عربی کا وقار ہندوستان اور بیرون ہندوستان میں قائم کیا اور طلبہ میں صحیح علمی ذوق اور ملکہ تحقیق پیدا کیا۔ ان کے درس و تدریس سے بہت سے مستعد طلبہ نے فائدہ اٹھایا۔
ان میں ڈاکٹر بنی بخش بلوچ (حیدرآباد سندھ اب اسلام آباد) ڈاکٹر محمد یوسف مرحوم (کراچی یونیورسٹی)، ڈاکٹر مختار الدین آرزو (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) اور ڈاکٹر خورشید احمد فارق (دہلی یونیورسٹی) قابل ذکر ہیں، افسوس ہے کہ ڈاکٹر محمد یوسف جن کو میمن صاحب بھی بہت مانتے تھے، ٹریفک کے حادثے میں گذشتہ ستمبر میں لندن میں انتقال کرگئے۔
علی گڑھ کے قیام کے دوران میں ان کا قابل ذکر کارنانہ امالی القالی کی شرح کی اشاعت ہے، اس کی شرح ایک اندلسی عالم ابوعبید البکری نے اللٓالی کے نام سے پانچویں صدی ہجری میں لکھی تھی جو نایاب تھی۔ میمن صاحب نے اس کے معتدد نسخے بہم پہنچائے، ان کے مقابلے اور تصحیح سے ایک صحیح نسخہ مرتب کیا، اس پر حواشی لکھے، شارح کی غلطیوں اور فروگذاشتوں کی نشاندہی کی اور ۱۹۳۵؁ء میں خود قاہرہ جا کر اس کو سمط اللٓالی کے نام سے شائع کرایا علمی حلقوں میں اس کتاب کی خوب پذیرائی ہوئی۔ جو آئندہ چل کر عالم عرب میں ان کی شہرت اور تعارف کا ذریعہ بنی۔ امام عبدالقاہر الجرجانی نے ابوتمام بحتری ورمتنبی کے دواوین کا انتخاب الطرائف الادبیہ کے نام سے کیا تھا۔ یہ بھی اسی زمانے میں میمن صاحب کے حواشی اور ضروری تشریحات کے ساتھ شائع ہوا۔ الفتح کے فاضل مدیر محب الدین الخطیب کی فرمائش پر خرانتہ الادب (عبدالقادر بغدادی) کی جدید اشاعت میں حصہ کیا۔ اس کی صرف چار جلدیں شائع ہوسکیں، یہ کتاب دیکھنے کو تو شیخ رضی کی شرح کافیہ کے شواہد کی شرح ہے، لیکن حقیقت میں عربی ادب کا خزانہ ہے، جس سے کوئی ادیب مستغنی نہیں ہوسکتا۔ اب اس کو مصر کے مشہور محقق عالم استاد عبدالسلام محمد ہارون جدید تحقیق، تصحیح اور تحشیہ کے جملہ لوازم کے ساتھ شائع کررہے ہیں، اور اس کی چھ سات جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔
میمن صاحب نے مصری حکومت کے اصرار پر لسان العرب کی بھی تصحیح کی، لیکن اس کی صرف دو جلدیں شائع ہوسکیں، افسوس ہے کہ خطیب صاحب کی بے وقت موت کی وجہ سے یہ عظیم الشان کارنامہ ادھورا رہ گیا، ۱۹۵۰؁ء میں وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے صدر بن کر پاکستان چلے آئے، اس دور کا علمی کارنامہ دیوان حمید بن ثورالہلالی اور الفاضل (المبرد) کی اشاعت ہے۔
دسمبر ۵۷؁ء میں راقم کو ان کی زیارت اور ملاقات کا پہلی دفعہ شرف حاصل ہوا، اسلامی کلوکیم (مذاکرہ) لاہور میں بہت سے مستشرقین اور عرب ممالک کے متعدد فضلا مدعو تھے، جن میں نمایاں شخصیت شام کے مشہور سلفی عالم شیخ محمد بہجت بیطار کی تھی، اس سے قبل میں ان کے علمی مقالات اور نئی کتابوں پر متوازن تبصرے مجمع العلمی العربی (دمشق) کے سہ ماہی مجلہ میں پڑھ چکا تھا اور ان سے غائبانہ عقیدت رکھتا تھا، چنانچہ میں استاد محترم شیخ محمد العربی المراکشی کی معیت میں فلٹی ہوٹل پہنچا، جہاں عرب مندوبین مقیم تھے۔ معلوم ہوا کہ شیخ محمد بہجت بیطار مولانا محمد ادریس کاندہلوی شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ کے ہاں چلے گئے ہیں۔ ان کی تلاش میں ایک اور صاحب بھی سرگرداں تھے، لمبا قد، چھریرا بدن، خشخشی داڑھی اور اچکن اور پاجامے میں ملبوس ، مراکشی صاحب نے بتلایا کہ یہی مولانا عبدالعزیز میمن ہیں۔ ہم سب مل کر مولانا محمد ادریس کاندہلوی کے فضیلت کدے پر پہنچے جہاں بیطار صاحب بلبل ہزار داستان بنے شیعوں کے متعلق لطائف و ظرائف بیان کررہے تھے، اور انھوں نے ساری محفل کو کشت زعفران بنارکھا تھا۔ ان کے ساتھ شام کے مشہور عالم استاد محمد المبارک بھی تھے، میمن صاحب کی آمد پر علمی مسائل چھڑ گئے جس میں میرے اندازے میں میمن صاحب کا پلہ بھاری رہا۔ وہاں سے یونیورسٹی آتے ہوئے راستے میں پنجاب یونیورسٹی کی چھوٹی سی مسجد پڑی، جس کی پیشانی پر یہ شعر کندہ تھا۔
چراغ و مسجد و محراب و منبر
ابوبکر و عمر عثمان و حیدرؓ
شیخ بہجت بیطار نے اس شعر کا مطلب دریافت کیا۔ راقم نے اس کا مطلب اردو میں جناب محمد العربی المراکشی سے بیان کیا اور انھوں نے اس کا مفہوم عربی میں شیخ صاحب کو سمجھایا بیس اکیس برس گذرنے کے باوجود اس محفل کی یاد شرکاء کے دلوں میں ابھی تک تازہ ہے، ۱۹۶۰؁ء سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ و ادارہ تحقیقات اسلامی قائم ہوئی تو میمن صاحب اس سے متعلق ہوگئے۔ اس وقت سب سے مشکل کام کتب خانہ کی فراہمی تھی۔ اس کے لیے انھوں نے عراق، شام، ترکی اور تونس وغیرہ کا سفر کیا اور ضروری کتابیں خرید لائے۔ اب ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آباد کا کتب خانہ مطبوعات کے لحاظ سے کسی بڑے سے بڑے کتب خانے سے کم نہیں۔ ۱۹۶۴؁ء میں وہ پروفیسر حمید احمد خاں مرحوم وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کی قدردانی اور معارف پروری کی بدولت عربی زبان کے صدر شعبہ بن کر اورینٹل کالج میں تشریف لے آئے اور لاہور میں دو سال مقیم رہے، افسوس ہے کہ اس دفعہ ان سے خاطر خواہ استعفادہ نہ ہوسکا۔ اب وہ پیرانہ سالی کی وجہ سے درس و تدریس کے بجائے علمی و تحقیقی کاموں میں رہنمائی کے لیے زیادہ سودمند ہوسکتے تھے۔
ان کا معمول تھا کہ وہ ہر اتوار کو مولانا عبید الحق خاں ندوی کے مکتبۃ العلمیہ میں آجاتے تھے، عربی زبان و ادب سے مشغف رکھنے والے اصحاب بھی ان سے ملنے وہیں چلے آتے تھے۔ راقم السطور بھی بالالتزام ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہتا تھا۔ یہ پرلطف نشست دو ڈھائی گھنٹے جاری رہتی تھی اور علمائے سلف، ان کی نادر تصانیف، نواب صدیق حسن خان کی علمی خدمات اور ہندوستانی محدثین کے کارناموں کے ذکر سے معمور رہتی تھی۔ ان کی گفتگو کا دل پسند موضوع نادر علمی کتابیں تھیں جن کی تلاش اور جستجو میں انھوں نے دمشق، قاہرہ، قسطنطنیہ اور رباط کے کتب خانے چھان مارے تھے قسطنطنیہ کے علمی خزائن، عجائب گھر اور سلاطین آل عثمان تک کے تاریخی آثار، وہ دلکش موضوع تھا جس پر وہ حاضرین مجلس کو گھنٹوں اپنی پرلطف گفتگو سے لطف اندوز کرتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ انھوں نے سلطان ٹیپو کی سفارت کا حال سنایا جو سلطان نے خلیفۃ المسلمین کی خدمت میں مدد و اعانت کے لیے قسطنطنیہ بھیجی تھی۔ اس سفارت کو زیادہ پذیرائی حاصل نہ ہوسکی اور اس کے ارکان قسطنطنیہ ہی میں مرکھپ گئے۔ میمن صاحب بتلاتے تھے کہ ان کا قبرستان آج بھی وہاں موجود ہے۔ اس مجلس میں وہ کبھی دل لگی اور تفنن و مزاح کی باتیں بھی کیا کرتے تھے۔ عالم عرب کے بیشتر فضلاء سے ان کے گہرے اور ذاتی تعلقات تھے اور وہ ان کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ عربوں میں وہ شامیوں کی مہمان نوازی، نرم خوئی اور خوش اخلاقی کے بڑے معترف تھے۔ اسی طرح وہ اہل تونس کی تہذیب و شائستگی کے بڑے مداح تھے اور بتلاتے تھے کہ بیشتر تونسی، ان مہاجروں کی اولاد ہیں جو اندلس کو خیر باد کہہ کر شمالی افریقہ میں پناہ گزیں ہوگئے تھے۔ وہ جامعہ زیتونہ کے شیخ الجامعہ طاہر بن عاشور کی بھی تعریف کیا کرتے تھے۔ جو بڑھاپے میں بھی نواب صدیق حسن کی طرح خوبصورت اور دیدہ زیب دکھائی دیتے تھے۔ شیخ طاہرین عاشور نے قرآن مجید کی تفسیر التحریر و التنویر فی التفسیر کے نام سے لکھی ہے اور اس میں اعجاز القرآن سے خاص طور پر اعتناء کیا ہے، وہ مصر جدید کی فرعون پرستی سے سخت متنفر تھے۔ عرب قوم پرستی جس کا مقصد عربوں کو غیر عرب مسلمانوں سے دور رکھنا ہے، خود عربوں کے حق میں مضر سمجھتے تھے۔ برخلاف اس کے وہ ترکوں کی علمی سرپرستی کے لیے بے حد مداح تھے جن کی علمی سرپرستی کی بدولت اسلاف کے علمی خزانے تباہ ہونے سے بچ گئے۔ اسلامی ممالک کی دینی اور اسلامی تحریکوں پر بھی ان کی نظر اچھی تھی۔
لاہور سے سبکدوش ہو کر وہ کراچی چلے گئے اور وہاں خاموش زندگی گذارنے لگے۔ اس کے بعد بھی وہ ایک دو بار لاہور تشریف لائے اور ان سے نیاز حاصل ہوتا رہا۔ اس زمانے میں انھوں نے ابوتمام کا دیوان الحماسۃ الصغری اور علی بن حمزہ بصری کی التنبیہات علی اغالیط الرواۃ شائع کیں۔ مجلہ مجمع اللغتہ العربی (سابق مجلہ مجمع العلمی العربی) دمشق میں انھوں نے معجم الادباء (یاقوت) پر نقد و تبصرہ لکھا جو کئی قسطوں میں شائع ہوتا رہا۔ وہ امام رضی الدین صاغانی کی العباب الراخر کی اشاعت کی بڑی آرزو رکھتے تھے، چنانچہ اسی رسالہ میں انھوں نے اس کا مقدمہ بھی شائع کیا تھا۔ کراچی میں جناب ممتاز حسن مرحوم (سابق معتمد مالیات حکومت پاکستان) اور پیر حسام الدین راشدی ان کے بڑے مداح اور عقیدت مند تھے۔ علمی حلقوں میں ان کی بذلہ سنجی، لطیفہ گوئی اور باہمی طنز و تضحیک مشہور تھی۔ ممتاز حسن مرحوم کی تحریک سے انھوں نے اردو بورڈ کے زیر اہتمام عربی لغت اور اس کی خصوصیات پر کئی خطبات دیے تھے جو اردو بورڈ کے سہ ماہی مجلے میں کئی قسطوں میں شائع ہوئے تھے۔ اب ضرورت ہے کہ پیر حسام الدین راشدی ان خطبوں کو کتابی شکل میں شائع کرنے کا اہتمام فرمائیں۔ میمن صاحب چند برس سے تنہائی اور کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے تھے، تین چار برس ہوئے کہ ان کی اہلیہ کا انتقال ہوچکا تھا، اور لڑکے ملازمت کے سلسلہ میں کہیں باہر مقیم تھے۔ صرف ایک پوتا ان کی خبر گیری کیا کرتا تھا۔ آخر عمر میں نہایت لاغر اور کمزور ہوگئے تھے۔
آخر تک حافظہ برابر اپنا کام کرتا رہا اور کتابیں ان کی مونس و ہمدم رہیں۔ انھوں نے نوے ۹۰ برس کی عمر میں، جو طویل تعلیمی اور علمی خدمات سے معمور تھی، ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۷۸؁ء کو انتقال کیا۔
علم و فضل:مولانا عبدالعزیز میمن یادداشت میں علمائے سلف کا نمونہ تھے۔سیکڑوں عربی قصائد اور ہزاروں اشعار نوک زبان تھے۔ کتب درسیہ میں دیوان المتنبی اور دیوان الحماسہ تقریباً مکمل حفظ تھے۔ مفضلیات، لکامل (المبرد) اور کتاب البیان والتبیین (جاحظ) کے بیشتر حصے ازبر تھے۔ وہ عرب ممالک میں ابوالعلاء المعری پر اتھارٹی (سند) سمجھے جاتے تھے۔ نادر علمی کتابوں کی اشاعت اور انتخاب میں ان سے مشورہ ناگزیر تھا۔ وہ مجمع اللغتہ دمشق اور قاہرہ کے بھی رکن تھے۔ میمن صاحب مسلکاً اہل حدیث تھے، لیکن ذہنی جمود نام کو بھی نہ تھا۔ سیرو سیاحت اور مختلف الخیال اصحاب فکر کی میل ملاقات نے ان کو وسیع النظر بنا دیا تھا۔ وہ امام شافعیؒ کے بے حد عقیدت مند اور مداح تھے اور اصول فقہ میں ان کے ’’الرسالہ‘‘ کی عربیت کی بڑی تعریف کیا کرتے تھے۔ فقہا میں ابن حزم اور ابن عبدالبر کی جامعیت اور بغدادی کی ادبیت کے بڑے قائل تھے، کہا کرتے تھے کہ جتنے علمی و ادبی مآخدو مصادر عبدالقادر بغدادی (مصنف خزانتہ الادب) کی دسترس میں تھے، وہ آج تک کسی عالم یا ادیب کو حاصل نہیں ہوسکے۔ مستشرقین میں وہ مسٹر سالم کرینکو (Krenkow) جو ان کے ساتھ علی گڑھ میں کام کرچکے تھے، تبحر علمی، وسعت معلومات اور ژرف نگاہی کے ثناخوان تھے۔
اصلاحی خیالات:مولانا میمن درس نظامی کے نصاب تعلیم میں اصلاح و ترمیم کی ضرورت شدت سے محسوس کرتے تھے، نحو میں کافیہ اور شرح ملا جامی جیسی کتابوں کے بجائے الفیہ کی بعض شروح اور ابن ہشام کی کتابیں پسند کرتے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے لیے امام نودی کی ریاض الصالحین کی سفارش کرتے تھے، جس میں نور نبوت کے علاوہ ادبی چاشنی بھی پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ سنن ابی داؤد کی کتاب الادعیہ اور ترمذی کی کتاب الزہد والرقاق کے مطالعہ کی بھی تاکید کیا کرتے تھے۔ تفسیر میں جلالین کے بجائے جامع البیان کی افادیت کے قائل تھے۔ ابن خلدون نے جن کتابوں کو اصولِ فن ادب قرار دیا ہے، ان کے متعلق انھوں نے الندوہ (دور جدید) میں میری محسن کتابوں کے عنوان کے تحت بڑا دلچسپ تبصرہ لکھا تھا۔ ان کی یہ رائے تھی کہ الکامل (المبرد) ایک مبتدی کے لیے زیادہ مفید ہے۔ ادب الکاتب کو اقتضاب کے ساتھ پڑھا جائے تو انسان کو ایک محقق لغوی بناسکتی ہے، کتاب البیان والتبیین (جاحظ)میں فصیح نظم و نثر کے نمونے ان چاروں سے زیادہ ہیں، اور نوادر لغت و شعر امالی القالی میں سب سے زیادہ ہیں۔ ان کے نزدیک حماسات میں ابو تمام کا دیوان الحماسہ سب سے عمدہ اور بہتر ہے اور نقد الشعر کے لیے ابن رشیق کی کتاب العمدہ بہترین کتاب ہے۔ کہا کرتے تھے کہ الغریب المضف (ابن سلام) اور اصلاح المنطق (ابن السکیت) وہ کتابیں ہیں، جن کا یاد ہونا ایک ادیب کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اول الذکر شاید ابھی تک شائع نہیں ہوسکی جب کہ موخرالذکر کتاب استاد عبدالسلام محمد ہارون کی علمی کاوش سے بڑی آب و تاب سے شائع ہوچکی ہے۔
اس علم و فضل کے باوجود تمکنت نام کو نہ تھی، طرزِ معاشرت سادہ اور درویشانہ تھی، وہ سودا سلف خود بازار سے خرید کر لاتے تھے۔ حقہ کے شوقین تھے۔ شاگرد تمباکو اور چلمیں دور دور سے لاکر دیتے تھے۔ طالب علموں کے استفسارات کا خندہ پیشانی سے جواب دیتے تھے، لیکن زیادہ سوالوں سے گھبراتے تھے۔ لاہور اور کراچی کے بعض احباب ان کی تنک مزاجی اور زبخل کے افسانے سناتے ہیں، لیکن ان کی حیثیت سنی سنائی باتوں سے زیادہ نہیں انھوں نے عربی خواں طلبہ کے وظائف کے لیے لاکھوں روپوں کے عطیات کراچی اور پنجاب کی یونیورسٹیوں کو دیئے۔ شاید دارلعلوم ندوۃالعلماء لکھنو بھی ان کی فیاضی سے محروم نہ رہا۔
انھوں نے اپنا قیمتی کتب خانہ حیدرآباد یونیورسٹی کو دے دیا۔ جب حدیث کی مشہور کتاب مصنف عبدالرزاق شائع ہوئی تو پچاس ۵۰ ہزار روپے خرچ کرکے اس کے بہت سے نسخے خریدے اور عربی مدارس اور یونیورسٹیوں میں مفت تقسیم کئے۔ راقم السطور پر ان کا بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ادب سے ہٹا کر علم حدیث کی طرف متوجہ کیا، اس کی اہمیت اور افادیت واضح کی اور ہندوسانی محدثین کی عظمت اور ان کے علمی کارناموں سے متعارف کرایا۔ لاہور سے روانہ ہوتے وقت انھوں نے مجھے عربی کا ایک شعر لکھ کر دیا تھا اور میں اسی شعر پر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔
مازال تکتب فی الحدیث مجہتدا
حتی وجدناک فی الحدیث مکتوبا
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے حبیب پاکﷺ کی زبان کی خدمت کے صدقے میں ان کے درجات بلند کرے اور ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین !!
(جنوری ۱۹۷۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...