Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا محمد زکریا سہارنپوری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا محمد زکریا سہارنپوری
ARI Id

1676046599977_54338223

Access

Open/Free Access

Pages

419

مولانا محمد زکریا محدث سہارنپوری
یکم شعبان ۱۴۰۲؁ھ کو حضرت مولانا محمد زکریا محدث سہارنپوری کا وصال ستاسی سال کی عمر میں مدینہ منورہ میں ہوگیا، جہاں شیدائیوں اور فدائیوں کے بے پناہ ہجوم نے ان کے جنازہ کی نماز پڑھی اور اسی مقدس سرزمین میں سپردخاک کئے گئے، جس کی آرزو زندگی بھر فرماتے رہے۔
وہ چودہویں صدی ہجری میں علمائے سلف کی ایک بے مثال یادگار تھے، ان کی تدفین کے ساتھ اسلام کے اس دور کی ایک بے قرار عبقریت کی نظر حکیمانہ، اسرار محرمانہ، جذب عارفانہ اور پھر دینی علوم کی پشتینبانی، عالی استعداد کی جلوہ سامانی، تحریر کی صاعقہ پاشی اور قلم کی برق دستی بھی تہ خاک ہوگئی، اب جب وہ آغوش رحمت الٰہی میں ہیں، ان کو ان کے معتقدین، ملک العلماء، سلطان الفضلاء، منہاج المتقین، مہبط الانوار اور شمس الفقراء کی حیثیت سے یاد کرکے ان کی دائمی جدائی پر آنسو بہائیں گے، ان کے جلوہ صدرنگ پر آئندہ بہت کچھ لکھا جائے گا، وہ دینی اور روحانی علوم کے دریا میں کبھی مثل موج ابھر کر کبھی اس کے ساحل سے گزر کر کبھی اس کے سینے میں اتر کر ان کے رازکو جس طرح فاش تر کرتے رہے، اس پر معلوم نہیں کیا کچھ قلم بند ہوتا رہے گا، انھوں نے خدا جانے کتنے اوراق پر اسرار الٰہی کے حقائق اور انوار الٰہی کے دقائق کو آشکار کیا، ان کی ان گنت تصانیف کی روحانی، مذہبی، نظری، فکری، اخلاقی اور دعوتی تعلیمات سے برابر عبرت و بصیرت کے درس حاصل ہوتے رہیں گے۔
تعلیم مظاہر العلوم سہارنپور میں پائی اور وہیں ایک عرصہ تک درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا، اپنے والد بزرگوار سے مجتہدانہ دماغ پایا تھا، اسی لئے طالب علمی ہی کے زمانے سے قرآن مجید حدیث مقدس اور فقہ کا مجتہدانہ مطالعہ کرتے رہے، قرآن پاک کو سمجھنے اور سمجھانے میں ان کی جو نظر لغت، نحو، صرف، اشتقاق، علم سان، علم بدیع قرأت، علم عقائد اور شان نزول آیات کریمہ پر رہی، وہ کم علماء کی رہی ہوگی، اسی طرح حدیث کو سمجھنے کے لئے فرماتے کہ محدثیت اور مشیخت کے بجائے سلف صالحین کی جانکاہی کی ضرورت ہوتی ہے انھوں نے خود اس جانکاہی کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کیا، بہت بڑے محدث ہوئے حدیث کا درس دینے میں یگانہ روزگار تسلیم کئے گئے، عربی میں ترمذی موطا اور بخاری شریف کی مختلف جلدوں میں جو شرحیں لکھی ہیں وہ اسلامی ممالک میں بھی شمع ہدایت بنی ہوئی ہیں، وہ بہت بڑے فقیہ بھی تھے، وہ اس کے قائل تھے کہ فقہ کا ماخذ قرآن پاک، سنت مطہرہ، اجماع اور قیاس ہے اس لئے ایک فقیہ کے لئے ان چیزوں کو معلوم کرنا ضروری ہے جو قرآن مجید اور حدیث پاک میں ہے۔
ان علوم کے حصن حصین میں بیٹھ کر وہ سلوک و طریقت کی طرف بھی مائل ہوئے، حضرت شاہ عبدالرحیم رائے پوریؒ کی صحبت میں تقویٰ حاصل کیا، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے فکر حکیمانہ، اخذ کی، حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے مجاہدہ کا درس لیا، حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوریؒ سے تواضع و انکسار سیکھا، اپنے چچا حضرت مولانا محمد الیاسؒ سے مذہبی مراسم کی نگہبانی کی وراثت ملی، اور اپنے مرشد حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ سے فن حدیث سے شغف و انہماک کے علاوہ عشق الٰہی، محبت رسول سوزگداز صدق، صفا، زہد، توکل، محبت، خود انکاری، اور ایثار کی دولت پائی، یہ وہ بزرگان دین تھے جن کے بارے میں خود حضرت مولانا کا خیال تھا کہ: ع انہی کے اتقا پر ناز کرتی ہے مسلمانی، رشد و ہدایت کی مسند پر متمکن ہوتے تو انابت ہو یا، عبادت زہد ہو یا ریاضت، مجاہدہ ہو یا تفکر، استغنا ہو یا قناعت، بے نیازی ہو یا اخلاص، عشق الٰہی ہو یا محبت رسول ان سب کے مدارج طے کرکے اٹھتے بیٹھتے اور سوگتے جاگتے، باری تعالیٰ کی قدرت کاملہ کو دیکھ کر محو اور متحیر ہوئے، اور دنیا کو اپنی انگلیوں کے حلقہ ہی میں دیکھنا پسند کیا، ایسے ہی بزرگان دین کے لئے اقبال نے کہا ہے:
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اﷲٰی
ان کی خدمت بابرکت میں رشد و ہدایت کے لئے جو بھی حاضر ہوا، اس نے محسوس کیا کہ:
جنھیں میں ڈھونڈتا تھا آسمانوں میں زمینوں میں
وہ نکلے میرے ظلمت خانہ دل کے مکینوں میں
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدبیضا لئے بیٹھے ہیں، اپنی آستینوں میں
اور وہ خود اپنے مریدوں کو بس یہی تعلیم دیتے رہے:
؂ دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
وہ سہارنپور میں رہتے یا مدینہ منورہ میں رہ کر گنبد خضراء کے دیدار سے مشرف ہوتے، یاڈربن پہنچ کر اپنے مشتاقوں کے دیدار کی تشنگی بجھاتے یا لندن میں قیام کرکے اپنی فقر کی دولت کر عام کرتے، یا ابوظہبی جاکر اخلاق نبوی، افعال نبوی اور اقوال نبوی کی تعلیم دیتے، ہر جگہ بالالتزام ذکر الٰہی کی مجلس گرم رکھتے، وہ روحانی منظر کیسا ایمان پرور ہوتا جب وہ خود جلوہ افروز ہوتے، ان کے اردگرد ان کے حلقہ بگوشوں کی ایک باوقار اور سرشار جماعت ہوتی جس کے دل کے اندر سے لا الٰہ الا اﷲ کی نغمہ زیر صدا بلند ہوتی، اس وقت ایسا معلوم ہوتا کہ: نہ ہے زماں نہ مکاں لا الٰہ الا اﷲ۔
اس کم سواد راقم کے لئے ان کے گوناگوں کمالات پر کچھ بھی لکھنا اس کے بس کی بات نہیں:
دامانِ نگہ تنگ و گل حسن توبسیار
گلچیں بہار تو ز داماں گلہ دارد
وہ ایک بلند پایہ اور باکمال محدث ہونے کے باوجود عوام و خواص میں قدوۃ السالکین ہی کی حیثیت سے مشہور ہوئے، اب وہ عالم بالا میں تشریف فرما ہیں، وہاں اگر محدثین کے جلو میں نظر آرہے ہوں گے، تو اقطاب الالسلام سلاطین الطریقت، سراج الاولیاء تاج الاصفیاء کی صف میں بھی دکھائی دے رہے ہوں گے، قدوۃ السالکین کی حیثیت سے وہ پیام چھوڑ گئے ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم سے فرمایا کہ احسان کیا چیز ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ جیسے اس کو دیکھ رہے ہو، اسی احسان کا ایک نام طریقت یا سلوک یا تصوف ہے، اﷲ تعالیٰ کی رضامندی میں بالکلیہ مصروف ہوجانے، علم دین پر قوت یقین رکھنے اور جو کچھ حدیث میں ہے اس پر عمل کرنے نام اخلاقِ تصوف ہے۔
اسی پر عمل کرکے ان کے معتقدین کو ان کی روح پر فتوح کو خوش رکھنا ہے، گویہ یقین کامل ہے کہ ان کی دینی فضیلت، روحانی عظمت، تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کی وجہ سے ان کے مرقد مبارک پر انوار الٰہی اور تجلیات ایزدی کی بارش برابر ہوتی رہے گی، آمین ثم آمین۔ (صباح الدین عبدالرحمن، جون ۱۹۸۲ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...