Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا محمد اکبر ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا محمد اکبر ندوی
ARI Id

1676046599977_54338212

Access

Open/Free Access

Pages

410

مولانا محمد اکبر ندوی
(پروفیسر مسعود حسن)
یہ خبر انتہائی افسوس کے ساتھی سنی جائے گی کہ مولانا محمد اکبر ندوی سابق ریڈر شعبہ عربی و فارسی کلکتہ یونیورسٹی ۱۵؍ رمضان المبارک ۱۴۰۰؁ھ کو صبح کے وقت ۳۰:۹ بجے اس دار فانی سے عالم جاودانی کو سدھارے۔ اناﷲ وَانا اِلیہ رَاجعُون۔ ان کی وفات سے مغربی بنگال میں عربی زبان کے ایک ممتاز ادیب ایک مستند عالم دین اور استادوں کے استاد کی جگہ خالی ہوگئی۔ راقم الحروف کے لیے ذاتی طور پر یہ حادثہ ایک بہت بڑا سانحہ ہے کیونکہ ان کی موت کے بعد اس کے اساتذہ میں اب کوئی زندہ نہیں رہا۔ اس کے مدرسہ، اسکول کالج اور یونیورسٹی کے استاد سب کے سب اﷲ کو پیارے ہوگئے۔ اس کی علمی رہنمائی کے لئے ایک آخری شمع رہ گئی تھی، موت نے اسے بھی چھین لیا۔
مولانا محمد اکبر ندوی کا وطن مالوف ناگپور تھا۔ مگر عرصہ سے ترک وطن کرکے کلکتے میں مقیم تھے۔ ان کی اعلیٰ تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ہوئی تھی، وہ مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم کے ہم جماعت تھے، طالب علمی کے زمانے میں ان کی عربی خطابت اور عربی انشاء ندوہ میں مشہور تھی۔ فرماتے تھے کہ طلبہ کے ایک جلسے میں ان کی ایک عربی تقریر علامہ سید سلیمان ندویؒ کو اس قدر پسند آئی کہ انھوں نے جیب خاص سے انعام مرحمت فرمایا۔ عربی انشاء پردازی میں مسعود عالم صاحب سے ٹکر ہوتی تھی، ندوہ سے فراغت پاکر کلکتہ آگئے، اور اسلامیہ کالج سے بی۔ اے کیا۔ پھر کلکتہ یونیورسٹی سے عربی اور فارسی دونوں میں ایم اے کی ڈگری لی، اور ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی مرحوم کے ارشد تلامذہ میں شمار ہونے لگے۔
مشرقی بنگال کے ایک بڑے کالج میں ایک بڑی اونچی جگہ ملی اور بڑی خوشامدیں ہوئیں، مگر اپنے استاد ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی مرحوم کے حکم کی تعمیل کی، اس عہدہ کو قبول نہیں کیا، اور کلکتہ یونیورسٹی میں لکچرر کی جگہ پر قانع رہے۔
راقم کو ان کی شاگردی کا شرف کلکتہ یونیورسٹی میں ۱۹۴۱؁ء میں ایم۔ اے میں حاصل ہو۔ یہ مولانا کی زندگی کا سنہرا دور تھا۔ بلندوبالا قدوقامت، قابل رشک جسمانی صحت، بڑے سلیقے سے سلی ہوئی شیروانی، سر پر مخمل کی رامپوری ٹوپی، کلاس میں اس سج دھج کا بڑا اچھا اثر پڑتا تھا۔ میں نے المرزبانی (متوفی ۳۸۴؁ھ) کی الموشح ان سے سبقاً سبقاً پڑھی، وہ باتوں ہی باتوں میں بہت سی ادبی نکتے بیان کردیتے تھے۔ یہ زمانہ کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ عربی و فارسی کا عہد زریں تھا۔ ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی صدر شعبہ تھے، ڈاکٹر محمد اسحق، پروفیسر محمد محفوظ الحق اور مولانا فضل الرحمن باقی جیسے دانشور اور فضلائے روزگار درس دیا کرتے تھے۔ خدا تعالیٰ ان مرحوموں کی تربت پر اپنی رحمت کے پھول برسائے، اکبر صاحب نے ان بزرگوں کے ساتھ کام کیا، اور کم و بیش ۴۰ سال تک پہلے لکچرر اور پھر ریڈر کی حیثیت سے درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ہندوستان اور پاکستان میں شاگردوں کی ایک بڑی تعداد بطور یادگار چھوڑ گئے، اس وقت کلکتہ یونیورسٹی کے شعبہ عربی و فارسی میں بشمول صدر شعبہ جناب ڈاکٹر عطا کریم صاحب برق سبھی ان کے حلقہ شاگردی میں داخل ہیں۔ ایک کلکتہ یونیورسٹی پر کیا منحصر ہے، مغربی بنگال کی تمام درسگاہوں میں جہاں عربی اور فارسی کی تعلیم کا انتظام ہے ان کے شاگرد تعلیم و تدریس کی مسندوں کی زینت ہیں۔
یک چراغیست دریں خانہ کہ ازپر تو آں
ہر کجا می نگری انجمنے ساختہ اند
افسوس ہے کہ ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ اکبر صاحب کو چند حادثوں اور ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا جن سے ان کی زندگی میں ایک بڑا انقلاب آگیا، نہ وہ پہلی سی شگفتگی رہی۔ نہ وہ پہلی سی رعنائی۔ انھیں اچھا کھانے اور اچھا پہننے کا بے حد شوق تھا، حتی کہ اس شوق کی تکمیل کے لئے اپنی آمدنی کی بھی پروا نہیں کرتے تھے، پہننے کا شوق ختم ہوا۔ اب وہ الفقرفخری کی جیتی جاگتی تصویر بن گئے تھے، زیادہ تر وقت تسبیح و تہلیل اور وظائف میں گزارتے تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت وہ بڑی پابندی سے کرتے تھے، چنانچہ جس صبح کو پیغام اجل آپہنچا اس صبح کو بھی معمول کے مطابق فجر کی نماز کے بعد تلاوت قرآن سے فارغ ہوچکے تھے۔ اخیر زندگی میں خاص طور پر استغفار، توکل علی اﷲ، مالی منفعت سے بے پروائی اور نام و نمود سے بے نیازی ان کا طرۂ امتیاز بن گیا تھا۔ جن سے احباب اور رفقائے کار کے حلقوں میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ میں نے بارہا دیکھا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے پروفیسر روم میں داخل ہوتے تو ’’شہنشاہ اکبر‘‘ اور ’’اکبر دی گریٹ‘‘ کی صداؤں کے ساتھ ان کا خیر مقدم ہوتا اور ان کے لئے کوئی ممتاز جگہ خالی کی جاتی۔
استاذ مرحوم سے میری آخری ملاقات جولائی کے دوسرے ہفتہ میں ہوئی تھی، کئی دن پہلے ان کی اہلیہ محترمہ کا انتقال طویل علالت کے بعد ہوگیا تھا۔ میں ان کے اور اپنے شاگرد مولوی محمد شہید اﷲ لکچرر شعبہ عربی و فارسی کلکتہ یونیورسٹی کو ساتھ لے کر تعزیت کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ ہم دونوں سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ ان کے چہرے پر ایک پراسرار طمانیت تھی۔ ہم دونوں نے محسوس کیا کہ اس بظاہر ساکن سطح کے اندر غم و الم اور فکر و اضطراب کا ایک پرشور سمندر متلاطم ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ وقت کیسے گزرتا ہے؟ تو فرمایا: اب تو فرصت ہی فرصت ہے۔ پہلے تیمارداری میں وقت گزر جاتا تھا۔ اس وفا پرست شوہر کی وفاشعاری دیکھئے کہ پندرہ دن کے اندر ہی رفیق حیات سے جاملے۔
خداوندا اپنے اس پیارے بندے کی آخری آرام گاہ کو اپنے ابر رحمت سے سیراب کر، اور اسے جنت میں بزرگوں کا مقام عطا کر۔
سقیٰ مثواک غاد فی الغوادی
نظیر نوال کفک فی النوال
(ستمبر ۱۹۸۰ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...