1676046599977_54338237
Open/Free Access
433
آہ ! مولانا ابولجلال ندوی مرحوم
کراچی سے یہ دکھ بھری خبر ملی کہ مولانا ابوالجلال ندوی، گزشتہ مہینہ ۱۰ محرم ۱۴۰۵ھ کو اﷲ تبارک و تعالیٰ کی آغوش رحمت کے سپرد ہوگئے، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔ وہ دارالمصنفین کے علمی خدمت گزاروں میں تھے، ان کا آبائی وطن تو اعظم گڑھ ہی کا ایک گاؤں محی الدین پور تھا، تعلیم دارالعلوم ندوۃ العلماء میں پائی، وہاں کے بڑے لائق اور ذی استعداد طلبہ میں شمار ہوتے تھے، ان کی طرف حضرت استاذی المحترم مولانا سید سلیمان ندویؒ کی نظر اٹھی تو ان کو دارالمصنفین میں رفیق کی حیثیت سے بلا لیا، اور وہ یہاں ۱۹۲۳ء سے ۱۹۲۸ء تک رہے، انھوں نے یہاں رہ کر ہر قسم کے علوم و فنون میں بڑی گہری نظر پیدا کی، قرآن مجید، تفسیر، حدیث، رجال، فقہ، تاریخ اور ادب کے علاوہ وید، گیتا، اپنشد اور اس قسم کی ہندوؤں کی مذہبی کتابوں پر بھی ان کو بڑی دسترس حاصل تھی، وہ شاعر بھی تھے، اور کبھی کبھی شعر بھی کہہ لیا کرتے تھے، دارالمصنفین کے قیام میں معارف کے لیے حسب ذیل مضامین لکھے عربی زبان کا فلسفہ لغت (ستمبر ۱۹۲۳ء)، سر اکبر اپنشد داراشکوہ کا ترجمہ (دسمبر ۱۹۲۴ء؍ جنوری ۱۹۲۵ء)، اسلامی شمسی قمری سال نومبر ۱۹۲۵ء، دروزیوں کا مذہب (اپریل ۱۹۲۶ء) مستدرک حاکم کا مطبوعہ نسخہ (جولائی اگست ۱۹۲۶ء)، ان کو علم اشتقاق پر کتاب لکھنے کے لیے کہا گیا تھا، لیکن اس کو وہ پورا نہ کرسکے، ان کی طبیعت میں بڑا انتشار تھا، اسی لیے ان کا علمی فضل بھی منتشر رہا، جن کو وہ اس طرح سمیٹ نہ سکے، جیسا کہ ان کو کرنا چاہیے تھا، وہ دارالمصنفین سے مدراس چلے گئے، جہاں جمالیہ کالج کے لائق مدراس شمار کئے جاتے تھے، وہاں بھی ان کا بہت دنوں تک قیام نہیں رہا پھر ایک ہفتہ وار اخبار نکالا، اس کے ایڈیٹر ہونے کی حیثیت سے بھی بڑی مقبولیت حاصل کی، مگر اس اخبار سے بھی زیادہ دنوں تک وابستہ نہیں رہ سکے، مدراس میں متفرق کام کرتے رہے اور وہاں کے لوگوں نے ان کی علمی صلاحیتوں سے پورا استفادہ کیا۔
۱۹۴۶ء میں دارالمصنفین پھر بلالئے گئے، اس وقت تک ان کے علم میں بڑی وسعت اور گہرائی پیدا ہوچکی تھی، جس موضوع پر بولتے سننے والوں پر اپنی غیر معمولی علمی، تاریخی، ادبی اور مذہبی معلومات کا گہرا اثر پیدا کرتے، بعض اوقات جی چاہتا کہ وہ بولتے رہتے اور ہم لوگ سنتے رہتے، ان کی گفتگوئیں قلم بند کرلی جاتیں تو وہ علمی جواہر ریزے ہوجاتے، وہ اپنے مافی الضمیر کو تو بڑی خوبی سے بولتے وقت ادا کردیتے اور اس کے لیے ان کے پاس الفاظ کے ہر طرح کے ذخیرے ہوتے، لیکن یہ علم و فن کی بڑی محرومی رہی کہ جب وہ کسی موضوع پر لکھنے بیٹھتے تو لکھتے چلے جاتے، اور ان کے قلم کی روانی کہیں نہیں رکتی، یہاں تک کہ ایک موضوع پر وہ ڈھائی سو صفحے تک لکھ جاتے جس میں اپنی بے پناہ معلومات کی بنا پر موضوع سے ہٹ کر بہت سی غیر متعلق باتیں آجاتیں، وہ جو کچھ لکھتے اس سے خود غیر مطمئن رہتے، پھر اس میں کانٹ چھانٹ کرنے لگتے، یہاں تک کہ اپنے دوسو صفحوں کی تحریروں کو چالیس پچاس صفحوں میں قلم بند کردیتے یہ اختصار بھی ان کو پسند نہ آتا اور خود کہتے کہ یہ اتنا مختصر ہوگیا کہ بہت سی مفید باتیں اس میں نہیں آسکیں۔ اس سے بددل ہوکر، ان صفحات کو ادھر اُدھر ڈال دیتے جو بعد میں تلاش کرتے تو ان کو خود نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کہاں رکھے ہوئے ہیں، اس طرح معلوم نہیں ان کی کتنی علمی تحریریں ضائع ہوگئیں، دارالمصنفین کے قیام میں کبھی ایسا بھی موقع آیا کہ وہ جو کچھ لکھتے ان کو لیکر پھر سے مرتب کردیا جاتا اور وہ معارف میں شائع ہوجاتا، ان کے ذہن کی اس انتشار پسندی اور قلم کے بے پناہ کا وہ پن کی وجہ سے وہ کسی موضوع پر کوئی خاص کتاب نہ لکھ سکے، لیکن ان کی جو بھی تحریر معارف میں شائع ہوتی اس پر اہل فن کی نگاہ ضرور اٹھتی معارف میں ان کے ایک مضمون کو پڑھ کر پیرس سے ڈاکٹر حمید اﷲ نے لکھ بھیجا تھا کہ دارالمصنفین کے علمی افق پر یہ کہاں سے درخشدہ ستارہ طلوع ہوا ہے۔
دارالمصنفین کے دوبارہ قیام کے زمانہ میں معارف میں ان کی حسب ذیل تحریریں نکلیں معجزہ شق القمر کا ذکر قرآن مجید میں (نومبر ۱۹۴۶ء)، احادیث عاشورا (اگست ۱۹۴۷ء)، ذوالکفل (جولائی ۱۹۴۸ء)، بکہ مبارکہ (اگست ۱۹۴۸ء)، الردم (جنوری ۱۹۴۹ء)، اسامری (جولائی ۱۹۴۹ء)، حضرت ایوبؑ (اگست و ستمبر ۱۹۴۹ء)، سنگ شیام (اکتوبر۔ نومبر ۱۹۴۹ء)، تاریخ یمن کی ایک سطر (دسمبر ۱۹۴۹ء)، کتبات حصن غراب (مئی ۱۹۵۰ء)، تاریخ بابل (جولائی ۱۹۵۰ء)، ہاروت و ماروت (اگست ۱۹۵۰ء)، تاریخ یمن کا ایک ورق (اکتوبر و نومبر ۱۹۵۰ء)، داستان خلیل بائبل قدیم سے ایک صحیفہ کی روایت (مارچ ۱۹۵۱ء)، اصحاب الاخدود (جولائی ۱۹۵۱ء)، اصحاب الفیل کا واقعہ اور اس کی تاریخ (اکتوبر۔ نومبر ۱۹۵۱ء)، اسی زمانہ میں حضرت سید صاحب نے ان کو اعلام القرآن پر ایک کتاب لکھنے کو کہا، لیکن وہ مکمل نہ کرسکے، اسی میں سے کچھ حصے مذکورہ بالا مضامین کی شکل میں شائع ہوئے، ان کو کتبات پڑھنے میں غیر معمولی مہارت حاصل تھی، کتبہ کسی زبان کا اور کتنا ہی پیچیدہ اور گنجلک ہوتا اس کو ضرور پڑھ لیتے، اسی سلسلہ میں عبرانی اور دوسری زبانوں میں بھی دسترس حاصل کی، ان کے اس وصف پر لوگ متحیر رہتے، اور اس وصف کی بنا پر وہ اس برصغیر میں کیا، بلکہ پوری دنیا میں بڑا نام حاصل کرسکتے تھے، مگر نام و نمود کی فکر ان کو بالکل نہیں رہی، دنیا کے ہنگاموں سے دور، ایک گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر خود ہی اپنے علم و فضل سے لذت اٹھاتے رہے، اور اس کی ان کو کبھی فکر لاحق نہیں ہوئی کہ ان کو کیا ہونا چاہئے تھا اور کیا نہیں ہوسکے، طبیعت میں بڑی خودداری تھی، کردار میں بڑی پختگی رہی، جو رائے قائم کرلیتے اس سے دنیا کی کوئی قوت ان کو ہٹا نہیں سکتی تھی، ہندوستان میں جب تک رہے، آل انڈیا نیشنل کانگریس کی تحریکوں کے مداح رہے، اور اپنی اس مداحی کی بنا پر نقصانات بھی اٹھائے لیکن وہ سود وزیاں سے بالاتر ہوکر زندگی بسر کرنے کے عادی ہوگئے تھے، اس لیے لوگ ان کو کیا سمجھتے ہیں، اس سے کبھی پریشان نہیں رہے، اپنی دنیا الگ بنا کر اسی میں آباد رہ کر خوش رہے۔
ان کی تین لڑکیاں تھیں، ایک اولاد نرینہ بھی تھی، ان لڑکیوں کی شادی کراچی میں ہوگئی، تو وہ بھی کراچی منتقل ہوگئے جہاں وہ کبھی کبھی علمی رسائل میں مضامین لکھا کرتے تھے، موہن جوڈارو کے تقریباً دو ہزار کتبات پڑھ کر وہاں کے لوگوں کی مدد کی، لیکن وہاں کی سرزمین سے اپنے علم و فضل کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا، یہ خاکسار جب کراچی جاتا تو ان کی خدمت میں حاضر ہوتا، اور ان کی علمی گفتگو سے استفادہ کرتا، کوئی موضوع چھیڑ دیا جاتا تو وہ بولتے چلے جاتے، رکنے کا نام نہیں لیتے، گزشتہ اپریل میں ان کی خدمت میں ان کی رہائش گاہ پر حاضر ہوا تھا، آنکھوں کی بینائی بہت ہی کم ہوگئی تھی، لکھنے پڑھنے سے بالکل معذور ہوچکے تھے، ان کی بڑی تمنا تھی کہ کوئی ایسا آدمی مل جاتا کہ جو کچھ ان کے سینہ میں تھا، اس کو بول کر سفینہ میں منتقل کردیتے، لیکن ان کی یہ تمنا پوری نہ ہوسکی، یہ خاکسار جب ان کے پاس پہنچا تو اثنائے گفتگو میں کلام پاک کی ایک آیت کا ذکر آگیا تو اس کی تفسیر بیان کرنے لگے، اس کو سن کر یہ خیال ہوا کہ یہ ان کے خیالات کے جوہرات قلمبند ہونے کی وجہ سے ضائع ہو کر رہ جائیں گے، کراچی کے لیاقت کالج کے پرنسپل جناب سید فخرالحسن صاحب نے ان کو قلمبند کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کی گفتگو کی روانی کا ساتھ جناب سید فخرالحسن کا قلم نہ دے سکا، ان سے رخصت ہوا تو خیال آیا کہ علم، فضل، فن اور بصیرت کا ایک مجموعہ کراچی کے ایک گمنام گوشہ تنہائی میں مقید ہو کر رہ گیا، اور ان کے بعد وہ ساری چیزیں بھی ان کے ساتھ سُپرد خاک ہوجائیں گی، اورجب ان کی وفات کی خبر ملی تو ان کی آخری ملاقات برابر یاد آرہی ہے، اور بار بار خیال آتا ہے کہ دنیا سے کیا ہو کر ان کو رخصت ہونا چاہئے تھا، اور کیا ہوکر رخصت ہوئے، دل سے دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ قرآن پاک اور حدیث مقدس میں ان کی نکتہ وری اور دیدہ وری کی بدولت، ان کو اپنی آغوشِ رحمت میں لے کر کروٹ کروٹ جنت نعیم عطا فرمائے، آمین!
(صباح الدین عبدالرحمن، نومبر ۱۹۸۴ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |