Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا امتیاز علی خان عرشی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا امتیاز علی خان عرشی
ARI Id

1676046599977_54338214

Access

Open/Free Access

Pages

413

مولانا امتیاز علی خان عرشی
۲۴؍ ۲۵؍ فروری ۱۹۸۱؁ء کی درمیانی شب میں مولانا امتیاز علی خان عرشی کا حرکتِ قلب بند ہوجانے سے رام پور میں انتقال ہوگیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ وہ ممتاز اہل قلم، غالبیات کے ماہر اور رضا لائبریری رام پور کے ڈائرکٹر تھے، ان کی وفات علمی دنیا کا بڑا حادثہ ہے۔
عرشی صاحب کا خاندنی تعلق افغانستان کے یوسف زئی قبیلہ کی ایک شاخ حاجی خیل سے تھا، ان کے دادا مولانا اکبر علی خان محدث پیشہ آباسپہ گری چھوڑ کر علم و فضل کے کوچہ میں وارد ہوئے، ان کی علمی جانشینی ان کے ایک فرزند مولانا جعفر علی خاں کے حصہ میں آئی، اور سب سے چھوٹے صاحبزادے مختار علی خاں صاحب کی کم سنی ہی میں ان کا انتقال ہوگیا، اس لیے یہ تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکے، مگر ان ہی کے صاحبزادے مولانا امتیاز علی خان عرشی اس خاندان کے گل سرسبد ہوئے۔
امتیاز علی خان صاحب کی پیدائش ۸؍ دسمبر ۱۹۰۴؁ء کو ہوئی، انھوں نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد عربی قواعد اور فارسی کی درسی کتابیں مدرسہ مطلع العلوم میں پڑھیں اس زمانہ میں پنجاب یونیورسٹی کے مشرقی امتحانات کا بڑا چرچا تھا، ہونہار طلبہ ملک کے گوشہ گوشہ سے امتحانات دینے کے لیے لاہور جاتے تھے، عرشی صاحب نے ۱۹۲۳؁ء میں مولوی اور عالم کے امتحانات میں اول درجہ میں کامیابی حاصل کی، اس کے بعد مولوی فاضل کے امتحان کی تیاری کے لیے اورنٹیل کالج لاہور میں داخلہ لیا، یہاں مولانا نجم الدین، مولانا سید طلحہ اور مولانا عبدالعزیز میمن جیسے ہندوستان گیر شہرت رکھنے والے استاذوں کا طوطی بول رہا تھا، مولانا سید طلحہ کا تعلق حضرت سید احمد شہید بریلویؒ کے دودمانِ عالی سے تھا، عرشی صاحب کا خاندان سید صاحبؒ کا معتقد اور رام پور میں ’’وہابیت‘‘ کے لیے بد نام تھا، اس لیے وہ مولانا طلحہ سے زیادہ مانوس اور قریب ہوئے اور مولانا بھی اُن پر خاص شفقت فرماتے تھے۔
لاہور سے واپسی کے بعد انہوں نے مدرسۂ عالیہ رام پور میں داخلہ لیا اور مولانا فضل حق رامپوری سے معقولات کا درس لیا جو امام معقولات․․․․․․ مولانا فضل حق خیرآبادی کے شاگرد خاص تھے، پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے منشی فاضل کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا اور ۱۹۲۶؁ء میں صرف انگریزی میں انٹرنس کا امتحان دیا۔
تعلیم کا سلسلہ ختم ہوا تو ندوۃ العلماء لکھنؤ کی سفارت کی خدمت انجام دی، مگر جلدہی اس سے دل برداشتہ ہوگئے، ڈاکٹر سید عبدالعلی ناظم ندوۃ العلما ان کے کام سے مطمئن تھے۔ انہوں نے با اصرار روکا مگر عرشی صاحب نے استعفا واپس نہیں لیا۔
رامپور کا عظیم الشان کتب خانہ وہاں کے ریاستی حکمرانوں کی قابل فخر یادگار ہے جب ۱۹۳۲؁ء میں عرشی صاحب کو اس کی نظامت سپرد کی گئی، تو پھر وہ اسی کے ہو کر رہ گئے، اور اس کی خدمت، ترقی اور توسیع کے لیے اپنی زندگی ہی وقف کردی، انھوں نے اپنی سلیقہ مندی سے کتب خانہ کی تزیین و آرائیش اور جدید انداز پر اس کی ترتیب و تشکیل کر کے اسے ایسا ادارہ بنادیا جس سے ان کے بعد بھی لوگ مستفیض ہوتے رہیں گے، ان کو کتب خانہ سے ایسی دلچسپی ہوئی کہ انہوں نے پھر کسی جانب نگاہ اٹھانا بھی پسند نہیں کیا، ایک دفعہ ڈھائی ہزار ماہوار پر ایران و افغانستان کی ثقافتی سفارت انھیں پیش کی گئی، جس کو انہوں نے قبول نہیں کیا، اور کتب خانہ سے ملنے والے ڈھائی سو مشاہرہ ہی پر قانع رہے، وہ اس کے لیے اپنے مزاج کے خلاف دوسروں سے سوال کرنے میں بھی عار محسوس نہیں کرتے تھے، کرنل بشیر حسین زیدی صاحب مدتوں ریاست کے چیف منسٹر رہے، وہ فرماتے ہیں ’’جب سے میں چیف منسٹر ہوا ہوں کسی افسر شعبہ نے مجھے اتنا دق نہ کیا ہوگا، مجھ سے اتنے مطالبے نہ کئے ہوں گے جتنے عرشی صاحب نے، مگر سب کتب خانے کے لیے، اپنی ذات کے لیے ایک بھی نہیں‘‘۔
اس ایثار و قربانی اور کتب خانہ کی بے لوث خدمت نے ان کو شہرت کے بام عروج پر پہنچا دیا، پورے ملک میں ان کا علمی وزن محسوس کیا جاتا تھا، ان کو بڑے بڑے اعزاز و انعام سے نوازا گیا، ساہتیہ اکاڈمی کے علاوہ پریسیڈنٹ ایوارڈ بھی ملا، ان کی علمی خدمات کے اعتراف میں یادگاری مجلے پیش کئے گئے، وہ ملک کی اہم علمی کانفرنسوں میں مدعو کئے گئے، اور بیرونِ ملک بھی تشریف لے گئے۔
غالبیات عرشی صاحبب کی بحث و تحقیق کا خاص موضوع ہے، ۱۹۳۷؁ء میں انھوں نے مکاتیب غالب شائع کرکے اردو کے محققین اور غالبیات کے ماہرین کی صف اول میں اپنی جگہ بنالی اور تمام اصحاب علم و نظر کو اپنی طرف متوجہ کرلیا، اس میں انھوں نے مرزا غالب کے ان خطوط کو جمع کیا تھا، جو نواب یوسف علی خاں ناظم اور ان کے جانشین نواب کلب علی خان وغیرہ کے نام لکھے گئے تھے، عرشی صاحب کے مبسوط مقدمہ اور حواشی نے غالب کے خطوط میں چار چاند لگادیئے ہیں، ’’انتخابِ غالب‘‘ کی اشاعت بھی ان کا اہم ادبی و تحقیقی کارنامہ ہے، غالب نے ۱۸۶۶؁ء میں نواب کلب علی خاں کی فرمائش پر اپنے اردو فارسی کلام کا انتخاب کیا تھا، جو عرشی صاحب کے مقدمہ اور محققانہ حواشی کے ساتھ ۱۹۴۲؁ء میں شائع ہوا، فرہنگ غالب میں مختلف زبانوں کے لفظوں کی وہ تشریحات درج ہیں، جو خود غالب نے اپنی کتابوں میں کی تھیں یہ ۱۹۴۷؁ء میں چھپی ۱۹۵۸؁ء میں انہوں نے غالب کا تمام اردو کلام شایع کر کے ان کے قدر دانوں کو بیش قیمت علمی سوغات دی یہی دیوان غالب نسخہ عرشی کہلاتا ہے، اس میں غالب کے تقریباً تمام اردو اشعار آگئے ہیں، یہ تین حصوں پر مشتمل ہے: (۱)گنجینۂ معنی، (۲)نوائے سروش، (۳) یادگار نالہ۔
وہ زندگی بھر غالب کے متعلق تحقیق وجستجو کرتے رہے، اور ان پر درجنوں مضامین بھی لکھے اُن کی غالبؔ سے متعلق متعدد کتابیں اور تحریریں ابھی شائع نہیں ہوئی ہیں۔
عرشی صاحب کا موضوع غالبؔ ہی تک محدود نہ تھا، وہ شعر و ادب، سیرو تراجم، تاریخ و مذہب اور فلسفہ ہر چیز میں برق تھے، اور ان کا اشہبِ قلم اردو، فارسی اور عربی میں رواں دواں رہتا تھا، عربی میں ان کا مہتمم بالشان کارنامہ امام سفیان ثوری کی تفسیر کی دریافت و اشاعت ہے، اس کے عالمانہ مقدمہ اور محققانہ حواشی سے ان کی غیر معمولی کدو کاوش کا پتہ چلتا ہے، اس کے علاوہ بعض عربی دواوین اور ابوعبید قاسم بن سلام ہردی صاحب کتاب الاموال (م۲۲۴؁ھ) کا رسالہ اجناس بھی انہوں نے ایڈٹ کر کے شائع کیا تھا، فارسی میں وقائع عالم شاہی، تاریخ محمدی اور تاریخ اکبری وغیرہ کو منظر عالم پر لانے کا سہرا ان ہی کے سر ہے، ان کے تحقیقی کاموں میں ایک اہم چیز ’’نادرات شاہی‘‘ ہے، یہ خاندان مغلیہ کے آخری دور کے بادشاہ جلال الدین شاہ عالم ثانی کے فارسی، اردو اور ہندی کلام کا مجموعہ ہے، اس کی اشاعت سے پہلی دفعہ لوگوں کو اس مظلوم بادشاہ کی سخن سنجی اور ادب نوازی کا علم ہوا۔ عرشی صاحب نے مقدمہ میں اس کے حالات اور شاعرانہ کمالات پر مفید گفتگو کی ہے۔
آخر میں رضا لائبری رام پور کے عربی مخطوطات کی انگریزی میں فہرست مرتب کر کے چھ جلدوں میں شایع کیا انکی غیر مطبوعہ کتابوں کی تعداد بے شمار ہے، طالب علمی کے زمانہ میں جب وہ لاہور میں مقیم تھے تو وہاں کے مشہور تاجر کتب شیخ مبارک علی کی فرمائش پر انہوں نے ایف۔اے اور بی۔اے کے کورس کی عربی کتابوں کا اردو ترجمہ کیا تھا، اسی سلسلہ میں ان کو حضرت عمرؓ کے خطوط، خطبات اور حکیمانہ اقوال بھی جمع کرنے کا خیال ہوا، اس کے لیے زندگی بھر مواد رفراہم کرتے رہے مگر یہ کتاب نامکمل رہ گئی۔
شعر بھی موزوں کرلیتے تھے، عرشی تخلص تھا لیکن شعر و سخن میں اُن کا ذوق اتنا لطیف اور معیار اس قدر بلند تھا کہ اپنا کلام پسند نہ آتا تھا، اور وہ اسے اساتذہ کے کلام سے بہت کمتر سمجھتے تھے اس لیے اس کی اشاعت کی نوبت نہ آنے دی۔
مخطوطات کی تحقیق و دریافت، ان کی تلاش و جستجو اور ان کو محنت اور دیدہ ریزی کے ساتھ ایڈٹ کر کے شائع کرنا عرشی صاحب کا خاص امتیاز ہے، وہ متن کی تصحیح و تحشیہ کے کام سے اُس وقت تک مطمئن نہ ہوتے جب تک کہ اس کے تمام نسخوں کو ملاحظہ نہ کرلیتے اس کے لیے ان جگہوں کا سفر کرتے تھے جہاں ان کے نسخے موجود ہوتے یا ان کی نقلیں مہیا کرتے ان کی تحریروں میں عالمانہ وقار و سنجیدگی کے ساتھ ہی سادگی، لینت، سلامت روی اور ولآویزی ہوتی تھی۔
ان کی شخصیت باوقار تھی اور وہ بڑے وجہیہہ و شکیل اور جامہ زیب تھے، چہرہ بشرہ ہر چیز سے متانت اور سنجیدگی ظاہر ہوتی تھی راقم کو دارالمصنفین کی طلائی جوبلی کے موقع پر ان سے شرف ملاقات حاصل ہوا تھا، وہ گفتگو بہت شائستہ، نرم اور شیریں انداز میں کرتے تھے، خالص علمی گفتگو اس قدر پُرلطف اور دلچسپ انداز میں کرتے کہ سننے والے کو اکتاہٹ نہ ہوتی، ان کا خط بہت پاکیزہ تھا، ان کی نفاست اور نظافت پسندی کا اندازہ ان کی تصنیفات سے ہوتا ہے جو بہت اچھی اور عمدہ چھپتی تھیں۔
عرشی صاحب ممتاز عالم و محقق تھے لیکن وہ نہ دوسروں کو اپنے علم و کمال سے مرعوب کرنے کی کوشش کرتے اور نہ خود کسی سے مرعوب ہوتے تھے، رام پور کی لائبریری میں اہلِ علم کے علاوہ اکثر وزرا، سرکاری حکام اور عمائد بھی آتے رہتے تھے، مگر وہ ان سے اس طرح ملتے کہ علم کی آن بان میں فرق نہ آنے دیتے بلکہ آنے والے خود ان کے علمی وقار اور ذاتی وجاہت و شرافت سے متاثر ہوتے تھے، وہ بہت متوازن اور عالی ظرف تھے، بڑے بڑے انعام و اعزاز پاکر بھی نہ آپے سے باہر ہوئے اور نہ کسی قسم کی رعونت اور پندار میں مبتلا ہوئے۔
ان کی زندگی بہت سادہ اور تکلف و تصنع سے بری تھی، اُن میں خود نمائی اور خودستائی کا مرض نہ تھا، کبھی ایسی بات نہ کہتے جس میں اظہار فضیلت کا شائبہ ہوتا، اپنے علمی کاموں کی تعریف و تحسین اور دوسروں کی شکایت و مذمت سے اپنی زبان آلودہ نہ کرتے خوردوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور ہمسروں کے قابل قدر کاموں کی داد دینے میں بخل سے کام نہ لیتے علمی و تحقیقی کام کہنے والوں کی مدد کرنے میں ان کو بہت لذت ملتی تھی کتب خانہ سے استفادہ کرنے کے لیے جو لوگ آتے ان کا پرتپاک خیر مقدم کرتے ان کا علم و مطالعہ بہت وسیع تھا، اس لیے ہر ایک کے مطلب کی کتابوں کی نشاندہی کرکے اس کی اکثر مشکلات حل کر دیتے اور اس کو متعدد کتابوں کی ورق گردانی کی زحمت سے بچالیتے۔
ان کو دارالمصنفین سے بڑا تعلق تھا، اس کے علمی کاموں کے مداح اور قدردان تھے معارف میں وقتاً فوقتاً مضامین بھی لکھتے تھے، مولانا سید سلیمان ندوی سے خط و کتابت بھی تھی، ماہنامہ ریاض کراچی کے اپریل ۱۹۵۴؁ء کے شمارہ میں ان کے خطوط انہ من سلیمان [النمل:۳۰] کے عنوان سے اپنے حواشی کے ساتھ شائع کئے تھے اور مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی کے زمانہ میں دارالمصنفین کی، گولڈن جوبلی میں شرکت کے لیے رام پور سے تشریف لے آئے، جناب مالک رام صاحب نے ان کی اکسٹھ ویں سالگرہ کے موقع پر ان کا ایک یادگاری مجلہ پیش کیا تھا اس میں موجودہ ناظم دارالمصنفین جناب سید صباح الدین عبدالرحمن کا عرشی صاحب پر ایک پُر مغزمقالہ شامل ہے۔
عرشی صاحب کا اوڑھنا بچھونا علم تھا اور بقول شیخ سعدی ع پئے علم چوں شمع بباید گداخت کے مصداق تھے، اب ان کی طرح خاموشی اور سچی لگن کے ساتھ صلہ و ستایش کی تمنا کئے بغیر علم کی خدمت کرنے والے کم یاب ہیں اﷲ تعالیٰ ان کو عالم آخرت کے بلند مدارج عطا فرمائے، آمین! (ضیاء الدین اصلاحی، مارچ ۱۹۸۱ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...