Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولوی محمد الحسنی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولوی محمد الحسنی
ARI Id

1676046599977_54338205

Access

Open/Free Access

Pages

401

مولوی محمد الحسنی
جون کا معارف طباعت کے آخری مرحلہ میں تھا کہ اچانک اطلاع ملی کہ ندوۃ العلماء کے نقیب رسالہ البعث الاسلامی کے مدیر مولوی محمد الحسنی کا انتقال ہوگیا، یہ خبر اتنی خلاف توقع تھی کہ بڑی دیر تک یقین نہیں آیا، ان کی عمر زیادہ نہیں تھی، چالیس سے تین ہی چارسال آگے بڑھے ہوں گے، صحت بھی اچھی تھی، کبھی کسی طویل یا شدید بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے تھے، جب ملاقات ہوتی، ہشاش بشاش نظر آئے۔
یہ سچ ہے کہ جو آیا ہے، اسے ایک دن جانا ضرور ہے، کل نفس ذائقتہ الموت[ العنکبوت:۵۷] لیکن کسے معلوم تھا کہ ان کا وقت موعود اتنا قریب ہے، ہم لوگوں کے سامنے تو بچے تھے، ان کی پیدائش کل کی بات معلوم ہوتی ہے، ہم کس طرح خیال کرتے تھے کہ وہ ہم سے پہلے رخصت سفر باندھ لیں گے۔ لیکن ان کے دوستوں اور ہم سنوں کو بھی اس تیزروی کا گمان نہیں تھا، ان کی جسمانی ساخت اور صحت کی رفتار دیکھ کر سبھی عمر طویل کی پیشنگوئی کرتے تھے، لیکن ظاہر بینوں کے یہ سارے اندازے غلط ثابت ہوئے اور اﷲ کی مشیت پوری ہو کر رہی، تقدیر کے سامنے تدبیر نے سپر ڈال دی، اور انسان کی مجبوری دبے بسی ہی نہیں خام خیالی اور غلط اندیشی بھی نمایاں ہوگئی۔
مصلحت ایزدی تھی کہ وہ چھوٹی عمر ہی میں اس دنیا سے کوچ کر جائیں تقدیر الٰہی کے رازہائے سربستہ کی نقاب کشائی انسان کے بس میں نہیں ہے، اس کا علم ناقص اس کی نظر کوتاہ اور اس کا علم محدود ہے، ان حالات میں وہ حکمت الٰہی کا احاطہ کس طرح کرسکتا ہے، عالم غیب ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے، ہم ظاہربیں باطن کے حقائق سے ناواقف ہیں، البتہ اﷲ کی مصلحت پر ہمارا ایمان ہے، اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس کا کوئی فعل مصلحت سے خالی نہیں ہے، یہ ہماری کم نگاہی ہے کہ موت کو زندگی کا خاتمہ سمجھتے ہیں، اس سے تو حیات نو کا آغاز ہوتا ہے، دنیا مطیتہ آلاخرہ ہے، انسان اس جہاں فانی سے گزر کر عالم جادوانی میں قدم رکھتا ہے، جہاں اسے مادہ کے جامہ تنگ کو اتار کر خلعت لامحدود عطا ہوتی ہے، اور فنا کے گھاٹ سے اتر کر بقائے دوام نصیب ہوتا ہے، اسے انحطاط و زوال کے خوف سے نجات ملتی ہے، اور عروج مسلسل اور ارتقائے پیہم کی مسرت سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔
محمد میاں اب ہمیں نظر نہیں آتے ہیں، لیکن یہ ہماری نظر کی کوتاہی اور نگاہ کی نارسی ہے، اگر مادیت کا حجاب حائل نہ ہوتا تو ہم دیکھتے کہ وہ لاخوف علیھم ولاھم بحزنون [یونس:۶۲] ۱؂ کے عالم میں پہنچ کر فرحین بما آتا ھم اﷲ من فضلہ [آل عمران: ۱۷۰] ۲؂ کے زمرہ میں شامل ہوگئے ہیں، وہاں نزلا من غفور رحیم [فصّلت: ۳۲] ۳؂ کے مزے لے رہے ہیں، اور پس ماندگان کو خوف و حزن سے نجات کی بشارت سنا رہے ہیں، ذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء واﷲ ذوالفضل العظیم[الجمعۃ:۴] اﷲ کا ہاتھ پکڑنے والا کون ہے، وہ جسے جو چاہے دے، وہ سمیع و بصیر علیم و خبیر ہے، وہ دلوں کی آواز سنتا اور نیتوں کے خلوص کو دیکھتا ہے، وہ ماضی سے آگاہ، حال سے باخبر اور مستقبل سے واقف ہے، اس کے یہاں مزدور پابند وقت نہیں، بلکہ مزدور کے حسن عمل اور صلاحیت کار پر موقوف ہے، کسی کو سارے دن کی جانکاہی کے بعد چند پیسے ملتے ہیں، اور کسی کو صرف چند منٹ کی کارگذاری پر اشرفیاں عطا ہوتی ہیں، قلت و کثرت کا فیصلہ مالک کی نظر پر منحصر ہے، اس کو کسی کا کام پسند آجائے تو تھیلیوں کے منہ کھول دیتا ہے۔
محمد میاں نے عمر بہت کم پائی اس زندگی کی چوالیس (۴۴) بہاریں بھی پورے طور پر دیکھ نہ پائے کہ مادی آنکھیں بند ہوگئیں، اور روح فنا کے مرحلہ سے گزر کر بقا کی منزل میں پہنچ گئی، وہ ڈاکٹر عبدالعلی مرحوم کی آخری اولاد تھے، پانچ بیٹیوں کے بعد اﷲ نے انھیں یہ بیٹا عطا کیا تھا، سارے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی، ڈاکٹر صاحب بھی مسرور ہوئے، انھوں نے اس نعمت پر اﷲ کا شکر ادا کیا، اور طے کرلیا کہ اس عطیہ ربانی کو اسی کی راہ میں لگائیں گے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ وہ اپنی طرح دینی و دنیاوی تعلیم دلا کر اس بچے کو ڈاکٹر بنائیں گے، لیکن ڈاکٹر صاحب کے سوچنے کا انداز دوسرا تھا، وہ اﷲ کے دین اور اس کے بندوں کی خدمت کے قائل ضرور تھے، مگر موقع و محل اور حالات و ضروریات کے پیش نظر وہ خدمت کی نوعیت اور دائرہ کار کا تعین کرتے تھے محض مادی نفع تو کبھی ان کا مطمع نظر نہیں رہا، وہ خالص دنیاوی کاموں میں بھی روحانی قدروں کو پیش نظر رکھتے تھے، اور رضائے الٰہی کی طلب سے کبھی غافل نہ ہوتے تھے، مگر اس بارے میں بھی وہ ادنی و اعلیٰ پر نظر رکھتے تھے، انھوں نے محمد میاں کی تعلیم و تربیت میں بھی یہ نقطہ نظر پیش نظر رکھا، وہ نصاب و نظام تعلیم کے بارے میں تقلید کے بجائے اجتہاد کے قائل تھے، اور خوب سے خوب تر کی فکر میں رہتے تھے، پہلا تجربہ انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی (علی میاں) پر کیا، پھر اسی روشنی میں محمد میاں کے لیے بھی نصاب و طرز تعلیم کا ایک موثر اور تیز رفتار لائحہ عمل مرتب کیا، مجھے یاد ہے کہ تجربہ کار مدرسین اس پر سخت تنقید کرتے تھے، اور وثوق کے ساتھ اس کی ناکامی کی پیشن گوئی کرتے تھے، مگر ڈاکٹر صاحب اپنی رائے پر جمے رہے، بالآخر ان کی رائے صحیح ثابت ہوئی، اور محمد میاں قواعد و ضوابط کی پُرہیچ راہوں سے گزرے بغیر ادب و انشاء کی ایسی بلند منزل تک پہنچ گئے، جس پر لوگ رشک کرتے تھے، ان کی تحریریں فصاحت و بلاغت، زور کلام، قوت استدلال اور انداز بیان کا بہترین نمونہ ہوتی تھیں، ان کے مضامین عرب ملکوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے اور دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے، وہ مقرر نہ تھے، مگر جب کبھی مجمع کے سامنے کوئی مضمون پڑھتے تو سامعین ہمہ تن گوش ہوجاتے۔
اﷲ نے ان کے دل کو اسلام کی محبت اور ملت کے درد سے سرشار کردیا تھا، باپ کی تربیت اور صاحبان علم و بصیرت کے فیضان نظر نے اس نشہ کو دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ بنا دیا تھا، ابھی شعور کی آنکھیں ٹھیک سے کھلنے بھی نہیں پائی تھیں کہ وہ اسلام کی خدمت اور ملت کی تنظیم کے خواب دیکھنے لگے، اس غرض سے ایک سوسائٹی کی تشکیل کی اور اسلام کی بین الاقوامی زبان عربی میں ایک اعلیٰ درجہ کے رسالہ کے اجرا کا منصوبہ بنایا، ان کے حسن نیت نے اس خیال کو مقبولیت عطا فرمائی اور البعث الاسلامی کے نام سے ایک وقیع رسالہ جاری ہوگیا، اور ملل اسلامیہ کے درمیان ربط و نظم کی طرح پڑگئی جس نے آگے چل کر ایک موثر اور مضبوط نظام کی شکل اختیار کی، ندوۃ الشباب العالمیۃ اور رابطۃ العالم الاسلامی دونوں ان کے خواب کی تعبیر ہیں، ان کے قلم کا اثر روز بروز بڑھ رہا تھا، اور مصر و شام، نجدوحجاز اور دوسرے عرب ممالک میں ان کے مضامین بڑے شوق سے پڑھے جاتے تھے، ان کا ایک مجموعہ کتابی شکل میں شائع ہوچکا ہے، مزید کتابیں زیر ترتیب تھیں۔ لیکن،
؂ آں قدح بشکست و آں ساقی نہ ماند
عربی کے کے ساتھ وہ اردو کے بھی بہت اچھے انشا پرداز تھے، اس کم عمری میں انھوں نے کہن سال مصنفین سے خراج تحسین وصول کیا، مولانا محمد علی مونگیری کی ضخیم سوانح عمری کے علاوہ تصانیف و تراجم کا ایک سلسلہ یاد گار ہے، مشہور صاحب علم جرمن مسلمان لیوپولڈ اسد کی کتاب ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ کا ترجمہ ’’طوفان سے ساحل تک‘‘ کے نام سے ایسا رواں اور شستہ کیا کہ اہل زبان عشں عشں کرنے لگے، مولانا ابوالحسن علی کی تحریروں کے بڑے باکمال مترجم تھے، ان کی بہت سی کتابوں اور رسالوں کو عربی سے اردو اور اردو سے عربی میں منتقل کیا ہے، اور ابھی چند ماہ ہوئے ان کی ضخیم سیرت نبوی کا ترجمہ اس خوبی کے ساتھ اردو میں کیا کہ اصل کاگمان ہوتا ہے، علی میاں ان کی ترجمہ نگاری کے بڑے مداح تھے، اور کہا کرتے تھے کہ محمد میاں نقل کو اصل بنادیتے ہیں۔
علم و ادب میں اس کمال کے ساتھ وہ تہذیب و شائستگی اور شرافت و متانت کا بھی بہترین نمونہ تھے، خوردوں کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آتے، دوستوں کی دلداری و دلنوازی کی کوشش کرتے، بزرگوں کی تعظیم و توقیر کا ہمہ وقت خیال رکھتے اور ہم نشینوں کی خوشنودی کی فکر کرتے، اجنبی آدمی سے بھی ملاقات ہوتی تو مسکراتے ہوئے ملتے ان کے چہرہ کی بشاشت اور خندہ جبینی ان کی لطافت طبع اور پاکیزگی قلب کی ترجمان تھی ان کی کس کس بات کو یاد کیا جائے۔
؂ کرشمہ دامن دل می کشد کہ جااین جااست
جی چاہتا تھا کہ ابھی کچھ دن اور زندہ رہتے، اپنے بچوں کی بہار دیکھتے، گھر والے ان کو دیکھ کر خوش ہوتے، عزیز ان کے حسن سلوک سے مستفید اور دوست انکی شگفتہ مزاجی اور بذلہ سنجی سے محظوظ ہوتے، اور ان کے دل ان کی باغ و بہار طبیعت سے باغ باغ ہوتے، ملک و ملت کی خدمت کے نئے نئے میدان تلاش کرتے، ان کا اشہب قلم نئی وادیوں میں قدم رکھتا، اس کی جولانیاں نئے معر کے سر کرتیں، اور وہ اپنی سحر آفرین تحریروں سے دلوں کو مسخر کرتے لیکن،
؂ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
مشیت ایزدی کے سامنے کسے مجال دم زدن ہے بندگی تسلیم و رضا کی طالب ہے، انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ (عبد السلام قدوائی ندوی، جولائی ۱۹۷۹ء)

۱؂
ان کو خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے۔
۲؂
اﷲ سے انھیں جو عطا کیا اس پر وہ خوش ہیں۔
۳؂
غفور رحیم کی طرف سے مہمانی۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...