Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > شریمتی اندرا گاندھی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

شریمتی اندرا گاندھی
ARI Id

1676046599977_54338236

Access

Open/Free Access

Pages

431

شریمتی اندرا گاندھی
شریمتی گاندھی اب اس دنیائے فانی میں نہیں رہیں، کچھ نادان، وطن دشمن اور ناعاقبت اندیش مردوں کے پستول اور اسٹن گن سے نہیں، بلکہ ان کی بے رحمی، بے دردی اور سفاکی کی گولیوں کا نشانہ بنیں اور امر ہوکر سب سے رخصت ہوگئیں۔
دو مردوں نے ایک ۶۷ سالہ عورت کو اپنی بائیس گولیوں کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ دنیا کے تمام مردوں کے مردانہ پن کی تذلیل کی، انسانیت کی گردن شرم سے جھکادی اور وطن کی ناموس خاک میں ملادی، مگر خود شریمتی اندرا گاندھی کی عظمت، جلالت اور صولت میں چار چاند لگادیا، ان کی وفات اپنی فطری موت سے ہوتی تو ان کی عزت، مقبولیت اور محبوبیت میں اتنا اضافہ نہ ہوتا جتنا کہ اب ہوا، گلابوں اور سورج مکھیوں سے لدی ہوئی ان کی ارتھی بحری، ہوائی اور برّی لشکریوں کے دستوں کی معیت اور لاکھوں عقیدت مندوں کے جلو میں روانہ ہوئی، تو ایسا معلوم ہورہا تھا کہ پنڈت جواہر لال نہرو کی لاڈلی، ہندوستان کی بیٹی اور سیاست کی دیوی اپنے میکے سے فنا کی سہاگن بنی ہوئی بے پناہ آنسوؤں کا جہیز لے کر وداع ہورہی ہے، سو سے زیادہ ملکوں کے ممتاز نمائندے ان کے احترام میں جھکے ہوئے تھے، مردوں اور عورتوں کا بے پناہ سوگوار ہجوم زبان حال سے کہہ رہا تھا کہ ہندوستان کی فضا پر جب تک سورج کی روشنی چمکتی رہے گی، چاند کی چاندنی پھیلتی رہے گی اور شبنم کے قطرے یہاں کے پھولوں کو تازہ اور شاداب کرتے رہیں گے، ہندوستان کی تاریخ میں شریمتی اندرا گاندھی کا نام باقی رہے گا۔
کچھ سیاسی شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جو زمانہ کے سپرد ہوجاتی ہیں، مگر کچھ سیاسی شخصیتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے سپرد زمانہ ہوجاتا ہے، اندرا گاندھی کی شخصیت ایسی تھی جس کے سپرد خود زمانہ ہوگیا تھا، ان کے سرپر وزارت عظمیٰ کا تاج رکھا گیا تھا تو پورے ہندوستان کا دل دھڑک رہا تھا کہ معلوم نہیں وہ اس تاج کی لاج کس طرح برقرار رکھیں گی، مگر اقبال خود ان کی وزارت عظمیٰ کی مانگ پر افشاں چھڑکتا رہا، کامیابی خود بڑھ کر ان کی سیاست کے پاؤں میں چھاگل بنی رہی، عزم بالجزم ان کی قوت فیصلہ کا سہارا لے کر ان کی سیاسیت کے گلے میں مرصع کا ہار پہناتا رہا، اور اب جبکہ ان کی سیاسی زندگی کا افسانہ ختم ہوگیا ہے، مورخوں کو یہ لکھنے میں تامل نہیں ہوگا کہ ایسی سرگرم، متحرک، محنتی، جواں ہمت، حوصلہ مند، نڈر، وطن کے کونے کونے کی خاک چھاننے والی، لاکھوں کے مجمع کو اپنی طرف کھینچنے والی دنیا کی سیاست پر اثر انداز ہونے والی، اپنے مخالفوں سے صبروسکون کے ساتھ نبرآزما ہونے والی، اپنی ناکامی کے باوجود ازسرنو ابھرنے والی اور طرح طرح کے مسائل میں مبتلا رہ کر ان کو حل کرنے کی کوشش کرنے والی حکمراں خاتون دنیا کی تاریخ میں شائد پیدا نہیں ہوئی۔
رومن امپائر میں کلیوپیٹرا، تھیوڈرا، زو، برولناٹ اور ایبرین اپنے زمانے کی سیاست پر چھائی رہیں، فرانس میں میری انٹونایٹ اور کیتھرائن اپنے ملک کی سیاست میں بہت نمایاں ہوئیں، انگلستان میں ایلزبتھ، میری اور وکٹوریہ نے اپنی حکمرانی میں بڑا نام پیدا کیا، ہندوستان کے اندر رضیہ سلطانہ، حبہ خاتون، بیگم ماہم، نورجہاں، درگاوتی اور تارا بائی کو اپنے زمانہ میں بڑی شہرت ہوئی، مگر ان تمام حکمراں خواتین کی سیاسی سرگرمیاں محلوں اور درباروں تک رہیں، اس کے برخلاف اندرا گاندھی کی سیاست پارلیمنٹ کے ایوانوں، مخالف جماعتوں کی شدید مخالفتوں، انتخابات کے ہنگاموں، سڑکوں، گلیوں اور کوچوں کے طوفانی دوروں میں ابھری، اس لحاظ سے وہ ان تمام خواتین حکمرانوں پر فوقیت رکھتی ہیں، ان کی معاصر سیاسی خواتین میں اسرائیل میں گولڈامائر، سری لنکا میں مسزبندرا نائکے اور انگلستان میں مسزتھیچر وزارت عظمیٰ پر ضرور فائز رہیں، ان کے ملکوں کا رقبہ اور ان کی آبادی بھی زیادہ نہیں، مگر اس کے باوجود وہ اپنے اپنے ملک پر اس طرح حاوی نہ ہوسکیں، جس طرح اندرا گاندھی ستر کروڑ آبادی والے ملک کے الجھے ہوئے صبرآزما اور ہمت شکن مسائل پر رہیں، اس لحاظ سے بھی ان کی معاصر حکمراں خواتین ان کی شہرت کے آگے ماند رہیں۔
تاریخ کی عظیم شخصیتوں کا جائزہ لینے میں جہاں عقیدت و محبت کے پھول نچھاور کیے جاتے ہیں، وہاں تنقید و تنقیص کی چنگاریاں بھی برسائی جاتی ہیں، اندرا گاندھی کے کارناموں کا بھی آئندہ جائزہ لیا جائے گا، مگر ہندوستان کی تاریخ عظمت کا ہار پہنا کر ان کو شہرت کے بقائے دوام کے دربار میں جو مقام دے چکی ہے، اس سے ان کا بڑے سے بڑا ناقد اور مخالف بھی ہٹا نہیں سکتا۔
ان کی بڑی آرزو تھی کہ ان کے لڑکے راجیو گاندھی ان کے جانشین ہوں، ان کی المناک موت سے یہ آرزو پوری ہوگئی، اب راجیو گاندھی کی طرف سارے ہندوستان کی نظر اٹھی ہوئی ہے کہ اس بھاری ذمہ داری سے وہ کس طرح عہدہ برآ ہوتے ہیں، حکومت آرڈی ننس کے ذریعہ سے بھی کی جاتی ہے، یہ پولیس کے ذریعہ سے بھی امن و امان قائم کرالیتی ہے، فوج کے سہارے فسادات پر بھی قابو پالیتی ہے، ایسی حکمرانی تو بہت آسان ہے، مگر دلوں کی تسخیر کرکے لوگوں پر حکومت کرنا آسان نہیں بلکہ مشکل ہے، ایک حکمراں کا اصلی کارنامہ تو یہ ہے کہ وہ جھک کر قدآور ہو، مفتوح بن کر فاتح ہو، مغلوب ہوکر غالب ہو، راجیو گاندھی کی وزارت عظمٰی کی آزمائش اس میں ہے کہ اس ملک کے ہر فرقہ بلکہ ہر آدمی کے لیے ان کے دل میں محبت کی گنگا اور اخلاص کی جمنا کس طرح بہتی ہے، یہ قانون یا کاغذی تحریروں یا زبانی تقریروں سے نہیں بہہ سکتی، بلکہ لوگ محسوس کریں کہ ان کے سربراہ کی واقعی مخلصانہ، دردمندانہ اور ہمدردانہ حکمت عملی کی وجہ سے اس کے لیے ان کے دلوں کے اندر شیفتگی اور وارفتگی کے شہد کی نہر بہہ رہی ہے۔
دارالمصنفین شریمتی اندرا گاندھی کی حسرتناک موت سے اس لیے بھی سوگوار ہے کہ ان کے خاندان سے اس ادارہ کا گہرا تعلق رہا، ان کے دادا پنڈت موتی لال نہرو اور ان کے والد بزرگوار پنڈت جواہر لال نہرو اس کو اپنی تشریف آوری اور کرم سے برابر نوازتے رہے، خود انھوں نے بھی اس روایت کو برقرار رکھا، اس لیے ان کی وفات کو یہ ادارہ اپنا بہت بڑا سانحہ سمجھتا ہے، اس سوگواری کے عالم میں اس کی خوشی ہے کہ ہندوستان کی وزارت عظمیٰ اس فخر روزگار خاندان میں پھر آگئی، راجیو گاندھی کو پیام تعزیت بھیجنے کے ساتھ ادارہ ان کے اس عہدۂ جلیلہ کے لیے مبارکباد بھی پیش کرتا ہے۔
(صباح الدین عبدالرحمن، نومبر ۱۹۸۴ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...