Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > شاہ آفاق احمد ردولوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

شاہ آفاق احمد ردولوی
ARI Id

1676046599977_54338211

Access

Open/Free Access

Pages

409

حضرت شاہ آفاق احمد ردولویؒ
درگاہ شریف، ردولی۔
محترمی! تسلیمات
خدا کرے آپ کا مزاج اچھا ہو، اس سے پہلے بھی میں دو خط آپ کو تحریر کرچکا ہوں مگر جواب سے محروم ہوں۔ خدا معلوم وہ خطوط آپ تک پہنچے بھی یا نہیں، میرے حقیقی ماموں حضرت شاہ آفاق احمد سجادہ نشین درگاہ شیخ العام ردولی شریف کا ۲۵؍ جولائی ۸۰؁ء کو اچانک میڈیکل کالج لکھنؤ میں قلبی دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا، ان کو پہلا دورہ ردولی شریف میں پڑا تھا اس کے بعد تین دورے میڈیکل کالج لکھنؤ میں پڑے، ڈاکٹروں نے پیس میکر لگانے کو کہا وہ بھی لگادیا گیا۔ مگر موت کے آگے اور خداوند عالم کی مرضی کے آگے کوئی اختیار نہیں چلتا، چونکہ اکثر بیشتر وہ آپ کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے اسی لئے ان کی بیماری کی اطلاع بھی ۳۰؍ جون کو آپ کو اور وسیم الحسن صاحب کو بھی دے دی تھی، اس کے بعد ۲۸؍ جولائی کو انتقال کی بھی خبر تحریر کردی تھی، اسی سال عرس شریف کی ۱۴؍ تاریخ کی شب کی محفل میں اپنے بڑے صاحبزادے تمیم میاں صاحب مرحوم جن کا بھی اچانک بقرعید میں انتقال ہوا تھا ان کے بڑے صاحبزادے نیرمیاں کی دستار بندی اپنے ہاتھوں کردی تھی اور خرقہ شریف بھی انہیں کو پہنا دیا تھا، چونکہ نیرمیاں ابھی طالب علم ہیں اور بی۔کام کررہے ہیں، اس لئے ماموں صاحب مرحوم نے اپنے چھوٹے صاحبزادے حسین میاں کو نیرمیاں کا ولی اور سرپرست مقرر کردیا ہے، جو نیرمیاں کی جگہ پر سجادگی کے فرائض انجام دے رہے ہیں، مگر ابھی دونوں صاحبزادگان بچے ہیں آپ حضرات ہی ان کے سرپرست اور بزرگ ہیں، اس کم عمری میں ان کے اوپر اتنی بڑی ذمہ داری آپڑی ہے، لہٰذا آپ حضرات کی شفقت دیرینہ ہی ان کی تسلی کا باعث ہوگی، چہلم کی فاتحہ ۴؍ ستمبر کو ہوگی جس کی اطلاع روانہ کروں گا، مجھے امید ہے آپ حضرات اپنے قیمتی وقت میں سے تھوڑا سا وقت نکال کر اور یہاں تشریف لاکر شکریہ کا موقع دیں گے جس سے ہماری تسلی بھی ہوگی۔
آپ حضرات ماموں صاحب کے لئے دعائے مغفرت فرمائیں۔ سوگوار
شاہ اخلاق احمد صابری درگاہ شریف رودولی
افسوس ہے کہ ڈاک کی خرابی کی وجہ سے شاہ اخلاق احمد صاحب صابری کے خطوط یہاں نہیں پہنچ سکے، اخبار میں اس سانحہ کی خبر پڑھی تھی، ایک تعزیتی خط جناب چودھری محمد اویس رئیس رودولی کو لکھا، لیکن وہ بھی بہت دیر سے وہاں پہنچا، جناب شاہ آفاق احمدؒ صاحب سے بڑا ذاتی اور گہرا تعلق رہا، ان سے نیاز جناب شاہ معین الدین احمد صاحب ندوی مرحوم کے حسن و ساطت سے ہوا جو خود اس خانقاہ کے اولین بزرگ اور سلسلہ چشتیہ صابریہ کے فخر سلسلہ حضرت شاہ احمد عبدالحق رودولوی کے خاندان کے چشم و چراغ تھے اودھ میں اس خانقاہ سے بڑے فیوض و برکات پہنچے، خدا جانے کتنے رہروانِ سلوک اور تشنگان معرفت نے یہاں آکر اپنی پیاس بجھائی اور انوار و تجلیات سے فیض یاب ہوئے۔
اسی خانقاہ کی آبرو شاہ آفاق احمد صاحبؒ تھے۔ جن کو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ پانی ہوتا ہے، ایک بار دارالمصنفین بھی تشریف لائے تھے۔ گفتگو کرتے تو معلوم ہوتا کہ کوئی عندلیب چہچہا رہا ہے، ان کی شیوہ بیانی اور شیریں کلامی سے مجلس کے حاضرین بے حد محظوظ ہوئے اور جب کبھی رودولی جانے کا اتفاق ہوا اور ان کی قدم بوسی کے لیے حاضر ہوا تو ایسا معلوم ہوتا کہ اپنا کوئی محبوب اور شفیق عزیز گلے لگا رہا ہے۔ پیشانی پر بوسے دے رہا ہے اور دل کی ساری کیفیتوں کو اپنے سینہ سے میرے سینہ میں منتقل کررہا ہے۔ خاطر تواضع کی کوئی کسر اٹھانہ رکھتے، کھانے پر بلاتے، کھانے کا وقت نہ ہوتا تو پرتکلف چائے پر مدعو کرتے، اس کا بھی موقع نہ ہوتا تو رودولی کی مشہور مٹھائیاں ساتھ کردیتے۔
ان کے یہاں طعام سے زیادہ ان کے کلام میں لذت محسوس ہوتی، ایسی اچھی گفتگو کرنے والا شاید ہی اس صوبہ میں کوئی ہو، تصوف و سلوک پر گفتگو کرتے تو اس کو فارسی اور اردو کے اشعار سے اس طرح مزین کردیتے کہ جو گھتیاں تصوف کے نکات سے حل ہوتی نظر نہ آتیں، وہ ان کے برجستہ اشعار کے پڑھ دینے سے حل ہوجاتیں، فارسی اور اردو کے اشعار ان کی نوک زبان پر ہوتے اور وہ سب کے سب اعلیٰ درجہ کے معیاری ہوتے، جلال لکھنوی کے بے حد قائل تھے، اور اگر یہ کہا جائے کہ ان کا پورا کلام ان کو حفظ تھا تو مبالغہ نہ ہوگا۔ مولانا عبدالسلام ندوی مرحوم نے جلالؔ لکھنوی پر ایک مضمون لکھا تھا۔ میں نے ان سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے خاص طور پر معارف کا پرچہ منگواکر پڑھا پڑھ کر مجھ سے خط لکھا کہ ’’مضمون تو اچھا ہے مگر جلال کی شاعری کے بہت سے رموز و نکات اس میں نہ آسکے ہیں‘‘۔
رودولی کے عرس کے موقع پر جو محفل سماع ہوتی ہے، اس کے متعلق جناب شاہ معین الدین احمد ندوی صاحب مرحوم فرماتے کہ ایسی آراستہ پیراستہ، مہذب اور متین محفل کہیں نہیں دیکھی جاتی اور اس میں جو نعتیں غزلیں اور نظمیں پڑھی جاتی ہیں وہ بہت ہی اعلیٰ معیار کی ہوتی ہیں، اس روایت کو جناب شاہ آفاق احمد مرحوم نے نہ صرف باقی رکھا بلکہ اونچا کرنے کی کوشش کی۔
جناب شاہ معین الدین شاہ آفاق احمد صاحب سے سن میں بڑے تھے اس لیے ان سے بزرگانہ طور پر پیش آتے اور مجھ سے کئی بار کہا کہ آفاق کا دل چیر کرکے دیکھا جائے تو اس میں گلاب کی پنکھڑیوں کی نکہت بیزی اور عطرفشانی محسوس ہوگی اور سچ تو یہ ہے کہ وہ اس وقت اپنی خانقاہ کی آبرو بنے ہوئے تھے، بلکہ رودولی کو ان کی ذات مبارک کی وجہ سے افتخار و وقار حاصل تھا، ردولی کا شاید ہی کوئی ایسا آدمی ہو جس کو ان کی زبان سے کوئی تکلیف پہنچی ہو۔ سجادہ نشینی کے فرائض ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہر شخص کے کچھ نہ کچھ کام آتے، دلجوئی اور دلنوازی تو ان کے خمیر میں داخل تھی، انھوں نے بڑی باغ و بہار طبیعت پائی تھی، اس میں تو ان کی روحانی مسرتوں کا چمنستان آباد ہونا چاہئے تھا، مگر ان کی زندگی میں دو المناک حادثے پیش آئے ایک تو ان کے عزیز ترین بھائی اور دوسرے ان کے فرزند اکبر کی المناک موت، جن کا غیر معمولی اثر ان پر پڑا تھا ان کے صاحبزادے کی وفات کی خبر سن کر رودولی گیا تھا، مگر دیر کرکے پہنچا تھا۔ وہ کہیں باہر تشریف لے گئے تھے۔ اس لئے ان سے نیازنہ حاصل ہوسکا تھا۔ جس کا فلق اب زندگی بھر رہے گا۔
جناب شاہ معین الدین احمد صاحب ندوی کی وفات سے میں بے حد متاثر تھا، ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے رودولی گیا، جناب شاہ آفاقؒ کے آستانہ پر بھی پہنچا، گلے سے لپٹ کر پہلے تو یہ مصرعہ پڑھا،
؂ اک عمر کا ساتھی چھوٹا ہے، صبر آتے آتے آئے گا
پھر دوسرا شعر یہ پڑھا:
یہ گیتی گرکسے پایندہ بودے ابوالقاسم محمدؐ زندہ بودے
ان کے پڑھنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ ایسا معلوم ہوا کہ اس سے بڑھ کر کوئی اور تسکین نہیں دے سکتا، وہ وہاں جاچکے ہیں، جہاں سب کو جانا ہے لیکن رودولی کے درودیوار ان کو کبھی نہ بھولیں گے اور رودولی ہی کے لوگ نہیں بلکہ ان کے ملنے والوں کا جو وسیع حلقہ تھا ان میں سے ہر ایک ان کو یاد کرکے بے اختیار کہے گا:
؂ جب نام تیرا لیجئے تب اشک بھر آوے
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کی نیکیوں، ان کی خوبیوں کی وجہ سے ان کو اپنی رحمت کے کوثر اور مغفرت کی تسنیم سے سیراب کرے، آمین! (صباح الدین عبدالرحمن، ستمبر ۱۹۸۰ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...