Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > معین الدین حارث

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

معین الدین حارث
ARI Id

1676046599977_54338231

Access

Open/Free Access

Pages

425

معین الدین حارث
( سید شہاب الدین دسنوی)
۳۱؍ جولائی ۱۹۸۳؁ء کو ممبئی میں معین الدین حارث کا انتقال ہوگیا۔ ان کا ماتم سیاسی، تعلیمی اور سماجی حلقوں میں منایا گیا۔ دلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی درسگاہیں بند ہوگئیں۔ شریف آف ممبئی نے شہریوں کی جانب سے تعزیتی جلسہ طلب کیا۔ سابق وزیر اعظم مرارجی ڈیسائی، اشوک مہتا، ایس۔پی۔گودریج، پروفیسر مدھو ڈنڈوتے، میر آف ممبئی اور دوسرے مقررین نے خارج عقیدت پیش کیا۔ ممبئی میونسپل کارپوریشن اورکئی دوسرے اداروں نے تعزیتی قرارداد منظور کر کے اپنے اجلاس ملتوی کردیئے۔ جہاں تک انجمن اسلام کا تعلق ہے (جس کے حارث صاحب کئی سال سے صدر ہوتے چلے آرہے تھے) اس پر تو گویا یتیمی چھاگئی۔ یہ سب کچھ ایک ایسے آدمی کے لیے ہوا۔ جس نے زندگی بھر دوسروں کو دیا۔ خود کچھ نہیں لیا۔
معین الدین حارث ممبئی کے مضافاتی علاقہ نالا سُپارہ کے رہنے والے تھے، جہاں کوکنی مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔ پچپن سے سیاسی تحریک سے دلچسپی رہی سرکاری اسکول کی تعلیم ترک کرکے قوم کی طرف سے کھولے گئے اسکول میں داخل ہوئے اور جب جامعہ ملیہ اسلامیہ قائم ہوئی تو وہاں چلے گئے اور ۱۹۲۷؁ء میں بی، اے کیا۔ خوش قسمتی سے انھیں مولانا محمد علی جوہر، ڈاکٹر ذاکر حسین، پروفیسر محمد مجیب، ڈاکٹر سید عابد حسین، مولانا، اسلم جبراجپوری، مولانا سواتی، خواجہ عبدالحئی فاروقی اور کیلاٹ صاحب جیسے مخلص، بلند کردار اور علم و فضل کے درخشندہ ستارے استاد ملے، جن کی تعلیم اور اعلیٰ اخلاق کا رنگ ان پر ایسا چڑھا کہ تادم حیات قائم رہا۔
بی۔ اے کرلینے کے بعد حارث صاحب نے ممبئی میں اجمل پریس قائم کیا اور روزنامہ اجمل جاری کیا جو سالہا سال ان کی ادارت میں چلتا رہا۔
ممبئی میں میونسپل کارپوریشن لیجسلیٹو کونسل، مرکزی حج کمیٹی ، ممبئی یونیورسٹی کی سینٹ اور کئی دوسرے اہم اداروں کے رکن رہے اور ان کے جلسوں میں پابندی سے حصہ لیتے رہے۔ وہ ان کاموں کو عبادت سمجھ کر کرتے تھے۔
حارث صاحب کو دارالمصنفین سے قلبی لگاؤ تھا۔ یہاں کے کاموں کی وہ بڑی قدر کرتے تھے، ۱۹۷۲؁ء میں دارالمصنفین کی مجلس منتظمہ کا جلسہ ممبئی میں منعقد ہو اتھا، اُن دونوں دارالمصنفین کی مالی پوزیشن کافی کمزور ہوگئی تھی۔ لیکن یہ گوارانہ تھا کہ اہل ثروت کے سامنے دست سوال پھیلایا جائے۔ اس کے بجائے یہ طے پایا کہ ادارے کے دستور کے مطابق اس کے قدردانوں سے ایک ہزار روپیے لے کر ان کو رکن دوامی بننے کی ترغیب دی جائے، تاکہ کچھ رقم یکمشت جمع ہوسکے اور رسالہ معارف اور یہاں کی مطبوعات ان ارکان کو تاحیات ملتی رہیں۔ مجلس منتظمہ کے اجلاس کے دوسرے دن دارالمصنفین سے آئے ہوئے مہمانوں کو لنچ کی دعوت دی گئی، اس میں شہر ممبئی کے اہل علم اور دانشور بھی موجود تھے، راقم نے اپنی تقریر میں رکن دوامی کی تجویز اور دارالمصنفین کی ضرورتوں پر روشنی ڈالی۔ اپیل پر لبیک کہنے والوں میں معین الدین حارث پیش پیش تھے۔ اور اس طرح دارالمصنفین ایک دشوار گذار موڑ سے نکل آیا۔
حارث صاحب نے اپنی ساری زندگی ملک و ملت کی خدمت میں صرف کی، ان کی سادگی اور زندگی کے علائق سے بے نیازی، حیرت انگیز درجے تک پہنچی ہوئی تھی۔
وہ اردو، انگریزی، مراٹھی اور گجراتی زبانوں میں بڑی روانی سے تقریر کرتے جوش اور ولولے کے ساتھ وہ اپنے اعلیٰ خیالات اور افکار سے سامعین کو متاثر کرتے تھے۔
حارث صاحب بے باک صحافی اور نڈر سیاسی مجاہد تھے، جو اپنی صاف گوئی کو مصلحت کے پردے میں چھپانا نہیں جانتے تھے بچپن سے قومی تحریکوں سے منسلک رہے۔ کانگریس، خلافت سوشلسٹ پارٹی۔ پی۔ ایس۔ پی ان سب میں ان کا کردار پر وقار رہا۔ عمر کے آخری حصے میں علمی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے تھے اور اپنا سارا وقت تعلیمی اور سماجی خدمتوں میں صرف کرتے رہے۔
ان کی موت بھی کچھ غیر معمولی طور پر واقع ہوئی۔ ایک دوست کے گھر کسی تقریب میں شریک ہوئے، وہاں احباب اور عزیزوں کے ساتھ ہنستے بولتے رہے ، تھوڑی تھکان محسوس ہوئی تو کمرے میں جا کر لیٹ رہے۔ مغرب کی نماز کے لیے لوگ انھیں اُٹھانے گئے تو وہ اپنے معبود حقیقی کے پاس پہنچ چکے تھے۔ (اگست ۱۹۸۳ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...