Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مو لانا فضل اﷲ رحمانی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مو لانا فضل اﷲ رحمانی
ARI Id

1676046599977_54338204

Access

Open/Free Access

Pages

400

مولانا فضل اﷲ مرحوم
معارف ابھی زیر ترتیب ہی تھا کہ مولانا فضل اﷲ صاحب رحمانی کے انتقال کی اطلاع ملی، مرحوم اپنے علم و فضل تقویٰ و طہارت، اور شرافت و حسن اخلاق میں سلف صالحین کا نمونہ تھے، راقم الحروف کو ان کی خدمت ایک عرصہ سے نیاز حاصل تھا، جب علی گڑھ جانا ہوتا تو ان کے یہاں ضرور حاضری دیتا، اور وہ بھی پیرانہ سالی اور ضعف جسمانی کے باوجود بازدید کے لیے تشریف لاتے اور دیر تک دینی و علمی گفتگو فرماتے میرا قیام سرسید نگر میں اپنے لڑکے ڈاکٹر محمد سالم قدوائی کے مکان بیت الفرح میں ہوتا ہے اور مولانا امیر نشان میں اپنی صاحبزادی روقہ بیگم کے یہاں رہتے تھے، امیر نشان سے سرسید نگر کا فاصلہ اچھا خاصا ہے، میں نے کئی بار عرض بھی کیا کہ آپ اتنی تکلیف گوارا نہ کیا کریں، میں جب تک علی گڑھ میں رہوں گا خود ہی حاضر ہوتا رہوں گا مگر انھوں نے اخلاق کریمانہ کی بنا پر میری اس درخواست کو کبھی قبول نہیں کیا، ایسی خورد نوازی کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں، میں ان سے عمر میں بھی بہت چھوٹا تھا، اور علم و فضل میں تو ان سے کوئی نسبت ہی نہ تھی، میں ذرہ بے مقدار اور وہ آفتاب علم و کمال، یہ محض ان کی بزرگانہ شفقت تھی، اور اس تعلق خاطر کا اظہار تھا، جو انھیں ندوہ کے خادموں کے ساتھ تھا، دو ندوۃ العلماء کے بانی اور ناظم اول مولانا محمد علی مونگیری کے پوتے تھے، والد کا نام مولانا احمد علی تھا، وہ علم و فضل، صلاح و تقویٰ، محاسنِ اخلاق اور عقل و ذہانت میں بہت ممتاز تھے، ان کی نو عمری کے زمانہ میں ایک طرف مستشریوں کا بڑا زور تھا جو آئے دن اسلام کے خلاف کتابیں لکھتے رہتے تھے، دوسری طرف مستشرقین علم و تحقیق کے نام پر اسلامی شریعت، سیرۃ نبوی اور تاریخ اسلام کو داغدار کر رہے تھے، اس وقت انگریزوں کے جلال و جبروت، اور دبدبہ و سطوت کا یہ عالم تھا، کہ ان ہرزہ سرائیواں کے خلاف زبان کھولنا اپنے آپ کو آفات و مصائب میں مبتلا کرنا تھا، لیکن اﷲ کے کچھ بندے اپنی عزت و ناموس کو خطرہ میں ڈال کر میدان میں نکل آئے، ان سرفروشوں میں مولانا محمد علی سرفہرست تھے، انھوں نے تحفہ محمدیہ کے نام سے ایک ماہنامہ نکالا، متعدد کتابیں لکھیں اور ابناء ملت کو دفاع اسلام کے لیے تیار کیا۔
اس فضا نے مولانا احمد علی کے اندر غیرت ایمانی اور رحمت دینی کا غیر معمولی جذبہ پیدا کردیا وہ باپ کے دوش بدوش اس مہم میں لگ گئے، تذکرہ نگار نے ان کے جوش و ولولہ، صلاحیت کار اور اصابت رائے کا خاص طور سے ذکر کیا ہے۔
جب ۱۳۱۱؁ھ میں مولانا محمد علی نے اپنے کام کو آگے بڑھانے کے لیے ندوۃ العلماء کی داغ بیل ڈالی تو مولانا احمد علی بھی عزم و قوت کے ساتھ اس میں شریک ہوگئے، ان کی فہم و فراست لیاقت و صلاحیت اور محنت و کار گذاری کی بنا پر ان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں، حکیم عبدالحی صاحب اس زمانہ میں مددگار ناظم تھے، اور مولانا احمد علی ان کے داست راست تھے دونوں کے درمیان فکر و خیال کا ایسا اتحاد تھا کہ ایک جان دو قالب سمجھے جاتے تھے، مولانا محمد علی نے حکیم صاحب کے نام جو خطوط لکھے ہیں ان میں بڑے حسن ظن کا اظہار کیا ہے، ان کا خیال تھا کہ یہ دونوں مل کر ندوہ کو جلد بام عروج تک پہنچا دیں گے، لیکن افسوس کہ ان کا ۱۳۲۸؁ھ میں عین عنفوان شباب کے عالم میں انتقال ہوگیا۔
جس وقت مولانا احمد علی کا انتقال ہوا، اس وقت مولانا فضل اﷲ بہت چھوٹے تھے، دادا نے انھیں اپنی آغوش تربیت میں لے لیا، اور بڑی توجہ کے ساتھ ان کی تعلیم و تربیت میں کوشش کی اﷲ نے ذہن ثاقب، طبع ارجمند اور مزاج خیر پسند عطا فرمایا تھا، مولانا محمد علی جیسے شیخ وقت کی صحبت نے ان کی ظاہری اور باطنی قوتوں کو بیدار کردیا تھا جلد ہی علم و سلوک کے مدارج عالیہ تک پہنچ گئے، وہ مولانا محمد علی کی شفقت اور حسن توجہ کا ذکر ہمیشہ بڑی محبت و عقیدت کے ساتھ کیا کرتے تھے، کبھی کبھی راہ سلوک کے واردات بھی بیان کرتے تھے، زندگی بھر درس و تدریس، تصنیف و تالیف کے ساتھ، اذکار و اشغال کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
علوم اسلامیہ میں کتاب و سنت سے خاص تعلق تھا، قرآن مجید بڑی توجہ کے ساتھ پڑھتے تھے، اس کے رموز و اسرار اور نکات و اشارات پر ان کی گہری نظر تھی، قرآن مجید کی توضیح و تفسیر میں خاص طور سے احادیث پیش نظر رہتی تھیں، کتب حدیث میں سے یوں تو صحاح کی سبھی کتابیں مطالعہ میں رہتی تھی، لیکن امام ابخاری کی جامع صحیح سے خاص شغف تھا، عرصہ دراز تک پابندی کے ساتھ اس کا ایک پارہ روز پڑھتے تھے۔
ادب المفرد امام بخاری کی بڑی اہم کتاب ہے، اس میں اسلامی اخلاق و آداب کا تفصیل سے ذکر ہے، اس کتاب کی کوئی شرح نہ تھی جس سے اس کی مشکلات حل کی جاسکتیں، مولانا فضل اﷲ نے کئی سال کی محنت و عرق ریزی کے بعد فضل اﷲ الصمد کے نام سے دو ضخیم جلدوں میں اس کی شرح لکھی، اس کی وجہ سے ان کانام ساری دنیا میں پھیل گیا، حدیث کے اساتذہ اور علماء نے اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا، اور اس کی بڑی ثنا و صفت بیان کی، بیرون ہند کے اہل قلم نے بھی اس خدمت پر بڑی ممنونیت کا اظہار کیا۔
ان کے استاد اور خسر مفتی عبداللطیف رحمانی نے جامع ترمذی کی بارہ جلدوں میں بڑی اچھی شرح لکھی ہے، اس کام میں مولانا فضل اﷲ ان کے دست راست تھے ان کے بعد انھوں نے پھر نظر ثانی کی اور بیش قیمت مفید حواشی کا اضافہ کیا، اگر یہ کتاب شائع ہوجائے تو حدیث شریف کے اساتذہ اور طلبہ کو بہت فائدہ پہنچے، مرحوم اہل علم اور اہل ثروت دونوں کو اس جانب توجہ دلاتے تھے، ان کے ایما پر معارف نے بھی ایک نوٹ لکھ کر اصحاب خیر کو اس جانب متوجہ کیا، مگر کتاب اتنی بڑی ہے اور اس کی اشاعت میں اتنا کثیر سرمایہ لگانا پڑے گا کہ کوئی ناشر تیار نہ ہوا، شرح ادب المفرد کی اشاعت میں بھی یہی دشواری تھی، مگر اﷲ نے حجاز کے مشہور اہل خیر یوسف زینل علی رضا کو توفیق عطا فرمائی اور انھوں نے حدیث نبوی کے اس ذخیرہ کو بہ حرفِ کثیر شائع کر کے حسن قبول اور اجر جزیل حاصل کیا۔
اگر اسی طرح جامع ترمذی کی شرح بھی کوئی اﷲ کا بندہ شائع کر دیتا تو بڑا اجر حاصل کرتا مرحوم کے چچا مولانا منت اﷲ رحمانی ۱؂ امیر شریعت صوبہ بہار اگر جامعہ رحمانیہ کی طرف سے اس کی اشاعت کا بیڑا اٹھالیں تو یہ مشکل آسان ہوسکتی ہے۔
مولانا کی عمر کا کافی حصہ حیدر آباد میں گذرا اور عثمانیہ یونیورسٹی میں عرصہ دراز تک علوم اسلامیہ کی تعلیم و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے، وہاں سے سبکدوشی کے بعد علی گڑھ میں قیام کیا، اور وہیں وفات پائی، تادم مرگ علم و دین کی خدمت میں لگے رہے، اور زبان و قلم سے تلقین و ارشاد کرتے رہے، اﷲ تعالیٰ ان کی خدمات قبول فرمائے اور انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کی لائق صاحبزادیوں اور دوسرے عزیزوں کو ان کے نام نیک کو بلند رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(عبد السلام قدوائی، جون ۱۹۷۹ء)

۱؂ مولانا منت اﷲ عمر میں مولا فضل اﷲ سے بہت چھوٹے ہیں، مولانا کہتے تھے کہ میں نے انھیں گود میں کھلایا ہے، مگر حقیقی چچا ہیں دوسرے چچا مولانا نوراﷲ ناظم جمعیۃ علماء بہار بھی حیات ہیں، وہ بھی عمر میں چھوٹے ہیں، مولانا فضل اﷲ کے والد مولانا احمد علی مولانا محمد مونگیریؒ کے سب سے بڑے لڑکے تھے، جو ان کی پہلی حرم سے تھے۔

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...