Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا مفتی عتیق الرحمن

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا مفتی عتیق الرحمن
ARI Id

1676046599977_54338235

Access

Open/Free Access

Pages

430

مولانا مفتی عتیق الرحمن
۱۲؍ مئی ۸۴؁ء کو ہندوستان کے نامور عالم مولانا مفتی عتیق الرحمن فالج کے موذی مرض میں ایک طویل مدت تک مبتلا رہ کر ۸۴ سال کی عمر میں اس دارفانی سے رحلت گراے عالمِ جاودانی ہوئے۔
ان کے اس مرض کی المناکی دارالمصنفین سے بھی بڑی حد تک وابستہ ہے، اس لئے اس ادارہ کے خدام ان کی وفات حسرت آیات سے بہت سوگوار ہیں، فروری ۱۹۸۲؁ء میں یہاں ’’اسلام اور مستشرقین‘‘ پر جو سیمینار ہوا تھا، اس میں وہ شرکت کے لئے تشریف لائے تھے، تین روز یہاں بہت ہنسی خوشی سے گذارے، اس کے ایک اجلاس کی صدارت بھی کی، خوش خوش یہاں سے اور شرکاء کے ساتھ روانہ ہوئے تو ریل ہی میں بارہ بنکی کے پاس ان پر فالج کا سخت حملہ ہوا، ان کے ہم سفر مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور مولانا سجاد حسین نے ان کو کسی طرح لکھنؤ کے ہسپتال میں داخل کیا، ان کی طبیعت کچھ سنبھلی تو پھر دہلی لے جائے گئے، اس وقت سے اپنی وفات تک تقریباً سوا دو سال تک بستر ہی پر رہے، خیال ہوتا ہے کہ وہ دارالمصنفین کا سفر نہ کرتے تو اس موذی مرض میں مبتلا نہ ہوتے، مگر مشیتِ ایزدی یہی تھی، راقم ان کی عیادت کے لئے کئی بار ان کی خدمت میں حاضر ہوا ان کا جسم تو بیکار ہوچکا تھا، مگر دماغ بیدار رہا، گفتگو میں وہی روانی اور شیر ینی ہوتی جو ان کی طبیعت کا مخصوص رنگ تھا، ہر قسم کے مسائل پر گفتگو کرتے، مگر زیادہ تر دارالعلوم دیوبند کے قضیۂ نامرضیہ پر اظہار خیال کرتے، ایسا معلوم ہوتا کہ وہاں کا المیہ پیش نہ آتا تو اس مرض میں مبتلا نہ ہوتے اور ہوتے بھی تو اتنے دنوں تک بستر علالت پر پڑے نہ رہتے، دارالعلوم دیوبند سے ان کا لگاؤ فطری تھا، کیونکہ ان کے جدامجد مولانا فضل الرحمن اس کے بانیوں میں سے تھے۔
ان کی زندگی ان کے گوناگوں مشاغل سے معمور رہی، دارالعلوم دیوبند کے ان علماء میں شمار کئے جاتے جن پر بجاطور سے اس کو فخر ہوسکتا ہے، دیوبند اور ڈابھیل کے مدرسوں میں کچھ دنوں درس و افتاء کی خدمت انجام دی، پھر کلکتہ کی کولوٹولہ اسٹریٹ کی بڑی مسجد کے خطیب رہے، جہاں اپنے درس قرآن سے بھی لوگوں کو مستفیض کیا، وہاں سے دہلی آکر ندوۃ المصنفین قائم کیا اور اس کو حرزجاں بناکر اپنی پوری زندگی گزار دی۔
سیاست میں بھی برابر حصہ لیتے رہے بڑے خوش بیان مقرر تھے، ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑنے کے لئے انڈین نیشنل کانگریس کے جانباز سپاہی بنے تو اپنی وضع داری میں آخری وقت تک اس کے ساتھ ہی رہے، مگر وہ ان کانگریسی مسلمان رہنماؤں میں نہ تھے، جو ہندوؤں اور حکومت میں تو بہت سمجھے جاتے ہیں، لیکن اپنے ہم مذہبوں میں معتوب ہوتے ہیں، ان کا سیاسی ذہن بہت صاف تھا، اس لئے غیر کانگریسی رہنماؤں سے بھی ان کا میل ملاپ رہا، ان سے اپنے تعلقات کے آبگینے میں کسی قسم کی ٹھیس لگنے کو پسند نہ کرتے، اورنچے خاندان کے چشم و چراغ تھے، اس لئے خاندانی وراثت میں جو اوصاف پائے تھے، ان کو اپنی سیاسی زندگی میں بھی برقرار رکھا، اپنے معاصروں سے بہت ہی محبانہ طور پر ملتے، خواہ ان کا سیاسی مسلک کچھ بھی ہوتا، اپنے چھوٹوں سے مربیانہ انداز کی گفتگو کرکے ان کے دلوں کو موہ لیتے، اپنے ناقدوں بلکہ مخالفوں سے بھی شریفانہ برتاؤ رکھتے، ان کی ان خوبیوں کی وجہ سے مجلس مشاورت کے ارباب حل و عقد نے ان کو اس کا صدر بنایا، تو آخر وقت تک وہ اس منصب پر قائم رہے، مگر ۱۹۴۷؁ء کے بعد مسلمان کچھ ایسے غیر متحرک ہوگئے ہیں کہ ان کا جمود ختم ہوتا نظر نہیں آتا، اس لئے مجلس مشاورت میں بھی وہ حرکت پیدا نہ ہوسکی جس کی توقع کی جاسکتی تھی، اس کا افسوس عام مسلمانوں کے ساتھ خود مولانائے مرحوم کو بھی رہا۔ان پر جہاں عام مسلمانوں کو اپنے ملی معاملات میں اعتماد رہا، وہاں حکومت ہند کو بھی ان کے وطنی جذبہ پر پورا بھروسہ رہا، ملک کے دینی مدرسوں، علمی انجمنوں اور علمی تحریکوں میں ان کی رکنیت اور شمولیت باعث فخر سمجھی جاتی، اسی طرح حکومت کی بعض اہم کمیٹیوں کے بھی رکن رہے اور کبھی بیرونی وفود میں حکومت کی نمائندگی بھی کی، دینی، علمی اور سیاسی مجلسوں میں اپنی خطیبانہ شان سے اثر انداز ہوتے اور ان کے مخلصانہ مشوروں کی قدر کی جاتی۔
ان کا زندہ جاوید کارنامۂ ندوۃ المصنفین ہے جس کی تاسیس انھوں نے ملک کے مشکل حالات اور اردو زبان کے صبرآزما ماحول میں ۱۹۳۸؁ء میں کی، اس وقت سے اب تک اس کی طرف سے تقریباً دو سو کتابیں، مذہب، تفسیر، حدیث، تاریخ، سیاست اور دوسرے علوم و فنون پر دیدہ زیب کتابت اور طباعت بڑی اچھی جلد اور گردپوش سے شائع ہوچکی ہیں، ان سے اردو لٹریچر میں بڑا وزن اور وقار پیدا ہوگیا ہے۔ نشر و اشاعت کا ادارہ قائم کرنا اور اس کے معیار کو برقرار رکھ کر مقبول عوام و خواص بنانا صبح کرنا شام کا لانا جوئے شیر کا، مگر مولانائے مرحوم نے اس جوئے شیر کو رواں رکھنے میں اپنی پوری زندگی گذاردی، اردو کے علم و فن کی تاریخ میں ان کا یہ کارنامہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
وہ خود تو بہت سی کتابوں کے مصنف نہیں ہوئے، انھوں نے شروع میں علامہ ابن تیمیہ کی الکلم الطیب پر تشریحی نوٹ لکھے اور علامہ ابن جوزی کی صیدالخاطر کا ترجمہ بھی اردو میں کیا، قرآن مجید کی مختصر تفسیر دو جلدوں میں لکھنی چاہتے تھے لیکن لکھ نہ سکے، ان کی ریڈیائی تقریروں کا ایک مجموعہ ’’منارصدا‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے، وہ جیسی میٹھی گفتگو کرتے ویسی ہی میٹھی تحریر بھی لکھتے، اپنے سیاسی مشاغل اور ندوۃ المصنفین کے اہتمام کے خرخشوں کی وجہ سے خود تو بہت سی کتابوں کے مصنف نہ بن سکے لیکن مصنف گر ضرور ہوئے، ان کے ادارہ کی وجہ سے بہت سے اہل قلم مصنف بن گئے اور ان کی ادبی صلاحیتیں ابھریں، ورنہ یہ دبی رہ جاتیں تو علوم و فنون کا کتنا بڑا نقصان ہوتا۔
ندوۃ المصنفین کا ترجمان مجلہ برہان ہے، جو جولائی ۱۹۳۸؁ء سے اب تک ہر مہینہ بڑی پابندی سے نکل رہا ہے، اس کی قلمی گل کاریوں، ادبی زمزمہ سنجیوں، مذہبی موشگافیوں، علمی نکتہ آفرینیوں اور اس کے مختلف مضامین کی مشاطہ گری کی کاوشوں کا زریں سہرا تو مولانا سعید احمد اکبر آبادی کے سر ضرور ہے لیکن اس کی کتابت، طباعت ٹھیک وقت پر اشاعت اور اس کے مالی ذرائع کی کمی کو پورا کرنے کی محنت و ریافت کا جو نمونہ مولانائے مرحوم کے ذریعہ سے عمل میں آیا وہ عملی اور تعمیری سرگرمیوں کی ایک قابل تقلید مثال ہے۔
وہ اب وہاں ہیں جہاں ایک روز سب کو جانا ہے، مگر جن لوگوں کو ان کے ساتھ کام کرنے، یا ان سے ملنے جلنے کا موقع ملا وہ ان کی بھلمنساہت، مرنجاں مرنج انداز طبع، اختلاف کے موقع پر شریفانہ برتاؤ، مسلمانوں کی سیاسی مصیبتوں کے وقت ان کے اندر ونی مضطربانہ جذبات اور ان کے سیاسی مستقبل کو سنوارنے کی خاطر ان کے فکری رجحانات کو یاد کرکے دل سے دعائیں کریں گے، کہ ان کی زندگی کے روشن کارنامے ان کے لئے توشۂ آخرت بنیں، اور وہ بارگاہ ایزدی میں کہہ رہے ہوں، ربّ اغفر وارحم وانت خیرالراحمین۔ (صباح الدین عبدالرحمن، جون ۱۹۸۴ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...