Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > سید حسام الدین راشدی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

سید حسام الدین راشدی
ARI Id

1676046599977_54338218

Access

Open/Free Access

Pages

417

جناب سید حسام الدین راشدی
شروع اپریل میں پاکستان ریڈیو سے یہ خبر نشر ہوئی کہ جناب سید حسام الدین راشدی اﷲ کو پیارے ہوئے، یہ خبر راقمِ حروف کے لئے بڑی جانکاہ تھی۔
وہ دارالمصنفین کے بڑے قدردان اور پرستار رہے، انھوں نے اتنی کتابیں لکھیں کہ ان کا شمار کرنا آسان نہیں، مگر کہتے کہ خدا کی قسم میں نے دارالمصنفین کی کتابوں ہی سے لکھنا سیکھا، وہ علامہ شبلیؒ اور مولانا سید سلیمان ندویؒ کے بڑے مداح تھے، دارالمصنفین سے جو بھی کتاب شائع ہوتی اس کو ضرور منگواتے اور اپنی الماری میں نمایاں جگہ دیتے اس ادارے سے غیر معمولی محبت کی وجہ سے ۱۹۴۷؁ء کے بعد کراچی میں اس کے لئے زمین کا ایک بڑا پلاٹ خرید لیا تھا کہ وہ اس کو وہاں منتقل کرالیں، لیکن یہ وہاں کیوں منتقل ہوتا، آخر میں وہ برابر کہتے رہتے کہ یہ ہندوستان ہی میں رہ کر بہتر کام کرسکتا ہے، اور اس کو اسی سرزمین میں رہنا چاہئے جہاں قائم ہوا ہے، تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے ناشرین نے اس ادارہ کی مطبوعات کو چھاپ کر جو نقصان پہنچایا، اس سے وہ بہت رنجیدہ رہے، ان کے خلاف قانونی کاروائی کے لئے ایک کمیٹی بنائی، جب یہ موثر نہ ہوسکی تو وہاں کے تمام انگریزی اور اردو کے اہم اخبارات میں مضامین لکھے کہ حکومت پاکستان اس ادارہ کی مطبوعات کا حق طباعت و اشاعت خرید کر اس کو گراں قدر معاوضہ دے، یہ اخباری مہم ایسی مفید ثابت ہوئی کہ اس خاکسار کو حکومت پاکستان نے اسلام آباد بلایا اور ایک طویل مدت کی دفتری کاروائی کے بعد پندرہ لاکھ روپے دارالمصنفین کو دے کر اس کی مطبوعات کا حق طباعت و اشاعت اپنے ایک ادارہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے سپرد کردیا۔
اس کے لیے دارالمصنفین زیادہ تر جناب سید حسام الدین راشدی کا شکر گزار رہا، اس سلسلہ میں اس عاجز راقم کو جب جب کراچی جانا پڑا تو ان کی صحبت کی صبح حسین، شام رنگین اور رات عنبر آفریں رہی، وہ اپنے بے پایاں کرم و محبت کی بناء پر کراچی کے اہل علم کو اپنی آراستہ و پیراستہ کوٹھی میں پرتکلف کھانے پر مدعو کرتے اور اس دعوت کو اپنی بذلہ سنجیوں، علمی پھلجھڑیوں اور پر کیف قہقہوں سے زعفران زار بنادیتے، کبھی تنہائی میں ان کی نوشت و خواند کے پرسکون گوشہ عافیت میں جابیٹھتا تو پھر اس میں علم و فن کی مہتابی چھٹکی نظر آتی، ہم دونوں محسوس کرتے کہ ہماری زندگی کے بہترین لمحات گزر رہے ہیں، کراچی سے واپس آکر معارف کے صفحات پرلطف و لذت کے ساتھ ان کا ذکر کرنے میں قلم بالکل نہیں تھکتا۔ وہ فرماتے کہ اگر وہ دارالمصنفین کی زیارت اپنی زندگی میں کرلیں گے تو پھر چین کی ابدی نیند سوئیں گے، یہاں کے بین الاقوامی سیمنار میں ان کو مدعو کیا تو فوراً جواب دیا کہ اس میں ان کی شرکت اس لئے ہوگی کہ وہ اپنے ذہنی قبلہ کا طواف کرلیں گے، مگر ان کے بعض خطرناک آپریشن ہونے والے تھے، جس کی کامیابی کی امید خود ان کو نہ تھی، وہ یہاں آنے کے بجائے وہاں پہنچ گئے جہاں ایک روز سب کو جانا ہے، ان چند تعزیتی سطروں کو لکھ کر مجھ پر ان کا جو حق ہے وہ ادا نہ سوسکے گا، میرا بس چلتا تو ان پر ایک ضخیم کتاب لکھتا، ان شاء اﷲ معارف کی کسی اشاعت میں ان پر ایک طویل مضمون ہوگا، ان کی وفات علمی تحقیق، علمی محنت، علمی ریاضت، علمی موشگافی، علمی نکتہ پروری کے ساتھ علم دوستی، دوست پروری، اخلاص کی رعنائی، اخلاص کی دلاویزی اور پرانی قدروں کی دلربائی کی بھی موت ہے، دعا ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ان کی خوبیوں کی بدولت ان کو اپنی آغوش رحمت میں لے کر کروٹ کروٹ جنت نعیم عطا کرے، آمین۔ (’صباح الدین عبدالرحمن، اپریل ۱۹۸۲ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...