Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا ابوالاعلیٰ مودودی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی
ARI Id

1676046599977_54338208

Access

Open/Free Access

Pages

405

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی
۲۲؍ ستمبر ۱۹۷۹؁ء کو مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کی وفات سے یہ برصغیر ہی نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا بھی ایک ممتاز متکلم، ایک مضطرب مفکر، ایک دیدہ ور مفسر، ایک بے چین شارح دین، ایک قابل قدر ترجمان شریعت اور ایک بلند پایہ مصنف سے محروم ہوگئی۔
انھوں نے ۷۷ برس کی عمر پائی، ان گنت کتابوں کے مصنف ہوئے شروع میں ان کی تحریریں نکلیں تو جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو محسوس ہونے لگا کہ ان میں وہ ساری باتیں ہیں جن کی تلاش ان کے ذہن کو ہے، جب وہ مغربی افکار کے ابلیس کی تلبیس سے دب کر اپنے تذبذب اور تشکیک کی بناء پر اسلام کو جامد اور غیر متحرک پارہا تھا تو اس کو مولانا مودودی کی تحریروں کے ذریعہ سے یہ احساس ہوا کہ کوئی اس کے تاریک اور منجمد ذہن پر ہلہ بول کر اس کو جھنجھوڑ رہا ہے، مولانا مودودی کی تحریروں میں شگفتگی بھی ہوتی، دلنشینی بھی، حرارت ایمانی کی گرمی بھی، نظر و فکر کی گرم جوشی بھی، منطقی دلائل کے یقین کی پختگی بھی، عالمانہ انداز میں کلام پاک اور حدیث کی جاندار تعبیر بھی، اسلام کے ناقدوں اور خصوصاً فرنگی معترضوں کے خلاف جارحانہ حملے بھی اور یورپی طرز فکر کی جرأت مندانہ تحدی بھی، اس لئے وہ شوق سے پڑھی گئیں، ان کا علم ایک بحرخار تھا، جس سے انھوں نے بقول استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندوی، ’’یورپ کے ملحدانہ افکار‘‘ کے خلاف ایک بند باندھنے کی کوشش کی اس میں ان کے قلم کی بے مثال قوت ان کا پورا ساتھ دیتی رہی۔
رفتہ رفتہ وہ ایک خاص مکتب فکر اور تحریک کے بانی قرار پائے جس سے صالح قیادت کے ذریعہ وہ مسلمانوں کی معاشرتی اور سیاسی زندگی میں طاقتور دینی روح دینی اخلاص اور دینی قدریں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ یہ تحریک اس برصغیر میں جماعت اسلامی کی تنظیموں سے مسلمانوں کے ایک اچھے خاصے طبقہ پر اثر انداز ہوئی۔
ان کی مقبولیت بڑھی تو بعض حلقوں میں ان سے اختلاف بھی پیدا ہوتا گیا، انھوں نے تصور دین کے سلسلہ میں الٰہ، رب، دین اور عبادت کے قرآنی کلمات اور اسلامی اصطلاحات کی جو تشریح کی یا تصوف کو تعطل اور بطالت کا جو دوسرا نام قرار دیا، یا نسلی اور اصلی مسلمان کی جو تفریق بتائی حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے متعلق جس رائے کا اظہار کیا یا اور دوسرے صحابہ کرام کی شان میں جو الفاظ استعمال کئے یا امام ابوحنیفہؒ کے بارے میں جو یہ لکھا کہ ان کی فقہ میں بکثرت ایسے مسائل ہیں جو مرسل، معضل اور منقطع حدیثوں پر مبنی ہیں، یا معیار حق کی جو تصریح کی الخ الخ تو ان کے اور ان کے حامیوں کے کلامی افکار و نظریات پر بہت ہی تلخ بحث چھڑگئی۔
حکومت الہیہ کے تخیل کے ساتھ مولانائے مرحوم نے پاکستان کی عملی سیاست میں حصہ لیا تو ان کو دار کے تختہ تک پہنچانے کی کوشش کی گئی، خود ہندوستان کے اندر ان کے حامیوں سے حکومت کچھ ایسی مشکوک ہوتی چلی گئی کہ بات بات پر ان کو جیل جاکر ابتلا و آزمائش سے دوچار ہونا پڑا، مگر مولانائے مرحوم نے اپنے یقین محکم، عمل پیہم اور عزم راسخ کا وہی ثبوت دیا جو اسلام کے بڑے بڑے مصلحین نے دیا ہے، انھوں نے معتقدوں میں بھی استقامت کی ایسی روح پھونکی کہ وہ بھی ہر امتحان میں پورے اترے۔
ہر نئی دعوت کے داعی اور اس کے حامیوں کو ہر طرح کی صعوبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسلام کی تاریخ دعوت و عزیمت کے صبر آزما مرحلوں سے ہمارے مصلحین اور مجاہدین درس لیتے رہے ہیں، یہ صحیح ہے کہ اسلامی تحریک شائد ہی کوئی ایسی ہو جس کی مخالفت کسی نہ کسی طرح نہ کی گئی ہو، مگر یہ بھی صحیح ہے کہ ایسی ہر تحریک میں کچھ نہ کچھ نظری، فکری اور عملی خامیاں اور کمزوریاں بھی ضروری ہیں، جن سے مخالفت کا موقع ملتا رہا جن اسباب کی بناء پر ان کی مخالفت ہوئی ان کا گہرا تجزیہ کرنے کے بعد بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے، آخر ہم گزشتہ چودہ سوسال کی تاریخ کے اپنے عروج و زوال دونوں کے عواقب سے کب بصیرت اور عبرت حاصل کریں گے، موجودہ دور کے مسلمانوں کو بھی اپنے معاشرہ میں مذہبی، معاشرتی اور سیاسی انحطاط و ادبار کا سامنا ہے، وہ بے چینی سے متوقع ہیں کہ اس کو دور کرنے کے لئے ان کے مفکرین نہیں اسلامی نظر و فکر سے کچھ ایسی قابل عمل چیزیں پیش کریں جو متنازعہ ہونے کے بجائے متفق علیہ ہوں، یا کم از کم اس حد تک قابل قبول ہوں کہ ان کے خلاف کفر و ضلالت کا فتوی صادر نہ کیا جائے، کیا یہ ممکن نہیں؟ اگر ناممکن ہے تو سارے مسلمان اپنے خیالات کی ریت میں اپنے ذہن کو یہ سوچ کر چھپالیں کہ انسانی تاریخ میں آج تک کوئی ایسی تحریک نہیں چلی جس کی مخالفت نہ ہوئی ہو، مگر یہ اسلامی طرز فکر نہیں، ہر اسلامی تحریک کے دردمند اور مخلص محرک کو یہ سوچنا ضروری ہے کہ اس سے مسلمانوں کی یکجہتی اور یگانگت میں خلل پڑنے کا ذرا بھی احتمال ہو تو وہ اس تحریک کی خامیوں کو یا تو دور کرے یا اس سے دست بردار ہوجائے، ایک اسلامی قائد کی شان یہ ہے کہ اس کی کسی بات سے کسی مسلمان کے تلوے میں چبھن محسوس ہو تو وہ اس کی چبھن کو تلوے کی جگہ اپنے دل میں محسوس کرے۔
اس قسم کی بحث ہوتی رہے گی مگر اب مولانا ابوالاعلیٰ مودودی وہاں ہیں جہاں ان سے پہلے اسلام کے بڑے بڑے مفکرین جاچکے ہیں، وہ اپنے پیچھے اپنی نظر و فکر کا ایک خزانہ چھوڑگئے، مگر اپنے ساتھ اسلام کی وہ شیریں دیوانگی لے گئے ہیں، جس میں وہ زندگی بھر مبتلا رہے، ان کی تحریروں میں کہیں کہیں اسلام کی جوپسی ہوئی بجلیاں اور بکھری ہوئی تجلیاں ہیں وہ ان کے آخری سفر کی زاد راہ ہیں، وہ مضطرب اور بے قرار گھڑیاں جو انھوں نے اپنے مطمع نظر سے احیائے دین کی خاطر اپنی زندگی میں گزاریں، کیا عجب کہ عالم بالا میں رحمت الٰہی کے موتیوں کی لڑیاں بن جائیں، ان کا جنازہ دھوم سے اٹھا، بے شمار لوگوں نے ان کے جنازہ کی نماز پڑھی، علماء، صلحاء، اتقیاء اور اصفیاء نے ان کا ماتم کیا، دعا ہے کہ بارگاہ الٰہی میں بھی ان کو یہی حسن قبول عطا ہوا، آمین ثمہ آمین، اللھُم اغفرلہ وارحمہ۔ (صباح الدین عبدالرحمن، اکتوبر ۱۹۷۹ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...