Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا قاری محمد طیب

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا قاری محمد طیب
ARI Id

1676046599977_54338230

Access

Open/Free Access

Pages

424

آہ! مولانا قاری محمد طیب
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ذکریاؒ کی وفات کا غم ابھی فراموش نہ ہوا تھا کہ ایک اور آفتاب علم و ہدایت غروب ہوگیا، یعنی مولانا قاری محمد طیب مہتمم دارالعلوم دیوبند نے ۱۷؍ جولائی ۱۹۸۳؁ء کو اس جہانِ فانی کو الوداع کہا، اِنا ﷲ واِنا الیہِ راجعُون۔ وہ ممتاز عالم دین تھے، ان کی شہرت سے یہ برصغیر ہی نہیں، پوری اسلامی دنیا گونج رہی تھی، ان کی وفات سے ہماری ملی، دینی ، علمی اور تعلیمی عمارت کا بہت بڑا ستون گر گیا، اور جماعت دیوبند کی ایک قدیم اور اہم یادگار مٹ گئی، وہ اس قافلہ کے آخری مسافر تھے جس آغاز خاندان ولی اللّٰہی سے ہوکر حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی کے خلفاء اور دارالعلوم دیوبند کے اکابر تک پہنچا تھا، افسوس اب علم و عرفان کی وہ شمع گل ہوگئی جس سے دارالعلوم نصف صدی سے جگمگا رہا تھا، والبقاء ﷲ وحدہ۔
وہ دارالعلوم کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے پوتے اور مولانا حافظ محمد احمدؒ کے صاحبزادے تھے، جو دارالعلوم دیوبند کے پانچویں مہتمم اور چار برس تک ریاست حیدرآباد دکن کی عدالت عالیہ کے مفتی تھے، قاری صاحب کی پرورش وپرداخت اسی مقدس خانوادہ اور دارالعلوم کے اس عہدِ زریں میں ہوئی، جو علمی، تعلیمی، دینی اور روحانی حیثیت سے بے مثال تھا، اور جب اس کا آسمانِ علم و کمال متعدد مہروماہ سے جلوہ فگن تھا، ان کی ولادت ۱۳۱۵؁ھ؍ ۱۸۹۷؁ء میں ہوئی، تاریخی نام مظفر الدین تھا، سات برس کی عمر میں دارالعلوم میں داخل کئے گئے، شیخ الہند مولانا محمود حسنـؒ اور دوسرے نامور فضلاء کی موجودگی میں مکتب نشینی اور بسم اﷲ کی تقریب عمل میں آئی، دو ہی برس میں قرآن مجید تجوید و قرات کے ساتھ حفظ کرلیا، پانچ برس درجہ فارسی میں رہے، اس کے بعد عربی شروع کی، آٹھ برس میں درسیات سے فارغ ہوکر ۱۳۳۷؁ھ؍ ۱۹۱۸؁ء میں دارالعلوم سے سند فضیلت حاصل کی، اور وہیں مسند درس پر متمکن ہوگئے، جس کا سلسلہ آخر تک جاری رہا، تفسیر و حدیث اور علم اسرارالدین کی کتابیں خصوصاً حجۃاﷲ البالغہ ہمیشہ ان کے زیر درس رہتیں، بزرگوں کی جو ہرشناسی سے ۱۳۴۳؁ھ میں دارالعلوم کے نائب مہتمم اور چند ہی برس بعد مہتمم بنادئیے گئے، جس کے وہ پوری طرح اہل ثابت ہوئے۔
مولانا محمد طیب صاحب تقریباً ساٹھ برس تک دارالعلوم کے مہتمم رہے، اس طویل مدت میں بڑے نازک دور آئے، مگر انہوں نے دارالعلوم کو ہر خطرہ سے بچایا اور اس پر کوئی آنچ نہ آنے دی، ان کے دور میں اس کی شہرت و عظمت میں چار چاند لگ گئے، اور وہ ترقی کے بام عروج پر پہنچ گیا، انہوں نے اس کا آوازہ شہرت پوری دنیائے اسلام اور ایشیا، یورپ، امریکہ اور افریقہ کے ملکوں تک پہنچا دیا، وہ دارالعلوم کے مقصد و مسلک کی اشاعت اور دین کی تبلیغ کے لیے برابر سفر کرتے رہتے تھے، اس کی وجہ سے دارالعلوم کا حلقہ اثر بہت وسیع ہوگیا، اور ہر جگہ کے خواص تو درکنار عوام بھی اس سے اچھی طرح روشناس ہوگئے، اور وہ ایک عالمگیر اور بین الاقوامی ادارہ بن گیا، اسے جامع ازہر پر بھی اس حیثیت سے برتری حاصل ہے کہ حکومت کی اعانت اور سرپرستی کے بغیر محض توکل علی اﷲ اور مسلمانوں کے عام چندے سے چل رہا ہے۔
تقریر و تحریر کا اچھا ملکہ تھا، بڑے خوش بیان واعظ تھے اور اس میں ان کا طوطی بولتا تھا، پورے ملک میں ان کی خطابت کی دھوم تھی، اس کے لیے بیرون ملک سے بھی دعوت نامے آتے ، وہاں بھی ان کی تقریریں پسند کی جاتی تھیں، دو دو تین تین گھنٹے تک انشراح و نشاط کے ساتھ مسلسل تقریر کرتے اور بات میں بات پیدا کرکے پورا سماں باندھ دیتے، دقیق موضوع پر بھی بولتے تو ان کا نکتہ آفریں دماغ اور مواج ذہن معلومات کا دریا بہادیتا، تقریریں اتنی موثر اور دل پذیر ہوتیں کہ سننے والے کو کوئی اکتاہٹ اور گھبراہٹ نہ ہوتی، حقائق واسرار کا بندقُفل کھول دینے اور مشکل مضامین کی تفہیم پر بڑی قدرت تھی، اس حیثیت سے جدیدتعلیم یافتہ طبقہ میں بھی مقبول تھے، وہ بھی ان کے حکیمانہ و متکلمانہ اسلوب سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا، ان کی تصنیفات میں بھی یہی رنگ غالب تھا، جو جدید طبقہ کے شکوک و شبہات کا ازالہ کردیتا، تحریر کی مشق بھی طالب علمی ہی کے زمانہ میں ہوگئی تھی، ابتدا میں ’’القاسم‘‘ میں مضامین لکھتے، عموماً تصنیف وتالیف اور مقالہ نگاری کا کام دوران سفر میں انجام دیتے، وہ شاعر بھی تھے، مگر ان کے شاعرانہ کمال پر پردہ پڑارہا، ’’عرفان عارف‘‘ کے نام سے ان کے کلام کا ایک مجموعہ بھی چھپا تھا۔
وہ پہلے شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ سے بیعت ہوئے، مگر چند ماہ بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا، تو وقت کے نامور شیخ طریقت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے متوسل ہوگئے، اور ۱۳۵۰؁ھ میں ان سے خلافت بھی پائی، ان کے سرچشمہ فیض سے بھی ہزاروں تشنگانِ معرفت سیراب ہوئے۔
نام کی طرح شکل و صورت اور سیرت و کردار کے بھی طیب تھے، ظاہری نفاست اور حسن و جمال کے ساتھ پاک دل اور پاک طینت بھی تھے، ان کے مخالف بھی ان کی نیکی، شرافت، تحمل، نرم خوئی اور عفووحلم کے معترف تھے، اپنے خلق عظیم اور لطف عمیم کی وجہ سے ہر مسلک کے لوگوں میں مقبول تھے، اور ان کی ذات اختلافات سے بالاتر سمجھی جاتی تھی چنانچہ ابتداہی سے آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کے متفق علیہ صدر رہے۔
مولانا قاری طیب اور دارالعلوم دیوبند ایک ہی اسم کے دو مسمّٰی تھے، مگر زندگی کے آخری دنوں میں انہیں دارالعلوم کی جدائی کا صدمہ اٹھانا پڑا، وفات سے دو ماہ پہلے بستر علالت سے لکھے ہوئے ایک خط میں دارالعلوم کے لیے اپنی تڑپ، بے قراری اور تشویش کا اس طرح اظہار فرماتے ہیں: ’’نہ اپنی ذات کا غم ہے نہ اپنے عزیزوں کا غم بلکہ غم دارالعلوم کا ہے، جماعت جو ۱۱۶ برس تک اوروں کے لیے ہدایت، تقویٰ اور توحید کی علامت تھی بکھر کر رہ گئی ہے، یہی میرے بیماری ہے، زندگی کی آخری آرزو اور آخری دعا یہ ہے کہ دارالعلوم کا پہلا رنگ جس میں روحانیت تھی، خلوص تھا اور سب ایک تھے اور فیصلے ایک رائے سے ہوتے تھے پھر بحال ہوجائے‘‘۔ کاش ان کی دعا قبول ہوتی اور وہ یہ حسرت لیکر دنیا سے نہ جاتے، دارالعلوم اور مسلم یونیورسٹی مسلمانوں کی سب سے قیمتی متاع ہیں جن سے وہ فقیری میں بھی امیر ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ انہی کی ناعاقبت اندیشی ان دونوں کی تباہی کا موجب بن جائے۔
بارالٰہا! دین اور علم دین کے خادم، شریعت و طریقت کے محرم ، علوم و معارفِ قاسمی کے امین اور مسلکِ دیوبند کے شارح و ترجمان کی تربت کو اپنے انوارِ رحمت سے منور اور جنت الفردوس کے پھولوں سے معطر فرما۔ اللّٰھمَّ صبّب علیہِ شآ بیب َرحمتکَ وَرضوانکَ یا اَرحمَ الراحمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، اگست ۱۹۸۳ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...