Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر یوسف حسین خان

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر یوسف حسین خان
ARI Id

1676046599977_54338202

Access

Open/Free Access

Pages

392

ڈاکٹر یوسف حسین مرحوم
معارف کا زیادہ تر حصہ لکھا جاچکا تھا کہ ڈاکٹر یوسف حسین خاں کے انتقال پر ملال کی خبر ملی، وہ ہماری مجلسِ انتظامیہ کے بہت پرانے رکن تھے، ان کی وفات سے یہ ملک ایک شریف ترین انسان ، ایک خلیق بزرگ، ا یک اچھے دوست اور ایک بہت ہی نامورمصنف سے محروم ہوگیا، اﷲ تبارک و تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نعیم عطا کریں۔ (صباح الدین عبدالرحمن، مارچ ۱۹۷۹ء)

ڈاکٹر یوسف حسین مرحوم
گذشتہ ۲۱؍ فروری کی رات کو ریڈیو میں خبر سنی کہ ڈاکٹر یوسف حسین اﷲ کو پیارے ہوئے یہ خبر سن کر ایسا معلوم ہوا کہ کوئی شفیق بزرگ دائمی مفارقت دے گیا، رات بڑ ے کرب سے گذری۔
ان سے میرا پہلا تعارف ۱۹۳۴؁ء میں ہوا میں کچھ دنوں جامعہ ملیہ میں بھی رہا، قرول باغ کے جس مکان میں ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم جامعہ ملیہ کے شیخ الجامعہ کی حیثیت سے سکونت پذیر تھے، اسی کے پاس میں ایک مکان میں مقیم تھا، ان دنوں ڈاکٹر یوسف حسین جامعہ عثمانیہ میں تاریخ کے استاد تھے، عید منانے اپنے محبوب بھائی ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کے پاس آگئے تھے، ان کو پہلی دفعہ دیکھا تو سفید شیروانی میں ملبوس تھے، بہت ہی شکیل اور رعنا جو ان نظر آئے، اسی زمانہ میں ان کے بھتیجے امتیاز حسین مرحوم یعنی ان کے سب سے بڑے بھائی کے لڑکے جامعہ ملیہ سے بی۔اے کی تعلیم سے فارغ ہوئے تھے اور مزید تعلیم کے لیے یورپ جانے کی فکر میں تھے، وہ خالی اوقات میں میرے پاس آجاتے، ان سے معلوم ہوا کہ ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کے گھر کی عورتیں ڈاکٹر یوسف حسین صاحب کو خوش قسمت اور مالدار سمجھتی ہیں، کیونکہ ان کے یہاں اچھے سوفہ سٹ اور دوسرے فرنیچرس جو اس زمانہ میں ہیں ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کے یہاں نہ تھے۔
ڈاکٹر یوسف حسین کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے عید گاہ گیا اور ان کی وجاہت سے مرعوب ہوکر گھر واپس آیا ان ہی دنوں ڈاکٹر یوسف حسین نے گارسان دتاسی کے خطبات کے کچھ حصے کا اردو ترجمہ کیا تھا، جو رسالہ اردو حیدرآباد دکن میں شائع ہورہا تھا یہ ڈاکٹر عبدالحق کی ادارت میں نکل رہا تھا، اس میں کسی کی تحریر کا شائع ہونا اس کی علمی قابلیت کی بڑی سند تھی، ڈاکٹر صاحب جامعہ ملیہ سے بی۔اے کر کے فرانس گئے اور پیرس یونیورسٹی سے ڈی۔لٹ کی ڈگری حاصل کی وہاں کے قیام کے زمانہ میں انہوں نے فرانسیسی زبان بڑی محنت سے سیکھی اور اس میں مہارت حاصل کی ہندوستان آکر ڈاکٹر عبدالحق کی فرمائش پر انہوں نے خطبات گارسان دتاسی کا ترجمہ شروع کیا تو اس کے پندرہ خطبات کے ترجمے کیے جب یہ کتاب ۱۹۳۵؁ء میں انجمن ترقی اردو کی طرف سے شائع ہوئی تو ڈاکٹر عبدالحق ان کے بہت شکر گذار ہوئے اس وقت وہ عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے ریڈرہوچکے تھے، انہوں نے فرانسیسی ادب کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔
مجھ کو دارالمصنفین آئے ہوئے کچھ دن ہوئے تھے کہ ان کی انگریزی کتاب نظام الملک جاہ معارف میں ریویو کے لیے ۱۹۳۶؁ء میں آئی اس کو بہت شوق سے پڑھا اور انگریزی زبان میں ان کی تحریری قدرت کا قائل ہوا اس کتاب میں انہوں نے نظام الملک آصف جاہ کی سیرت نگاری جس طرح کی ہے وہ نظام حیدرآباد کے خاندان سے ان کی محبت کا ثبوت ہے حیدر آباد میں ان کی زندگی کے بہت اچھے دن گذرے اور اس کی یادوں کی قندیلیں برابر روشن کرتے رہے۔
’’نظام الملک دوسرے مذاہب کے لیے بڑے روادار تھے، لیکن اپنے اسلامی عقائد میں بھی پختہ تھے، ان کی یہ پختگی بچپن ہی سے تھی، دہ زحمت گوارا کر کے تمام مذہبی مراسم اور عقائد کو بڑے اہتمام سے بروئے کار لائے وہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں قرآن اور سنت کے احکام کی پابندی کرتے، لیکن وہ غالی قسم کے متعصب مسلمان نہ تھے، وہ دوسروں کے مذاہب کا احترام کرتے، غیر مسلموں کو اہم اور اعلیٰ عہدوں پر مامور کرتے، یہی روش ان کے جانشینوں نے اختیار کی، ان کے مزاج کی بے پناہ اچھائیوں اور انسانیت نوازی کی وہ تمام لوگ قدر کرتے جن کا واسطہ ان سے پڑتا، وہ ان کی مدح کرنے کے ساتھ ان سے محبت کرتے، اس زمانہ میں جب کہ ہندوستان کے اور دوسرے حکمرانوں اور قائدوں کی سیرت کی سطح بہت ہی نیچی ہوگئی تھی، تو اس برے زمانہ میں نظام الملک کا اچھا کردار نمایاں ہوکر ابھرا‘‘۔ (ص: ۲۰۴)
ان کی اہم تصنیف روح اقبال ۱۹۴۱؁ء میں شائع ہوئی تو اس سے ہندوپاک کے تمام ارباب ذوق ان کی ادبی بالغ نظری سے متاثر ہوئے، چٹان کے ایڈیٹر شورش کاشمیری مرحوم نے اس کی اشاعت پر لکھا کہ اس سے بہتر کتاب تو پاکستان میں بھی نہیں لکھی گئی ان کو اقبال سے عشق تھا، اسی لیے اس کے لکھنے میں ان کے ہر صفحہ پر سرشارانہ کیفیت دکھائی دیتی ہے، شروع میں جب یہ کتاب شائع ہوئی تو اس کو پڑھ کر اس کے ناظرین شاید یہ کہہ اٹھے ہوں گے کہ اس کی ہر سطر پر ایک کرشمہ حسن ہے جس کی طرف دامن دل کھنچ کر رہ جاتا ہے، انہوں نے اس کی ابتداہی ایسے انداز میں کی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ لکھتے وقت ان پر اقبال کی محبت اور عقیدت کا نشہ چھایا ہوا ہے۔
’’اقبال کی طبیعت ایسی ہمہ گیر اور ہمہ جو تھی اور اس کی شخصیت میں ایسے مختلف عناصر جمع ہوگئے تھے جو عام طور پر کسی ایک شخص کی زندگی میں شاذ و نادر ہی ملتے ہیں،اس کے ذہن اور اس کی زندگی میں بلا کی وسعت تھی، اس کے جمال پرست اور عشق پروروں نے اپنے تخیل کی گل کاریوں سے اپنی ایک الگ دنیا آباد کرلی تھی، اس دنیا کی خیالی تصویر میں اس نے اپنے جذبات کے موئے قلم سے ایسی رنگارنگی اور تنوع پیدا کیا کہ انسانی نظر جب اس تصویر پر پڑتی ہے تو پھر ہٹنے کا نام نہیں لیتی، اقبال کا آرٹ دلوں کو لبھانے کے طلسم میں پوشیدہ ہے، اقبال کے جسم خاکی میں ایک مصلح حیات کی عرفان جو صداقت پسند اور نظم آفرین ردح تھی، جو جذبہ دینی کے تحت انفرادی اور اجتماعی زندگی میں ضبط و نظم قائم کرنا چاہتی تھی، وہ شاعر بھی تھا، اور حکیم نکتہ داں بھی اس کے ہاں دردوسوز بھی ہے اور رندی ومستی بھی، نصیحتیں بھی ہیں، اور دین وتمدن کی تعلیم بھی، عقل و عشق کی ابدی کش مکش کا بیان بھی ہے اور حسن کی کرشمہ سازیوں کی نقاشی بھی‘‘۔
یہ اور نقادوں کی طرح محض عبارت آرائی نہیں، یہ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اقبال کے آرٹ، شاعرانہ مسلک، تخیلی پیکر، محساکات، خودی، مقاصد آفرینی، انسانی فضیلت، تاریخی استقراء، انسان کامل، حیات اجتماعی، فرد، جماعت، مملکت، تمدن، نظام معیشت، تقدیر، جبر و اختیار، عشق اور موت کے تخیلات کے گہرے مطالعہ کے بعد لکھا ہے، اور جس انداز میں انہوں نے اقبال کے ان تفکرات کو سمجھ کر سمجھایا وہ اقبال شناسی میں عرصہ دراز تک مدد دیتا رہے گا، اقبال پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، اور آیندہ اس سے بھی زیادہ لکھا جائے گا، لیکن ڈاکٹر یوسف حسین کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اقبال کو پہلی دفعہ جس طرح سمجھانے کی کوشش کی، اسی کی آواز بازگشت بعد میں سنائی دی غالب کو سمجھانے میں اولیت کا جو درجہ حالی کی یادگار غالب کو ہے وہی اقبال کو سمجھانے میں روح اقبال کا ہے۔
روح اقبال کے بعد ان کی مشہور کتاب اردو غزل منظرِ عام پر ۱۹۵۲؁ء میں آئی تو اس سے لوگ اردو شعر و شاعری میں ان کی گہری بصیرت سے متاثر ہوئے اور یہ پورے وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اردو ادب کے حلقہ میں اردو غزل کو سمجھنے میں اس کتاب سے بڑی مدد ملی انہوں نے اردو غزل کو چار سو صفحے سے زیادہ میں سمجھایا ہے اور جس دیدہ وری اور عرق ریزی سے اس کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے وہ ان نقادوں کے لیے ایک درس ہے جو چھوٹے چھوٹے مقالات لکھ کر اردو کے نقادوں کی صف اول میں جگہ پانے میں کوشاں رہتے ہیں، وہ غزل کے متعلق لکھتے ہیں:
’’شعر کو قدر کاخادم ہونا چاہیے نہ کہ اس کو مٹانے والاغزل گو شاعر جب زندگی کا ذکر کرے گا تو لازمی طور پر اس کے لامحدود امکانوں کی طرف اس کی نظر جائیگی، وہ کبھی اپنی خواہشوں کا رنگ ان پر چڑھائے گا ور کبھی ان کے اثر سے اپنی آرزوؤں کی صورت گری کرے گا وہ حسن آفرینی بھی کرے گا اور قدر آفرینی بھی، لیکن یہ کام وہ تجرید اور منطقی مقدمات سے نہیں انجام دے سکتا جن کا لازمی نتیجہ کلام میں بے لطف یکسانیت اور سپاٹ پن ہوگا شاعری کی فکر تخیلی اور وجدانی ہونی چاہیے جس میں اندرونی جذبے کا رس رچا ہوا ہو بغیر اس کے کلام میں تاثیر اور دل کشی نہیں پیدا ہوسکتی، شعر کی خوبی کا معیار نہ اسلوب میں پنہاں ہے اور نہ موضوع میں بلکہ شعریت میں جو دونوں سے بالاتر ہے ہم یہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ شعریت تخیلی فکر اور جذبے کی ہم آمیزی کے بغیرنہیں پیدا ہوسکتی اور یہی دونوں اجزاء غزل کی جان ہیں، انہیں سے حسن ادا کی جلوہ گری ہوتی ہے، جو ادب کی بنیادی قدر ہے‘‘۔ (اردو غزل، ص ۴۰۳۔۴۰۴)
ڈاکٹر صاحب غزل کو سمجھنے کے لیے گویا یہ پیام چھوڑ گئے ہیں اور جس صاف ستھری اور نکھری ہوئی اردو میں یہ تحریر قلمبند ہوئی ہے اسی کی شان پوری ’’اردو غزل‘‘ میں جلوہ گر ہے، جس کا انشا پردازانہ انداز ارباب ذوق کے ادبی کام و دہن کے لطف و لذت کا باعث بنا رہے گا۔
ڈاکٹر صاحب حسرت موہانی کی غزل گوئی سے اس قدر متاثر تھے کہ انہوں نے اپنی یہ کتاب ان ہی کے نام سے معنون کی، ان کی ایک مستقل کتاب ’’حسرت کی شاعری‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوئی، جس میں ڈاکٹر صاحب نے ان کو اپنا خراج عقیدت ناقدانہ انداز میں پیش کیا ہے، حسرت کی غزلوں کے استفہامی اشعار اور پھر جمع کے استعمال سے وہ اپنے کلام میں جو تاثیر اور حسن پیداکرتے ہیں وہ ڈاکٹر صاحب کو خاص طور پر پسند تھا۔
وہ اردو میں لکھنے کے ساتھ انگریزی میں بھی برابر کچھ لکھتے رہے، اسلامک کلچر حیدرآباد میں ان کے جو مضامین نکلے وہ ۱۹۵۷؁ء میں کتاب کی صورت میں Glimpses of medieval Indian culture کے نام سے شائع ہوئی جس کے اندر علیحدہ علیحدہ ابواب میں یہ عنوانات ہیں، اسلام اور بھکتی کا عقیدہ، ہندوستان میں تصوف، تعلیمی نظام، اردو زبان کا ارتقاء، معاشرتی اور اقتصادی حالات، ہندوستان کے عہد وسطی میں ان موضوعات سے جس کو بھی دلچسپی ہے وہ ان کو پڑھ کر ان سے استفادہ کرنے پر مجبور ہے۔
وہ جامعہ عثمانیہ سے پنشن پاکر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اس کے پرو وائس چانسلر سات سال تک رہے تو ان سے علی گڑھ میں برابر ملاقاتیں ہوتی رہیں، میری کچھ تصانیف بھی اس وقت تک شائع ہوچکی تھیں، میں ان سے ملنے جاتا تو میری تصانیف کو اپنی الماری میں دکھاتے اور اس وقت گھر میں جو میٹھی چیز ہوتی اس سے تواضع کرتے ان کو رساول بہت مرغوب تھی، گھر میں موجود ہوتی تو اصرار کرکے کھلاتے۔
وہ دارالمصنفین کی مجلس انتظامیہ کے رکن بھی نامزد ہوئے تو ان سے تعلقات اور بھی قریب تر ہوگئے، ۱۹۶۵؁ء میں دارالمصنفین کی طلائی جوبلی ہوئی تو ڈاکٹرذاکر حسین صاحب کے ساتھ وہ بھی دارالمصنفین تشریف لائے اسی کے بعد انہوں نے اپنی کتاب ’’یادوں کی دنیا‘‘ لکھی تھی جو مجھ کو اور جناب شاہ معین الدین کو اس قدر پسند آئی کہ دارالمصنفین کے سلسلہ کتب میں تو نہیں لیکن اس کی طباعت معارف میں کرائی ان کی یہ کتاب بھی بہت مقبول ہوئی، یہ گویا ان کی خودنوشتہ سوانح عمری کی شکل میں ان کے بیتے ہوئے زمانے کی یادیں ہیں ان کی قوت ارادی نے ان کے حافظہ کے دروازے کو کھٹکھٹایا تو یہ سب کے سب لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوئے جس میں جذبہ کی رنگ آمیزی اور خیالی پیکروں کی تحلیل کے ساتھ ان کے آباء و اجداد و خاندان، ڈاکٹر ذاکر حسین، جامعہ ملیہ دیارِ فرنگ، دیار تلنگ، علی گڑھ، اور بہت سی علمی ادبی اورسیاسی شخصیتوں کا بہت ہی دلچسپ مرقع ہے دو سات سال تک مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے پرو وائس چانسلر رہ چکے تھے، اس لیے یونیورسٹی کے لیے دل میں بڑا درد اور نرم گوشہ رکھتے تھے، اس کتاب میں مسلم یونیورسٹی کے اسلامی کردار کے رہنے اور نہ رہنے کے مسئلہ پر بڑی دلسوزی سے لکھتے ہیں:
’’جو لوگ اسلامی کردار کے مفہوم سے ناآشنا ہیں یاجن کی نگاہ میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے وہ اسے قومی وحدت کے تصور کے منافی سمجھتے ہیں، اسلامی کردار سے مراد یہ ہے کہ مسلمان طلبہ میں دینی احساس، اسلامی شعائر کا احترام، قومیت کے جذبہ کے ساتھ ساتھ بیدار ہو، یونیورسٹی کے تمام شعبوں میں خواہ تعلیمی ہوں یا انتظامی، مسلمانوں کی نمایاں اکثریت رہے، حکومت کے نامزدار کان کی تعداد کم سے کم رکھی جائے، غیر مسلم ارکان ایسے منتخب اور نامزد کیے جائیں جو مسلمانوں کی تہذیب اور روایات سے واقف ہوں اور یونیورسٹی کے سچے ہمدرد ہوں، یہ باتیں نہ رجعت پسندی ہیں اور نہ فرقہ واریت اور نہ قومی وحدت اور سیکولرزم کے خلاف بلکہ اقلیتوں کا تسلیم شدہ دستوری حق ہے، جس کو حکومت سلب نہیں کرسکتی، سوائے ایسی صورت کے کہ وہ انصافی پر اتر آئے‘‘۔ (ص: ۶۰،۴۵۹)
ڈاکٹر صاحب نے یہ لکھ کر ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات کی صحیح ترجمانی کی ہے، اور وہ مسلم یونیورسٹی کیا مسلمانوں کی دینی حمیت اور ملی غیرت کے ترجمان اپنی ادبی تحریروں میں بھی بنے رہے، میں پاکستان گیا ہوا تھا تو اس کتاب کا ذکر خیر وہاں کے علمی حلقہ میں برابر آیا اس کتاب کی اشاعت کے بعد اردو غزل کا حقِ طباعت دارالمصنفین کو دیا جو یہاں سے شائع ہوکر فروخت ہورہی ہے۔
ڈاکٹر یوسف صاحب کو اقبال کے ساتھ غالب سے بھی عشق تھا، انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ وہ یورپ تعلیم کے لیے گئے تو اپنے ساتھ صرف تین کتابیں لے گئے، کلام مجید، کلام اقبال کا مجموعہ اور دیوانِ غالب، اسی لیے انہوں نے ۱۹۶۸؁ء میں غالب اور آہنگ غالب لکھی، اردو غزل میں غالب پر جو باتیں اختصار سے لکھی تھیں، اسی کو پھیلا کر اس کتاب میں لکھیں جو ۳۰۴ صفحے پر مشتمل ہے، غالب پر انہوں نے جو کچھ لکھا ہے اس پر میں نے اپنی کتاب غالب مدح و قدح کی روشنی میں بڑالمبا تبصرہ کیا ہے اور خوش تھا کہ ڈاکٹر صاحب اس کو پڑھ کر ضرور محظوظ ہوں گے، مگر افسوس یہ کتاب اب شائع ہوئی جب ان کی رحلت ہوچکی ہے یہ حصہ ان کی نظر سے نہیں گذرا تو کتاب کی طباعت سے زیادہ خوشی نہیں ہوئی۔
غالب کی صد سالہ برسی منائی گئی تھی، اس موقع پر جتنے مقالات لکھے اور پڑھے گئے، وہ ان ہی کی نگرانی میں بین الاقوامی غالب سیمینار کے نام سے شائع ہوئے۔
اس اثنامیں جب دہلی جاتا تو ان کی خدمت میں ضرور حاضر ہوتا، اور وہ اپنے یہاں کھانا کھلائے بغیر رخصت نہ ہونے دیتے۔
۱۹۷۶؁ء میں امیر خسرو کا سات سو سالہ جشن حکومت ہند کی طرف سے منایا گیا تو اس میں مجھ کو بھی شرکت کی دعوت تھی، اس کے مختلف اجلاس میں ڈاکٹر صاحب خاص طور پر مجھ کو بلا کر اپنے پاس بٹھاتے، جناب علی یاور جنگ گورنر بمبئی کی نگرانی میں اس جشن کی ساری کارروائیاں انجام پارہی تھیں، اس موقع پر امیر خسرو سے متعلق بہت کچھ ناروا باتیں کہی جارہی تھیں، مجھ کو خسرو سے عشق ہے، ہر ناروا بات کا جواب دیتا رہا، اس سلسلہ میں ڈاکٹر صاحب مرحوم نے میری بڑی ہمت افزائی کی، جب امیر خسرو سے متعلق کوئی ناخوشگوار بات کہی جاتا تو وہ مجھ سے چپکے سے کہتے ’’اٹھو اور جواب دو‘‘ میرا جواب سن کر میری پیٹھ پر تھپکی دیتے۔
اسی موقع پر راشٹرپتی بھون میں حکومت ہند کی طرف سے ایٹ ہوم تھا ڈاکٹر صاحب اصرار کرکے مجھ کو اپنے ساتھ وہاں لے گئے ان دنوں دارالمصنفین کا کچھ مسئلہ ایسا تھا، جس کے متعلق ایک مسلمان وزیر حکومت ہند سے گفتگو کرنے والا تھا، مگر ڈاکٹر صاحب رکن مجلس انتظامیہ دارالمصنفین کی حیثیت سے پسند نہیں کرتے تھے، کہ ان سے گفتگو کی جائے، اتفاق سے وزیر صاحب بھی ایٹ ہوم میں تشریف لائے تو میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کیا حرج ہے، اگر ان سے اس مسئلہ پر رسمی گفتگو ہی کرلی جائے یہ سنا تو میرا ہاتھ پکڑ کر بولے نہ جاؤ ان سے فائدہ کے بجائے نقصان ہی پہنچ جائے گا پھر ان کے پاس جانے سے روک لیا۔
۱۹۷۶؁ء میں ڈاکٹر صاحب مرحوم کی کتاب ’’حافظ اور اقبال‘‘ شائع ہوئی جس کے نام ہی سے ارباب ذوق چونکے، کیونکہ ڈاکٹر صاحب کی اسرار خودی کا پہلا اڈیشن نکلا تو اس میں حافظ شیرازی کے متعلق لکھا تھا۔
ہوشیار از حافظ صہبا گسار

5جامش از زہر اجل سرمایہ دار
7گوسفند است و نوا آموخت است

7عشوہ و ناز و ادا آموخت است
;بگذر از جامش کہ درمینائے خویش

3چوں مریدانِ حسن دار وحشیش
3بے نیاز از محفل حافظؔ گذر

1الخدر از گو سفنداں الخدر
: اسرار خودی شائع ہوئی تو حافظ سے متعلق اشعار کی بڑی مخالفت ہوئی جس سے متاثر ہوکر ڈاکٹر صاحب نے اسرار خودی کے دوسرے اڈیشن میں ان اشعار کو نکال دیا عام طور سے یہی خیال ہے کہ اقبال حافظ کو پسند نہیں کرتے تھے، لیکن ڈاکٹر یوسف حسین نے اپنی یہ کتاب لکھ کر اس غلط فہمی کو دور کرنے کی کوشش کی ہے، وہ لکھتے ہیں کہ حافظ پر کڑی تنقید کرنے کے باوجود اقبال اس کے حسن ادا اور لطافت بیان کا قائل تھا اور شعوری طورپر کوشش کرتا تھا کہ اپنی فارسی غزلوں میں اس کا رنگ آہنگ پیدا کرے اور اس کے رموز و علائم کو برتے، اس نے حافظ کے استعاروں اور کنایوں کو اپنے فکر وفن میں رنگینی پیدا کرنے کے لیے سمونے کی پوری کوشش کی اور میرا خیال ہے کہ وہ بڑی حد تک اپنی اس کوشش میں کامیاب رہا۔ (ص: ۱۲، ۱۱)
دونوں کے کچھ اختلافات بھی دکھائے ہیں مثلاً حافظ انسان کو مجبور محض سمجھتے ہیں، اس کے برخلاف اقبال کی اجتماعی مقصدیت کا تقاضا ہے کہ وہ انسان کو مجبور نہ مانے، حافظ کے اشعار میں خودی کا مروجہ تصور کارفرماہے، اقبال اپنے تصور میں منفرد ہیں، اسی قسم کے اور اختلافات دکھا کر ڈاکٹرصاحب آخر میں لکھتے ہیں کہ میں پھر اپنے اس خیال کو دہراتا ہوں کہ فارسی زبان کا کوئی شاعر طرز و اسلوب اور پیرایہ بیان میں حافظ سے اتنا قریب نہیں جتنا کہ اقبال ہے، اس کے ماسوائے دوسرا کوئی شاعر حافظ کا تتبع نہ کرسکا، اقبال کو اس ضمن میں اولیت کا شرف حاصل ہے، میں اسے حافظ کے روحانی فیض اور خود اس کو اپنی ریاضت کا ثمرہ خیال کرتا ہوں۔ (ص: ۴۱۲)
یہ دعویٰ ایسا ہے جو متفق علیہ نہیں کہا جاسکتا، روح اقبال میں ڈاکٹر صاحب نے جو کچھ لکھا اس سے کسی کو اختلاف نہیں رہا، لیکن اس کتاب میں بہت سی مختلف فیہ باتیں آگئی ہیں، جن کی توضیح آئندہ ہی کی بحث وتمحیص سے ہوسکے گی، لیکن افسوس اس بحث میں ڈاکٹر صاحب کا کوئی حصہ نہ ہوگا، مگر وہ جو کچھ کہنا چاہتے تھے وہ کہہ گئے ہیں، ہمارے نقاد اور ادیب اس کو پڑھتے اور اپنی رائے کا اظہار کرتے رہیں گے۔
۱۹۷۷؁ء میں اقبال کا جشن منایا گیا تو دہلی کے بین الاقوامی سیمینار میں میری بھی شرکت ہوئی، ڈاکٹر صاحب کو اس جشن کا اصلی روح رواں ہونا چاہیے تھا، مگر وہ اس جشن کے منتظمین سے کچھ شاکی نظر آئے، اسی موقع پر غالب اکیڈمی میں ان کے دو لکچر ہوئے ایک کا عنوان تھا ’’غالب اور اقبال‘‘ اور دوسرے کا عنوان تھا، ’’حافظ اور اقبال‘‘ ایک کی صدارت جرمنی کی مشہور مستشرق خاتون اینی شمیل نے کی جب ڈاکٹر صاحب کا لکچر ختم ہوا، تو اینی شمیل نے بہت پرزور تقریر میں ان کے لکچر کی تعریف کی، اتفاق سے اس کے بعد وگیان بھون میں ایک ہی میز پر مجھ کو اینی شمیل کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا، گفتگو شروع ہوئی تو وہ بولیں کہ ڈاکٹر صاحب کچھ اس لب ولہجہ میں اپنا مقالہ پڑھ رہے تھے کہ وہ ایک لفظ بھی سمجھ نہ سکیں، ان کی یہ گفتگو سن کر مجھ کو ہنسی آگئی، ڈاکٹر صاحب سے یہ گفتگو دہرائی تو وہ بھی ہنس کر کہنے لگے کہ ان لوگوں میں ایسے ہی تصنع ہوا کرتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنا مقالہ ’’حافظ اور اقبال‘‘ جناب آنند نرائن ملا کی صدارت میں پڑھا تھا، جب ان کا مقالہ ختم ہوا تو آنند نرائن صاحب نے اپنے مختصر تبصرہ میں کہا کہ ’’حافظ اور اقبال‘‘ میں کوئی مماثلث نہیں اس مختصر رائے سے حاضرین پر سناٹا چھا گیا، ڈاکٹر صاحب بھی سن کر خاموش رہے یہ موضوع کچھ ایسا ہی متنازعہ فیہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی کتابیں پاکستان کے ناشر چھاپ کر فائدے اٹھارہے تھے، ان کی خواہش تھی کہ اقبال اکیڈمی لاہور اس کا حق طباعت ان سے خرید لے، ڈاکٹر معزالدین ڈائرکٹر اقبال اکیڈمی اقبال کے جشن میں دہلی آئے ہوئے تھے ، میں نے ان سے گفتگو کی انہوں نے وعدہ کیا کہ ’’روح اقبال‘‘ اور ’’حافظ اور اقبال‘‘ کو اپنی کمیٹی کے سامنے پیش کرکے ان کے حق طباعت کا معاوضہ ڈاکٹر صاحب کو دلائیں گے، مگر یہ اب تک انجام نہیں پاسکا ہے۔
اپریل ۱۹۷۸؁ء میں انجمن ترقی اردو کی مجلس انتظامیہ میں میری دوبارہ رکنیت کا انتخاب تھا، تو ڈاکٹر صاحب نے محض اپنی محبت میں مجھ کو زیادہ سے زیادہ ووٹ دلائے، ان کی اس محبت کی قدر میرے دل میں برابر باقی رہے گی، مئی ۱۹۷۸؁ء میں اس کی مجلس انتظامیہ کا جلسہ دہلی میں تھا، وہاں پہنچا تو وہ اپنی وضع داری میں اپنے گھر لے گئے، کھانا کھلایا، دیر تک باتیں ہوتی رہیں، انہوں نے اپنے گھر کے ایک وسیع کمرہ میں اپنے ذوق کی بہت سی کتابیں کئی الماریوں میں جمع کررکھی تھیں، میں نے ان کا جائزہ لینا شروع کیا تو مجھ کو ان میں سے کئی کتابیں پسند آئی جن میں مصر کا ایک بہت ہی خوش خط مطبوعہ کلام پاک تھا، ایک لمبی تقطیع کا بھی کلام پاک تھا، جو ایران میں بہت ہی عمدہ کتابت کے ساتھ طبع ہوا اس کو میں دیکھ رہا تھا تو ڈاکٹر صاحب مرحوم بولے کے شہنشاہ ایران نے اس کے کچھ نسخے ہندوستان بھیجے تھے ان میں سے ایک ان کو بھی نذر کیا گیا تھا، تاریخ و ادب کی کچھ اور کتابیں تھیں جو مجھ کو پسند آئیں میں نے ان سے عرض کیا کہ ان میں سے آپ کچھ دارالمصنفین کو فروخت کر دیں، فوراً بولے جو کتابیں پسند آئیں لے جاؤ میری طرف سے دارالمصنفین کو نذر ہیں، میں نے عرض کیا کہ آپ قیمت نہ لیں گے تو میں ان کو دارالمصنفین کے لیے لے جانا پسند نہ کرو نگا، پھر اصرار سے کلام پاک کے یہ دونوں نسخے اور کچھ کتابیں میرے ساتھ کردیں، کلام پاک کے یہ دونوں نسخے یہاں کے کتب خانے کی زینت میں اضافہ کررہے ہیں، میں نے یہاں سے بھی خط لکھ کر ان کی قیمت قبول کرنے کے لیے عرض کیا مگر انہوں نے لکھا کہ اس اصرار سے ان کو تکلیف ہورہی ہے یہ بھی مجھ کو معلوم ہوا کہ بہت سے کتابیں انہوں نے جامعہ ملیہ کے کتب خانہ کو دیدی تھیں، انہوں نے ان کتابوں کے ساتھ اپنی دو انگریزی تصانیف Selected Documents- From The Aligarh Archives اور Two studies in early Mughal history) بھی دیں اول الذکر کتاب میں زیادہ تر سرسید احمد کے انگریزی اور اردومیں خطوط ہیں، ان ہی کے ساتھ وہ خطوط بھی ہیں جو انگریزوں یا اور دوسرے معاصروں نے ان کو لکھے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ لکھنے میں اس کتاب سے استفادہ کرنا ناگزیر ہے، یہ ۱۹۶۷؁ء میں ایشیا پبلشنگ ہاؤس سے شائع ہوئی، دوسری کتاب ظہیرالدین محمد بابر پر دو لکچر ہیں، بابر ہندوستان کے عہد وسطی کا بہت ہی دل آویز اور رعنا حکمراں گذرا ہے، ڈاکٹر صاحب مرحوم کے قلم سے اس کی شخصیت اور بھی زیادہ نکھر گئی ہے۔
اسی ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے غالب کی منتخب غزلوں کا ترجمہ انگریزی میں کیا ہے، جو چھپ رہا ہے، اس کے کچھ پروف بھی دکھائے اور کہا کہ بعض انگریزوں نے اس ترجمہ کو بہت پسند کیا ہے، خدا کرے ان کا یہ ترجمہ مقبول ہو، ان کی ایک کتاب ’’کاروان فکر‘‘ کے نام سے بھی شائع ہوئی جس میں اخلاقی قدریں، علم اور زندگی ، تاریخ میں جبرد اختیار کی چھاؤں، اور ادبی قدریں کے عنوانات ہیں، میرا خیال ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اور اس حصہ کے شب و روز کے زیادہ تر لمحات صرف لکھنے پڑھنے میں گذارے، نظام الدین ویسٹ کے مکان میں ایک چھوٹا سے کمرہ اپنے رہنے کے لیے انتخاب کر رکھا تھا، اسی میں علم و ادب کے سارے جلوے ان کی نظروں کے سامنے سمٹ کر آتے رہے، جن کو وہ اپنے قلم کی رعنائی سے کاغذ کے صفحات پر منتقل کرتے رہے، وہ کچھ دنوں شملہ میں انڈین انسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈی میں رہے، پھر دہلی چلے آئے یہیں آخر وقت تک رہے یہاں رہ کر علم و ادب کا میناء کار جام پی کر سر شار اور مخمور رہے۔
ان کی اردو غزل اور یادوں کی دنیا دارالمصنفین کے دارالاشاعت کی ایجنسی میں ہیں گذشتہ جنوری میں ان کی رائلٹی کی رقم بھیجی جس کے شکریہ کا خط آیا۔ یہی ان کا آخری خط میرے نام تھا، یہاں سے ان کی کتابوں کی رائلٹی بھیجی جاتی تو اس کو وصول کرتے وقت ایسا محسوس کراتے کہ گویا دارالمصنفین کی طرف سے ان کو رقم مل رہی ہے، اس کو وہ اپنا حق نہیں سمجھتے۔ یہ ان کی شرافت اخلاقی تھی، ان کی وضع داری، ان کے رکھ رکھاؤ کا طریقہ، ان کا استغناء اور شہرت سے بے نیازی کچھ ایسی تھی کہ اس کی مثالیں بہت کم لوگوں میں ملیں گی، دہلی میں رہتے تھے، ہر قسم کے خاندانی ذرائع تھے، چاہتے تو اپنے لیے حکومت ہی سے بہت کچھ حاصل کرلیتے خصوصاً جب وہاں اس کی دوڑ لگی ہوئی ہے کچھ ایسے مصنف بھی ہیں، جو ایک کتاب لکھتے ہیں، اس کی رسم اجرایا رونمائی کراتے ہیں، اور ہر قسم کے فوائد اٹھانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں، مگر ڈاکٹر صاحب نے اپنے علم کے وقار کو کسی موقع پر جھکنے نہیں دیا، وقار خود ان کے سامنے آکر جھکا، ان کو پانچ ہزار کا ایوارڈ بھی ملا، مگر ان کے بیش بہا علم کی قیمت لگائی نہیں جاسکتی، ان کو پدم دی بھوشن کا اعزاز بھی ملا، مگر خود اس اعزاز کو ان سے عزت حاصل ہوئی۔
ان کی وفات پر خیال تھا کہ علمی حلقہ میں بڑا ماتم ہوگا آج کل خاص خاص حلقے ایسے بنے ہوئے ہیں جہاں کی نرگس ہزاروں سال رونے کے بجائے صرف ایک دو سال روکر اپنے چمن کے دیدہ ور کو دیکھ لیتی ہے، ایسے حلقہ کی نرگس اپنی بے نوری کی وجہ سے ڈاکٹر یوسف حسین کی دیدہ وری کو صحیح طور پر دیکھ نہیں سکی، اس لیے ان کا یہاں ماتم نہ ہوا تو تعجب کرنے کی بات نہیں، مگر جو اپنی نظروں میں نور رکھتے ہیں، وہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کے علم کی بصارت، بصیرت، ان کی رائے کی اصابت، پھر ان کی ادبی ذوق کی پاکیزگی، قلم کی رعنائی، تنقید نگاری کی دل آویزی اور گہرائی کو یاد کریں گے، اور اکثر یاد کرکے اپنے ذوق ادب اور علم و تحقیق میں نفاست، نظافت اور لطافت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔
ڈاکٹر صاحب اب آپ وہاں ہیں جہاں اسلامی درد، مذہبی اضطراب، اور ملی غیرت و حمیت کی بڑی قدر ہوتی ہے، آپ کواﷲ تعالیٰ نے ان محاسن کا بہت بڑا حصہ عطا کیا تھا، اس لیے شفیع المذنبینﷺ کے صدقے میں آپ رب العالمین کی رحمتوں اور برکتوں سے ضرور سرفراز کئے جائیں گے، آمین ثم آمین۔ (صباح الدین عبدالرحمن، اپریل ۱۹۷۹ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...