Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > قاضی محمد عدیل عباسی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

قاضی محمد عدیل عباسی
ARI Id

1676046599977_54338210

Access

Open/Free Access

Pages

407

قاضی محمد عدیل عباسی
جناب قاضی محمد عدیل عباسی مرحوم کی رحلت کی خبر دارالمصنفین میں بہت ہی رنج و الم کے ساتھ سنی گئی، مرحوم قوم و ملت دونوں کے لیے بہت ہی مخلصانہ جذبات رکھتے تھے، وہ ایک اچھے خدمت گزارِ ملت کے ساتھ ہی بڑے سچے محبِ وطن بھی تھے، انھوں نے اپنی علمی سرگرمیوں سے یہ عملی نمونہ پیش کیا کہ ایک سچا مسلمان ہی سچا محبِ وطن ہوسکتا ہے۔ قاضی صاحب نے اردو، علی گڑھ اور مسلمانوں کی دینی تعلیم کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں وہ مدتِ مدید تک یاد رہیں گی۔ (صباح الدین عبدالرحمن، جون ۱۹۸۰ء)

قاضی محمد عدیل عباسی
جناب قاضی محمد عدیل عباسی کے انتقال کو کئی مہینے ہوگئے، دارالمصنفین سے ان کو جو اخلاص و تعلق تھا، اس کا تقاضا تھا کہ ان کے ذکر سے معارف خالی نہ رہے، اس لئے تاخیر کے باوجود اس تحریر کی اشاعت نامناسب نہ ہوگی۔
قاضی محمد عدیل صاحب کا تعلق ضلع بستی کے ایک کھاتے پیتے زمیندار گھرانے سے تھا مگر ابتداء ہی سے ان کا رجحان قوم پروری اور حب الوطنی کی تحریک کی جانب ہوگیا تھا، اس لئے کالج کی تعلیم چھوڑ کر وہ علمی سیاست میں داخل ہوگئے، ان کو اس میدان میں پنڈت جواہر لال نہرو، رفیع احمد قدوائی، مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا حفظ الرحمان وغیرہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، خلافت، ترک موالات اور ہندوستان چھوڑ دو، تحریکوں میں سرگرم حصہ لینے کی بنا پر وہ کئی بار جیل گئے۔
قاضی صاحب کی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے ہوا ان کو اس کا ذوق کان پور میں مولانا حسرت موہانی مرحوم کی صحبت میں پیدا ہوا، پھر وہ مشہور قوم پرور اخبار مدینہ بجنور اور زمیندار لاہور سے وابستہ ہوئے، زمیندار اس زمانہ کا سب سے مقبول روزنامہ تھا اور مولانا ظفر علی خاں مرحوم کی ادارت میں شائع ہوتا تھا، قاضی صاحب کے قلم سے اس میں ایسے مضامین نکلے جن پر وہ برطانوی حکومت کے زیر عتاب آگئے اور ایک سال تک لاہور سنٹرل جیل میں قید رہے۔
اس کے بعد وہ اپنی ادھوری تعلیم مکمل کرنے کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے، ایم۔ اے اور ال۔ ال۔ بی کی ڈگری لی۔ ۱۹۲۶؁ء سے بستی میں وکالت شروع کی، اس پیشہ میں بہت نیک نام اور کامیاب تھے، وکالت کے ساتھ ان کو پبلک کے کاموں سے بھی دلچسپی رہی کئی برس تک بستی میونسپل بورڈ کے چیرمین رہے۔ ۱۹۳۷؁ء میں پہلی دفعہ صوبائی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، اور ۱۹۵۷؁ء تک برابر ممبر منتخب ہوتے رہے، اس کے بعد اس کوچہ کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہہ دیا۔
اردو سے ان کو عشق تھا، اس کے لئے وہ عمر بھر جہاد کرتے رہے، آزادی کے بعد جب قوی حکومت نے اس کے ساتھ معاندانہ اور غیرمنصفانہ رویہ اختیار کیا تو وہ اسمبلی کے اندر اور باہر اس کے لئے آئینی و دستوری لڑائی لڑتے رہے، کانگریس میں رہ کر بھی وہ اس کے تنگ نظر، متعصب اور فرقہ پرست عناصر سے نبرد آزما رہتے اور بڑی جرأت و بیباکی کے ساتھ کانگریس کی اردو دشمن پالیسی کی مخالفت کرتے، وہ اردو کی دستخطی مہم میں بھی پیش پیش رہے اور اس وفد میں شریک ہوئے جس نے صدر جمہوریہ ہند بابو راجندر پرشاد کو ڈاکٹر ذاکر حسین خاں مرحوم کی قیادت میں اکیس لاکھ افراد کے دستخطوں سے میمورنڈم پیش کیا تھا، اردو کا حق منوانے اور اس کو علاقائی زبان تسلیم کرانے کے لئے ان کی جدوجہد آخر دم تک جاری رہی، اس سلسلہ میں انہوں نے بے شمار مضامین لکھے جن سے اردو تحریک کو بڑی قوت ملی، تیس برس تک وہ انجمن ترقی اردو کی مجلس عام کے بڑے سرگرم اور فعال رکن رہے۔
دینی تعلیمی کونسل اتر پردیش کی تشکیل و تاسیس قاضی صاحب کا بڑا اہم کارنامہ ہے۔ اس کی بدولت اس صوبہ کے گاؤں گاؤں میں مکاتب قائم ہوگئے ان مکاتب کے ذریعہ مسلمانوں کی نئی نسل کے دین و ایمان کی سلامتی، اسلامی تہذیب و روایات سے اس کی وابستگی اور اس کے ذہنی ارتداد سے محفوظ رہنے کا سامان فراہم ہوا، انھوں نے مکاتب چلانے کے لئے چٹکی فنڈ اور کھلیانی جیسی اسکیمیں چلائیں اور سب سے پہلے اس کا تجربہ اپنے ضلع بستی میں کیا اور جب اس میں خاطر خواہ کامیابی ہوئی تو انہوں نے پورے صوبہ میں اس نظام کو بروئے کار لانے کے لئے بستی میں دسمبر ۵۹؁ء میں ایک دینی تعلیمی کانفرنس کی، جس میں تمام مختلف الخیال اشخاص اور جماعتیں شریک ہوئیں، بعد میں جمعیۃ علمائے ہند نے اس سے علیحدگی اختیار کرلی، لیکن اب بھی اس میں مسلمانوں کی اور دوسری جماعتیں اور مختلف مکاتب فکر کے افراد شامل ہیں اور الحمداﷲ اس وقت پورے صوبہ میں یہ تحریک کامیابی سے چل رہی ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی سب سے قیمتی متاع اور بیش بہا سرمایہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے، قاضی صاحب کو اس سے بڑا تعلق تھا، وہ یہیں کے تعلیم یافتہ تھے اور برسوں اس کی کورٹ کے ممبر بھی رہے تھے، اس کا اقلیتی کردار سلب کیا گیا تو قاضی صاحب کا خواب و خور حرام ہوگیا، اقلیتی کردار کو بحال کرنے کی جدوجہد شروع ہوئی تو وہ اس کے ہراول دستہ میں شامل ہوگئے اور اس کے متعلق بکثرت مضامین لکھے جن کا وزن پوری طرح محسوس کیا گیا۔
تصنیف و تالیف قاضی صاحب کا اصلی مشغلہ نہ تھا، لیکن وہ اچھے اہل قلم، ممتاز ادیب و انشا پرداز تھے، قلم برداشتہ لکھنے پر بھی قادر تھے، مضامین کے علاوہ حال ہی میں ان کی دوکتابیں بھی شائع ہوئیں۔ (۱)اقبال فلسفہ حیات و شاعری۔ (۲)تحریک خلافت دونوں کتابیں اہم ہیں مگر موخرالذکر بعض حیثیتوں سے متنازعہ فیہ ہوگئی ہے، ۶۸؁ء میں خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے گئے تو اس کا سفرنامہ بڑے والہانہ انداز میں لکھا جو کتابی صورت میں چھپا اور پر از معلومات ہونے کی وجہ سے بہت پسند کیا گیا۔
وہ بہت اچھے مقرر اور خطیب بھی تھے، ان کی تقریریں مربوط، مدلل، مؤثر اور قانونی ہوتی تھیں، دینی تعلیمی کونسل کے جلسوں میں ان کی تقریریں سننے کے لئے لوگ بہت شوق سے جمع ہوجاتے، ایک دفعہ اعظم گڑھ کی ضلعی کانفرنس میں انہوں نے دینی تعلیم کی ضرورت و اہمیت کی وضاحت ایسے دل نشین انداز میں کی کہ اب تک اس کا چرچا ہوتا رہتا ہے۔
وہ دھن اور ارادہ کے پکے اور عملی آدمی تھے۔ وہ جس کام میں لگ جاتے اس میں تن، من، دھن سب کی بازی لگادیتے، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، اردو اور دینی تعلیمی تحریک کے روح رواں تھے، ان کی سرگرمی اور قوت عمل نے ان تحریکوں میں بڑی حرکت و توانائی پیدا کردی تھی، وہ بہت بے لاگ اور کھرے بھی تھے، حق کے معاملے میں کسی قسم کی رو رعایت نہ کرتے، جس بات کو غلط سمجھتے اس کی برملا تردید کرتے۔
وہ بڑے قوم پرور تھے، ہندو فرقہ واریت کی طرح مسلم فرقہ واریت سے بھی نبرد آزما رہتے تھے، لیکن ان کا دل دینی حمیت، ایمانی غیرت اور ملی درد سے معمور تھا، نیشنلسٹ مسلمانوں کے طبقہ میں دین و ملت کا ایسا درد رکھنے والے بہت کم لوگ ہوں گے، انھوں نے قوم پروری کو ایمانی و ملی غیرت پر کبھی غالب نہ آنے دیا، انہوں نے ثابت کردیا کہ ایک سچا مسلمان ہی محب وطن ہوسکتا ہے، ان کو رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بڑی عقیدت و محبت تھی، ۱۹۶۵؁ء میں دارالمصنفین کی طلائی جوبلی کے ایک جلسہ میں پاکستان کے دپٹی ہائی کمشنر جناب افضل اقبال نے انگریزی میں تقریر کی جو عام طور پر پسند کی گئی مگر قاضی صاحب کو اس سے اس بنا پر سخت تکدر ہوا کہ فاضل مقرر نے آنحضرتﷺ کا اسم مبارک جس عقیدت اور احترام سے لینا چاہئے تھا نہیں لیا۔ اس کی شکایت انہوں نے مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی ناظم دارالمصنفین سے بھی کی اور اس کے خلاف قومی آواز لکھنؤ میں مراسلہ بھی لکھا۔
انھوں نے کبھی اپنی خدمت کا کوئی صلہ اور معاوضہ نہیں حاصل کیا، بلکہ ہمیشہ ٹھوس اور خاموش خدمت کو نام و نمود پر ترجیح دیا، ان کی موت سے اس دور کا خاتمہ ہوگیا، جس میں سیاست داں ملک، قوم اور ملت کی خدمت محض خدمت و ایثار کے جذبہ سے انجام دیتے تھے اور اس میں کسی ذاتی مفاد اور غرض کو دخل نہ ہوتا تھا، اﷲ تعالیٰ قوم و ملت کے اس خدمت گزار کے ساتھ رحمت و مغفرت کا معاملہ کرے۔ آمین!!
(ضیاء الدین اصلاحی، جولائی ۱۹۸۰ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...