Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ظفر احمد صدیقی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ظفر احمد صدیقی
ARI Id

1676046599977_54338213

Access

Open/Free Access

Pages

411

ظفر احمد صدیقی مرحوم
( ڈاکٹر محمد اشتیاق حسین قریشی)
۴؍ اکتوبر ۱۹۸۰؁ء کو جناب ظفر احمد صدیقی وکیل، سکریٹری دینی تعلیم کونسل کا انتقال اپنے آبائی وطن راما بھاری تحصیل بسواں ضلع سیتاپور میں ۳۰:۷ بجے صبح کو طویل علالت کے بعد ہوگیا، دفتر دینی تعلیمی کونسل لکھنو میں وہ حضرت مولانا علی میاں صاحب کے ایماء پر ۵۹؁ء سے مقیم تھے، یہ ایک طرح سے ان کا وطن ثانی بن گیا تھا، اپنی وفات سے ۴۸ گھنٹے پہلے اس حال میں رخصت ہوئے تھے کہ انہیں ہوش نہیں تھا، بلڈ یوریا کی وجہ سے ایک ہفتہ سے غفلت تھی، احباب اور رفقاء نے اسی وقت یہ سمجھ لیا تھا کہ برسوں کا یہ تھکا ہوا مسافر اور ساتھی اب لکھنؤ واپس نہیں آئے گا، سیتاپور سے فون پر اطلاع ملی، وہ سب سے جدا ہوکر اﷲ کو پیارے ہوگئے، ان کی اہلیہ کا انتقال سال بھر پہلے ہوچکا تھا، اولاد کوئی نہیں تھی، بھتیجوں کو اولاد سمجھتے رہے، جن کو اپنی نگرانی میں تعلیم دلائی، ان کے حقیقی بھائی کا قیام رامابھاری میں ہے، جہاں ان کا خاندان صدیوں سے آباد ہے۔
ظفر صاحب نے تعلیم مسلم یونیورسٹی میں پائی، ان کا قیام میکڈانلڈ ہوسٹل میں تھا، تعلیم کے بعد سیتاپور میں وکالت شروع کی ان کا شمار وہاں کے کامیاب وکیلوں میں تھا، ۴۷؁ء سے پہلے مسلم لیگ سے وابستہ رہے، تبلیغی کاموں سے بھی شغف رکھا، لیکن جب قاضی محمد عدیل عباسی مرحوم نے ۵۹؁ء میں بستی میں بچوں کی تعلیم کے سلسلہ میں کنونشن کیا اور وہاں یہ فیصلہ ہوا کہ اس سلسلہ میں مستقل کام کی ضرورت ہے، تو حضرت مولانا علی میاں صاحب کے ایماء پر ظفر صاحب نے اپنی کامیاب وکالت چھوڑ دی اور دینی تعلیمی کونسل کے کاموں کے لئے اپنے کو وقف کردیا، پھر ان کو ایسی لگن پیدا ہوئی کہ اپنے کھانے پینے کی فکر زیادہ نہ کرتے، خود ہی اسٹوو پر کوئی چیز تیار کرلیتے اور روٹی بازار سے منگالیتے، اسی کو کھاکر اکتفا کرلیتے، صبح کی چائے بھی خود ہی تیار کرلیتے اور اپنے مہمانوں کی بھی اس سے ضیافت کرتے، اپنی ان دشواریوں کا اظہار کبھی کسی سے نہیں کیا، اس طرح انھوں نے ۲۱ سال جس بے نفسی، جاں فشانی، فرض شناسی اور دل سوزی سے وقت گزارا اس کی مثال ملنی مشکل ہے، جناب شفیق الرحمن ایڈوکیٹ نے ان کو پیش کش کی کہ اگر وہ لکھنؤ میں کمشنری کے مقدمات لے لیا کریں تو معقول آمدنی ہوجایا کرے گی، انھوں نے معذرت کی کہ جو چیز چھوڑ دی اس کو پھر اختیار کرنا صحیح نہیں، کونسل میں بڑھتی ہوئی گرانی کی وجہ سے ان کے الاؤنس میں اضافہ کا مسئلہ آیا تو انھوں نے اپنے جذبہ ایثار سے اضافہ منظور نہیں کیا۔
وہ اپنے اوقات کے بہت پابند تھے، عشا کے بعد فوراً سوجاتے، تہجد کے سختی سے پابند رہے، سفر ہو یا قیام، بیماری ہو یا صحت، جلسے ہوں یا کنونشن، ہرحال میں اس کی پابندی کرتے، ذکر سے بھی شغل رکھتے، صبح کو ہلکے سے ناشتہ کے ساتھ چائے پی کر اخبار پڑھتے، تعلیمی سلسلہ کی کوئی بات اخبار میں پڑھ لیتے تو اسی وقت قلم برداشتہ ایک مضمون لکھ ڈالتے، ان کا خط اچھا نہیں تھا، اکثر کہتے کہ میں خود اپنا لکھا مشکل سے پڑھ رہا ہوں، انگریزی اور اردو زبانوں میں لکھنے پر یکساں قدرت رکھتے، عبارت آرائی بالکل نہیں کرتے، لیکن ٹھوس حقائق سے مسئلہ کو واضح کرتے، دینی تعلیمی کونسل اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے متعلق اہم لٹریچر ان ہی کا تیار کیا ہوا ہے، ۶۵؁ء کے بعد علی گڑھ کے جتنے معاملات اٹھے ان کا وہ گہرا مطالعہ کرتے رہے مرتے دم تک وہ اس محاذ پر بڑی مردانگی اور پامردی سے جمے رہے، حکومت نے مسلم یونیورسٹی سے متعلق جو بھی قانون بنایا، اس کی موشگافیوں میں انھوں نے ہندوستان کے چوٹی کے ماہرین قانون سے ٹکرلی اور کبھی کسی موقع پر آنکھ نہیں جھپکائی، علی گڑھ سے متعلق کوئی چیز ان کے مشوروں کے بغیر مرتب نہیں ہوتی تھی، سب کو ان پر مکمل اعتماد تھا، مسلم یونیورسٹی کے اولڈ بوائے ہونے کی حیثیت سے اس کے لئے وہ جس طرح سینہ سپر رہے، وہ اس یونیورسٹی کی نئی نسل کے لئے ایک اعلیٰ نمونہ ہے، انھوں نے اس کے لئے برابر جہاد باللسان اور جہاد بالقلم کیا، اس سے متعلق حکومت کی پرپیچ حکمت عملی کو واشگاف کرنے میں ان کو بڑی مہارت تھی، ان ہی کی تحریروں کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمان یونیورسٹی کے مسئلہ کو اس کے اصلی اور حقیقی پس منظر میں سمجھتے رہے۔
وہ دارالعلوم ندوہ کے بھی قانونی مشیر تھے، مسلم پرسنل لابورڈ، مسلم مجلس مشاورت، مسلم مجلس، دینی تعلیمی کونسل، مسلم مائناریٹیز ایسوسی ایشن، ہر جگہ ان کی قانونی مہارت سے فائدہ اٹھایا جاتا، شفیق الرحمن صاحب ایڈوکیٹ کنونیر مسلم یونیورسٹی ایکشن کمیٹی نے ان کی ان صلاحیتوں سے متاثر ہوکر ان کا نام مجلس شوریٰ کا صدر رکھ دیا تھا، وہ خود کم بولتے مگر بولتے تو حقائق ہی بولتے، نمایاں ہونے کی کوشش نہیں کرتے، عمر میں ان سے کوئی چھوٹا بھی اگر معقول رائے دیتا تو اسے فوراً قبول کرلیتے، وکیل تھے لیکن زیادہ بحث پسند نہیں کرتے، مقرر تو نہیں تھے، لیکن اپنی تقریروں میں جچے تلے الفاظ میں اپنی باتیں پیش کردیتے، شعرو شاعری کا ذوق نہیں تھا، لیکن اچھے شعر کا لطف لیتے اور برمحل شعر بھی پڑھ جاتے، چہرہ پرشب بیداری کی رونق اور سرخی دکھائی دیتی، ہونٹوں پر پان کی سرخی جمی رہتی، دعوتوں میں ان کے بے تکلف دوست ان کو میٹھا ٹکڑا کھانے پر اصرار کرتے لیکن وہ انکار کرتے، مگر دوستوں کے اصرار پر لطف و لذت سے کھانے پر آمادہ ہوجاتے، ان کو آم اور جامن بھی پسند تھے، وہ غلہ گھر ہی سے منگاتے، ایک مرتبہ ان کا دلیا چارپائی پر دھوپ میں سوکھ رہا تھا، گائے آکر کھا گئی، انھوں نے اپنی معصومیت میں اس کا ذکر اپنے دوستوں سے کیا تو یہ مستقل موضوع بنارہا، سفر میں شفیق الرحمن صاحب کا ان کا ساتھ ہوتا تو جونیر ہونے کے ناطے سارے فرائض ان ہی کو انجام دینے پڑتے۔ چائے، پان، حقہ اور اخبار وغیرہ کی فراہمی کا انتظام ان کے ذمہ ہوتا، شفیق الرحمن صاحب کی ڈانٹ ڈپٹ بھی جاری رہتی، مگر یہ دو پیاروں کی باتیں ہوتیں، دونوں میں بے حد محبت تھی، دونوں صبح شام ملتے، شفیق الرحمن صاحب ان کا محاسبہ کرتے ہوئے کہتے کہ اپنی قیمتی رائے گھوڑے پر ڈال دیتے ہو، ظفر صاحب ہنس کر جو جواب دیتے اس میں اخلاص اور محبت کے آبدار موتی چمکتے ہوئے نظر آتے، یہ پر کیف اور بے تکلف مجلسیں اب اشکبار آنکھوں کے ساتھ یاد آئیں گی، ظفر صاحب نے شفیق الرحمن صاحب کو تھرڈ کلاس میں کہہ کر سفر کرانا شروع کیا کہ ملت کا کام کرنا ہے تو تھرڈ کلاس میں سفر کرنا پڑے گا اور مسجد کی چٹائی پر لیٹنا ہوگا، میں ان کو مجسم تقویٰ کہتا، جب کبھی ان کے ساتھ سفر کیا تو ان کی کفایت شعاری کا سارا منظر دیکھنے میں آتا، سفر کے بعد فوراً حساب پیش کردیتے، کنجی ان کے ازار بند میں بندھی ہوتی، سفر میں ان کا جھولا ساتھ ہوتا تھا، جس میں ماہرین قانون کی رائے، قانون کی کتابیں، ڈبیا، بٹوہ، اور ضرورت کا سارا سامان ہوتا، چند منٹ کے نوٹس پر وہ سفر پر روانہ ہوسکتے تھے، دو مرتبہ پہلے بھی فالج کا اثر ہوچکا تھا، علاج سے ٹھیک ہوگئے تھے، میں نے سفر سے منع کررکھا تھا، لیکن مسلم یونیورسٹی کے مسئلے میں بے تاب ہوکر اچانک دہلی کا سفر کیا، پھر جو پڑے تو سنبھلے تو ضرور لیکن بائیں ہاتھ اور بائیں پاؤں پر مستقل اثر رہا، اور رفتہ رفتہ معذور ہوگئے، ذہن آخر تک کام کرتا رہا لیکن صحت گرتی رہی۔
مسلم یونیورسٹی کے سلسلہ میں ان کی خدمت گنانے کے لئے ایک پوری کتاب درکار ہے، اقلیتی کردار کی اصطلاح ان ہی کی ایجاد ہے، جسے پورے ملک نے قبول کرلیا، طلبہ انہیں ظفر چچا کہتے، ان کی باتیں تسلیم کرنے میں تامل نہ کرتے، ایک بار مسلم یونیورسٹی میں ایک اسٹرایک ہوئی، اخبار میں خبر پڑھتے ہی ہم دونوں وہاں پہنچے، طلبہ نے ہماری مداخلت سے اسٹرایک ختم کردی، ظفر صاحب نے یونین میں جو تقریر کی اس سے طلبہ بالکل مطمئن تھے، مسلم یونیورسٹی کے سلسلہ میں شروع سے ہم لوگوں کی یہ کوشش رہی کہ تحریک علی گڑھ شہر اور مسلم یونیورسٹی کیمپس کے اندر نہ رہے بلکہ ملک کے دوسرے حصوں میں چلائی جائے تاکہ یونیورسٹی کو نقصان نہ پہنچے، بیگ کمیٹی کے مشہور رپورٹ کو مرتب کرنے میں ظفر صاحب کا بہت بڑا حصہ ہے، مسلمانوں کے تعلیمی مسائل اور تعلیمی جائزہ کے سلسلہ میں انھوں نے متعدد کتابچے، پھر اردو انگریزی میں بکثرت مضامین لکھے، وہ جب یاد آئیں گے تو ان کا خلوص، ان کے بے پایاں ایثار، ان کی بے نفسی، ملت کے لئے ان کی تڑپ اور درد مندی آنکھوں کے سامنے متحرک نظر آئے گی، وہ اپنے پیچھے بے لوث اور بے غرض خدمات کی ایک مثال چھوڑ گئے ہیں، جو کم از کم مسلم یونیورسٹی کی نئی نسل کے لئے مشعل راہ بن سکتی ہے، جناب عدیل عباسی کے فوراً بعد ان کا انتقال پوری ملت کا بہت بڑا سانحہ ہے، لیکن جن مضبوط بنیادوں پر انھوں نے اس تحریک کی بنیاد رکھی ہے، امید ہے کہ وہ قائم رہے گی نیا خون ملتا رہے گا، اور یہ کام برابر برگ و بار لاتا رہے گا، ظفر صاحب نے اپنی مخلصانہ خدمات کی جو مثال چھوڑی ہے، اﷲ تعالیٰ مسلم یونیورسٹی اور دینی تعلیمی کونسل کے خدمت گزاروں میں اس جذبہ کو دوام عطا کرے، اور ان کو آخرت میں اس کا بہترین اجر دے، آمین ثم آمین۔

معارف: جناب ظفر احمد صدیقی صاحب آج کل کی اصطلاح کے لحاظ سے تو بہت بڑے آدمی نہیں ہوسکے لیکن ان میں جو بے نفسی، بے غرضی اور ایثار پسندی تھی، اس لحاظ سے ان کی شخصیت میں بڑے پن کے پورے اوصاف تھے، مسلم یونیورسٹی کا ایسا جانثار مرد مجاہد مشکل سے کوئی ملے گا، جس لگن اور ایثار کے ساتھ انھوں نے اس یونیورسٹی کی خدمت کی وہ اپنی مثال آپ ہے، مگر دکھ کی بات ہے کہ اس یونیورسٹی کے لوگوں نے ان کی وہ قدر نہیں کی جس کے وہ واقعی مستحق تھے، ان کی علالت کے زمانہ میں راقم کو جناب محترم نواب عبیدالرحمن خان شیروانی کی معیت میں ان کی عیادت کرنے کا کئی بار اتفاق ہوا، دینی تعلیمی کونسل کے دفتر کے ایک معمولی کمرہ میں ان کو جس طرح پایا اس کو دیکھ کر انتہائی تکلیف ہوئی، بجلی کا بہت ہی معمولی پنکھا ان کے سامنے ہوتا، ان کی راحت کا سامان اس سے بھی زیادہ معمولی تھا، خیال آیا کہ مسلم یونیورسٹی کے اس مرد مجاہد کے لئے وہاں کے طلبہ اور اساتذہ کو اپنی ہرچیز ان پر نچھاور کردینا چاہئے تھی مگر یہ لوگ لکھنؤ آتے تو شاید ان کی عیادت کی بھی تکلیف گوارا نہ کرتے، اس کا بھی احساس ہے کہ اگر علی گڑھ کے لوگ ان کی مالی امداد کرنا بھی چاہتے تو وہ اپنی خودداری اور عزت نفس میں اس کو قبول کرنا پسند نہیں کرتے، مگر علی گڑھ کے طلبہ و اساتذہ اپنے نفس کا محاسبہ کریں کہ اپنے اس جان نثار مجاہد کے لئے ان کو کیا کرنا چاہئے تھا، اور کیا نہیں کیا، ان کی وفات کے بعد، ان کی خدمات کا صلہ شاید یہی ملا ہوگا کہ وہاں کے ڈرائنگ روموں کے صوفوں پر اور دوسری تفریحی باتوں کے سلسلہ میں چند لمحوں کے لئے ان کا بھی ذکر آگیا ہوگا، اس سے ہم کو اپنی ملت کی نفسیات کا اندازہ کرنا چاہئے، ہم میں آج کل اچھی قیادت نہیں ابھر رہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم اپنے مخلص کارکنوں اور رہنماؤں کی وہ قدر نہیں کرتے جس کے وہ واقعی مستحق ہوتے ہیں۔ (نومبر ۱۹۸۰ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...