Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا عبدالرحمن پروازؔ اصلاحی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا عبدالرحمن پروازؔ اصلاحی
ARI Id

1676046599977_54338241

Access

Open/Free Access

Pages

440

آہ ! مولانا عبدالرحمن پروازؔ اصلاحی
’’مولانا عبدالرحمن پرواز مرحوم دارالمصنفین آئے اورتقریباً ساڑھے تین سال کے بعد یہاں کے لوگوں کے دلوں میں اپنی سیرت کی نیکی اور پاکیزگی، اخلاق کی طہارت و شرافت کی جوت جگا کر اچانک دائمی جدائی اختیار کرلی، وہ ہم لوگوں کے درمیان آکر بیٹھتے تو ان کے خوبصورت چہرے سے عیاں ہوتا کہ لوگوں کی دلآزاری اور ایذارسانی کیا بلکہ ان کی دل شکنی کا دسوسہ بھی ان کے دل میں پیدا نہ ہوتا ہوگا، ان کی نورانی داڑھی سے ان کا علم و فضل ظاہر ہوتا رہتا تھا، انھوں نے راہ طریقت کے ایک سچے سالک کی طرح اس دنیا میں باہمہ و بے ہمہ کا مسلک اختیار کر کے پوری زندگی گذار دی، ان کا بڑا وصف یہ رہا کہ وہ اپنے نفس کو دبا کر بلکہ اپنے اوپر تکلیف اٹھا کر اپنے گھر والوں اور ملنے جلنے والوں کو آرام پہنچانے ہی میں اپنی راحت و مسرت محسوس کرتے تھے، انھوں نے ممبئی کے قیام میں مخدوم علی مہائمی اور مفتی صدر الدین آزردہ کے نام سے دو کتابیں لکھی، جو علمی حلقوں میں بڑے شوق سے پڑھی گئیں، وہ دارالمصنفین آئے تو انھوں نے خود مفسرین ہند پر ایک کتاب لکھنے کی خوہش ظاہر کی، خیال تھا کہ یہ کتاب تیار ہوگی تو ان کی مذکورۂ بالا دونوں کتابوں کی طرح علمی حلقے میں شوق سے پڑھی جائے گی، مگر مصلحت خداوندی سے یہ ادھوری رہ گئی، ان کی اچانک وفات سے یہاں جو سوگواری اور غمناکی کی فضا پیداہوئی ہے، اس سے یہ خاکسار متاثر ہوکر ان پر خود مضمون لکھنا چاہتا تھا، لیکن مولوی ضیاء الدین اصلاحی ان کے ہم وطن ہیں اور ایک ہی درسگاہ کے پڑھے ہوئے ہیں یہ ان کی زندگی سے بہت قریب تر رہے، اس لیے خیال ہوا کہ وہی ان پر اچھا تعریتی مضمون لکھ کر ہم لوگوں کے غمناک جذبات کی صحیح ترجمانی کریں گے۔ اس لیے ان کی یہ تحریر میری تحریر تصور کی جائے، مرحوم جاچکے لیکن وہ یہاں کی مجلسوں میں یاد آئیں گے، اکثر اور برابر یاد آئیں گے۔ اور دل سے یہ دعائیں نکلتی رہیں گی کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خوبیوں کی بدولت ان کی روح کو اپنی رحمتوں کے پھولوں اور برکتوں کی خوشبوؤں سے ہمیشہ ہمیشہ معطر رکھے۔ آمین! (صباح الدین عبدالرحمن)
یہ خبر نہایت افسوس کے ساتھ سنی جائے گی کہ ۳؍ ۴؍ دسمبر ۱۹۸۴؁ء کی درمیانی شب میں دو بجے مولانا عبدالرحمن پرواز اصلاحی حرکت قلب بند ہوجانے سے انتقال کرگئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
وہ بظاہر بالکل ٹھیک تھے، اور انھوں نے دن بھر کے اپنے سارے معمولات بھی انجام دیے، اس لیے یہ سانحہ غیر متوقع طور پر پیش آیا جس کی وجہ سے دارالمصنفین کی فضا بہت غمناک ہوگئی۔
یہ عجیب اتفاق ہے کہ انتقال کے وقت وہی تنہا دارالمصنفین میں موجود تھے، راقم الحروف اور بعض دوسرے رفقا محترمی جناب سید صباح الدین الرحمن صاحب ناظم دارالمصنفین کی معیت میں یہاں اردو اکاڈمی کے دعوت نامہ پر اس کے زیر اہتمام ہونے والی علامہ سید سلیمان ندویؒ کی صد سالہ تقریبات ولادت میں شرکت کے لیے پٹنہ گئے ہوئے تھے، اس لیے ہم سب اپنی غیر حاضری اور ان کی تجہیز و تدفین میں شرکت سے محروم رہ جانے پر سخت ملول و نادم اور دوہرا غم محسوس کررہے تھے۔
دو برس قبل انھیں ہائی بلڈپریشر کی شکایت ہوئی تھی مگر ہومیوپیتھی کے علاج سے افاقہ ہوگیا تھا، اس کے بعد جناب سیٹھ عبدالعزیز انصاری صاحب کے اصرار پر وہ چیک اپ کے لیے بمبئی تشریف لے گئے، وہاں سے آنے کے بعد ان کے ساتھ ہم لوگ بھی مطمئن تھے، ۳۰؍ نومبر کو جب ہم لوگ پٹنہ کے لیے روانہ ہورہے تھے، تو انھوں نے خندہ پیشانی کے ساتھ سب کو رخصت کیا، میں نے کاتب کو دینے کے لیے ایک مضمون ان کے حوالہ کیا، اس وقت انھوں نے مجھ سے کہا ’’مجھے ایک ضرورت سے گھر جانا تھا، مگر دارالمصنفین بالکل خالی ہوجائے گا، اس لیے میرا یہاں سے ہٹنا مناسب نہیں، میں سب لوگوں کی واپسی کے بعد ہی گھر جاؤں گا‘‘۔ کیا پتہ تھا کہ یہ اُن سے آخری گفتگو ہورہی ہے اور اب ہم ان سے اس عالم ناسوت میں ملنے کے بجائے ان کی قبر پر باچشم نم حاضر ہوں گے۔
پٹنہ میں کئی حضرات نے ان کی خیریت دریافت کی، بمبئی سے ان کے دوست جناب شیخ فرید برہانپوری اور ڈاکٹر خورشید نعمانی تشریف لائے تھے، دونوں نے ان کو بار بار یاد کیا، اور تاکید سے کہا کہ ان کا سلام ان سے کہدیا جائے، خدابخش خاں لائبریری کے ڈائرکٹر جناب عابد رضا بیدار نے ہم لوگوں کے ذریعہ ایک دعوت نامہ بھی ان کے پاس بھیجا مگر کیا خبر تھی کہ اس نامہ وپیام کے درمیان موت حائل ہوجائے گی۔
ان کا وطن اعظم گڑھ ضلع کا ایک گاؤں سیدھا سلطان پور ہے، جو یہاں کے مشہور اور قدیم قصبہ سرائے میر سے تین چار میل کے فاصلہ پر شمال مشرق میں واقع ہے، ان کا شجرۂ نسب محفوظ ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مورث اعلیٰ پٹھانوں کے یوسف زئی قبیلے سے تعلق رکھتے تھے، جو سلطان بہلول لودھی کے زمانہ میں افغانستان سے ہندوستان آئے، جونپور کی شرقی سلطنت پر جب بہلول لودھی نے حملہ کیا تو داد شجاعت دینے والوں میں اس خاندان کے سالار خاں پیش پیش تھے، اس کے صلے میں انھیں تیس ۳۰ گاؤں پیش کئے گئے، اسی بنا پر پہلے یہ گاؤں ’’سی دہ‘‘ کہلاتا تھا، جو آگے چل کر سیدھا سلطان پور کے نام سے موسوم ہوا، اس گاؤں کی بڑی آبادی انہیں سالار خاں کی نسل سے ہے۔
مولانا عبدالرحمن پروازؔ اسی گاؤں کے ایک متوسط درجہ کے کھاتے پیتے خاندان میں ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۲۰؁ء کو پیدا ہوئے تھے، ان کا خاندان پیشہ زراعت کے علاوہ علمی و دینی حیثیت سے بھی ممتاز تھا، ان کے والد بزرگوار مولانا محمد شفیع مرحوم ایک جید عالم اور متورع و مقدس بزرگ تھے، جن کی تعلیم داناپور پٹنہ کے ناریل گھاٹ کے ایک بڑے اہلحدیث مدرسہ میں ہوئی تھی، جہاں ان کے چچا حافظ قادر بخش مرحوم ایک مدت سے تعلیمی خدمات پر مامور تھے، مولانا شفیع صاحب نے یہاں مولانا سخاوت علی جونپوری کے تلمیذ رشید مولانا فیض اﷲ مؤی سے درس لیا جو علامہ شبلی نعمانیؒ کے بھی استاد تھے، اس کے بعد دہلی جا کر میاں سید نذیر حسین صاحب دہلوی محدث سے بھی حدیث کے چند اسباق پڑھے۔
مولانا محمد شفیع صاحبؒ درسیات کی تکمیل کرنے کے بعد اپنے وطن واپس آئے تو انھوں نے مسلمانوں کی معاشرتی، اصلاح اور شرک و بدعات کے انسداد کے لیے انجمن اصلاح المسلمین کی داغ بیل ڈالی جس کے کاموں کا دائرہ آگے چل کر بہت وسیع ہوگیا، چنانچہ اسی سلسلہ میں انھوں نے علم دین کی اشاعت و فروغ کے لیے مدرستہ الاصلاح قائم کیا، اور مدۃ العمر اس کی خدمت کرتے رہے، انہی کی درخواست پر علامہ شبلیؒ نعمانی اور مولانا حمید الدین فراہیؒ نے بھی اس مدرسہ کی جانب توجہ کی اور مولانا فراہیؒ کی بدولت مدرسہ نے بڑی ترقی کی، اور اس سے مسلمانوں کو بڑا فیض پہنچا، اور اب بھی پہنچ رہا ہے۔
مولانا محمد شفیع مرحوم کے پانچ صاحب زادے تھے، سب سے چھوٹے ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی مرحوم ریدڑ شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی تھے، مولانا عبدالرحمن پرواز ان سے بڑے، اور باقی تین بھائیوں سے چھوٹے تھے، بڑے چاروں بیٹوں کی تعلیم مدرسہ الاصلاح میں ہوئی مولانا عبدالرحمن پرواز ۱۹۴۰؁ء میں مدرسہ سے فارغ ہوئے، اس کے بعد وہ درس و تدریس کے مشغلہ میں لگ گئے، ۱۹۴۶؁ء میں مشہور شاعر جناب احسان دانش مرحوم کی دعوت پر وہ لاہور چلے گئے، مگر ایک برس بھی یہاں نہیں گذرے تھے کہ تقسیم کی خبر سن کر وطن واپس آگئے اور تھوڑے ہی عرصہ بعد دارالعلوم احمدیہ سلفیہ در بھنگہ میں درس و تدریس کی خدمت پر مامور ہوگئے، یہاں سے ’’الہدیٰ‘‘ کے نام سے ایک پندرہ روزہ اخبار نکلتا تھا، جس کے ایڈیٹروں میں ان کا نام بھی تھا، وہ ۱۹۵۸؁ء میں بمبئی آگئے اور انجمن اسلام کے مختلف اسکولوں میں عربی کے استاد ہوئے، آخر میں احمد سیلر ہائی اسکول ڈمٹکر روڈ سے وابستہ ہوئے اور یہیں سے ریٹائر ہوکر دارالمصنفین آئے۔
وہ بمبئی کے قیام کے زمانہ میں مختلف اردو اخباروں سے بھی وابستہ رہے، روز نامہ ہندوستان، آشکار، اردو ٹائمز اور انقلاب وغیرہ میں عرصہ تک مذہبی علمی اور تاریخی کالم لکھتے رہے، گاندھی میموریل ریسرچ سینٹر سے بھی ان کا تعلق رہا، میں ایک دفعہ ان سے ملنے کے لیے یہاں گیا تو بہت خوش ہوئے اور اس کے ڈائرکٹر ڈاکٹر عبدالستار دلوی اور حامد اﷲ ندوی وغیرہ سے ملایا۔
اردو زبان و ادب اور اس کی تاریخ پر ان کی اچھی نظر تھی، ان کے والد اپنے تمام بچوں کو ادبی کتابوں کے مطالعہ کی تلقین کرتے تھے، پروازؔ صاحب نے ان کی ترغیب سے غالبؔ کے خطوط اور سرسیدؔ، آزادؔ، نذیر احمدؔ، حالیؔ اور مولانا شبلیؔ کی اکثر تصانیف کا مطالعہ کیا اور مسدس حالی سبقاً سبقاً ان سے پڑھی، کہتے تھے کہ اس کے تقریباً نصف اشعار مجھے زبانی یاد ہوگئے تھے ان کی فارسی کی استعداد بھی اچھی تھی، میں اس کی مشکلات میں جب ان سے رجوع کرتا تو وہ تشفی کردیتے اس کا ذوق بھی ان کے والد صاحب کی تربیت کا نتیجہ تھا۔
وہ مدۃ العمر درس و تدریس کے مشغلہ سے وابستہ رہے، مگر تحریر و تصنیف کی جانب ہمیشہ ان کا رجحان رہا، مضمون نگاری کا شوق بچپن سے تھا، اور طالب علمی ہی کے زمانہ سے ان کے مضامین اخباروں اور رسالوں میں چھپنے لگے تھے، مختلف وقتوں میں ان کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع ہوئیں۔
۱۔مزدور اور اسلام ۲۔مومن، حیات و شاعری ۳۔علم و ہدایت کے چراغ ۴۔نظام حق کے معمار ۵۔حضرت مخدوم علی مہائمی: حیات، آثار و افکار ۶۔مفتی صدرالدین آزردہ، بمبئی کے قیام کے زمانہ میں انھیں پڑھنے لکھنے کا زیادہ موقع ملا، موخرالذکر دونوں کتابیں یہیں لکھی گئیں، اور یہ ان کی تلاش و تحقیق اور محنت و کاوش کا نتیجہ ہیں، ان میں سے ایک میں کوکن کے مشہور اور بڑے صوفی و عالم حضرت مخدوم علی مہائمی کے حالات و واقعات زندگی کے علاوہ شروع میں ان کے وطن ماہم اور خاندان نوایط کی مختصر تاریخ بیان کی گئی ہے اور ان کے علمی کمالات تصنیفات اور افکار و نظریات پر مبسوط بحث و گفتگو کی گئی ہے، اور تفسیر، فلسفہ اور تصوف میں ان کا امتیاز دکھایا گیا ہے، مخدوم صاحب کے صوفیانہ افکار کی وضاحت کے ضمن میں نظریہ وحدت الوجود پر مفید اور اچھی بحث کی ہے، یہ موضوع بڑانازک ہے مگر مصنف اس مرحلہ سے اعتدال و سلامت روی کے ساتھ گذرے ہیں، اور اس کی اچھی وضاحت بھی کی ہے، اس کتاب کی وجہ سے وہ بمبئی میں پورے طور پر متعارف و مقبول ہوگئے تھے، اور علمی حلقوں میں بھی ان کا وزن محسوس کیا جانے لگا تھا۔
دوسری کتاب بھی علمی و تحقیقی حیثیت سے بلند پایہ اور اردو کے سوانحی ذخیرہ میں ایک اضافہ ہے، اس میں مغلیہ سلطنت کے دور زوال کے نامور فاضل مفتی صدرالدین آزردہ کے بارے میں، پہلی مرتبہ اس قدر محنت و کاوش سے مواد و معلومات جمع کئے گئے ہیں جس سے ان کے خاندانی و ذاتی حالات تفصیل سے معلوم ہوجاتے ہیں، اس میں ان کے فضل و کمال وغیرہ کے متعلق ان کے معاصرین کی شہادتیں بھی نقل کی گئی ہیں، اور ان کی قومی و مذہبی خدمات بھی بیان کی گئی ہیں، اور مصنف نے ان کی فارسی و عربی تحریروں اور اردو، فارسی اور عربی کلام کے نمونے بھی دیئے ہیں، اور ان کی تصنیفات کا تعارف دیدہ ریزی سے کرایا ہے۔
مولانا عبدالرحمن پرواز نے مداحِ رسول حضرت حسان بن ثابتؓ کے حالات اور شاعری پر بھی ایک کتاب لکھی تھی، جس کے بعض اجزا ماہنامہ برہان میں عرصہ ہوا چھپے تھے، مگر یہ کتاب ابھی تک شائع نہیں ہوسکی دو اور کتابیں بھی زیر ترتیب تھیں، ایک حضرت امیر خسرو پر اور دوسری حضرت شاہ وجیہ الدین گجراتی پر ہے۔
دارلمصنفین میں انھوں نے ہندوستانی مفسرین کے موضوع پر کام شروع کیا تھا جس کے لیے وہ اپنا مطالعہ مکمل بھی کرچکے تھے، اور وہ اس کا تقریباً نصف حصہ مرتب بھی کرچکے تھے، اگر ان کی عمر وفا کرتی تو غالباً چند ماہ میں اسے مکمل کرلیتے۔
شعر و سخن کا ذوق خاندانی تھا، ان کے والد بزرگوار کو بھی عنفوانِ شباب میں شعر و شاعری سے دلچسپی تھی، اور وہ شاہ محمد اکبر ابولعلائی داناپوری سے مشورۂ سخن بھی کرتے تھے، ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی تو موجودہ معیار کے بلند پایہ شاعر خیال کئے جاتے ہیں، پرواز صاحب نے بھی موزوں طبیعت پائی تھی، بچپن ہی میں مشق سخن کرنے لگے تھے، اور ان کا کلام بھی اخباروں اور رسالوں میں چھپتا تھا، نجی محفلوں میں اشعار سناتے بھی تھے، مگر مشاعروں میں پڑھنے کے عادی نہ تھے، البتہ کبھی کبھی مشاعروں کی صدارت کرتے تھے، اُن کی نظمیں اور غزلیں نہایت پاکیزہ ہوتی تھیں، اور ان میں اسلامی احساسات و جذبات کی ترجمانی ہوتی تھی، مگر اب شعر و شاعری سے زیادہ رغبت نہیں رہ گئی تھی، تاہم ایک دیوان یادگار چھوڑا ہے، جو طبع نہیں ہوسکا۔
مدرستہ الاصلاح سرائے میر سے ان کو بڑا تعلق و اخلاص تھا، یہ ان کے والد مرحوم کی یادگار بھی ہے، اور ان کی از اول تا آخر میں تعلیم بھی ہوئی تھی، اس لیے وہ اس کی ہر خدمت کے لیے مستعد اور سرگرم رہتے تھے، اور اس کی ترقی کے لیے برابر فکر مند بھی رہتے تھے، کئی برس سے وہ اس کی مجلس انتظامیہ کے ممبر بھی ہوگئے تھے، اور پابندی سے مجلس کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے، اور اس کی کاروائی اور مدرسہ کی تعمیر و ترقی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ بھی لیتے تھے، ان کی دلچسپی کی وجہ سے مدرسہ کی نظامت بھی پیش کی گئی مگر انھوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا، بمبئی میں مدرسہ کی ایک موقوفہ جائداد میں اس کے متولی عرصہ سے بیجا تصرف اور ناجائز خردبرد کررہے تھے، بالآخر پرواز صاحب نے اس مسئلہ میں پوری دلچسپی لی اور منشی عبدالعزیز انصاری صاحب، مولانا مستقیم احسن اعظمی اور دوسرے خیر خواہانِ مدرسہ کے تعاون سے اسے ان کے تصرف سے نکالنے میں غیر معمولی جدوجہد کی، حال میں مجلس انتظامیہ کے ارکان نے قرآن مجید کے موضوع پر ایک بین الاقوامی سمینار منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اور مدرسہ سے ان کی غیر معمولی دلچسپی کی بنا پر انھیں اجلاس کا ناظم مقرر کیا تھا، انھوں نے اس کے لیے ابتدائی تگ و دو بھی شروع کردی تھی کہ خود ان کا وقت آخر آگیا۔
ملی، قومی اور سیاسی سرگرمیوں سے انھیں نہ زیادہ دلچسپی تھی اور نہ وہ ان میں کوئی عملی حصہ لیتے تھے تاہم مفید اور نیک کاموں میں تعاون سے دریغ بھی نہ کرتے تھے، ان کے گاؤں میں عیدگاہ کی تعمیر کا مسئلہ اٹھا تو انھوں نے اس میں نمایاں حصہ لیا، حال میں شہر کے بعض لوگوں نے ایک مسلم ہاسپٹل کی اسکیم بنائی ہے، وہ اسے قوم و ملت کی ایک بڑی اور اہم ضرورت خیال کرتے تھے، اس لیے مسلم ہاسپٹل کے کارکنوں سے برابر رابطہ رکھتے اور انھیں مفید مشورے بھی دیتے۔
ان کے والد بزرگوار اپنے دور کے مشہور صاحب دل بزرگ حضرت چاند شاہ ٹانڈدیؒ (متوفی ۱۳۱۷؁ھ) سے پہلے بیعت ہوئے، ان کے انتقال کے بعد یادگار سلف حضرت مولانا سید محمد امین نصیر آبادی راے بریلوی (متونی ۱۳۴۹؁ھ) کی جانب رجوع کیا اور حضرت سید صاحب سے خلافت و اجازت بھی حاصل کی، مولانا عبدالرحمن پرواز کو بھی ان سے بڑی عقیدت تھی، چند برس قبل وہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی سے ملنے راے بریلی گئے تو اپنے والد کے مرشد کے وطن اور مسکن کی زیارت کے لیے نصیر آباد بھی تشریف لے گئے ۔ ان کو تصوف سے محض نظریاتی دلچسپی نہ تھی، بلکہ وہ اس راہ کے سالک بھی تھے، آٹھ، دس برس قبل وہ اس دور کے نامور شیخ طریقت مولانا محمد احمد پرتاب گڑھی کی خدمت میں حاضر ہو کر باقاعدہ ان سے بیعت ہوئے، اس کے متعلق جب میں نے ان سے دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا کہ اصلاح باطن، تزکیۂ نفس اور نسبت مع اﷲ پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ ان میں تقشف، اور گروہی عصبیت نہ تھی، طبیعت میں بڑا اعتدال اور توسع تھا، ہر طبقہ کے لوگوں سے ان کے تعلقات تھے۔
وہ طبعاً خاموش، سنجیدہ، حلیم، بردبار، بے ضرر اور مرنجاں مرنج شخص تھے، نہ کسی کی ٹوہ میں رہتے اور نہ کسی کی غیبت و تنقیص کرتے، مردم آزاری اور ایذارسانی کا ان میں کوئی مادہ ہی نہ تھا، طبیعت میں نرمی، مروت، ملاطفت اور شرافت تھی، کسی کے رویے سے تکلیف اور اس کے طرزعمل سے شکایت بھی ہوتی تو ضبط و تحمل سے کام لیتے، اور غصہ و برہمی کا اظہار نہ کرتے، ان میں تواضع و خاکساری تھی، ان کی کسی ادا سے رعونت و برتری کا پتہ نہ چلتا تھا، انھیں خود نمائی اور خود ستائی کی مطلق عادت نہ تھی، کبھی کوئی ایسی بات نہ کرتے جس سے علو و پندار ظاہر ہوتا، نام و نمود نمایش ظاہر داری اور بناوٹ سے نفرت تھی، خود غرضی یا منافقت اور رشک و حسد سے ان کا دل پاک و صاف تھا، ان کی زندگی نہایت سادہ اور تکلفات سے بری تھی، بڑے قناعت پسند تھے، جو کچھ میسر ہوتا اسی کو کافی سمجھتے اور اسی میں ہنسی خوشی گذر بسر کرلیتے، نہ کسی چیز کی ہوس ہوتی اور نہ کسی اعزاز و اکرام کی طلب، اس معاملہ میں ان کا مزاج بالکل صوفیانہ اور درویشانہ تھا، طبیعت میں غیرت و خوداری تھی، اس لیے دوسروں سے کوئی کام لینا اور کسی چیز کو طلب کرنا گوارا نہ تھا، اپنا ضروری کام بھی خود ہی کرلیتے تھے، خود تکلیف اٹھاتے مگر دوسروں کو آرام پہچانے کی فکر رہتی، اﷲ تعالیٰ نے انھیں کوئی اولاد نہ دی تھی، مگر اپنے عزیزوں اور متعلقین کی خبر گیری سے غافل نہ رہتے، اپنے ایک عزیز کی بچی کی پرورش کی، جو کچھ کمایا اس پر اور اس کے بال بچوں پر صرف کردیا اور اپنے لیے کچھ بھی باقی نہ رکھا۔
نہایت وجیہہ و شکیل، شائستہ اور باوقار شخص تھے، چہرہ بڑا پُرنور تھا، اس سے متانت، سنجیدگی، طہارت، پاکیزگی اور معصومیت بھی ظاہر ہوتی تھی، سادہ لوحی اور معصومیت کی بنا پر بعض معاملات کی گہرائی تک نظر نہ جاتی، اور خود غرض قسم کے لوگ اسن سے اپنا مطلب حاصل کرلیتے۔
کسی قدر جذباتی بھی تھے، اور چونکہ لاگ لپیٹ اور رورعایت کے عادی نہ تھے، اس لیے وقتی طور پر طبیعت میں اشتعال بھی پیدا ہوجاتا مگر نہ اس کا اثر دیرپا ہوتا، اور نہ کسی سے کینہ و کدورت رکھتے۔
اپنی نیکی، شرافت اور اخلاق و سیرت کی پاکیزگی کی بنا پر جہاں بھی رہے مقبول اور ہر دلعزیز رہے، نہ کسی کو ان سے اور نہ ان کو کسی سے کوئی شکایت ہوئی، خدا وندا اپنے اس نیک اور مقبول بندے کی مغفرت فرما اور اسے اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔ آمین!!
مولانا عبدالرحمن پروازؔ کے مخلص دوست حکیم عبدالباقی نامیؔ اعظمی کو ان کے انتقال پر بڑا ملال ہوا۔ اور انھوں نے حسب ذیل قطعہ تاریخ وفات کہا۔
صد حیف جو پروازؔ اپنا بے تکلف دوست تھا
اب چھوڑ کر یہ عالمِ رنج و محن جاتا رہا
جس سے قائم شام کا تھا لطفِ صحبت آہ وہ
اک ہمدمِ دیرینہ درچشم زدن جاتا رہا
برپا نہ کیوں ہو حشرِ غم اب انجمن در انجمن
ہیہات جو تھا رونقِ صدر انجمن جاتا رہا
اب بزمِ علم دفن نظر آئے نہ کیوں بے نورسی
جس سے روشن تھا چراغِ علم و فن جاتا رہا
بیتاب نامیؔ نے کہا یوں مصرعِ سالِ وفات
اب عالمِ دیں، رونق افزائے سخن جاتا رہا
(ضیاء الدین اصلاحی، دسمبر ۱۹۸۴ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...