Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > نیا ز احمد صدیقی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

نیا ز احمد صدیقی
ARI Id

1676046599977_54338228

Access

Open/Free Access

Pages

422

آہ! جناب نیاز احمد صدیقی
اسی مہینہ یعنی مارچ ۱۹۸۳؁ء میں جناب نیاز احمد صدیقی تقریباً ۸۴ سال کی عمر میں اﷲ کو پیارے ہوئے، وہ کوئی ادیب شاعر، نقاد اور مصنف نہ تھے، شروع سے آخر تک انگریزی زبان کے قابل قدر استاذ رہے، وطن مریاہو ضلع جونپور تھا، اردو زبان کے مایہ ناز ادیب اور نقاد جناب رشید احمد صدیقی کے چھوٹے بھائی تھے، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم اے، ایل ایل بی اور بی ٹی کی ڈگریاں حاصل کرکے شبلی اسکول اعظم گڑھ میں انگریزی کے استاد ہوئے، پھر جب یہ اسکول انٹر اور ڈگری کالج بنا، تو اس کے انگریزی کے لکچرر مقرر کئے گئے، آخر میں محمد حسن انٹر کالج کے پرنسپل بنے، وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء میں کچھ دنوں انگریزی پڑھاتے رہے، یہی ان کی زندگی کی مختصر روداد ہے، مگر وہ ان چند شریف انسانوں میں تھے، جو حدیث سوزو ساز زندگی کے حامل، اخوت کے بیان اور محبت کی زبان بن کر اپنے گھر والوں، دوستوں اور معاصروں کے ساتھ رہے، اپنی اس طویل زندگی کے سولہ برس دارالمصنفین کے احاطہ میں گزارے اور اس کے شب و روز کو پر کیف بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، کوئی مسئلہ ہوتا، کوئی نازک وقت آتا، یا کوئی تقریب ہوتی، تو ہر موقع پر اپنے مخلصانہ، مشفقانہ اور ناصحانہ مشوروں سے سب کی دل داری، دلنوازی اور رہنمائی کرتے، وہ یہاں کی زندگی کے جزولاینفک ہوگئے تھے، اپنے شریفانہ برتاؤ، اخلاقی بلندی اور روزمرہ کی زندگی کے لین دین کی طہارت اور صاف باطنی میں قرونِ اولیٰ کی روایت کو تازہ کرتے، ان کی پاک اور طاہر زندگی پر اس وقت رشک آتا جب دارالمصنفین کے احاطہ کے اندر بعض لوگوں کی زبان سے یہ سننے میں آتا کہ ایک صحابی کی زندگی ایسی ہی رہی ہوگی۔
اس احاطہ میں کوئی بھی بیمار پڑجاتا تو اس کی تیمارداری کرنے میں مریض پر احسان کیا کرتے بلکہ مریض کے احسان کے بار سے دبے جاتے کہ اس نے ان کو خدمت کرنے کا موقع دیا، اس کے لئے رات کو چپکے چپکے جاگتے رہتے، اگر انہیں اسکی آنکھ کھل جانے کا ذرا بھی اندیشہ ہوتا تو آنکھ موند کر بظاہر سوجاتے کہ کہیں اس کو اس خیال سے تکلیف نہ ہو کہ وہ اس کے لئے جاگ رہے ہیں، وہ دوستوں کے لئے تحفے لاتے اور ان کے بستر کے سرہانے میں اس طرح رکھ دیتے کہ پتہ چلانا مشکل ہوجاتا کہ یہ کس نے لاکر رکھا ہے، تہجد کی نمازیں برابر پڑھتے رہے، اگر گھر کے لوگ یا ان کا کوئی ہمراز یا ہمدم ان کو رات کے آخری پہر میں تہجد پڑھتے کبھی دیکھ لیتا تو وہ سوگوار ہوجاتے کہ ان کی عفت مآبی، عصمت پروری اور دل کی پاکی پر حرف آگیا، باتیں کرتے تو نرم دم گفتگو کی اعلیٰ مثال پیش کرتے، دوستوں کی صحبت میں بیٹھتے تو ان کی ہر ادا دلفریب نظر آتی، رشتہ داروں کے ساتھ ہوتے تو ان کی ہر نگاہ دلنواز معلوم ہوتی، مشورے دیتے تو ان کا ہر مشورہ کار آفریں، کارکشا، اور کارساز ہوتا، وہ اپنے بڑے بھائی رشید احمد صدیقی کے پاس مودب بیٹھتے تو جناب رشید احمد صدیقی محسوس کرتے کہ ان کو سامنے محبت و اخلاص کی ایک جوئے شیر بہہ رہی ہے۔
شبلی اسکول کو انٹرکالج اور ڈگری بنانے میں اس کے پرنسپل جناب بشیر احمد صدیقی مرحوم کی ہم نفسی، دم سازی اور غمخواری کا جو حق ادا کیا، وہ اس زمانہ کی ایک اعلیٰ مثال تھی، پھر جونپور کے محمد حسن انٹرکالج کو حسن ظاہری اور معنوی خوبیوں سے اپنے رفقائے کار سے مل کر آراستہ کیا، وہ اس کی تاریخ کا زریں باب رہے گا، کوئی طالب علم بھی ان کی خشمگیں آنکھوں اور فہرناک باتوں کا شاکی نہیں ہوا، طلبہ اپنی ناروا اور نازیبا حرکتوں کے بعد ان سے ملتے تو ان کو اپنے سامنے جلیل اور جمیل پاتے، وہ جھک کر سربلند ہوتا اور مفتوح ہوکر فاتح بننا جانتے تھے۔
وہ جاچکے، مگر ایک شفیق شوہر ایک دلنواز باپ، ایک جان نثار بھائی، ایک چہیتے بزرگ، ایک بے مثال استاد اورایک انتہائی شریف النفس دوست کا اعلیٰ نمونہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے، خدا جانے اپنی کن کن باتوں کے عطر مجموعہ سے اپنی یادوں کی شامہ نوازی کرتے رہیں گے، اﷲ تبارک تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت نعیم عطا کریں، آمین۔
(صباح الدین عبدالرحمن، مارچ ۱۹۸۳ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...