Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈا کٹر محمد ایوب قادری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈا کٹر محمد ایوب قادری
ARI Id

1676046599977_54338240

Access

Open/Free Access

Pages

435

ڈاکٹر محمد ایوب قادری
( شمس بدایونی )
ڈاکٹر محمد ایوب قادری سے میری دیرینہ ملاقات تھی، جب جب کراچی جانے کا موقع ملا، وہ بہت ہی عزیزانہ طور پر ملے، ہر ملاقات میں پہلے سے زیادہ اپنی بھلمنساہت، شرافتِ طبع، عجز اور انکسار کا ثبوت دیتے، بہت سی کتابوں کے مصنف ہوئے، جیسا کہ حسب ذیل مضمون سے ظاہر ہوگا، ان کے قلم میں بڑی برق وشی تھی، کسی کتاب کو لکھنا یا ترجمہ کرنا شروع کرتے تو بڑی کم مدت میں یہ کام ختم کردیتے، وہ جس بلند مرتبہ کے مصنف تھے، اپنے عجز و انکسار کی بدولت اس سے اپنے کو کم ہی ظاہر کرتے، وہ اپنی ہر کتاب دارالمصنفین ضرور بھیجتے اور اس کو یہ راقم شوق سے پڑھتا، جب انھوں نے کراچی کے قیام میں شاہنواز خاں کی تصنیف مآثر الامراء کی تین جلدوں کے ترجمے ہدیہ کیے، تو یہ تینوں جلدیں میری میز پر برابر رہیں، اور جب کبھی ان میں سے کسی اقتباس کو اصل فارسی سے ملایا، تو ان کو ہر طرح صحیح، سلیس اور فصیح پایا، اس سے ترجمہ کرنے میں ان کی مہارت اور قدرت کا معترف ہوا، جب وہ طبقات اکبری کا ترجمہ کررہے تھے تو ان سے یہ گفتگو آئی کہ اکبرنامہ کا ترجمہ ایک انگریز نے انگریزی میں کردیا ہے، لیکن یہ بڑی ندامت اور شرم کی بات ہے کہ اب تک اس کا اردو میں ترجمہ نہیں ہوسکا، گویہ بہت مشکل کام ہے، لیکن جب اس کا ترجمہ انگریزی میں ہوسکتا ہے، تو کوئی وجہ نہیں کہ اردو میں نہ ہوسکے، جناب ایوب قادری صاحب نے کہا کہ طبقات اکبری کے ترجمہ کے بعد انشاء اﷲ اکبرنامہ کی جلدوں کا ترجمہ کرکے لوگوں کی ندامت کو دور کردوں گا، اس سے مجھ کو بڑی خوشی ہوئی، گزشتہ نومبر میں میرے قیام کراچی ہی میں ان کی المناک وفات ہوئی، وفات سے ایک روز پہلے ان کا ٹیلی فون آیا کہ ہم ان کے ساتھ رات کو کھانا کھائیں، جس روز یہ دعوت طے تھی، اسی روز خبر ملی کہ وہ اﷲ کو پیارے ہوئے، اس عظیم سانحہ سے بڑا دکھ ہوا، پاکستان کے تمام اخباروں میں ان کا بڑا ماتم ہوا، تمام مشاہیر کے تعزیتی بیانات شائع ہوئے، ان پر اخباروں میں اچھے اچھے مضامین بھی لکھے گئے، جس سے پتہ چلا کہ وہ اپنے علمی رتبہ کی وجہ سے وہاں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، ان سے جو علمی تعلقات تھے، اس بناء پر برابر خیال رہا کہ ان پر ایک طویل مضمون لکھوں، لیکن اپنی مشغولیت کی وجہ سے یہ حق ادا نہ کرسکا، جس کا بڑا افسوس ہے، لیکن وہ برابر یاد آتے ہیں اور اکثر یاد آتے رہیں گے، ان کے چھوٹے بھائی جناب نعمت اﷲ قادری عرف ابومعاویہ صاحب کو بھی دارالمصنفین سے بڑا قلبی لگاؤ رہا، انہوں نے تو اس کی زیارت کرنے کے لیے یہاں آنے کی زحمت بھی گوارہ کی، وہ اس کی مطبوعات کے بڑے قدردان تھے، اور اس کی اشاعت کے لئے برابر فکر مند رہتے، ان کی وفات بھی سڑک ہی پر ہوئی، موٹر سائیکل کے حادثہ میں وہ جاں بحق ہوئے، دل سے دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ دونوں بھائیوں کو اپنی بے پایاں رحمتوں اور برکتوں سے سرفراز کرے، آمین! (’’ص ، ع‘‘)
ہندو پاک میں مستند علمی اور تحقیقی کام کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے، اور اس قلیل تعداد میں بھی ہر ایک عالم و محقق پر تکیہ نہیں کرسکتے، بلکہ ان میں بھی بعض اعلیٰ اور بعض اعلیٰ تر ہیں، انہی ہستیوں میں ایک نام ڈاکٹر محمد ایوب قادری کا بھی ہے، جو ۲۵؍ نومبر ۱۹۸۳؁ء سے مرحوم کے اضافہ کے ساتھ لکھا اور بولا جانے لگا ہے۔
ڈاکٹر محمد ایوب قادری کا نام اردو دنیا میں ایک ممتاز محقق، مولف اور مترجم کی حیثیت سے متعارف ہے، انہوں نے بعض ایسے علمی موضوعات کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا جو ارباب علم نظرانداز کیے ہوئے تھے، اور بعض ایسی کتابوں کو اردو دنیا سے متعارف کرایا جو نادر و کمیاب تھیں۔
قادری مرحوم کا موضوع تاریخ، سوانح، ادب، فن اسماء الرجال اور حوالہ جاتی ادب تھا، اس میں وہ شبلی اسکول سے بڑی حد تک قریب نظر آتے ہیں، ان موضوعات کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، ان پر وہی قلم اٹھائے گا جس نے خود کو علم و ادب کے لیے وقف کردیا ہو یا تلاش و جستجو جس کا مزاج ہو اور جس کی زندگی کا مقصد و مدعا بھی محض علم و ادب کی خدمت ہو، مشفق خواجہ لکھتے ہیں:
’’قادری صاحب گزشتہ ربع صدی سے علم و ادب کی خدمت کررہے ہیں، ان کی علمی لگن کو دیکھ کر وہ علمائے سلف یاد آجاتے ہیں، جنھوں نے ہر طرح کی آسائیشوں سے بے نیاز ہوکر خدمت علم ہی کو اپنا اصل کام سمجھا، قادری صاحب سے میرے مراسم تقریباً چھبیس برسوں سے ہیں، میں نے اس دوران میں انہیں علمی و ادبی موضوعات کے علاوہ کبھی کسی دوسرے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھا، وہ جب بھی ملے کسی نہ کسی علمی کام کی لگن میں سرشار ملے، کبھی کسی قدیم مطبوعہ کتاب کا ذکر ہے، تو کبھی کسی مخطوطے کا، کبھی کسی گمنام مصنف کے حالات کی تلاش ہے، تو کبھی کسی معروف مصنف کے کم معروف پہلو پر روشنی ڈالی جارہی ہے، خدا انہیں تادیر سلامت رکھے کہ ان سے مل کر یہ خوشی ہوتی ہے کہ ہمارا معاشرہ ان ’’دیوانوں‘‘ سے ابھی خالی نہیں ہوا جو ہمیشہ ’’بکارعلم‘‘ ہشیار رہتے ہیں‘‘۔ (مشفق خواجہ، دیباچہ کاروان رفتہ، کراچی ۸۳؁ء)
قادری مرحوم کے موضوعات تحقیق یوں تو بہت کچھ تھے، لیکن انھوں نے بحیثیت کیفیت و کمیت ’’حوالہ جاتی ادب‘‘ اور علمائے ہندوپاک کے مستند سوانح، مسلم تاریخوں اور علماء کی مستند مگر غیر معروف کتابوں پر جس انداز سے دادِتحقیق دی ہے، وہ ان کے خاص موضوعات کہے جاسکتے ہیں، اس ضمن میں انھوں نے کثیر سرمایہ چھوڑا ہے۔
قصبہ آنولہ ضلع بریلی کا ایک تاریخی قصبہ ہے، بجز قنوج کے اس کی تاریخی قدامت کی ہمسری اترپردیش کا کوئی شہر نہیں کرسکتا، یہ حکومت روہیلہ کا پہلا دارالحکومت تھا، اور اس حکومت کے پہلے فرماں روا نواب علی محمد خاں (ف۱۷۴۹؁ء) تھے، ان کی وفات کے بعد حافظ رحمت خاں ان کے جانشین ہوئے، جنھوں نے بریلی میں سکونت اختیار کرلی، نواب علی محمد خاں اور حافظ الملک حافظ رحمت خاں کے ابتدائی عہد میں روہیل کھنڈ کا صدر مقام آنولہ ہی رہا اور اس دور میں یہاں غیر معمولی ترقی ہوئی، مولوی حکیم عبدالغفور لکھتے ہیں:
’’روہیلوں کے زمانے میں شہر آنولہ علماء، فضلاء، شعراء، حکماء اور اہل اﷲ کا مرکز بن گیا، نواب علی خاں کے فرزند نواب محمد یار خاں امیر کے دربار سے قدرت اﷲ شوقؔ، مصحفیؔ، قائمؔ چاند پوری اور فدویؔ لاہوری، جیسے مشاہیر شعراء وابستہ تھے، مصحفیؔ نے آنولہ کی یاد بڑی دردمندی سے کی ہے، چنانچہ وہ اپنے تذکرے ’’ہندی گویاں‘‘ میں قائم کے ذکر میں لکھتے ہیں ’’واﷲ کہ یادآں صحبت داغ ناکامی بردل دردمندی گزارد‘‘۔ ۱؂
حکیم نجم الغنی خاں رام پوری لکھتے ہیں:
’’آنولہ نواب علی محمد خاں کے عہد میں دارالاسلام تھا، اور نواب ممدوح نے بڑی کوشش کے ساتھ اس کی آبادی میں ترقی دی تھی، قلعہ اور مسجدیں تعمیر کرائی تھیں، آنولہ کی دینداری پر بلاد اسلام کو رشک تھا‘‘۔ ۲؂
حافظ رحمت خاں کے بریلی منتقل ہونے اور اس کے شجاع الدولہ کے ہاتھوں تاخت و تاراج ہونے پر بھی اس کی رونق اور عظمت رفتہ کے کچھ نقوش نصف صدی تک قائم رہے، جن کی طرف ڈبلیو فرینکل نے ’’ہسٹری آف شاہ عالم‘‘ میں اشارہ کیا ہے۔
یہی وہ تاریخی قصبہ ہے، جو ایوب قادری کا آبائی وطن تھا، ان کے مورث اعلیٰ روہیلوں کے عہد میں آنولہ آئے، نواب علی محمد خاں والی روہیل کھنڈ نے حضرت شاہ نوری غازیؒ کی زیارت کے بعد جو بڑی اراضی وقف کی تھی، اس کے متولی حکیم احمد اﷲ تھے، جو اپنے دور کے نامور عالم اور خطیب تھے، ان کے صاحبزادے حکیم حبیب اﷲ تھے، جو علم و فضل میں ممتاز تھے، ان کے فرزند حکیم عظیم اﷲ قادری تھے جو علم الفرائض اور تجوید میں اعلیٰ دستگاہ رکھتے تھے، معارف المیراث، کاشف الحقایق تفسیر سورۃ العصر ان سے یادگار ہیں، انھوں نے بعض کتابوں پر حواشی بھی لکھے، ۱۲۸۴؁ھ میں وفات پائی۔ ۳؂
حکیم عظیم اﷲ قادری کے چار صاحبزادے حکیم الٰہی بخش، حکیم سعید اﷲ، میاں وحید اﷲ اور حافظ امام الدین تھے، حکیم سعیداﷲ ۱۸۲۶؁ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۰۷؁ء میں وفات پائی، خاندانی پیشہ طب کرتے تھے، ۱۸۵۷؁ء میں خان بہادر خان، نبیرہ حافظ الملک حافظ رحمت خاں کی فوج میں بھرتی ہوکر کلکرالہ ضلع بدایوں اور کنپلہ فرخ آباد میں انگریزی فوج سے مقابلہ کیا، انھوں نے کئی کتابیں لکھیں اور بعض کتابوں پر قیمتی حواشی بھی لکھے ہیں ۴؂ حکیم سعید اﷲ کے ایک فرزند مولوی رحیم بخش (۱۸۵۷؁ء، ۱۹۲۰؁ء) تھے، جنھیں فن خطاطی میں کمال حاصل تھا، ان عربی کا خاص مطالعہ کیا تھا، عربی ادب پر بھی گہرہ نظر تھی، ان کے ایک فرزند مولوی مشیت اﷲ (۱۸۸۹؁ء، ۱۹۵۹؁ء) تھے، اور یہ قادری مرحوم کے والد ماجد تھے، فارسی میں بہت اچھی قابلیت تھی، تاریخ اور انساب پر بڑی گہری نظر تھی ۵؂ ڈاکٹر معین الدین عقیل ان کے متعلق رقمطراز ہیں:
’’تبلیغ دین اور مناظرہ سے خاص دلچسپی تھی، مختلف مقامات پر خصوصاً بمبئی ۱۹۲۶؁ء سے ۱۹۳۳؁ء کے دوران قیام میں مناظرے کیے، تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف رہے اور کئی غیرمسلموں کو مسلمان کیا، تحریک پاکستان کے زبردست مؤید تھے، ۱۹۵۰؁ء میں ہجرت کرکے پاکستان آئے، دادو (سندھ) میں مقیم ہوئے اور وہیں انتقال کیا، تاریخ، انساب اور ردّآریہ اور ردّشیعہ میں ان سے بعض کتابیں یادگار ہیں، پروفیسر قادری کے علاوہ عبدالقیوم، عنایت اﷲ اور نعمت اﷲ ان کے فرزند ہیں‘‘۔ ۶؂
اس خاندانی تفصیل کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ قادری مرحوم کا خاندان شروع سے علم و ادب کا گہوارا رہا ہے، تاریخ، انساب اور علوم دینیہ سے دلچسپی اس کا نمایاں وصف رہا ہے اور قادری مرحوم کو یہ چیزیں علمی وراثت میں ملیں۔
محمد ایوب نام قادری نام کا جزو ہے، ۲۸؍ جولائی ۱۹۲۶؁ء، ۱۷؍ ذی الحجہ ۱۲۴۴؁ھ بروز بدھ قصبہ آنولہ میں پیدا ہوئے، قصبہ کے ایک بزرگ مولوی حکیم عبدالغفور (ف۱۹۶۴؁ء) نے ان کے کان میں اذان دی اور ’’چراغ علم‘‘ سے تاریخ پیدائش نکالی، رواج کے مطابق ابتدا قرآن مجید حافظ عبدالاحد اور حافظ عبدالغنی سے پڑھا، پھر مدرسہ تعلیم المومنین، آنولہ میں مکتبی تعلیم پائی، ۱۹۳۹؁ء میں پرائمری کے امتحان میں درجۂ اول میں کامیاب ہوئے، اور وظیفہ کے مستحق قرار پائے، ۱۹۴۲؁ء میں مڈل کے امتحان میں بھی درجۂ اول میں کامیاب ہوئے، ۱۹۴۷؁ء میں الٰہ آباد بورڈ سے میڑک کا امتحان فرسٹ ذویژن میں پاس کیا، اسی دوران میں انھوں نے فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں اپنے والد ماجد سے پڑھیں، فارسی کی کچھ کتابیں مولوی اسد علی خان اور حکیم عبدالغفور سے پڑھیں، ۱۹۵۰؁ء میں انٹر اسلامیہ کالج بدایوں سے کیا، اواخر اپریل ۱۹۵۱؁ء میں ان کے والد ماجد نے پاکستان کو ہجرت کی، قادری مرحوم سے والد کی جدائی برداشت نہ ہوئی، چنانچہ وہ بھی مئی ۱۹۵۱؁ء میں پاکستان پہنچے، ابتداً والد کے ساتھ دادو (سندھ) میں ہی قیام کیا، تلاش روزگار میں کراچی پہنچے اور پھر تا دم زندگی وہیں کے ہورہے۔
ستمبر ۱۹۵۱؁ء سے سپلائی اینڈ ڈولپمنٹ (وزارت صنعت محکمہ رسد و ترقیات) سے ملازمت کا آغاز کیا، جو مئی ۱۹۵۷؁ء تک قائم رہی، اس دوران میں تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا، ۱۹۵۶؁ء میں اردو کالج کراچی سے بی۔اے کیا۔
جناب سید الطاف علی بریلوی نے ہندوستان سے ہجرت کرکے کراچی میں سکونت اختیار کی اور آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی، ایک سہ ماہی رسالہ ’’العلم‘‘ بھی جاری کیا، اسی دوران میں سید صاحب کی ملاقات قادری مرحوم سے ہوئی انھوں نے ان کے جوہر ذاتی کو پرکھ لیا، ’’العلم‘‘ کے لیے ان سے کثرت سے مضامین لکھوائے اور شائع کیے، ۱۹۵۷؁ء میں قادری مرحوم کی پہلی تصنیف ’’مولانا فیض احمد بدایونی‘‘ شائع ہوئی، جو اگرچہ بہت مختصر تھی، لیکن اس سے ان کی تحقیقی و تصنیفی صلاحیتوں کا اندازہ ہوا، ہسٹاریکل سوسائٹی کے معتمد ڈاکٹر معین الحق نے اپنے ادارہ میں معاون تحقیق اور ریسرچ افسر کی حیثیت سے بلالیا، ملازمت کا یہ سلسلہ مئی ۵۷؁ء سے ۶۳؁ء تک قائم رہا، پروفیسر حبیب اﷲ خاں غضنفر کے مشورہ پر جن کا ساتھ ہسٹاریکل سوسائٹی میں رہا تھا، انھوں نے ۶۲؁ء میں کراچی یونیورسٹی سے اردو میں ایم۔اے کیا، اور یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن حاصل کی، ایم۔اے کی ڈگری سے ان کو یہ فائدہ ہوا کہ ہسٹاریکل سوسائٹی کی ملازمت کے ساتھ ساتھ ان کو اردو کالج کراچی میں جزوقتی لکچرار کی حیثیت سے رکھ لیا گیا، ستمبر ۶۲؁ء سے ۴؍ مارچ ۶۳؁ء تک انھوں نے اس طرح تدریسی خدمت انجام دی، ۵؍ مارچ ۶۳؁ء سے اسی کالج میں مستقل لکچرر کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے، کچھ دنوں بعد صدر شعبہ کے منصب پر فائز کردیئے گئے، ڈاکٹر معین الدین عقیل لکھتے ہیں:
’’اس عرصہ میں انھوں نے اپنی علمی و تدریسی حیثیت کے سبب ۱۹۷۵؁ء میں اردو کالج کی جانب سے ’’ہلال اردو تمغہ‘‘ کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن کی طرف سے ۷۶؁ء میں ’’اکیڈمک ایوارڈ مڈل‘‘ اور اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کی جانب سے، اسی سال قائداعظم کی صدسالہ تقریبات کے تعلق سے ’’تمغہ قائداعظم‘‘ حاصل کیے، پھر اس عرصہ میں انھوں نے متعدد قومی اور بین الاقوامی مذہبی، تاریخی اور ادبی کانفرنسوں میں بھی مندوب کی حیثیت سے شرکت کی‘‘۔ ۷؂
۱۹۸۰؁ء میں انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے اردو میں پی۔ ایچ۔ ڈی کیا، ان کے تحقیقی مقالہ کا موضوع ’’اردو نثر کے ارتقاء میں علماء کا حصہ‘‘ (شمالی ہند میں ۱۸۵۷؁ء تک) تھا۔
افسوس ۲۵؍ نومبر ۱۹۸۳؁ء کو ایک کار ایکسیڈنٹ میں وہ اپنے مالک حقیقی سے جاملے، قادری مرحوم بحیثیت انسان بڑی خوبیوں کے مالک تھے، سادہ مزاج تھے، اور نام و نمود سے بے نیاز صاف دل اور صاف گو ہونے کے ساتھ ساتھ وہ مخلص بھی تھے، مصلحت کوشی، زمانہ سازی اور مذہب بیزاری سے کوسوں دور علماء کی عزت اور اہل فن کی قدر کرنا، ان کا شعار تھا، یہی وہ خوبیاں تھیں، جنہوں نے ہر چھوٹے بڑے کے دل میں ان کا احترام پیدا کردیا تھا، بقول شاعر:
صرف باتوں سے تو ہوتی نہیں عزت دل میں
آنکھ کچھ دیکھتی ہے تب وہ ادب کرتی ہے
قادری مرحوم نے تصنیفات و تالیفات اور تراجم وغیرہ کی ایک بڑی تعداد اپنے پیچھے چھوڑی ہے۔
تصانیف: (۱) مولانا فیض احمد بدایونی: مولانا فیض احمد رسواؔ ۱۸۵۷؁ء کے مجاہدین میں تھے، انھوں نے قوت سیف و قلم دونوں سے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیئے، کبھی وہ پادری فنڈر سے مناظرہ کرتے نظر آتے، اور کبھی بہادر شاہ ظفر کی عدالت کے حاکم، کبھی انگریزوں سے برسرپیکار رہے، کبھی شعروادب سے شغل کرتے۔ غرض ان کی خدمات گوناگوں تھیں، قادری مرحوم نے اس کتاب میں ان کی متنوع شخصیت اور گوناگوں خدمات کا تعارف تاریخ و تحقیق کی روشنی میں کرایا ہے، یہ کتاب پاک اکیڈمی کراچی سے ۱۹۵۷؁ء میں شائع ہوئی۔
(۲) مخدوم جہانیاں جہاں گشت: یہ کتاب تحقیقی انداز پر ترتیب دی گئی ہے، حضرت مخدومؒ کو ایک مافوق الفطرت ہستی کی حیثیت سے پیش کرنے کے بجائے انہیں ایک عالم باعمل کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، کتاب ۳۰۴ صفحات پر مشتمل ہے جسے ادارۂ تحقیق و تصنیف کراچی نے ۱۹۶۳؁ء میں شائع کیا، اس ادارہ کی بنیاد مارچ ۱۹۶۲؁ء میں رکھی گئی تھی، ایوب قادری اس کے بنیادی رکن اور معتمد اعزازی تھے، اس ادارہ کی طرف سے شائع ہونے والی یہ پہلی کتاب تھی۔
(۳) مولانا محمد احسن نانوتوی: یہ کتاب ۲۸۰ صفحات پر مشتمل روہیل کھندلڑیری سوسائٹی کراچی سے ۱۹۶۶؁ء میں شائع ہوئی۔
(۴) ارباب فضل و کمال بریلی: ۱۹۷۰؁ء میں کراچی سے شائع ہوئی۔
(۵) تبلیغی جماعت کا تاریخی جائزہ: ۱۵۲ صفحات پر مشتمل مکتبہ معاویہ کراچی سے ۷۱؁ء میں شائع ہوئی۔
(۶) جنگ آزادی ۱۸۵۷؁ء میں: یہ کتاب قادری مرحوم کی وقیع کتابوں میں شمار کی جاتی ہے، ۱۹۷۶؁ء میں پاک اکیڈمی، کراچی سے شائع ہوئی۔
(۷) غالب اور عصر غالب: یہ کتاب غالب سے متعلق نو تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے، مضامین کے عنوانات یہ ہیں: نواب الٰہی بخش خاں معروف کا غیر مطلوبہ کلام، غالب اور سرسید احمد خاں، غالب اور غیاث اللغات، غالب سے معاصرین کی ادبی چھیڑچھاڑ، غالب اور مارہرہ، غالب کے چند شاگرد، غالب اور روہیل کھنڈ، مطائبات غالب، قطعات تاریخ انتقال مرزا غالب، یہ مضامین غالبیات میں مفید اور وقیع اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں، ان مضامین سے نہ صرف یہ کہ غالبیات بلکہ کلاسیکی ادب کی تاریخ و تہذیب کے چند نئے باب بھی واہوتے ہیں، تعارف ڈاکٹر معین الدین عقیل نے لکھا ہے، ۱۹۸۲؁ء میں کراچی سے شائع ہوئی۔
(۸) کاروان رفتہ: چھبیس شخصی اور سوانحی مضامین پر مشتمل ہے، یہ مضامین مرحومین سے متعلق ہیں، جن میں علمی و ادبی اور مذہبی شخصیات شامل ہیں، ۱۹۸۳؁ء میں مکتبہ اسلوب کراچی سے شائع ہوئی، دیباچہ جناب مشفق خواجہ نے لکھا ہے۔
ترجمے:
(۱) تذکرۂ علمائے ہند: جناب مولانا رحمان علی صاحب کی تصنیف ہے، اس کا ترجمہ ۱۹۶۱؁ء میں پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی نے شائع کیا۔
(۲) مجموعۂ وصایا اربعہ: حضرت شاہ ولی اﷲ کی تصنیف ہے، اس کا ترجمہ شاہ ولی اﷲ اکیڈمی، حیدرآباد سے ۱۹۶۴؁ء میں شائع ہوا۔
(۳) مآثر الامراء: صمصام الدولہ شاہ نواز خاں کی تصنیف کردہ تین جلدوں کا ترجمہ مرکزی اردو بورڈ لاہور سے بالترتیب ۱۹۶۸؁ء، ۶۹؁ء، ۷۰؁ء میں شائع ہوا، یہ ترجمے قادری مرحوم کی محنت و صلاحیت کے غماز ہیں، تقریباً تین ہزار صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب کی طرف متوجہ ہونا اور پھر فارسی سے اردو کا جامہ پہنانا ان ہی کا حصہ تھا۔
(۴) فرحت الناظرین: محمد اسلم انصاری پسروی کی کتاب کا ترجمہ ۱۹۷۲؁ء میں شائع ہوا۔
(۵) سیدالعارفین: شیخ فضل اﷲ جمالی کی مشہور تصنیف ہے، اس کا ترجمہ ۱۹۷۶؁ء میں اشاعت پذیر ہوا۔
ترتیب و حواشی: حسب ذیل کتابوں کو مرتب کیا اور ان پر حواشی لکھے:
(۱) علم و عمل (وقایع عبدالقادر خانی)، (۲)جلد دوم (وقایع عبدالقادر خانی)، (۳)تواریخ عجیب عرف کالا پانی، (محمد جعفر تھاتیسری)، (۴)عہدبنگش کی سیاسی علمی اور ثقافتی تاریخ (تاریخ فرخ آباد مولفہ مفتی ولی اﷲ فرخ آبادی، (۵)مقالات یوم عالمگیر، (۶)تذکرہ نوری (مفصل حالات ابوالحسین نوری مارہروی، (۷)مرقع شہابی (حالات مفتی انتظام اﷲ شہابی، (۸)آصف الدولہ نواب رامپور (خلیفہ محمد معظم عباسی)۔
ان کاوشوں کے علاوہ بعض کتابوں میں وہ شریک مولف بھی رہے ہیں، اس قسم کی کتابوں میں ’’خط و خطاطی‘‘، ’’علی گڑھ تحریک اور قومی نظمیں‘‘ اور نقوش سیرت‘‘ خاص اہمیت رکھتی ہیں۔
ان مستقل تصنیفات و تالیفات کے علاوہ انہوں نے تقریباً سو سے زیادہ علمی و تحقیقی مقالے لکھے، جو ہندوپاک کے معیاری رسائل میں شایع ہوئے، تقریباً تیس کتابوں پر مقدمے لکھے۔
علمی و ادبی صحافت میں بھی ان کا دخل رہا، سہ ماہی ’’بصائر (کراچی) کے اعزازی مدیر اور ماہنامہ ’’سرحد‘‘ کے نگراں رہے، اردو کالج کراچی کے مجلہ ’’برگ محل‘‘ کے بھی ایک عرصہ تک نگراں رہے، ان کی نگرانی میں اس مجلہ کے کئی اہم نمبر شائع ہوئے، سرسید نمبر، تعلیمی پالیسی نمبر، قائداعظم نمبر، محمد علی جوہر نمبر وغیرہ، ’’العلم‘‘ کراچی کا غالب نمبر بھی انہوں نے ترتیب دیا تھا، یہ تمام کاوشیں گوماضی کا سرمایہ ہیں، لیکن مستقبل کے لیے یہ ایک ورثہ کے طور پر محفوظ رکھی جاسکتی ہیں۔
راقم الحروف کے ان سے بڑے تعلقات تھے، اکثر خط و کتابت رہتی تھی، خطوط میں اپنی سرگرمیوں پر بھی کبھی کبھی روشنی ڈال دیتے تھے، چنانچہ ۸۱؁ء میں انھوں نے مجھے لکھا:
’’مغلیہ عہد کے ایک مورخ نظام الدین احمد بخشی کی ضخیم تاریخ ’’طبقات اکبری‘‘ سے عنقریب فارغ ہوا ہوں، مرکزی اردو بورڈ لاہور سے شائع کرے گا‘‘۔
ایک اور خط میں تحریر کیا تھا کہ ’’غزنوی عہد کے ایک عربی نژاد قبیلہ ’’بجلیم‘‘ پر ایک کتاب چل رہی ہے‘‘، خدا کرے کہ یہ کتابیں بھی جلد شائع ہوں۔
قادری مرحوم نے اپنے پی۔ ایچ۔ ڈی کا مقالہ غالباً اشاعت کے لیے زندگی ہی میں کسی پبلشر کے سپرد کردیا ہوگا، اس کا موضوع ’’اردو نثر کے ارتقا میں علماء کا حصہ‘‘ (شمالی ہند میں ۱۸۵۷؁ء تک) تھا، اس کے متعلق انھوں نے اپنے ایک اخباری انٹرویو میں بتایا کہ اردو نثر کی عام تاریخ فورٹ ولیم کالج سے شروع ہوتی ہے، پھر اس کے بعد خطوط غالب کا ذکر آتا ہے، جن کا آغاز ۱۸۵۰؁ء میں ہوا، ۸؂ اس کے بعد ۱۸۵۷؁ء میں نثر کا سلسلہ شروع ہوا، جس کو سرسید احمد خاں نے تقویت بخشی، فورٹ ولیم کالج اور غالب کے درمیانی دور میں اردو نثر پر کافی کام ہوا، اس دور میں دینی اور دینوی تعلیم کی حدود آج کی طرح علیحدہ نہیں تھیں، اس لیے علماء نے اس میدان میں خاصا کام کیا، اور علماء کی تصانیف نے اردو نثر کے دامن کو خاصا مالا مال کیا، مگر سوئے اتفاق کہ ادبی مورخین نے علماء کے کام کی طرف کوئی خاص توجہ نہ دی، وہ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے فورٹ ولیم کالج سے ابتدا کرتے ہیں، اور پھر غالب سے جست لگا کر سرسید احمد خاں پر پہنچ جاتے ہیں، اور یوں اردو نثر کی عمارت کی تاریخ اس مثلث پر قائم ہے، اسی بناء پر مجھے یہ خیال پیدا ہوا کہ علماء کی نثری تصانیف کا اس اعتبار سے جائزہ لینا چاہئے، چنانچہ میں نے اس موضوع پر مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ علماء نے اردو نثر کے میدان میں انتہائی دقیق کارنامے سرانجام دیئے ہیں، اور میرے خیال کے برعکس یہ میدان بہت وسیع معلوم ہوا، حضرت مرزا مظہر جان جاناںؒ کے خلیفہ شیخ مراد علی سنبھلی کی تصنیف (تفسیر مرادیہ) ۱۷۷۱؁ء کی تالیف ہے اور وہ اردو نثر کا سہل اور سلیس نمونہ ہے۔
مقالے میں اکیاسی علماء کی ایک سوباون تصانیف میری تحقیق کا موضوع رہی ہیں، جن میں سے پچاس خطی کتابیں، بقیہ مطبوعہ کتابیں (جو گرچہ نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں) ہیں۔
یہ مقالہ آٹھ ابواب پر مشتمل ہے، اس کا پہلا باب شاہ ولی اﷲ دہلوی کے صاحبزادگان اور ان کے ہمعصر علماء کی تصانیف سے متعلق ہے، اس باب میں آٹھ علماء کی گیارہ تصانیف ہیں، ان میں شاہ عبدالقادرؒ، شاہ رفیع الدینؒ اور حکیم شریف خاں کا نام تو ادبی تاریخ میں مل جاتا ہے، باقی حضرات کے نام اور ان کی تصانیف انکشاف کی حیثیت رکھتی ہیں۔
دوسرے اور تیسرے باب میں احمد شہیدؒ اور ان کے رفقاء کے نثری کارناموں کا جائزہ لیا گیا ہے، سید احمد شہیدؒ کو ہم نے اردو نثر کے مصنف کی حیثیت سے متعارف کرایا ہے، سید صاحب کے رفقاء میں مولوی سید عبداﷲ بن بہادر علی حسینی کی علمی سرگرمیوں کا خاص طور سے تعارف کرایا ہے، کہ انھوں نے کلکتہ میں مطبع احمدی قائم کرکے اردو زبان کی نشرواشاعت کا بڑا کام کیا ہے۔
ان دونوں ابواب میں چودہ علماء کی سینتالیس تصانیف پر اظہار خیال ہے، ان میں تقویۃ الایمان اور تنبیہ الغافلین کا تو ادبی تاریخوں میں ذکر ملتا ہے، باقی مصنفین اور کتابیں ایک نوع سے پہلی مرتبہ متعارف ہوئی ہیں۔
چوتھا باب شاہ اسحق دہلوی کے تلامذہ اور رفقاء کی تصنیفات پر مشتمل ہے، اس میں تیرہ علماء کی پچیس کتابوں پر بحث کی گئی ہے، ان میں مفتی صدرالدین آزردہ، نواب قطب الدین خاں، مفتی عنایت احمد، شاہ احمد سعید، مولوی محمد شاہ اور قاری عبدالرحمن جیسے علماء حکیم نصراﷲ خاں وصال، ظہور علی ظہور جیسے شاعر اور مولوی شیخ عبداﷲ جیسے مبلغ شامل ہیں۔
پانچواں اور چھٹا باب علمائے روہیل کھنڈ کی تصنیفات کے جائزہ پر مشتمل ہے، ان دونوں ابواب میں پچیس علماء کی چالیس تصانیف کا جائزہ لیا گیا ہے، اس جائزہ میں سید شاہ حقانی کی ’’تفسیر حقانی‘‘ ۱۷۹۲؁ء کی تالیف ہے، اسی طرح مولوی شاہ عبدالمجید بدایونی نے ۱۸۱۶؁ء میں ’’سیرت رسول‘‘ پر ایک کتاب ’’محافل الانوار‘‘ اردو نثر میں سب سے پہلے لکھی۔
ساتواں باب علمائے اودھ کی علمی کاوشوں پر مشتمل ہے، ان میں تیرہ علماء کی سترہ تصانیف کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔
آٹھویں اور آخری باب میں بنگال اور بہار کے علماء کی کتابوں کو متعارف کرایا گیا ہے، اس باب میں چھ علماء کی گیارہ تصانیف پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔
(نومبر ۴ ۱۹۸ء)

۱؂
Qاخبار الصنادید، بحوالہ سوانحات المتاخرین
۲؂
Yسوانحات المتاخرین آنولہ، ص:۴۶،۴۷ ۳؂ ایضاً
۴؂
!ایضاً، ص: ۴۹، ۵۰
۵؂
µسوانحات المتاخرین آنولہ، ص:۱۲ (قلمی مملوکہ راقم الحروف) مولف مولوی حکیم عبدالغفور (مرحوم)
۶؂
wڈاکٹر معین الدین عقیل، تعارف غالب اور عصر غالب، کرچی ۱۹۸۲؁ء
۷؂
{ڈاکٹر معین الدین عقیل، تعارف غالب اور عصر غالب (کراچی ۱۹۸۲؁ء)
۸؂
M۱۸۵۰؁ء غالباً سہوکاتب ہے، کیونکہ یہ بات محقق ہوچکی ہے کہ غالب کی خطوط نگاری کا آغاز ۱۸۴۷؁ء سے ہوتا ہے، اور قادری مرحوم اس سے ناواقف نہ ہوں گے، واﷲ اعلم، شمس بدایونی۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...