Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا عبدالسلام قدوائی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا عبدالسلام قدوائی
ARI Id

1676046599977_54338207

Access

Open/Free Access

Pages

403

آہ مولانا عبدالسلام قدوائی!
آنکھیں اشکبار ہیں، دل اندوہ و غم کا جوئبار ہے، جب یہ قلم فگار ہوکر لکھ رہا ہے کہ مولانا عبداسلام قدوائی جو دارالمصنفین کی علمی اور نجی مجلسوں کی رونق، عزت اور آبرو تھے، ہم سب کو چھوڑ کر یکایک آغوش رحمت الٰہی میں چلے گئے۔
وہ ۱۹۷۵؁ء میں دارالمصنفین اس وقت آئے جب جناب شاہ معین الدین احمد ندوی سابق ناظم دارالمصنفین کی رحلت سے یہاں کا پتہ پتہ، بوٹا بوٹا سوگوار اور بے رونق ہورہا تھا، وہ یہاں آئے تو اپنے جلو میں علامہ شبلیؒ کی بے پناہ عظمت، اپنے استاد مولانا سید سلیمان ندویؒ کی غیر معمولی عقیدت، جناب شاہ معین الدین احمد ندوی مرحوم کی شخصیت سے اپنی مخلصانہ محبت اور خود اپنی ذات کی لینت، مروت اور ملاطفت کا لشکر ساتھ لائے اور اس راقم سے ایسے گھل مل گئے کہ ہم دونوں کے درمیان شیروشہد کی کوثر بہتی نظر آنے لگی، ان کی آمد سے دارالمصنفین کی سرگرمیوں میں شادابی، اس کی امیدوں کے پھولوں میں رعنائی اور اس کی تمناؤں کے مرغزاروں میں دل فریبی پیدا ہونے لگی، مگر معلوم نہیں مصلحتِ خداوندی کیا تھی کہ دارالمصنفین کے رفقاء ان کی علمی بصیرت اور بزرگانہ الفت سے ہر طرح کا استفادہ کررہے تھے کہ وہ اچانک دائمی طور پر ان سے جدا ہوگئے، وہ ۲۷؍ رمضان المبارک کو تراویح پڑھ کر اور تہجد اور فجر کی نماز ادا کرکے چار بجے صبح اعظم گڑھ سے اپنے وطن تُھلنیڈی ضلع رائے بریلی عید منانے روانہ ہوئے، وہاں پہنچنے کے دوسرے روز سحری کے وقت اٹھے، یکایک بیہوش ہوئے اور جمعہ کے روز گیارہ بجے دن کو اﷲ کو پیارے ہوگئے، دوسرے دن عید کی نماز کے بعد ان کی طالب علمی کے محبوب اور شفیق ترین ساتھی اور اسلامی ممالک کے فاضل اجل مولانا سیدابوالحسن علی ندوی نے ان کے سات سوگوار بیٹوں اور ہزروں آدمیوں کے ساتھ ان کے جنازہ کی نماز پڑھائی، اور وہیں گوناگوں خوبیوں کا یہ مجسمہ سپردخاک کردیا گیا۔
ان کا سنہ پیدائش ۱۹۰۶؁ء تھا، ندوۃ العلماء لکھنؤ میں تحصیل علوم کے بعد مزید تعلیم کے لئے جامعہ ملیہ دہلی گئے، وہاں سے بمبئی کے اس زمانہ کے مشہور اخبار خلافت کی مجلس ادارت میں شریک ہوگئے، پھر ۱۹۳۴؁ء میں ندوہ میں مدرس کی حیثیت سے بلالئے گئے، لکھنؤ میں ادارۂ تعلیمات اسلام قائم کیا، جہاں تعلیم یافتہ حضرات کو کلام مجید کا درس دیتے اور آسان ریڈروں کے ذریعہ سے عربی سکھاتے، یہاں سے ایک جریدہ ’’تعمیر‘‘ بھی مولانا ابوالحسن ندوی کے ساتھ شائع کرتے رہے پھر جامعہ ملیہ میں دینیات کے استاد مقرر ہوئے، جہاں اکیس سال تک اس درس گاہ کے لوگوں کے دلوں کی تسخیر کرتے رہے، وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد ندوہ کے اعزازی معتمد تعلیم بنائے گئے، پھر جناب شاہ معین الدین احمد ندوی کے بعد مولانا ابوالحسن علی کی خواہش پر دارالمصنفین کی کشتی کے دیدبان بن کر آئے۔
ان تینوں اداروں سے ان کو عشق رہا، ندوہ ان کی لیلیٰ تھی، جامعہ ملیہ ان کی عذرا تھی، دارالمصنفین ان کے لئے شیریں بنی ہوئی تھی، یہاں فرہاد بن کر اس کے لئے جوے شیر نکالنے کی فکر میں تھے کہ اسی فکر کا تیشہ لئے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی۔
ان کی شخصیت ایک عطر مجموعہ تھی، وہ ایک بہت اچھے انسان، بہت اچھے دوست بہت اچھے شاگرد، بہت اچھے استاد، بہت اچھے شوہر، بہت اچھے باپ اور بہت اچھے عالم تھے، ان کا دل چیر کر دیکھا جاتا تو ان کے سوید اے دل کے اندر حسین اور شامہ نواز گلاب کی پنکھڑیاں رکھی ہوئی دکھائی دیتیں، وہ بولتے تو معلوم ہوتا کہ مصری کی ڈلی چبارہے ہیں، اور اپنے مخاطب کا من موہ رہے ہیں، جس کے ساتھ رہے، یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا کہ وہ حبیب ہیں کہ محبوب، ندوہ میں ان کے ہم درس رئیس احمد جعفری مرحوم تھے، جو اردو کی بے شمار تصانیف کے مشہور مصنف ہوئے، ان سے بچھڑے ہوئے خدا جانے کتنی مدت گزرچکی تھی، مگر شائد ہی کوئی روز ایسا گزرتا، جب وہ ان کی یادوں کی برات نہ سجاتے، مولانا ناظم ندوی بھی ان کے ہم درس تھے، اب وہ کراچی میں ہیں، ان کا ذکر آتا تو کہتے کہ ان سے ایک بار ملاقات ہوجاتی تو پھر دنیا سے جانے کا افسوس نہ ہوتا، ندوہ کی طالب علمی کے زمانہ میں مولانا ابوالحسن علی ندوی کا بھی ان کا ساتھ رہا، ان کی ہر دل عزیزی کے جلووں، ان کی محبوبانہ اداؤں اور ان کی علمی دلربائیوں کا تو وظیفہ پڑھتے رہتے۔
ان کے تین محبوب استاد تھے، مولانا سید سلیمان ندویؒ، مولانا حیدر حسن خانؒ اور مولانا شبلی جیراجپوری مرحوم، ان تینوں کا ذکر خیر اس طرح کرتے، جیسے ابھی ابھی ان سے مل کر آئے ہیں، سید صاحبؒ کی گھریلو زندگی کے کچھ واقعات ایسے سناتے کہ ان کی خبر مجھ کو بھی نہ تھی، حالانکہ مجھ کو ان کے گھر کے اندر بھی ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا، وہ سید صاحبؒ کی علمی جلالت کے بے حد قائل تھے، کہتے کہ ان کے ایسا روشن دماغ اور دیدہ ور عالم عرصہ دراز تک پیدا نہ ہوسکے گا، وہ مولانا حیدر حسن خاںؒ سے گرویدہ ہوکر ان سے بیعت بھی ہوگئے تھے، ان کی آن بان اور تدریسی شان کا ذکر مزے لے لے کرتے، معارف میں ان پر جو مضمون لکھا تو لکھتے وقت اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دینے کی فکر میں رہے، انھوں نے مولانا شبلی جیرا جپوری پر بھی معارف میں ایک مضمون لکھا تو ان کے پاس خطوط آئے کہ مولانا مرحوم کی اصلی عظمت اس مضمون سے معلوم ہوئی۔
کلام مجید کا درس دینے اور عربی زبان سکھانے میں ان کو خاص لذت ملتی، تاریخی لطیفوں، علمی چٹکلوں اور ادبی بذلہ سنجیوں کے ساتھ کلام پاک کے رموز و نکات مزے لے لے کر بیان کرتے، چالیس روز میں عربی سکھا دیتے، ان کے عربی کے قاعدے ہندوستان اور پاکستان میں بہت مقبول ہیں، بچوں کی ذہنی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھے، دارالمصنفین سے بچوں کے لئے ان کی دو کتابیں ہماری بادشاہی اور ہندوستان کی کہانی شائع ہوئیں، تو ہزاروں کی تعداد میں چھپ کر فروخت ہوتی رہتی ہیں، وہ جہاں بھی رہتے، اپنے شاگردوں کو بہت عزیز رکھتے، ان کی خاطر ارباب حل و عقد سے بھی اختلاف کرتے، چاہے وہ ان کے عزیز دوست ہی کیوں نہ ہوتے۔
وہ ایک شفیق شخص بھی تھے، ان کی دوستوں کی بیویوں کو رشک ہوتا کہ ان کے شوہر بھی ان ہی کی طرح ہوتے، ان کے بچے ان کی شفقت و محبت کی ٹھنڈی اور گھنی چھاؤں میں جس طرح پلے، کم بچے اپنے باپ کے زیر سایہ اس طرح پلے ہوں گے، ان کے یہاں دھتکار اور پھٹکار کی کوئی گنجائش نہ ہوتی، ان کے پیارا اور چمکار سے ان کے گھر کی فضا خوشگوار بنی رہتی۔
ان کی خطابت کی بھی عجیب دلربایانہ شان تھی، جمعہ کے روز منبر پر کھڑے ہوکر خطبہ دیتے تو معلوم ہوتا کہ، ع
بلبل چہک رہا ہے ریاض رسول میں
وہ چٹکلے اور گھریلو قصے بیان کرکے ان کو کلام پاک کی آیات، حدیث کی روایات اور اسلامی تاریخ کے واقعات سے اس طرح جوڑ دیتے کہ ان سے نہ صرف ان کی بالغ نظری اور روشن ضمیری کی فضا پیدا ہوجاتی بلکہ سامعین بھی اپنی روح میں ایک طرح کی بالیدگی اور ذہن میں ایک قسم کی بیداری محسوس کرتے، دارالمصنفین ان کے خطبے کی وجہ سے بھی بیت الحکمت اور مذہبی تربیت گاہ بن گیا تھا۔
ان کا علمی مطالعہ بھی بہت وسیع تھا، جو کچھ پڑھا تھا، مستحضر رہا، کلام پاک، تفسیر حدیث، رجال، علم کلام، تصوف، تاریخ، ادب، سیاست، حتی کہ ناول نگاری اور افسانہ نویسی پر جب کبھی گفتگو آجاتی تو کچھ نہ کچھ ایسے نکتے بیان کرجاتے کہ یکایک ذہن کے دریچے کھل جاتے، یہ اعتراف کرنے میں تامل نہیں کہ راقم نے ان کے بعض ایک دو جملوں پر معارف کے لئے لمبی لمبی تحریریں لکھیں، وہ علمی مشورے کچھ ایسے میٹھے اور پیارے انداز میں دیتے کہ موضوع کی بہت سی گھتیاں سلجھ جاتیں، وہ علمی کاوشوں کے لئے جس طرح اکساتے، خفتہ علمی جذبات کو جس طرح بیدار کرتے، پھر ان میں جس طرح جوت جگادیتے، وہ نہ صرف میرے بلکہ دارالمصنفین کے لئے بڑی دولت رہی، وہ ان لوگوں میں سے تھے جن سے علمی بصیرت کا درس لیا جاسکتا تھا، بشرطیکہ کسی میں یہ درس لینے کی صلاحیت ہو۔
وہ مسلمان اور عصری تقاضے، سورہ بقرہ کی تفسیر، ہماری بادشاہی، ہندوستان کی کہانی، عربی کے دس سبق، قرآن مجید کی پہلی کتاب، (پارہ الم) اور قرآن مجید کی دوسری کتاب (سیقول) وغیرہ کے مصنف تھے، مگر میرے لئے وہ بہت سی اور یادیں بھی چھوڑ گئے ہیں، ان کا وہ درد بھی یاد آئے گا، جو وہ دارالمصنفین کے لئے اپنے پاک اور بلور کی طرح جھلکتے ہوئے دل میں رکھتے تھے، وہ لمحات بھی یاد آئیں گے، جب ہم دونوں دارالمصنفین کے سبزہ زار پر بیٹھ کر اس کے مستقبل کو سوچتے، وہ سامنے کھلے ہوئے گلاب کو دیکھ کر کہہ اٹھتے کہ اس ادارہ کی علمی روایات میں گلاب ہی کی شادابی اور رنگینی رہی ہے، کیا وہ آئندہ بھی باقی رہے گی، پھر مایوسانہ لہجے میں کہتے کہ دارالمصنفین کے اسلاف نے خدمت اور اشیاء کے جو نمونے پیش کئے ہیں، وہ اب نہیں ملیں گے، یہ پیسے کے پیچھے دوڑ لگانے کا دور ہے، مگر وہ اس مایوسی کو دور بھی کرنے کی کوشش کرتے، کبھی چاندنی راتوں میں ہم دونوں دارالمصنفین کے صحن میں بیٹھے باتیں کرتے رہتے، تو وہ بشارت دیتے کہ ہم لوگوں کوپرامید رہنا چاہئے، اس علمی مرکز پر اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کی چاندنی انشاء اﷲ برابر چھٹکی رہے گی۔
وہ حوصلہ افزائی کرنا خوب جانتے تھے، جناب شاہ معین الدین احمد ندوی مرحوم کی وفات سے میرا سینہ اندوہ و غم کا آتشدان بنا ہوا تھا، مگر انھوں نے اپنی مدبھری باتوں سے اس کو امیدوں کا گلزار بنادیا تھا، کیا معلوم تھا کہ اس قدر جلد پھر یہ سوزغم کا تنور بن جائے گا، یہ اب ایک گنج شہیداں بن چکا ہے، اس میں استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالسلام ندوی، مولانا مسعود علی ندوی، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی، اور اب مولانا عبدالسلام قدوائی مدفون ہیں، میری حیثیت اب ایک مجاور کی ہے جو اپنے سینے کے قبرستان میں ان کی یادوں کا لوبان جلانے کے لئے رہ گیا ہے۔
چوالیس سال پہلے دارالمصنفین آیا تو اس کو استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندویؒ کی وجہ سے علم کا عشرت کدہ سمجھنے میں لذت محسوس کی، پھر مولانا شاہ معین الدین احمد ندویؒ کے زمانہ میں بھی اس کو اپنے لئے علم کا گلکدہ سمجھتا رہا، مولانا عبدالسلام قدوائی کی رفاقت سے بھی یہ میرے لئے علم کا خم کدہ بنتا جارہا تھا، مگر اب زندگی کی اس منزل میں ہوں کہ کہیں مجھ کو خود یہ نہ کہنا پڑے،
؂ ہمہ شوق آمدہ بودم ہمہ حرماں رفتم
مولانا عبدالسلام قدوائی مرحوم کی نیکیاں اور خوبیاں ان کے سفر آخرت کے لئے زادِ راہ ہیں، دعا ہے کہ ان ہی کی بدولت مغفرت کی کوثر و تسنیم سے ضرور سیراب ہوں، آمین، ثم آمین، ان کی سیرت کی رعنائیوں، ان کے کردار کی دل آویزیوں اور ان کی گوناگوں خوبیوں کو سلام اور لاکھوں سلام بھیجتا ہوں تو اس وقت دارالمصنفین کی ہر سمت سے یہ صدا سنائی دیتی رہے،
؂ گلے برفت ناید بہ صد بہارا دگر!
(’’ص ، ع‘‘، جولائی ۱۹۷۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...