1676046599977_54338227
Open/Free Access
422
نشورؔ واحدی
ہندوستان میں فراق گورکھپوری کا ماتم ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ نشور واحدی بھی داغِ مفارقت دے گئے، ان کا کلام ان کی دلکش اور مترنم آواز میں اعظم گڑھ کے مشاعروں اور دارالمصنفین کی نجی مجلسوں میں ان سے برابر سننے میں آیا، متین، سنجیدہ اور پرانی تہذیب کے حامل تھے، بلیاوطن تھا، مگر زندگی حلیم کالج کانپور میں ایک استاد کی حیثیت سے گذاری، شروع میں تعلیم دائرہ رفیع الزمان الہ آباد کے بزرگ شاہ شفاء اﷲ سے پائی جن سے فلسفۂ اسلام، فلسفۂ خودی اور مولانا روم کے افکار کے بہت سے رموز و نکات کو اچھی طرح سمجھا ان کا خوش گوار اثر ان کی شاعری پر بھی پڑا، ان کے کلام کے کئی مجموعے آتش ونم، شورنشور، صہبائے ہند اور فروغ جام کے نام سے شائع ہوئے، اصغر، حسرت، فانی، جگر اور فراق گورکھپوری کی صف کے بعد جو شعراء کھڑے نظر آئے، ان میں نشور واحدی اپنے شاعرانہ کمال کی گل پیرہنی، مشاگلی اور شیریں بیانی، پھر فکر و فن کے رنگ و آہنگ کی جلوہ گری میں کسی سے کم نہیں نظر آئے، بلکہ بعض حیثیتوں سے اپنے معاصروں میں قدآور دکھائی دیئے۔
۱۹۴۰ء میں جناب شاہ معین الدین احمد ندوی (سابق ناظم دارالمصنفین) نے ان کے مجموعۂ کلام ’’صبہائے ہند‘‘ کے شروع میں ایک مختصر تبصرہ میں لکھا تھا کہ ان کی شاعری میں تغزل کی رنگینیاں بھی ہیں، قوم و وطن کے لئے پیامِ زندگی بھی، مذہب و ملت کا درس بھی، الفاظ کی سلاست بھی، بیان کی لطافت بھی، معتدل شوخی بھی، اور جوش و سرمستی کے نمونے بھی ہیں، اپنی ان شاعرانہ خوبیوں کو انھوں نے آخر وقت تک قائم رکھا، نثر میں ان کی ایک کتاب اسلام میں فلسفۂ خودی پر بھی ہے، دعا ہے کہ ان کا اسلامی جذبہ بارگاہ ایزدی میں مقبول و مبرور ہو، آمین۔
(صباح الدین عبدالرحمن، فروری ۱۹۸۳ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |