Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر کلیم الدین احمد

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر کلیم الدین احمد
ARI Id

1676046599977_54338233

Access

Open/Free Access

Pages

427

پروفیسر کلیم الدین احمد مرحوم
(عبدالرحمن پرواز اصلاحی)
گزشتہ سال کے آخر میں اردو دنیا کو جس حادثہ فاجعہ سے دو چار ہونا پڑا وہ مشہور نقاد پروفیسر کلیم الدین احمد کا انتقال پر ملال ہے، ان کی شخصیت ایک جلوہ صدرنگ تھی، وہ پروفیسر بھی رہے اور ایڈمنسٹر بھی ناقد بھی تھے اور ماہر تعلیم بھی، محقق بھی تھے اور شاعر بھی اور ان سب سے بلند ایک شریف انسان بھی۔
ان کی شخصیت میں جہاں گوناگوں صلاحیتیں جمع ہوگئی تھیں وہاں وہ بڑی متنازعہ فیہ بھی رہی، ان کی رایوں سے اختلاف بھی ہوا اور اتفاق بھی، اردو شعر و ادب کے ایوان میں ان کی آواز سب سے جداگانہ اور منفرد تھی، ان کی تحریریں کچھ ایسی انتہاپسندانہ اور سخت تھیں کہ ایک بڑا طبقہ ان سے ناراض ہوگیا، مگر ان کی رایوں سے اختلاف کے باوجود یہ کہنا پڑتا ہے کہ ان کے قلم سے اردو کے سرمایہ میں اضافہ ہوا اور تاریخ ادب اردو میں اپنا ایک خاص مقام بناگئے، جس کی وجہ سے وہ کبھی فراموش نہیں کئے جاسکتے۔
کلیم الدین احمد ۱۹۰۸؁ء میں پٹنہ کے ایک علمی و دینی گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کے والد ڈاکٹر عظیم الدین احمد عربی و فارسی کے فاضل اور پٹنہ یونیورسٹی میں صدر شعبہ تھے۔ ان کے پرنانا حکیم عبدالحمید پریشاںؔ نہ صرف اعلیٰ درجہ کے طبیب، علامۂ وقت بلکہ اردو، فارسی، عربی کے ممتاز و قادر الکلام شاعر تھے، یہ حکیم عبدالحمید وہ بزرگ تھے جن کے والد مولانا احمداﷲ صادقپوری ممتاز اہلحدیث عالم اور حضرت سید احمد شہیدؒ کی تحریک سے وابستہ تھے، مجاہدین کے خلاف جو مقدمہ قائم ہوا، اس میں انھیں بھی حبس دوام بعبور دریائے شور کی سزا ملی تھی اور جزیرہ انڈمان میں انھوں نے وفات پائی، ان کی ساری جائداد بھی ضبط کرلی گئی تھی۔
کلیم الدین احمد بچپن ہی سے پڑھنے لکھنے کے شوقین تھے اور اسی شوق نے ان کو تنہائی پسند اور گوشہ نشین بنادیا دیا تھا، ان میں ذہانت خداداد تھی اور وہ خود نہایت محنتی طالب علم بھی رہے، بی۔اے آنرز اور ایم۔اے دونوں میں فرسٹ کلاس اور فرسٹ پوزیشن حاصل کی، جس کی وجہ سے ان کو اعلیٰ تعلیم کے لئے سرکاری وظیفہ ملا، اور تعلیم کے لئے انگلستان گئے اور کیمبرج یونیورسٹی سے انھوں نے انگریزی ادب اور فرانسیسی زبان و ادب میں اعزاز حاصل کیا۔ ۱۹۳۳؁ء میں انگلستان سے واپسی پر پٹنہ کالج میں انگریزی کے پروفیسر مقرر ہوئے، اپنے عمدہ اوصاف، محنت اور اعلیٰ قابلیت سے اپنے شعبہ میں سارے اعلیٰ مدارج طے کرلئے اور شعبہ انگریزی کے صدر بھی ہوئے۔ اپنی علمی و تعلیمی دلچسپی کی وجہ سے بہار سکنڈری اگزامینیشن بورڈ کے چیرمین بھی رہے۔ پٹنہ یونیورسٹی کی تشکیل کے بعد فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین منتخب ہوئے، پھر پٹنہ کالج کے پرنسپل ہوئے، کچھ دنوں بھاگلپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے اور آخر میں حکومت بہار کے ڈائرکٹر آف پبلک انسٹرکشن یعنی ناظم تعلیمات کے عہدہ پر فائز ہوکر سبکدوش ہوئے، وہ جس عہدے پر بھی رہے، ان کے کاموں کا ریکارڈ قابل قدر اور شاندار رہا۔ ان کی کامیابی کا راز ان کی معاملہ فہمی، منصف مزاجی اور دوسروں پر اعتماد کرنے کی عادت تھی، وہ دوسروں کے تجربے، محنت اور ایمانداری کی قدر کرتے اور ان کی عمدہ کارکردگی کی جی کھول کر حوصلہ افزائی کرتے، ہر معاملے میں بے لاگ اور غیرجانبدار طرز عمل اختیار کرتے، زبان سے کم بولنے کے باوجود ترقی کے تمام منصوبوں کو کامیابی کے ساتھ علمی جامہ پہناتے، اپنی علمی صلاحیت، پڑھانے کی استعداد، ہوشمندانہ طرز عمل اور قوت تحریر سے طلبہ اور پروفیسروں میں عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔
ان کی بڑی خوبی تھی انتھک محنت اور مسلسل گھنٹوں کام کرنا۔ وہ پڑھے لکھے بے روزگار لوگوں کی مدد کے لئے ہمیشہ تیار رہتے اور انھیں اخلاقی مدد پہنچاتے، وہ نیک، شریف اور بامروت انسان تھے، ان کی ان خوبیوں کے ان کے مخالف بھی معترف تھے اور اس کا برابر ذکر کرتے رہتے تھے۔
ان کی دلچسپی زیادہ تر مغربی ادبیات سے رہی، وہ انگریزی زبان میں بھی لکھتے تھے، ایک کتاب انگریزی میں بھی ہے، وہ اردو کی دنیا میں اچانک وارد ہوئے، جس سے ہلچل مچ گئی، ۱۹۳۱؁ء میں اپنے والد ڈاکٹر عظیم الدین احمد کے تمام مطبوعہ اور غیرمطبوعہ کلام کو جمع کرکے ایک مجموعہ ’’نغمۂ گل‘‘ کے نام سے شائع کیا، ۱۹۴۰؁ء میں جدید اصول تنقید کے مطابق ’’اردو شاعری پر ایک نظر‘‘ کے نام سے اپنی کتاب شائع کی، جس سے ادبی حلقوں میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ اس کتاب میں انھوں نے مغرب کی عینک سے اردو شاعری کو دیکھنے کی کوشش کی اور مغربی اصول تنقید کے معیار پر مشرقی ادب کو جانچنے کی سعی فرمائی، نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود اور ان کی کتاب بھی ہدفِ ملامت بن گئی۔ ۱۹۴۱؁ء میں دائرہ ادب کے نام سے ایک ادبی انجمن قائم کی اور رسالہ ’’معاصر‘‘ جاری کیا۔ دائرہ کے صدر اور رسالہ کے ایڈیٹران کے والد ڈاکٹر عظیم الدین احمد بنائے گئے۔ کلیم الدین مرحوم معاصر کے لئے مسلسل مضامین لکھتے رہے، سترہ اٹھارہ سال میں انھوں نے جو مضامین لکھے، ان ہی کے مجموعے ’’اردو کی تنقید پر ایک نظر‘‘، ’’سخن ہائے گفتنی‘‘، ’’عملی تنقید‘‘ اور ’’فن داستان گوئی‘‘ وغیرہ کے نام سے شائع ہوئے، انھوں نے تحقیق کی طرف بھی توجہ کی، ان کا تحقیقی شوق اتنا بڑھا کہ اردو کے تقریباً سارے مطبوعہ تذکرے جمع کرلئے اور غیرمطبوعہ کی نقلیں حاصل کرلیں۔ انھوں نے پٹنہ کالج لائبریری میں مخطوطات و نایاب کتابوں کا شعبہ قائم کیا۔ تذکرہ شورش، تذکرہ عشقی، دیوان جہان، تذکرہ عمدہ منتخبہ، تذکرہ عیار الشعراء اور مجمع الانتخاب خود اپنے ہاتھ سے نقل کئے، ان میں بعض شائع بھی ہوگئے، وہ شاعر بھی تھے، اور ان کی نظموں کے دو مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ انسان کی شخصیت اس کے کمالات کے ساتھ اس کی کمزوریوں سے بھی نمایاں ہوتی ہے، یہ بات بڑی حد تک پروفیسر کلیم الدین احمد کے متعلق بھی کہی جاسکتی ہے ان کی تصانیف اور مضامین کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بعض جگہ نہ اردو شاعری کے ساتھ انصاف کرسکے ہیں اور نہ اردو کے تنقیدی سرمایہ سے۔ وہ بلاشبہ کثیرالمعالعہ اور بڑے باصلاحیت انسان تھے لیکن غلو، انتہاپسندی اور عدم توازن نے ان کی کتابوں کے وزن کو کم کردیا ہے، وہ جہاں تنقید کے گہرے مسائل سے بحث کرتے ہیں اور حسن و قبح کے اعلیٰ معیار کو سامنے رکھتے ہیں، وہاں مشرق کے مزاج، ماحول، فضا اور اس کے تدریجی تسلسل کو نظر انداز کر جاتے ہیں، ان پر مغربی ادب کا رعب اس قدر طاری ہے کہ اسی معیار پر مشرقی ادب کو بھی جانچنے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے مشرقی تہذیب، روایات اور اس کی خصوصیات ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہیں، ان کا یہ فیصلہ کہ ’’غزل ایک نیم وحشی صنف سخن ہے‘‘، حد درجہ مضحکہ خیز ہے، ان کے نزدیک میر، سودا، غالب، مومن اس لئے اعلیٰ درجہ کے شاعر نہ تھے کہ وہ مغربی ادبیات سے واقف نہ تھے، اقبال کی اعلیٰ درجہ کی نظمیں بھی ان کی نگاہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتیں، انھوں نے ’’اردو شاعری پر تنقید‘‘ میں جس طرح اردو کے شعری کارناموں پر بحث کی ہے، اس سے شعری سرمایہ بے وزن ہوکر رہ جاتا ہے۔
کلیم الدین احمد نے اپنی کتاب ’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’اردو میں تنقید کا وجود فرضی ہے، اقلیدس کا خیالی نقطہ اور معشوق کی موہوم کمر ہے‘‘۔ ان کا یہ خیال صحت سے بعید اور حقائق سے چشم پوشی ہے، انھیں اردو کے ہر دور کے ناقدوں میں یہی کمی نظر آتی ہے کہ وہ انگریزی ادب سے ناواقف تھے، انگریزی تنقید کے اصولوں کو سمجھنے سے قاصر تھے اور اردو شاعری کے تجزیہ کے لئے اپنے مشرقی معیار سے باہر نہ جاسکے، ان کی نگاہ میں محمد حسین آزاد، حالی، مولانا شبلی اور مولوی عبدالحق کوئی صحیح معنوں میں نقاد نہ تھا۔ ان کے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا گیا اور بڑی شدت کے ساتھ ان کی مخالفت کی گئی۔
ان کے متعلق ایک کتاب ’’حیات کلیم‘‘ شائع ہوئی تو معارف کے صفحات میں اس پر مکمل تنقید کی گئی، اس لئے ہم اس موقع پر مزید کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھتے، اگر ان کی تنقیدوں میں توازن اور اعتدال ہوتا تو یقینا بڑے اعلیٰ درجہ کے نقاد ہوتے اور نہایت احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے، بہرحال اپنی خامیوں کے باوجود انھوں نے اردو کے ادبی سرمایہ میں اضافہ کیا ہے اور اردو کا حلقہ انھیں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ اﷲ تعالیٰ ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ دے، آمین۔
(فروری ۱۹۸۴ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...