Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > قاضی عبدالودود

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

قاضی عبدالودود
ARI Id

1676046599977_54338234

Access

Open/Free Access

Pages

429

قاضی عبدالودود
(عبدالرحمن پرواز اصلاحی)
پروفیسر کلیم الدین احمد کے انتقال کے بعد اردو دنیا کو دوسرا بڑا صدمہ مشہور محقق قاضی عبدالودود کی وفات سے پہنچا، قاضی صاحب نے ۲۵؍ جنوری ۱۹۸۴؁ء کو پٹنہ میڈیکل کالج میں ۸۸ برس کی عمر میں رحلت فرمائی۔ وہ بھی ایک علمی و دینی خاندان کے چشم و چراغ تھے، میر زاہد پر حاشیہ لکھنے والے ملا غلام یحییٰ بہاری آپ کے اجداد میں تھے، ملا غلام یحییٰ کے بیٹے قاضی کمال الحق شعروسخن کا ذوق رکھتے تھے اور ناصرعلی کے پیرو تھے۔ ان کے پوتے قاضی اکرام الحق حضرت سید احمد شہیدؒ کے مریدوں میں تھے، ان کے بھائی واعظ الحق ان علماء میں سے تھے، جو شورش کے زمانہ میں نظربند کئے گئے، قاضی اسمٰعیل قاضی اکرام الحق کے بیٹے اور موزوں طبع شخص تھے جو اردو اور فارسی دونوں میں شاعری کرتے تھے، ان کے بیٹے قاضی عبدالحمید قاضی عبدالودود کے دادا تھے اور والد قاضی عبدالوحید عالم دین تھے، مگر ان میں تبدیلی آئی اور عقائد میں بریلوی ہوگئے، اس لئے انھوں نے اپنے عقائد و خیالات کی تبلیغ کے لئے ایک ماہانہ رسالہ ’’تحفہ‘‘ نکالا تھا، وہ شاعر بھی تھے اور وحید الہ آبادی کی صحبت پائی تھی، ان کا اردو کلام گلدستوں میں ملتا ہے، ان کی وفات ۱۳۲۶؁ھ میں ہوئی۔
قاضی عبدالودود ۱۸۹۶؁ء میں پٹنہ کے اندر پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم پرانے طریقہ پر پائی۔ انگریزی شروع کرنے سے پہلے قرآن مجید حفظ کیا، پھر عربی صرف و نحو اور منطق میں متوسطات تک کی کتابیں پڑھیں، اس کے بعد وہ پٹنہ کے محمڈن اسکول میں داخل ہوئے، اس اسکول میں سال ڈیڑھ سال رہنے کے بعد میجر سید حسن بلگرامی ٹیوٹوریل کالج علی گڑھ گئے، وہاں ان میں کتب بینی کا شوق بڑھا۔ بے شمار کتابوں اور رسالوں کو پڑھا۔ پھر پٹنہ واپس آکر کلکتہ یونیورسٹی کے میٹریکیولیشن میں بیٹھے، اسے پاس کرکے پٹنہ کالج میں داخل ہوئے اور چار برس میں بی اے کرلیا۔ مگر انہی دنوں سیاسی تحریکوں سے دلچسپی پیدا ہوگئی اور تحریک خلافت سے وابستہ ہوگئے، اب تعلیم کا سلسلہ بند ہوگیا اور کانگریس سے بھی تعلق پیدا ہوگیا، جس کے مختلف اجلاس میں سرگرمی کے ساتھ شریک ہوئے پھر کچھ دنوں کے بعد تعلیم کی طرف توجہ ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے مارچ ۱۹۲۳؁ء میں انگلستان گئے، کیمبرج یونیورسٹی میں داخلہ لیا، اقتصادیات اور قانون کی تعلیم حاصل کی، بارایٹ لا ہوئے، لیکن غیر معمولی علمی دلچسپی کی بناء پر بیرسٹری کا پیشہ اختیار نہیں کیا، قدرت کو منظور تھا کہ قانون اور اقتصادیات کے بجائے علمی و ادبی تحقیقی کے میدان میں ان کا جوہر کمال چمکے، تمام عمر وہ اپنے طبعی رجحان کے مطابق کتب خانوں کی خاک چھانتے رہے، ان کا حافظہ اور قوت یادداشت غیر معمولی تھی، وہ اپنے بے مثال حافظہ کی بدولت تاریخ ادب کے ایسے ایسے حوالے دیتے تھے جو بہتوں کو برسوں کی تلاش و جستجو کے بعد بھی میسر نہیں ہوتے۔ ادب، عروض، قافیہ، تاریخ، تذکرہ اور ان سے متعلق مطبوعات اور مخطوطات سے گہری واقفیت تھی۔
وہ اردو، فارسی، عربی، انگریزی کے علاوہ فرانسیسی اور جرمن بھی جانتے تھے، لیکن ان کو شغف اردو و فارسی ہی سے رہا اور زندگی بھر اس کے نامعلوم گوشوں کی تلاش میں سرگرم عمل رہے، پچھلے پچاس برس کے اندر انھوں نے اردو کے دامن کو مالا مال کیا اور ادبی تحقیق کے رہ نوردوں کی تربیت کی۔
ان کی کتاب ’’عیارستان‘‘ اور ’’اشرسوزن‘‘ ان کی علمی بصیرت اور گہرے مطالعہ کا نتیجہ ہیں، ’’دیوان جوشش‘‘، ’’دیوان رضا‘‘، ’’قطعات دلدار‘‘ کی تدوین میں انھوں نے جس محنت اور کاوش سے کام لیا ہے، اس سے ان کے تحقیقی مرتبے کا اندازہ ہوتا ہے، تذکرہ ابن طوفان متنی تحقیقی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔
انھوں نے غالب اور میر سے متعلق جو معلومات ان کی زندگی اور کلام کی صحت کے بارے میں بہم پہنچائی ہیں وہ ہمارے ادب کا قیمتی حصہ ہے، انھوں نے دراصل ادب کے ایسے گوشوں کو روشناس کرایا جو تحقیق کے مستحق تھے، ’’جہانِ غالب‘‘ ان کا بڑا اہم کارنامہ ہے۔ ’’آوارہ گرد اشعار‘‘ کے بارے میں بڑی نادر معلومات فراہم کی ہیں، قدیم شعراء کے بارے میں ان کی واقفیت بے نظیر تھی۔
ان کے مضامین سے اردو کے مشہور مصنفوں کی غلطیوں کا پتہ چلا۔ ’’آب حیات کا تحقیقی جائزہ‘‘، ’’میرحیات و شاعری‘‘، ’’فائز دہلوی‘‘، ’’لکھنو کا دبستان شاعری‘‘ عبدالحق بحیثیت محقق اور ’’بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقاء‘‘ جیسے مضامین میں نکتہ چینی کے ساتھ بہت سی نئی معلومات ملتی ہیں، صداقت و حقیقت بے نقاب ہوکر سامنے آجاتی ہے۔
وہ تحقیق کے سلسلے میں نہ کسی سے مرعوب ہوئے اور نہ اپنی رائے کے اظہار میں رورعایت کی، ہر بات بے لاگ اور دوٹوک طریقے پر کہنے کے عادی تھے اور اسی بناء پر بہت سے لوگ ان سے خوش نہ تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اردو تحقیق کو ترتیب مقدمات اور فکری تنظیم سے آشنا کیا، ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ مقدمات اور نتائج میں ایک منطقی ربط و ترتیب تلاش کرتے اور جہاں انھیں یہ ربط نہیں ملتا وہاں بے رحمی سے اس بے ربطی کو بے نقاب کردیتے تھے، ان کی تحریروں سے اردو تحقیق کے مبادیات، اصول، ضابطے اور طریق کار کے بارے میں بڑی رہنمائی ملتی ہے، جس سے تحقیقی کام کرنے والوں کو آئندہ بڑی مدد ملے گی، انھوں نے اردو میں تحقیق و تنقید کا معیار ہی بلند نہیں کیا، بلکہ ہر اہل قلم کو زیادہ احتیاط، زیادہ محنت اور زیادہ علمی دیانت داری کی ضرورت کا احساس دلایا ہے، ان کا اردو میں تحقیقی رسالہ ’’معیار‘‘ اہم رسالوں میں تھا، ان سے بہتوں کو تحقیق کا سلیقہ آیا۔
قاضی صاحب نثر میں انداز بیان کی وضاحت، منطقی ربط اور سادگی کے قائل تھے، ان کے نزدیک نثر کا حسن سادگی اور وضاحت میں مضمر ہے، جس قدر صاف اور مدلل طریقے پر نثر اپنے مضمون کو ادا کرسکے گی، اسی قدر وہ معیاری کہلانے کی مستحق ہوگی۔
قاضی صاحب نے آزادی سے قبل سیاسی تحریکوں میں عملاً حصہ لیا تھا اور اپنی تعلیمی زندگی کو حب وطن کی خاطر خیرباد کہہ دیا تھا، اس لئے ہندوستان کے مقتدر سیاسی لیڈر انھیں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان سے گہرے مراسم رکھتے تھے، قاضی صاحب نے اپنی خودنوشت کہانی میں اس کا تذکرہ کیا ہے، اردو زبان کے سلسلے میں گاندھی جی، راجندر پرشاد اور مولوی عبدالحق کے درمیان جو تاریخی بات چیت ہوئی اور معاہدہ طے پایا تھا وہ قاضی صاحب کی قیام گاہ پٹنہ میں ہی ہوا تھا، گو اس معاہدے پر عمل نہ ہوسکا لیکن اردو کی تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔
قاضی صاحب طبعاً حلیم، شریف النفس، وضعدار اور خلیق انسان تھے، مذہبی لحاظ سے ان کے عقائد کے بارے میں لوگ مشکوک رہے، لیکن انھوں نے اپنی تحریروں میں اس کا اظہار نہیں کیا، ان کی شخصیت اس لحاظ سے بڑی اہم تھی کہ انھوں نے زندگی کا بڑا حصہ زبان و ادب کی خدمت میں بسر کیا، ان کے علمی اور تحقیقی کارناموں کی بناء پر حکومت ہند نے پدم شری اور صدر جمہوریہ کے سرٹیفیکٹ سے نوازا، غالب انسٹی ٹیوٹ دلّی نے غالب ایوارڈ دیا اور اردو اکیڈمیوں نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کیا، لیکن قاضی صاحب ان سب باتوں سے کہیں بلند تھے، وہ اردو ادب کی تاریخ میں لازوال نقوش چھوڑ گئے ہیں، جو کبھی مٹائے نہیں جاسکتے۔ (فروری ۱۹۸۴ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...