Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > بشیر احمد ڈار

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

بشیر احمد ڈار
ARI Id

1676046599977_54338203

Access

Open/Free Access

Pages

397

بشیر احمد ڈار
پاکستان کے مشہور اہل علم اور صاحب قلم جناب بشیر احمد ڈار کی وفات کی خبر دیر میں ملی اﷲ تبارک و تعالیٰ ان کو غریق رحمت فرمائیں، وہ اقبالیات کے بڑے اداشناس اور ماہر تھے، اپنے علمی کمالات کے ساتھ اپنی شرافتِ اخلاق، انکسار اور وضعداری کی وجہ سے اپنے دوستوں اور ملنے والوں میں بہت مقبول تھے۔ (صباح الدین عبدالرحمن، جون ۱۹۷۹ء)

بشیر احمد ڈار
۲۹؍ مارچ ۱۹۷۹؁ء کو پاکستان کے ممتاز، لایق اور مشہور اہل قلم جناب بشیر احمد ڈار اﷲ کو پیارے ہوئے، ان کی وفات کی خبر دیر سے ملی، دکھ ہوا، کہ پاکستان ایک بہت اچھے مصنف، بہت اچھے فلسفی اور بہت اچھے انسان سے محروم ہوگیا۔
۱۹۷۵؁ء سے ۱۹۷۸؁ء تک پاکستان بار بار جانے کا اتفاق ہوا تو جناب بشیر احمد ڈار سے کر اچی، اسلام آباد اور لاہور میں برابر ملاقاتیں ہوتی رہیں، پہلی بار جناب سید حسام الدین راشدی کے دولت کدہ پر ملا، جو کراچی کے ارباب علم و دانش کا صنم خانہ بنا ہوا ہے، معارف کے صفحات پر جناب سید حسام الدین راشدی کا ذکر خیر اکثر آیا ہے، میری نظر میں وہ پاکستان کے پرنس اسکالر ہیں، ان گنت کتابوں کے مایہ ناز مصنف ہیں، اﷲ تعالیٰ نے دولت بھی دی ہے، اس لیے علم دوست اور علم نواز بن کر اپنی مرصع کوٹھی پر علمی محفلیں بھی سجاتے رہتے ہیں، جن میں شریک ہوکر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جہانگیر کے دور میں سندھ میں غازی خاں ترخان کے یہاں بھی ایسی ہی پرکیف مجلسیں ہوا کرتی ہوں گی، ان محفلوں میں جناب بشیر احمد ڈار کا ہونا لازمی تھا۔ جو کراچی میں راشدی صاحب کی زندگی کے جزو لاینفک بنے رہے، شاید ہی کوئی دن ایسا ہوتا جب دونوں کی ملاقاتیں نہ ہوتیں، دونوں کی ملاقاتوں میں پروفیسر شیخ عبدالرشید بھی (سابق استاد تاریخ، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) ضرور شریک ہوتے، پھر یہ تینوں حضرات علم دفن کے تھری مسکیٹیرز بن جاتے، کئی بار مجھ کو بھی ان کی دلچسپ صحبت سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا، راشدی صاحب کی ہر بات کا برجستہ جواب دینے کے لیے پروفیسر شیخ عبدالرشید تیار رہتے، دونوں کی علمی پھلجڑیوں اور پٹاخوں سے جناب بشیر احمد ڈار محظوظ تو ہوتے، مگر زیادہ تر خاموش ہی رہتے، ان دونوں کی باتوں کی داد صرف اپنی خوشگوار ہنسی کی پریم بتیسی کھول کر دیتے، اور جب بولتے تو سونا پگھلاتے ہی نظر آتے، اہل علم کی کچھ قسمیں ایسی ہیں جن کے اندر علم و فن کا خزانہ بھرا رہتا ہے، مگر ان کو دبا کر رکھنے ہی میں اپنی بلندی تصور کرتے ہیں، بشیر احمد ڈار صاحب کے ساغر میں علم و فن کی مے بھری رہتی، مگر اس کو ہر جگہ چھلکتے ہوئے دیکھنا پسند نہ کرتے، وہ دوسروں کی گفتگو دن سے لطف لیتے، مگر خود شناسی سے بے نیاز ہوکر اپنی علمی خودی کی بے خودی سے دب کر خاموش بیٹھے ہی رہنا پسند کرتے۔
وہ نسلاً کشمیری تھے، مگر ان کا خاندان لاہور میں آباد ہوگیا تھا، یہیں وہ ۱۹۰۸؁ء میں پیدا ہوئے، پہلی دفعہ ان سے ملاقات ہوئی تو چھڑی ٹیک کر کچھ لنگ کھاتے ہوئے چلتے دیکھا، معلوم ہوا کہ بچپن میں اپنے مکان کی چھت پر پتنگ اڑا رہے تھے، اس پر سے گرے تو ایک ٹانگ اس طرح مجروح ہوئی کہ اس کو قطع ہی کردینا پڑا۔ گھر کے لوگ ان کی زندگی کے اچھے مستقبل سے زیادہ پرامید نہیں تھے، مگر انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے فلسفہ میں ایم۔اے کیا، پھر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں آکر بی۔ٹی۔ کی ڈگری حاصل کی، لاہور کی انجمن حمایت اسلام کے اسکولوں میں ملازمت کرکے ایک شفیق اور لایق استاد کی حیثیت سے مشہور ہوئے، یہاں کے قیام میں ان کو اقبالیات سے بڑی دلچسپی ہوئی، ۱۹۴۴؁ء میں ان کی کتاب انگریزی میں ’’اے اسٹڈی ان اقبالس فلوسفی‘‘ کے نام سے شایع ہوئی، اس میں ان کا یہ مطمح نظر تھا کہ اسلام ہندوستان میں آیا تو یہاں اس کی اخلاقی اور معاشرتی تعلیمات اصلی طور پر عمل میں نہیں آئیں، کچھ مصلحوں اور صوفیوں نے وحدت الوجود کے ذریعہ سے ہندو مذہب اور اسلام کو ایک دوسرے سے قریب تر کرنے کی کوشش کی، اکبر نے دین الٰہی قائم کرکے مذہب کو حکومت کی سرپرستی میں لیا، تو یہ پہلی اور آخری سعی ہوکر رہ گئی، داراشکوہ کی وجہ سے اس ملک کی ایک بڑی آبادی اخلاقی اور ذہنی فالج میں خطرناک حد تک مبتلا ہونے والی تھی، مگر اس کے خاتمہ سے اس قسم کی تحریک ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی، ایسی تحریکوں کے خلاف حضرت مجدد الف ثانیؒ اور شاہ ولی اﷲؒ دہلوی نے اپنی تحریکیں چلائیں ۱۸۵۷؁ء کے بعد مسلمانوں کی گرتی ہوئی حالت کو دور کرنے کی کوشش برابر جاری رہی، اس بار کو اقبال نے بھی اپنے کاندھوں پر اٹھایا جو موجودہ دور کی مادی ترقی سے بددل تھے، ان کو خیال ہوا کہ اگر قرآن مجید کی تعلیمات پر صحیح طور سے عمل کیا جائے، تو نہ صرف اسلام بلکہ دنیا کو حیات نو مل جائے گی، اور جب یہی بات ان کی جادو بھری شاعری کے ذریعہ سے مسلمانوں کے کانوں تک پہنچی تو ان کو احساس ہواکہ زندگی کے تخیلات کو اسلامی اصولوں کی روشنی میں از سر نو ترتیب دیا جاسکتا ہے، ۱۹۴۴؁ء سے پہلے بھی یہ باتیں کہی گئی تھیں، مگر بشیر احمد ڈار صاحب نے ان کو کچھ ایسے طاقتور اور موثر انداز میں اپنی اس کتاب میں پیش کیا کہ وہ ممتاز ارباب علم کی نظر ان کی طرف اٹھی، انھوں نے اس کو مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے نام سے معنون کیا جس سے ظاہر ہے کہ وہ ان سے بھی متاثر تھے۔
اس کتاب کی اشاعت کے بعد وہ مجلہ اقبال کے نائب مدیر بنالئے گئے، جس کے مدیر اس وقت اس برصغیر کے مشہور فلسفی ایم۔ایم۔ شریف صاحب تھے، پھر وہ اقبال اکیڈمی کے ڈائرکٹر کے عہدہ پر مامور ہوئے، جو ان کی علمی قابلیت کا بہت بڑا اعتراف تھا، وہ اس عہدہ پر غالباً ۱۹۷۱؁ء تک رہے، وہ پاکستان کے فلاسفیکل جرنل کے مینیجنگ اڈیٹر بھی آخر وقت تک تھے، ادارۂ ثقافت اسلامیہ لاہور کے ترجمان ثقافت کے ادارۂ تحریر کے بھی رکن رہے۔
۱۹۷۵؁ء میں کراچی میں ان سے ملنے ان کے گھر گیا تو انھوں نے اپنی دو کتابیں ’’اقبال اینڈ پوسٹ کانٹین دولنٹرزم‘‘ اور ’’ریلیجیس تھاٹ آف سید احمد خاں‘‘ نذر کیں، جن کو بار بار پڑھنے کا اتفاق ہوا، اول الذکر کتاب بزم اقبال کی طرف سے ۱۹۶۵؁ء میں شائع ہوئی، پانچ سوچھیالیس صفحے پر مشتمل ہے، اس کی انگریزی تحریر میں جو روانی سنجیدگی اور وقار ہے، اس کو پڑھ کر یہ اثر ہوتا ہے، یہ لاہور کے کسی کالج کے فارغ التحصیل کے بجائے انگلستان کی کسی بلند پایہ یونیورسٹی کی اعلیٰ ڈگریوں کے پانے والے نے لکھی ہے، اس کے لائق مصنف نے کانٹ کے فلسفہ استدلال اور قوت ارادی، نٹشے کی فکر خود آگاہی شوپنہار کے تخیل فکر، اور قلبی معلومات، ملٹن کے نظریہ شیطنت، برگسان کے تخیل عشق، گیٹے کی روشن خیالی، جیمس وارڈ کے فلسفہ پر ساینٹفک اثرات، عقلیت اور میکانزم کے خلاف میک ڈوگل کے خیالات، ولیم جیمس کے نظریہ عملیت اور اس کے چارٹزم، بروننگ کی نیچر نوازی اور برنارڈشا کی قوت ارادی پر جس طرح بحث کی ہے، اس پر ایک انگریز فلسفی کو بھی رشک آسکتا ہے، یورپ کے ان فلسفیوں کا گہرا مطالعہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اقبال کے سامنے ان مغربی مفکروں کے خیالات ضرور رہے، مگر ان کے ان ہی افکار کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوئے جو قرآن مجید اور گذشتہ اسلامی مفکرین کی تعلیمات کے مطابق تھے۔
جناب بشیر احمد ڈار اس کو تسلیم نہیں کرتے کہ اقبال کی فکری اور نظری تنظیم ملے جلے اجزا سے بنی جن کے کچھ حصے کبھی ایک اور کبھی دوسرے مغربی مفکرین سے مستعار لے گئے، ان کی فلسفیانہ موشگافیاں بظاہر مغربی مفکرین کی معلوم ہوتی ہیں، لیکن یہ دراصل وہی ہیں جو اسلام کے بنیادی عقاید پر مبنی مسلمان مفکروں کے یہاں بھی گذشتہ دور میں پائی گئی ہیں، اقبال کا یہ کارنامہ ہے کہ انھوں نے موجودہ دور کے علم و فضل کی ترقی سے فائدہ اٹھا کر ان کو جدید منطقیانہ رنگ اور سریع الفہم انداز میں ترتیب دیدیا ہے، بشیر احمد ڈار صاحب نے اپنی اس کتاب میں یہ بھی ثابت کیا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کا ذہن جب قدامت پسندی اور ترقی پسندی کے جھولے میں جھول رہا تھا، تو اقبال نے ان دونوں کے اچھے پہلوؤں کو ملا کر اپنے افکار کے عناصر مرتب کئے، جن کا سرچشمہ سراسر قرآن مجید ہی رہا، جس طرح ابن تیمیہ نے قرآن پاک کی تعلیمات سے اسلام کو ایک نئی زندگی عطا کی، اس طرح اقبال کا یہ پیام ہے،
چون کہن گردو جہانے دربوش
ملی دہد قراتے جہانے دیگرش
بشیر احمد ڈار صاحب نے اس سلسلہ میں جو کچھ لکھا ہے اس کی تائید ان لوگوں سے بھی ہوگی، جو اقبال کا گہرا مطالعہ کریں گے، ڈار صاحب نے جس فلسفیانہ اور فاضلانہ انداز میں اس کی وضاحت کی ہے، اس سے لوگ آئندہ بھی برابر مستفید ہوتے رہیں گے، خود انھوں نے قرآن مجید کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے انگریزی میں قرآنی اخلاقیات کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی، وہ اس کے بھی قائل تھے، کہ اقبال کا نظریۂ ارتقاء قرآن مجید کی تعلیمات ہی پر مبنی ہے، گو انھوں نے ابن مسکویہ، مولانا رومی اور شاہ ولی اﷲ کے افکار سے بھی مدد لی ہے، ان کا یہ تصور ڈارون اور برگسان کے نظریے سے بالکل مختلف ہے، انھوں نے اس خیال پر پورا زور اپنے خطبہ صدارت میں دیا، جو انھوں نے اپریل ۱۹۷۸؁ء میں پاکستان فلاسفیکل کانگریس کے اجلاس میں پڑھا۔
ان کو اقبالیات سے کچھ ایسا لگاؤ تھا کہ انھوں نے اقبال کی مثنوی گلشن راز جدید بندگی نامہ، پس چہ باید کرداے اقوام شرق اور قوم کے نوجوانوں کو پیغام کے انگریزی ترجمے بھی کئے، اور ان میں سے بعض پر حواشی بھی لکھے، اقبال کے انگریزی اور اردو خطوط کے مجموعے بھی مرتب کئے۔
اقبالیات کے چمن میں نرگس اپنی بے نوری پر نہیں روئے گی، جہاں اس میں اور دیدہ ور پیدا ہوئے، وہاں بشیر احمد ڈار صاحب نے اپنی دیدہ وری سے اقبال کا جو اصلی اور حقیقی مقام متعین کیا ہے، وہ اقبالیات کی تاریخ میں برابر یاد کیا جائے گا۔
ان کی تصنیف ’’ریلیجیس تھاٹ آف سید احمد خان‘‘ پر یہ راقم جنوری ۱۹۷۶؁ء کے معارف میں اپنے خیالات کا اظہار کرچکا ہے یہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس کے ذریعہ سے انیسویں صدی کے آخر میں ہندوستانی مسلمان اپنے حکمران انگریزوں اور اپنے ہم وطن ہندوؤں کے ساتھ رہ کر جس ذہنی، تمدنی اور مذہبی آزمائش میں مبتلا ہوئے، اس کا اس میں اچھا تجزیہ ہے، عیسائی مبلغین اسلام پر طرح طرح سے حملے کررہے تھے، جن سے مسلمانوں میں احساس کمتری پیدا ہورہا تھا، پھر ہندوؤں نے انگریزی تعلیم پاکر بدلے ہوئے حالات میں ہر قسم کے اقتصادی فوائد حاصل کرکے اپنے مذہب میں بھی اصلاحات شروع کردی تھیں، مسلمانوں کو دونوں سے مقابلہ کرنا تھا، اسی کے ساتھ وہ ذہنی طور پر اپنے سے بھی برسر پیکار تھے، وہ ماڈرنزم سے بھی متاثر ہورہے تھے، مگر اپنی مذہبی روایات سے کنارہ کش بھی ہونا نہیں چاہتے تھے، وہ اپنے مذہب کی فرمانروائی کے خواہاں بھی تھے، اسی کے ساتھ ان کو سائنس، فلسفہ اور عقلیاتی علوم سے اپنے مذہبی عقائد کی تطبیق کی جستجو بھی تھی، وہ اپنے قدیم خیالات کے علماء کو نظر انداز کرنا بھی پسند نہیں کرتے تھے، لیکن ان کی ہر بات کو تسلیم کر کے اپنے تمام مسائل کا حل بھی نہیں پاتے تھے، وہ تجدد پسند مصلحین کے مغربی افکار کی باتوں کو بھی شوق سے سنتے، مگر غیر شعوری طور پر ڈرتے بھی رہتے کہ کہیں ان کی باتوں کو قبول کرکے اپنی مذہبی روایات سے دور نہ ہوجائیں، اس ذہنی آویزش کی فضا میں سید احمد خاں کی تحریک چلی تو ایک بڑا طبقہ ان کی طرف جھک گیا، جن کے خیالات میں اس کو بہت کچھ ذہنی سکون ملا، سید احمد خان نے اسلامی تعلیمات کی جو جرات مندانہ تعبیرات کیں، ان کا جائزہ بشیر احمد ڈار صاحب نے اپنی اس کتاب میں لیا ہے، وہ ان سے متاثر ہوکر لکھتے ہیں کہ اب جب مغربی تمدن کی وجہ سے مادی رجحانات پیدا ہورہے ہیں، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے سید احمد خان نے جو اسلام پیش تھا، اس کو سمجھ کر ایک موثر ذریعہ بنانے کی ضرورت ہے، ان کا یہ بھی خیال ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے ترجمان القرآن کے نام سے جو تفسیر لکھی ہے، اس میں وہی سب کچھ ہے، جو سید احمد خاں نے پیش کیا تھا، بلکہ اقبال اپنے فلسفیانہ خیالات کے باوجود قرآن مجید کے بعض نکات کے ادراک میں سید احمد خان سے آگے نہیں جاسکے ہیں۔
ڈار صاحب اپنی اس کتاب میں دراصل جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کے اس کرب اور اضطراب کے ترجمان بن گئے ہیں، جو ماڈرنزم تو چاہتے ہیں، مگر اپنے مذہبی عقائد سے ہٹ کر ماڈرنزم میں اپنی ذہنی پریشانوں کا حل نہیں پاتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کے ساتھ ماڈرنزم کا ساتھ کس طرح دیں، کیا ہر جگہ اور ہر زمانہ میں سید احمد خاں پیدا ہونے کی ضرورت ہے، مگر ایسے سید احمد خاں کی بھی ضرورت نہیں جن کے خلاف قدیم خیالات کے علماء کی جماعت کھڑی ہوجائے، پھر ایسے علماء اگر واقعی اسلام کے نگہبان اور پشتیبان ہیں تو ان کو ایسے سید احمد خاں کو گوارا کرلینے میں تامل نہ ہونا چاہئے، جو اپنے خالص اسلامی جذبہ سے اسلام کو ماڈرنزم اور ماڈرنزم کو اسلام سے ہم آہنگ کردے، اسلام ایک دائمی اور عالمگیر مذہب ہے، ہر زمانہ، ہر ماحول اور ہر ملک کے لیے ہے، بشرطیکہ اس کو صحیح طور پر سمجھ کر متکلمانہ اور مخلصانہ انداز میں پیش کیا جائے۔
بشیر احمد ڈار صاحب متکلم اسلام تو نہیں تھے، مگر فلسفیانہ انداز میں اسلام کا درد رکھتے تھے، انھوں نے اسی درد کا اظہار کچھ کرب اور بے چینی کے ساتھ کیا ہے، سید احمد خاں کے خیالات میں ان کا پناہ لینا اگر صحیح نہیں تھا تو پھر ان کے ہم خیال اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں کو مطمئن کون کرسکتا ہے؟ ان کی ذمہ داری تو ان پر آتی ہے، جو اپنے کو صحیح معنوں میں اسلام کا نگران اور محافظ سمجھتے ہیں، ڈار صاحب اپنی اس کتاب سے بھی ان پر یہ ذمہ داری عائد کرگئے ہیں۔
جناب بشیر احمد ڈار کا زیادہ وقت لکھنے پڑھنے میں گذرتا۔ اقبالیات کے علاوہ تاریخ تصوف قبل از اسلام، حکمائے قدیم کا فلسفہ اخلاق اور پاکستان کیوں؟ وغیرہ اپنی علمی یادگاریں چھوڑ گئے ہیں، آخر میں تصوف کی فارسی کتاب ثمرات القدس بھی ترتیب دے رہے تھے، پھر رسالوں اور کانفرنسوں، انسائیکلوپیڈیا آف فلاسفی اور ورلڈ آف فلاسفی کے لیے برابر مضامیں لکھتے رہے۔
ان کی خود شکن بھلمنساہت کا ایک واقعہ برابر یاد آتا ہے، دسمبر ۱۹۷۷؁ء میں لاہور میں علامہ اقبال کے صد سالہ جشن کے موقع پر ہم لوگ انٹر کونٹی ننٹل ہوٹل میں ایک ساتھ ٹھہرے ہوئے تھے، وہیں جناب سید حسام الدین راشدی پر قلب کا حملہ ہوا وہ اسپتال منتقل کردیے گئے، دوسرے دن میں ان کی عیادت کے لیے اسپتال جانا چاہتا تھا، جناب بشیر احمد ڈار اپنی محبت میں میری رہبری کے لیے تیار ہوگئے، جشن کے مہمانوں کو لاہور کے تاریخی مقامات کی سیر کرانے کے لیے مخصوص بسیں اور موٹریں چلیں، ہم دونوں بھی روانہ ہوئے، طے ہوا کہ لاہور کے شاہی قلعہ سے ہم دونوں اسپتال چلے جائیں گے، وہاں پہنچے تو اسپتال جانے کے لیے کوئی ٹیکسی نہیں ملی، جشن کی موٹروں کے انچارج ڈار صاحب کے ایک شاگرد رشید تھے ڈار صاحب ان کو کہتے کیا بلکہ حکم دیتے تو وہ بہت شوق سے ہم دونوں کو اسپتال پہنچا دیتے مگر انھوں نے کہا کہ اتنی سی بات کے لیے احسان کیوں لیا جائے، اور وہ تانگے پر چلنے کو تیار ہوئے، ان کے شاگرد رشید نے ہم دونوں کو تانگے پر بیٹھتے دیکھا تو وہ ایک اچھی موٹر لے کر پہنچ گئے کہ یہ حاضر ہے، جب تک چاہیں، اس کو استعمال میں رکھیں، معلوم نہیں ڈار صاحب کی ایسی بے نیازی کی مثالیں، ان کی زندگی میں کتنی ملیں گی۔
وہ اپنی تصانیف کو تو علمی دنیا میں چھوڑ گئے مگر وہ سفر آخرت کے لیے بھی زاد راہ لے گئے ہیں، اجہتاد کے ذریعہ سے وہ اسلام کی سربلندی اور اعتدال پسندی کے خواہاں تھے، وہ قرآن مجید کی اخلاقی تعلیمات کی بھی ترویج چاہتے تھے، اس سلسلہ میں انھوں نے اپنی نیکی اور بھلمنساہت کے ساتھ جو تحریریں لکھیں کیا عجب کہ خداوند قدوس کی بارگاہ میں مغفرت کا باعث بن جائیں، آمین۔ (صباح الدین عبدالرحمن، جولائی ۱۹۷۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...