Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا سعید احمد اکبر آبادی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا سعید احمد اکبر آبادی
ARI Id

1676046599977_54338243

Access

Open/Free Access

Pages

443

مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی رحلت
(ڈاکٹر محمد اسلم)
علم و حکمت کا وہ آفتاب جو گذشتہ نصف صدی سے برصغیر پاک و ہند کو منور کررہا تھا، مورخہ ۲۴؍ مئی مطابق ۳؍ رمضان المبارک بروز جمعہ افطار سے تھوڑی دیر پہلے غروب ہوگیا، یعنی حضرت مولانا سعید احمد اکبرؔ آبادی عالم فانی سے عالم جادوانی کی طرف کوچ فرماگئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
مولانا کی علالت کا سلسلہ طویل رہا، گذشتہ سال مئی کے وسط میں حضرت مفتی عتیق الرحمن عثمانی کا انتقال ہوا تو ان پر اس سانحہ کا بڑا اثر ہوا، اس کے دو ماہ بعد ان کے بڑے بیٹے عمر سعید آناً فاناً وفات پاگئے، ان کی طبیعت پر اس کا بھی بڑا اثر ہوا، بیٹے کی وفات کے روز انھوں نے ان کو کسی وجہ سے خوب ڈانٹا تھا، وہ گولیاں کھا کر سونے کے عادی تھے، مولانا کا خیال ہے کہ اس روز آزردہ ہوکر انھوں نے مقررہ مقدار سے زائد گولیاں کھالیں، اور اس لحاظ سے وہ اپنے آپ کو قصور وار سمجھنے لگے تھے، گذشتہ اگست میں میرے قیام علی گڑھ کے دوران میں انھیں کتے نے کاٹ لیا، ڈاکٹر نے ان کے شکم میں متعدد انجکشن لگائے، لیکن چند روز بعد وہ جگہ متورم ہوگئی، اور انھیں بخار آنے لگا، ڈاکٹروں نے ملیریا بخار کی تشخیص کی اور انھیں کونین کھلانا شروع کردیا، ضرورت سے زیادہ کونین کے استعمال سے ان کا جگر خراب ہوگیا، اور خون پیدا ہونا بند ہوگیا، خرابی جگر سے یرقان ہوگیا، علی گڑھ یونیورسٹی کے ہسپتال میں بغرض علاج داخل ہوگئے، لیکن افاقہ نہ ہوا، حکیم افہام اﷲ خان صاحب اور حکیم عبدالحمید صاحب کے ہی زیر علاج رہے، لیکن کمزوری دن بہ دن بڑھتی چلی گئی، ان کی علالت بڑھتی گئی ان کی بیٹی مسعودہ سعید کراچی سے علی گڑھ پہنچیں اور ہفتہ عشرہ میں تمام انتظامات کرکے انہیں اپنے ساتھ کراچی لے آئیں کراچی میں ڈاکٹروں کے ایک بورڈ نے ان کا معائنہ کیا، حکیم محمد سعید صاحب نے تمام رپورٹیں ملاحظہ کر کے سرطان کا خدشہ ظاہر کیا، ان کے مثانے میں پتھری پیدا ہوچکی تھی اور متاثرہ جگہ پر سرطان نمودار ہوگیا تھا جسمانی کمزوری اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ مرحوم آپریشن کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے، میں وسط اپریل میں ان کی عیادت کے لیے کراچی گیا، چھ روز ان کے پاس ٹھہرا، لوٹتے وقت دل میں بار بار یہی خیال آرہا تھا کہ کہیں یہ ان کے ساتھ آخری ملاقات نہ ہو۔
۲۴؍ مئی کو افطار سے قبل موصوف غسل خانے سے وضو کر کے اپنے کمرے کی طرف جارہے تھے کہ راستہ ہی میں حرکت قلب بند ہوگئی، لاہور میں یہ اطلاع عشاء سے قبل ملی، بھاگ دوڑ اور سفارشوں کے بعد ہوائی جہاز میں ایک سیٹ مل سکی، میری اہلیہ ان کے آخری دیدار کے لیے پہلے ہی کراچی پہنچ چکی تھیں۔
۲۵؍ مئی کو دوپہر کے وقت ان کے جنازہ کی نماز ہوئی جس میں کراچی کے علماء اہل علم اور عمائدین نے شرکت کی، گورنر سندھ کی نمائندگی ان کے اے ڈی سی نے کی اور ان کی طرف سے پھولوں کی چادر چڑھائی۔
ان کو دارالعلوم کورنگی میں حضرت مفتی محمد شفیع دیوبندیؒ کے ذاتی احاطہ قبور میں ان کے قریب ہی ابدی آرام کے لیے جگہ ملی ہے، اس مختصر سے قبرستان میں صرف علماء و صلحاء ہی کی قبریں ہیں۔
ان کی وفات کے ساتھ تاریخ کا ایک زریں باب ختم ہوگیا، ۱۹۳۸؁ء میں مرحوم ندوۃ المصنفین کی تاسیس میں مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور مفتی عتیق الرحمن عثمانی کے ساتھ شریک تھے، سینتالیس برس تک برہان کی ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے، برعظیم کے علمی حلقوں میں ان کے ادراریے کی بڑی قدر کی جاتی تھی، اور ان کی ذات گرامی کی وجہ سے ندوۃالمصنفین اور دارالعلوم دیو بند کا علمی وزن قائم تھا۔
مولانا اب جہاں پہنچ گئے ہیں، وہاں صرف ہماری دعائیں ہی ان کے کام آسکتی ہیں، میرے خیال میں ان کی مغفرت کے لیے صدیق اکبرؓ اور عثمان ذوالنورینؓ جیسی بلند پایہ تصانیف ہی کافی ہیں۔
وہ آخری سانس تک فرائض شریعت کی ادائیگی میں کوشاں رہے، آخر وقت کمزوری اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ گھر سے باہر نہیں جاسکتے تھے، بلکہ گھر میں ہی بمشکل چلتے پھرتے تھے، اس کے باوجود نماز کھڑے ہوکر ہی ادا کرتے تھے، میرے استفسار پر فرمایا کہ ان دنوں ظہر و عصر اور مغرب و عشاء ملا کر نمازیں پڑھتا ہوں، امام ابن تیمیہ ؒ نے مریض کے لیے بھی مسافر کی طرح جمع صلوٰۃ کے جواز کا فتویٰ دیا ہے، اور اسی پر ان کا عمل ہے اﷲ اﷲ کیا لوگ تھے۔ (جون ۱۹۸۵ء)

مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی یاد میں
آہ ! ؂ جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
مولانا سعید احمد اکبر آبادی دنیا کے بکھیڑوں، زندگی کے ہنگاموں اور اپنے جھمیلوں سے آزاد ہوکر اب وہاں ہیں جہاں اکرامِ الٰہی کی سلسبیل سے کوئی سیراب ہوجائے تو پھر اس کے لیے وہاں مغفرت کے مینا اور رحمت کے ساغر چھلکتے رہتے ہیں، بارگاہ ایزدی میں ان کے اعمال کی کتاب کھولی جائے گی تو یقین کرنے کو جی چاہتا ہے کہ عدل خداوندی کی میزان میں ان کی نیکیوں اور نیکوکاریوں کا پلڑا بھاری رہے گا، اس جہاں فانی میں ان کی رحلت پر علم سوگوار ہوا، فضل غمناک ہوا اور وہ لمحات بھی مغموم ہوئے جن میں وہ اپنے قلم کی سیاہی سے اپنے داغ دل کو داغ لالہ بنادیتے تھے، میری طرح ان کے بہت سے قدردان ان کو اب یاد کر کے اپنے خشک آنسوؤں کے ساتھ بے چین ہوں گے اور آئندہ ان پر بہت کچھ لکھا جائے گا:
دریں آشوبِ غم عذرم بنہ گرنالہ زن گریم
جہانے را جگر خون شد ہمیں تنہا نہ من گریم
دل کے اس شیون کے ساتھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کی یادوں کا جلوس کہاں سے شروع کرکے کہاں ختم کیا جائے، اپنی کج مج بیانی حائل ہورہی ہے، پھر بھی جو سطریں یہاں پر لکھی جارہی ہیں، وہ محض ایک دیرینہ نیاز مند اور عقیدت مند کے بار غم کو ہلکا کرنے کے لیے ہیں۔
ان کی پیدائش ۱۹۰۸؁ء میں آگرہ میں ہوئی، ان کا آبائی وطن بچھرایوں ضلع مراد آباد تھا، ان کے والد بزرگوار ڈاکٹر تھے، اپنی سرکاری ملازمت کی وجہ سے ان کا آخری زمانہ آگرہ میں گذرا تو وہیں سکونت پذیر ہوگئے، اور یہیں مولانا سعید احمد کی ولادت ہوئی، اسی مناسبت سے اکبر آبادی لکھتے تھے، ان کے نام کے اس جز کے ساتھ پرانے اکبر آباد کی بہت سی روایتیں ان کی طبیعت اور روزمرہ زندگی میں پیوست ہوگئی تھیں، اکبر آباد کی تاریخ کی طرح ان کی زندگی میں بھی بڑی رنگا رنگی رہی۔
اپنی ابتدائی تعلیم کے بعد دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے، وہاں سے سند حاصل کر کے دہلی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم پائی، پھر اسی کے اسٹیفن کالج میں عربی کے استاد مقرر ہوئے، یہاں ان کی مختلف صلاحیتوں کا اندازہ لگایا گیا، تو کلکتہ کے مدرسۂ عالیہ کے پرنسپل مقرر ہوئے، وہاں ان کی شہرت کو اور چار چاند لگے تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات کے صدر کی حیثیت سے بلالیے گئے، یہاں سے ریٹائر ہوئے تو ہمدرد نگر تغلق آباد نئی دہلی میں ان کی علمی خدمات حاصل کی گئیں، وہیں سے تری پوتی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے بلالیے گئے، پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اسلامک اسٹڈیز میں بھی کچھ دنوں پروفیسر رہے، آخر میں دارالعلوم دیو بند کی شیخ الہند اکادمی کے ڈائرکٹر تھے، اس اثنا میں ان کا علمی سفر کینیڈا، نیویارک، پرنسٹن، لندن، مصر، سعودی عرب اور جنوبی افریقہ وغیرہ کا بھی ہوتا رہا، پاکستان تو خدا جانے کتنی بار وہاں کی علمی کانفرنسوں میں بلائے گئے، ہندوستان کی کوئی اہم علمی کانفرنس ایسی نہ ہوتی جس میں وہ مدعو نہ ہوتے، پھر اپنے سیاسی ذوق کی وجہ سے آل انڈیا مسلم کنونشن کے صدر بھی منتخب ہوئے ان کو جمہوریہ ہند کے صدر کی طرف سے عربی میں سند اعزاز بھی ملا کلکتہ کی ایک ادبی انجمن کی طرف سے دس ہزار کا انعام بھی پیش کیا گیا۔
وہ جہاں رہے، گل رعنا بن کررہے، کسی علمی کانفرنس میں شرکت کرتے تو اس کے گل سبد بن جاتے، کسی سے ملتے تو گل نیلوفر کی طرح کھلے ہوئے نظر آتے، مجلس میں بیٹھ کر باتیں کرتے تو علم فضل، شعر اور ادب کا گلدستہ بنے ہوئے دکھائی دیتے۔
اس برصغیر کے بڑے اچھے مقرروں میں شمار کیے جاتے، تقریر کرتے وقت اپنی علمیت زبان کی فصاحت، طرز ادا کی بلاغت اور خطابت کی پوری شان دکھاتے، مگر اس میں الفاظ کی بہتات اور خطابت کا تصنع نہ ہوتا، بلکہ ان کو سنتے وقت ایسا معلوم ہوتا کہ کوئی اہل علم اپنی بصیرت سے اپنے سامعین کے ذہن میں ضیاء پاشی کررہا ہے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اپنے فن خطابت سے وہاں کے اساتذہ اور طلبہ کو برابر متاثر رکھا، وہ اردو، عربی اور انگریزی تینوں زبانوں کے مقرر تھے، حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی اس وقت دنیا کے بہترین خطیبوں اور مقرروں میں شمار کیے جاتے ہیں، لیکن مولانا سعید احمد اکبر آبادی جب کبھی دارالعلوم ندوۃ العلماء پہنچ جاتے تو ان کی تقریر کو سننے اور سنانے کے لیے ضرور کوئی مجلس منعقد کراتے، وہ بولتے تو حضرت مولانا کے چہرے سے ظاہر ہوتا کہ وہ ان کی قوت گویائی سے متاثر ہورہے ہیں اور تحسین بھری نظروں سے حاضرین کو بھی دعوت دے رہے ہیں کہ وہ بھی حظ اٹھائیں۔
گذشتہ مارچ میں وہ سندھ کے ایک سمینار میں تشریف لے گئے، یہ راقم بھی اس میں مدعو تھا، اس کا افتتاح کراچی میں جنرل ضیاء الحق نے کیا، بڑا اچھا مجمع تھا، پورا ہال اکابر سے بھرا ہوا تھا، مولانا اس مجلس کے مہمان خصوصی بنائے گئے، اس میں ان کو سندھ کی علمی اور ثقافتی حیثیت پر کچھ اظہار خیال کرنا تھا، جب وہ بولنے لگے تو سارا مجمع متاثر نظر آیا، مختصر بولے مگر بہت ہی پیارے انداز میں بولے، جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ہر شخص کی زبان پر تھا کہ ایسی پیاری تقریر بہت دنوں کے بعد سننے میں آئی۔
پاکستان میں ان کی مقبولیت راقم نے اپنی آنکھوں سے دیکھی، ۱۹۸۰؁ء میں پندرہویں صدی ہجری کے آغاز پر اسلام آباد میں ایک بہت بڑی بین الاقوامی کانفرنس تھی، وہ وہاں بلائے گئے تھے یہ خاکسار بھی مدعوئین میں تھا، اس کا افتتاح جنرل ضیاء الحق نے کیا جس کے بعد چائے کا وقفہ ہوا تو جنرل ضیاء الحق کی نظر مولانا پر پڑی، بہت بے تکلفانہ انداز میں ان سے مخاطب ہوکر بولے حضرت آپ کا ایک شاگرد آپ کے سامنے کھڑا ہے، اس کو اسٹیفن کالج میں آپ کی شاگردی کی سعادت حاصل ہوئی تھی، خود مولانا کو اس وقت کے ضیاء الحق کی صورت یاد نہ تھی، دونوں نے بڑی گرم جوشی سے معانقہ کیا، مجمع اس قران اسعدین سے محظوظ ہورہا تھا، جنرل ضیاء الحق نے رخصت ہوتے وقت ان سے وعدہ لیا کہ وہ ان کے یہاں آکر کچھ دنوں مہمان رہیں گے۔
۱۹۸۴؁ء کے مارچ میں سندھ کے مذکورۂ بالا سیمینار میں بھی جنرل ضیاء الحق کی نظر مولانا پر پڑی تو بڑی محبت سے ان کو ڈائس پر بلا کر اپنے بغل میں بٹھایا، اور پھر اپنی تقریر میں ان کی تعلیم و تربیت کا بھی ذکر کیا، اس مرتبہ بھی مولانا کو اسلام آباد میں اپنے یہاں مدعو کیا۔
پاکستان میں ان کے ساتھ ایک دلچسپ لیکن عجیب و غریب علمی سفر کی یاد بھی اس وقت بے اختیار آرہی ہے ۱۹۷۶؁ء میں وہاں کی پہلی بین الاقوامی سیرت کانفرنس میں ہم دونوں مدعو تھے، جب اس کی ایک نشست کراچی میں ہوئی تو حیدرآباد سندھ سے کچھ لوگ مولانا قاری محمد طیب مرحوم سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کو اپنے یہاں کے سیرت کے جلسہ میں مدعو کرنے آئے تو مولانا سعید احمد اکبر آبادی کو بھی دعوت دی، پھر مجھ سے بھی شرکت کرنے کو کہا گیا، میں تو جانے کے لیے تیار نہیں ہوا کیونکہ سیرت کی کانفرنس میں مقالے تو پڑھ لیتا ہوں، مگر کوئی لمبی تقریر کرنے کا عادی نہیں ہوں، وہاں جانے سے انکار کیا، لیکن مولانا نے یہ کہہ کر چلنے پر مجبور کیا کہ مولانا قاری محمد طیبؒ کا وعظ اتنا لمبا ہوجائے گا کہ ہم لوگوں کے بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا ان کی اس ضمانت پر چلنے کو تیار ہوگیا، دوسرے دن موٹر ہم لوگوں کو لے کر مولانا قاری محمد طیبؒ کی قیام گاہ پر پہنچی تو انھوں نے جانے سے معذرت کی، مولانا سعید احمد اکبر آبادی پریشان ہوئے، اور میری سراسمیگی کی تو کوئی حد نہ تھی ہم لوگ واپس بھی نہیں ہوسکتے تھے، پریشانی میں جلسہ گاہ پہنچے تو ہزاروں کا مجمع دیکھا جو مولانا طیبؒ کو سننے کے لیے بے چین تھا، نعرہ تکبیر کی بار بار صدا بلند ہورہی تھی، ہم لوگوں کے پہنچتے ہی جلسہ شروع کردیا گیا، مولانا مائک پر بلائے گئے، موٹر کے لمبے سفر سے ہم لوگ بالکل تھکے ہوئے تھے، مولانا پر بھی تکان کا اثر تھا، وہ بولنے کے لیے تیار ہو کر بھی نہیں آئے تھے، انھوں نے مجبوراً تقریر شروع کردی، لیکن یہ جم نہیں رہی تھی، میں پریشان تھا کہ اتنے بڑے مجمع میں میرا تو بولنا اور بھی مشکل ہوگا یکایک ایک صاحب میرے پاس آئے، وہ میری کتاب بزم صوفیہ پڑھ چکے تھے، میرے کان میں کہنے لگے کہ صوفیائے کرام کے واقعات سے مجمع کا رنگ بدل جائے گا، کیونکہ یہاں کے لوگ ان کے واقعات بہت شوق سے سنتے ہیں، جب مائک پر پہنچا تو ان بزرگان دین کی باتیں یاد آتی گئیں، دو چار واقعات سنائے ہوں گے کہ تکبیر کے نعرے بلند ہونے لگے، میرا حوصلہ بڑھا اور مجمع کے ذوق کے مطابق ان بزرگوں کے واقعات دیر تک سناتا رہا، تائید ایزدی بھی ساتھ دیتی رہی، جب بول کر مولانا کے پاس بیٹھا تو انھوں نے یہ کہہ کر گلے لگا لیا کہ ہندوستان کی اچھی نمائندگی ہوگئی، مگر میں نے عرض کیا کہ آپ نے تو یہاں لاکر تختہ دار پر چڑھا دیا تھا، خیریت ہوئی کہ اس پر سے صحیح سالم اتر آیا۔
وہ ایک بہت ممتاز اہل قلم کی حیثیت سے بھی مشہور ہوئے ان کی زبانی بارہا سنا کہ وہ شروع سے مولانا شبلیؒ اور دارالمصنفین کی تصانیف سے متاثر رہے، دیوبند کی طالب علمی کے زمانے میں ان کے پاس ان کتابوں کو دیکھ کر وہاں کے طلبہ اور اساتذہ کو تعجب ہوتا تھا ، اور یہ کہنے میں تامل نہیں کہ ان کی ذات اور ان کی تحریروں پر دبستان شبلی کا بڑا اثر رہا، جس کا ایک کھلا ہوا ثبوت یہ بھی ہے کہ جب دہلی میں مولانا حفظ الرحمن اور مولانا مفتی عتیق الرحمن نے مل کر ایک ادارہ قائم کیا اور اس کی تاسیس میں ان کی بھی شرکت ہوئی تو دارالمصنفین ہی کی تقلید میں اس کا نام ندوۃ المصنفین رکھا گیا اور ہم پھر ان کی ادارت میں رسالہ ’’برہان‘‘ ندوۃ المصنفین سے نکلنا شروع ہوا تو اس میں معارف ہی کی طرح خاص خاص عنوانات رکھے گئے، ان کا بس چلتا تو ندوۃ المصنفین کو دارالمصنفین ہی کی طرح ایک علمی ادارہ بنادیتے مگر بعض ناگزیر اسباب کی بنا پر یہ اشاعتی ادارہ بن کر رہ گیا۔ پھر بھی اس کی طرف سے اب تک جتنی کتابیں شایع ہوئی ہیں ان سے اردو زبان کے مذہبی اور تاریخی لٹریچر میں بڑا قابل قدر اضافہ ہوا ہے، مولانا کا رسالہ ’’برہان‘‘، اس کے لیے اس حیثیت سے مفید رہا کہ اس کی وجہ سے یہ علمی ادارہ ہی سمجھا جاتا رہا۔
مولانا نے اس رسالہ کی ادارت کے فرائض جس شان سے انجام دیئے وہ اردو زبان کی تاریخ میں جلی حروف سے لکھے جائیں گے، ان کا کوئی معاون نہیں رہا، وہ خود ہی اس کے مضامین کے حک و اصلاح اور ترتیب میں لگے رہتے، اس کے لیے لمبے لمبے مضامین بھی لکھتے، اس میں ریویو کے لیے جو کتابیں آتیں، ان پر ریویو بھی قلمبند کرتے، البتہ اس کی کتابت اور طباعت کی ذمہ داری مولانا مفتی عتیق الرحمن پر ہوتی، ورنہ سینتالیس (۴۷) سال کی طویل مدت تک ادارت کا سارا کام تنہا ان ہی کے ذریعہ سے انجام پاتا رہا، کسی مہینہ اس کی اشاعت نہیں رکی، جو ان کا زبردست علمی کارنامہ ہے اس میں ’’نظرات‘‘ کے عنوان سے ان کی ادارتی تحریریں ہوتیں جن میں ملک کے ہر قسم کے مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرکے اپنے قلم اور علم کا جوہر دکھاتے رہے، اس کی طرف پورے علمی حلقہ کی نظر اٹھتی رہی بعض اوقات اپنی رائے کا اظہار بڑی جرأت اور بے باکی سے کرتے، نظری حیثیت سے وہ نیشنلسٹ مسلمان تھے، لیکن حق بات میں ان کی نیشنلزم ان کے قلم پر روک نہیں لگاتی، نظرات میں کبھی وہ اپنے مذہبی خیالات کے مروارید بکھیرتے، کبھی اپنے جذبات کے تلاطم سے اپنی تحریر کو پُرشور کردیتے، کبھی علمی نکتہ آفرینیوں سے اپنے ناظرین کو محظوظ کرتے، کبھی مشاہیر کی وفات پر اپنے غمناک تاثرات کا اظہار کر کے دوسروں کو بھی اپنا شریک غم بنالیتے،کبھی اس میں ادب و انشا کا سحر دکھا کر اپنی تحریر سے مسحور کرتے، اگر ان کے نظرات کتابی صورت میں مرتب کیے جائیں تو یہ بہت سی جلدوں میں منتقل ہو کر نظر، فکر، روشن ضمیری، خود اعتمادی اور تبحر علمی کے قیمتی راس المال ثابت ہوں گے۔
وہ بہت سی کتابوں کے مصنف بھی ہوئے، جن میں کچھ یہ ہیں، فہم قرآن، غلامان اسلام، وحی الٰہی، صدیق اکبر، مسلمانوں کا عروج و زوال، چار (۴)مقالات، تفشتہ المصدور اور ہندوستان کی شرعی حیثیت، مولانا عبیداﷲ سندھی اور ان کے ناقد، حضرت عثمان غنی ذی النورینؓ اور خطببات اقبال پر ایک نظر، ان کی تمام تصانیف پر ایک مستقل کتاب لکھ کر ان کے تصنیفی اور علمی کارناموں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ضرورت ہے، یہاں پر ہم ان کی دو (۲)تصانیف وحی الٰہی اور صدیق اکبر کی کچھ جھلکیاں دکھانے پر اکتفا کریں گے، وحی الٰہی میں وحی کی ضرورت، وحی کی مختلف صورتیں، قرآن اور وحی، خدا کی صفات، وحی اور محققین یورپ، تسلسل وحی اور نزول جبرئیل، قرآن مجید وحی الٰہی کیوں ہے؟ قرآن مجید کا اسلوب بیان اور بعض عیسائی مصنفین پر ان کے جو مباحث ہیں، ان کو پڑھ کر ان کی علمی فضیلت اور جلالت کا بڑا اثر پڑتا ہے، جس ایمانی حرارت اور مذہبی راسخ العقیدگی سے یہ لکھی گئی ہے اس کے بعض مباحث بارگاہ ایزدی میں بھی ضرور مقبول ہوئے ہوں گے، اس کی وجہ تصنیف جس دلچسپ انداز میں بتائی گئی ہے اس کو پڑھ کر اس کتاب کی نوعیت کا نہ صرف اندازہ ہوگا، بلکہ ناظرین کے ایمان میں نور اور ذہن میں سرور پیدا ہو کر ان کے بہت سے شکوک و شبہات کا فور ہوجائیں گے، لکھتے ہیں:
’’دنیا میں سیکڑوں سوالات ہیں جن کے جواب میں انسان سب کچھ کہنے کے بعد آخر میں ایک ایسے مرحلے پر پہنچتا ہے کہ پھر اس کے لیے جواب کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہاتھی اس قدر فربہ اور توانا کیوں ہے؟ چیونٹی کیوں اتنی نحیف وزار ہے، آم کے درخت پر آم ہی کیوں لگتے ہیں، جامنیں کیوں نہیں پیدا ہوتیں؟ غم سے رونا اور خوشی سے ہنسنا ہی کیوں آتا ہے؟ اس کے برعکس کیوں نہیں ہوتا؟ یہ اور اس کی طرح سیکڑوں سوالات ہیں جن کے جواب کا آخری رتبہ یہ ہے کہ ان تمام اشیاء کے طبعی خواص اور ان کی نوعی مختصات پر محمول کردیا جائے، پھر اگر اس کے بعد بھی یہ سوال کیا جائے کہ اس شے کی یہ طبعی خاصیت کیوں ہے؟ اور یہی کیوں ہے؟ اور چیز کیوں نہیں، تو اس کے جواب میں ایک ملحد کہے گا کہ مادہ کی ترکیب اسی طرح ہوئی ہے، لیکن موحد جواب دے گا کہ خدا نے ہر شے کی صورت نوعیہ میں ایک الگ خاصیت رکھی ہے، جواب دونوں کے مختلف ہوں گے، لیکن ہر ایک کا یہ جواب ایک آخری جواب ہوگا اگر اس کے بعد میں سائل کیوں سے سوال کرے تو اس کے جواب میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
وحی کا مسئلہ اسی طرح کے مسائل میں سے ہے، اس کی حقیقت کے سمجھانے میں ہم بتاسکتے ہیں کہ خدا کلام کرتا ہے، خاص خاص انسان (انبیاء) اس کا کلام سنتے اور سمجھتے ہیں، اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان دو دعووں پر جو عقلی اعتراضات کیے جائیں ان کو رفع کردیں، لیکن اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص ایسا ہی کیوں ہوتا ہے؟ کہہ کر ہم سے سوال کرے گا تو اس کا سیدھا جواب یہ ہے کہ اچھا پہلے تو ہمارے ہزاروں کیوں کا جواب دے دو، پھر ہم بھی تمھیں سمجھا دیں گے کہ خدا انبیاء میں ہی کیوں کلام ربانی کو سمجھنے کی استعداد رکھتا ہے؟ ہمہ شما میں کیوں یہ صلاحیت نہیں ہوتی؟ زیر نظر کتاب میں وحی الٰہی پر جو بحث کی گئی ہے اس کا مقصد ان ہی سوالات کا جواب دینا ہے جو واقعی ایک طالب تحقیق کے دل میں اس مسئلہ پر غور کرنے کی راہ میں پیدا ہوسکتے ہیں، ان کے علاوہ جو لوگ ازراہ بغض و عناد اپنے کیوں کا سلسلہ کہیں ختم نہیں کرتے وہ اس کے مخاطب نہیں‘‘۔
مولانا کی اس پرکیف تحریر کو پڑھنے کے بعد اس کے ناظرین کے بہت سے مذہبی خیالات میں جلا پیدا ہوسکتی ہے۔
ان کی کتاب صدیق اکبرؓ بہت مقبول ہوئی، انھوں نے اس کے دیباچہ میں اس کے ماخذوں پر جو بحث کی ہے اس کے مطالعہ سے اندازہ ہوگا کہ اس کی تدوین کرنے میں کیسی محنت شاقہ کی گئی ہے، پھر جس دلنشین پیرایہ میں یہ شروع سے آخر تک لکھی گئی ہے، وہ اس کی اصلی خوبی ہے، اس میں ان کے ابر قلم کے جو رشحات ہیں ان کے دو چار نمونے یہاں پر پیش کرنے کو جی چاہتا ہے، تاکہ ناظرین میری طرح تھوڑی دیر کے لیے ان کے اسلوب اور طرز بیان سے بھی لطف اٹھائیں، حضرت ابوبکرؓ کی سیرت پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’’تاریخ کا ایک طالب علم کہہ سکتا ہے کہ دنیا میں سکندر اعظم، ہنی بال، چنگیز خان، تیمور اور بھی بڑے بڑے فاتح گذرے ہیں، جنھوں نے نہایت عظیم الشان فوجی کارنامے انجام دیے، لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا میں کوئی عظیم الشان فاتح ایسا بھی گذرا ہے جس نے دنیا کی تاریخ کا ورق الٹ دیا، لیکن اس کے باوجود اس کے سرپر تاج زرفشاں ہو اور نہ اورنگ سلطانی ہو، معمولی سے معمولی آدمیوں کی طرح رہتا سہتا ہو، اس میں اور دوسرے لوگوں میں شان و شوکت اور وجاہت و سطوت کے اعتبار سے کوئی فرق نہ ہو، وہ محلہ کی بکریوں کا دودھ بھی دوہ دیتا ہو، رات کے وقت چھپ چھپ کر نابینا عورت کے گھر کا سارا کام بھی کر آتا ہو، معمولی کپڑے پہنتا ہو، موٹا جھوٹا کھاتا ہو، اس کے پاس نہ خدم و چشم ہوں اور نہ محلات و قصور، نہ خزانے ہوں، اور نہ زر وسیم کے انبار، نہ چوکیدار، نہ دربان، ملٹری گارڈ اور نہ پولیس کا حفاظتی دستہ، ایک معمولی سے معمولی انسان بھی برملا اس کو سرراہ ٹوک سکتا ہو، ایک ادنی حیثیت کا شخص بھی بھرے مجمع میں اس سے باز پرس کرسکتا ہو‘‘۔
کیسی موثر اور باوقار تحریر ہے، اس کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جب وہ اپنی فوج کو کسی مہم پر روانہ کرنے کے لیے دور تک مشایعت کے لیے جاتے تو اس شان سے کہ وہ خود پاپیادہ ہوتے اور اس کا نوعمر و نوجوان امیر فوجی گھوڑے پر سوار ہوتا، اس کی بیٹی اپنے شوہر کے گھوڑوں کا دلیہ خود دلتی ہو اور پھر نو نو میل اسے سر پر رکھ کر پیدل چلتی ہو، اور خود اس کا اپنا حال یہ ہو کہ وہ کپڑوں کا گٹھرا اپنے سر پر رکھ کر بازار میں پھرتا ہو، بتاؤ فوجی و حربی کا مگاری کے ساتھ جمہوریت اور یہ مساوات و برابری، یہ تواضع و فروتنی پوری تاریخ عالم میں کہیں اور بھی نظر آتی ہے؟ اس میں شبہہ نہیں کہ جمہوریت اور مساوات کی جو مثال حضرت عمرؓ نے اپنے عہد خلافت میں قائم کی وہ اپنی جگہ بے نظیر ہے، لیکن حضرت ابوبکرؓ کی اس بے نفسی اور انتہائی سادگی کو دیکھ کر حضرت عمرؓ بھی کہہ پڑے، اے ابوبکر! تم نے اپنے بعد میں آنے والوں کے لیے بڑی مشکلات پیدا کردیں، یعنی تمھارے نقش قدم پر چلنا کسی کے بس کی بات نہیں‘‘۔
حضرت ابوبکرؓ کی سیرت کو نمایاں کرنے کے لیے جس دلنواز طرز ادا کی ضرورت تھی اس کو مولانا نے اپنی تحریر کے ذریعہ سے فراہم کیا، پھر ان کو یہ سب کچھ لکھنے میں ایسی لذت ملی کہ ان کا قلم روکے نہیں رُکا، بے ساختہ طور پر ان کے قلم سے یہ تحریر بھی نکل پڑتی ہے:
’’پھر فاتحین و کشور کشایان عالم میں کتنے ہیں جن کے لشکروں نے شہروں کو نہ اجاڑا ہو، آبادیوں کو ویرانہ میں تبدیل نہ کردیا ہو، بوڑھوں، بچوں اور عورتوں پر ترس کھایا ہو، کھیتوں کو آگ نہ لگائی ہو، درختوں کو نہ کاٹا ہو، لیکن یہاں کیا عالم تھا، فوج روانہ ہوتی تھی تو بڑی تاکید سے ان امور کی نسبت ہدایات دی جاتی تھیں، اور کسی کی مجال نہ تھی کہ فرمان خلافت سے ذرا سر تابی کرسکے، ان سب چیزوں کا اثر یہ تھا کہ جو لوگ میدان جنگ میں شمشیر آزما بن کر آتے تھے، جب ہوا کا رخ پلٹتا تھا تو ان ہی کی زبانیں فاتحین کے لیے دعائیں کرتی تھیں، جنگ کے ختم ہونے کے بعد جنگ کی ہولناکیوں کا نام، نشان جنگ سے باہر نہیں نظر آتا تھا، اور ملک میں پہلے سے زیادہ خوشحالی اور آسودگی پیدا ہوجاتی تھی‘‘۔
جو باتیں اوپر لکھی گئی ہیں، وہ کچھ ایسی نئی نہ تھیں جو پہلے کبھی نہ لکھی گئی تھیں، لیکن مولانا نے ان کو اپنے قلم کی جس گرمی سے لکھا ہے وہی اس تحریر کی جان ہے، ان کو حضرت ابوبکرؓ سے جو والہانہ عقیدت تھی، اس کو والہانہ انداز ہی میں اپنی تحریر میں منتقل کردیا ہے، اور جب وہ یہ لکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لکھ نہیں رہے ہیں بلکہ بول رہے ہیں اور کانوں میں امرت گھول رہے ہیں:
’’جو کام آنحضرتﷺ کی زندگی میں تکمیل کو نہ پہنچا تھا، خلیفہ اول کے ہاتھوں اس کی تکمیل ہوئی، پوری عرب قوم کو متحد کرنے کے علاوہ قرآن مجید کو جمع کرنا اور اس کو ضیاع سے بچا لینا بے شبہہ ایک پیغمبرانہ کارنامہ ہے جس کی وجہ سے خود اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ان علینا جمعہ [القیامۃ:۱۷] پورا ہوا قرآن جس پر اسلامی شریعت کی اساس قائم ہے، اس کو جمع کرکے ہمیشہ کے لیے محفوظ کردینا، زکوۃ و صدقات کے احکام کی تبلیغ و اشاعت اور ان کی تفصیل و تشریح، جیش اسامہ کی روانگی، مرتد اور باغیوں کی سرکوبی، مدعیان نبوت کا استیصال، ایران اور روم کی ان کے اسلام دشمن منصوبوں کی بنا پر گوشمالی، اسلام کی تبلیغ و اشاعت، قبائل عرب کا باہمی اتحاد و اتفاق، اسلام کا عربوں کے لیے قومی مذہب بن جانا، یہ سارے اہم کام جو کل سوا دو برس کی مدت میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھوں انجام پذیر ہوئے ان سب کوسامنے رکھو اور بتاؤ کہ کیا ان سے صاف طور پر ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت ابوبکرؓ پیغمبر نہیں تھے اور نہ ہوسکتے تھے لیکن ان کے کارنامے پیغمبرانہ تھے، چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ نے ایک مرتبہ فرمایا، اگر ابوبکرؓ نہ ہوتے تو خدا کی عبادت نہ کی جاتی، گویا ثانی اثنین اذھما فی الغار [التوبۃ: ۴۰] کہہ کر پیغمبر آخر الزمانؐ کے ساتھ جس کی جسمانی معیت و رفاقت پر مہر تصدیق ثبت کی تھی، ازل میں اس کے لیے یہ سعادت بھی مقدر کردی گئی تھی کہ جسمانی رفاقت کے ساتھ معنوی اشتراک عمل اور باطنی رفاقت کا بھی اس سے مظاہرہ ہو‘‘۔ (صدیق اکبرؓؓ، شایع کردہ ندوۃ المصنفین، دہلی ۷۸، ۴۷۴)
اس ایک پیراگراف میں حضرت ابوبکرؓ کے سارے کارنامے سامنے آجاتے ہیں، مولانا نے جس بے ساختگی کے ساتھ ان کو قلمبند کیا ہے اس کی داد ان کو کیسے نہیں مل سکتی ہے، ان ہی ساری باتوں کا اطناب اس کتاب میں ملے گا، اردو میں حضرت ابوبکرؓ پر اتنی مفصل اور سیر حاصل کتاب پہلی دفعہ لوگوں کے ہاتھوں میں آئی، جس میں اس دور کے اہم دینی، سیاسی، فقہی اور تاریخی واقعات اور کوائف پر بڑی جامعیت کے ساتھ مفید مباحث بھی ہیں۔
ان کی یہ کتاب ان کے دستار علم کی ایک بہت ہی تابدار اور زریں کلغی ہے۔
مولانا سے جو عقیدت رہی اس کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان کی تمام کتابوں پر کچھ نہ کچھ لکھ کر لطف اٹھاتا، مگر زیر نظر تحریر تو محض تعزیتی اور تاثراتی ہے، اس لیے اس میں اس کی گنجایش نہیں، اوپر کی کچھ باتیں غیر ارادی طور پر قلم سے نکل پڑی ہیں ان کے عام طرز تحریر کا جب تجزیہ کیا جائے گا تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس میں جہاں ادب و انشا کا جمال ہے، وہاں ان کے اسلوب میں عالمانہ وقار، منطقیانہ وزن اور ماہرانہ استدلال کی متانت بھی ہے، وہ عالم بھی تھے، انگریزی تعلیم یافتہ بھی تھے، اس لیے قدیم و جدید رنگ کی آمیزش سے ان کا قلم بعض اوقات اس مصور کا موئے قلم ہوجاتا جو مختلف رنگوں کے حسین امتزاج سے اپنے آرٹ کو دیدہ زیب اور جاذب نظر بنادیتا ہے ان کو قرآن مجید، احادیث اور فقہ کا ادراک و فہم حاصل تھا، اکابر اسلام سے بے پناہ عقیدت تھی مسلمانوں کے ماضی کی عظمت کا احساس تھا، اس لیے ان کے قلم میں ایمانی حرارت بھی ہوتی، تب و تاب زندگی بھی، دعوتِ اصلاح بھی، درس عمل بھی، سلف صالحین کی قدروں کا احترام اور موجودہ دور کی حریت فکر بھی، روشن ضمیری بھی، اور تھمے ہوئے جذبات کی لہریں بھی، ان اجزائے ترکیبی سے ان کی تحریریں جہاں کہیں بھی چھپی ہوئی دکھائی دیتیں ممکن نہ تھا کہ وہ پڑھی نہ جاتیں، اس طرح ان میں مقناطیسیت بھی تھی۔
راقم سے ان کے ملنے ملانے کی روداد بڑ ی طویل ہے، پہلی بار ان سے دہلی میں مولانا مفتی عتیق الرحمن کے یہاں ملاقات ہوئی، کلکتہ میں جب وہ مدرسہ عالیہ کے پرنسپل ہوئے تو اس بنگلہ میں بھی حاضری دی جہاں ان سے پہلے بہت سے انگریز پرنسپل رہ چکے تھے، وہ علی گڑھ آئے تو جب جب وہاں گیا ان کے دردولت پر یا ان کے شعبہ میں جا کر ان سے ضرور ملا، ۱۹۶۵؁ء میں وہ دارالمصنفین کی طلائی جوبلی کے موقع پر اعظم گڑھ تشریف لائے، ۱۹۶۹؁ء میں یہاں علی گڑھ کے اسلامک اسٹڈیز کی ایک کانفرنس ہوئی، تو اس میں بھی شرکت کی، ۱۹۸۶؁ء میں اسلام اور مستشرقین پر یہاں جو سمینار ہوا تو اس موقع پر بھی آکر اس کی رونق بڑھائی، ایک بار اعظم گڑھ کے قصبہ بلریا گنج کے مدرسہ کے طلبائے قدیم کو مخاطب کرنے گئے، تو یہاں بھی تشریف لاکر ہم لوگوں کی عزت افزائی کی، وہ کہتے کہ اور لوگ تو دارالمصنفین پاؤں کے بل آتے ہیں، مگر وہ یہاں اپنی پلکوں کے بل آتے ہیں، اس برصغیر کی علمی کانفرنسوں میں تو برابر ملاقاتیں ہوتی رہیں، دارالعلوم ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامیہ کے سالانہ جلسہ میں یا اس کی کسی اور تقریب میں لکھنؤ آتے تو یہ راقم بھی موجود ہوتا، ہم دونوں جب اور جہاں ملتے تو وہ دیکھتے ہی ایسی تواضع کرتے جو قلاقند سے زیادہ شیریں ہوتی، شاداں و فرحاں ہو کر گفتگو شروع کرتے تو معلوم ہوتا کہ ان کی بذلہ سنجیوں کی مے ارغوانی،
چھلک رہی ہے، اچھل رہی ہے، پیئے ہوئے ہیں پلارہے ہیں
معارف کے کسی مضمون یا شذرات کا ذکر خیر کرنے لگتے تو کہتے کہ تم اپنی نثر میں شاعری کرتے ہو، میں عرض کرتا کہ کاش میں آپ کی طرح ملک الشعرائی کرتا، کبھی کہتے کہ تم جیسے جیسے بوڑھے ہورہے ہو تمھاری تحریر جوان ہوتی جارہی ہے، میں جواب دیتا کہ لکھتے وقت آپ کی عمر رفتہ کو آواز دیتا رہتا ہوں، کبھی کہتے کہ میری نواسیاں تمھاری تحریر کو میری تحریر سے زیادہ پسند کرتی ہیں، میں کہتا اس لیے کہ آپ نے اپنے پُرتکلف دسترخوان پر ان کو اپنے یہاں کے مرغ مسلم کو دال برابر سمجھنے کی تربیت دی ہے۔
پھر کہتے کہ کیا یہ تصور کرنا صحیح نہیں کہ ہم دونوں کو علم کے دربار عام میں بقائے دوام حاصل ہوگی میں عرض کرتا کہ کہ اس میں تو آپ کے لیے دلادت باسعادت سے پہلے ہی جگہ متعین کردی گئی ہے، میری زندگی میں بہت سی محرومیاں رہی ہیں، یہ محرومی بھی پہلے سے مقدر ہوچکی ہے، وہ اپنی اس قسم کی باتوں کو میری تصانیف پر رسالۂ برہان میں تبصرہ کرتے وقت لکھ بھی جاتے۔
اب وہ نہیں ہیں تو ان کی تمام باتوں کواپنی یادوں کے شیش محل میں فانوس فروزاں کی طرح برابر جگمگاتا ہوا دیکھتا رہوں گا۔
ان کی استاذی المحترم حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ سے بڑی گہری عقیدت رہی، وہ جب دارالعلوم دیوبند میں تعلیم پارہے تھے تو ان کی خواہش تھی کہ دو تین سال ان کے زیر تربیت رہ کر اپنے تصنیف و تالیف کے ذوق کی تکمیل کریں، لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا تو مراسلت کے ذریعہ سے استفادہ کرتے رہے ایک بار اپنی ایک نظم معارف میں چھپنے کے لیے ان کے پاس بھیجی تو انھوں نے اس کو واپس کرتے ہوئے یہ تحریر فرمایا کہ آپ اس نظم نویسی کے چکر میں کہاں پڑگئے، آپ کے رتبہ سے گری ہوئی چیز ہے، کچھ محنت کیجئے اور مقالہ نویسی پر توجہ کیجئے، قوم کو آپ سے اسی کی توقع ہوسکتی ہے، اور یہی ہونی چاہیے، اس تحریر کا اثر ان کے ذہن پر گہرا پڑا، اور انھوں نے اس کے جواب میں یہ شعر لکھ بھیجا:
کون ہوں، کیا ہوں، کہاں ہوں، سب حقیقت کھل گئی
تونے وہ ٹھوکر لگائی چشمِ علّت کھل گئی
وہ حضرت سید صاحب کے اعلیٰ رتبہ اور بلند پایہ کے بڑے قائل تھے، اور جب ان کی وفات کے بعد معارف کا سلیمان نمبر نکلا تو اس کے لیے بڑی دلسوزی کے ساتھ ایک بہت ہی عمدہ مضمون لکھا، جس کی ابتداء انھوں نے اس طرح کی ہے:
’’مولانا سید سلیمان ندویؒ کی نسبت یہ کہنا کہ وہ ایک بہت بڑے محقق، نامور مصنف بلند پایہ عالم اور صاحبِ طرز انشا پرداز تھے، ایک عام اور معمولی پیرائیہ بیان ہے جس سے مولانا کا اصل مقام اور رتبہ متعین نہیں ہوتا، اور نہ ان کا صحیح حق ادا ہوتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی میں ہندوستان کی اسلامی سوسائٹی کے ذہن و فکر اور یہاں کے تعلیم یافتہ طبقہ میں خواہ وہ طرز قدیم کا ہو یا طرز جدید کا، نصف صدی کے اندر مذاق تصنیف و تالیف، طریق فکر و استدلال اور تہذیبی امیال و عوامل کے اعتبار سے جو عظیم الشان انقلاب ہوا ہے، مولانا رحمتہ اﷲ علیہ کی شخصیت اور ان کے علمی و عملی کارناموں کو اس میں بڑا دخل ہے‘‘۔
مولانا کی اس تحریر کی روشنی میں حضرت سید صاحبؒ پر بڑا کام کیا جاسکتا ہے، ان کو دارالمصنفین سے جو لگاؤ رہا اس کا اظہار اپنی ایک تحریر میں اس طرح کیا:
’’دارالمصنفین اعظم گڑھ، برصغیر انڈو پاک کا ایک مشہور اور نہایت وقیع ادارہ ہے، جو گذشتہ نصف صدی سے اردو زبان میں اسلامی علوم و فنون کی اہم خدمات انجام دے رہا ہے، اس ادارہ نے سیرت، اسلامی تاریخ، شعر و ادب، فلسفہ و تصوف اور تذکرہ و تراجم پر جو کتابیں شایع کی ہیں، وہ مواد، ترتیب اور زبان و معانی کے لحاظ سے کسی بھی زبان کے ادب کے لیے سرمایہ فخر بن سکتی ہیں، آج ہندو پاک میں اسلامی علوم و فنون پر ریسرچ اور تحقیق کا جو سنجیدہ ذوق پایا جاتا ہے، کوئی شبہہ نہیں کہ اس کی آبیاری میں اور چیزوں کے ساتھ ادارہ کی کوششوں کا بھی بڑا دخل ہے، اس ادارہ نے خود کام کیا اور دوسروں کو کام کرنے کی راہ دکھائی اور اس کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج اردو زبان میں اسلامیات پر ایسا قیمتی اور وسیع لٹریچر پیدا ہوگیا ہے کہ اب کسی اسلامی موضوع پر ریسرچ اردو زبان کے جانے بغیر مکمل ہی نہیں ہوسکتی‘‘۔ (برہان، اکتوبر ۱۹۶۴؁ء)
پھر اس گہرے لگاؤ کی وجہ سے اس کے ہر فرد سے بڑی محبت کرتے تھے، جناب شاہ معین الدین احمد ندوی سابق ناظم دارالمصنفین کی وفات ہوئی تو بہت ہی دلگیر ہو کر لکھا:
’’ان کی وفات کی خبر اچانک سنی تو قلب و دماغ پر بجلی گرپڑی، شاہ صاحب ندوۃ العلماء کے گل سرسبد، نہایت پختہ قلم مصنف، تاریخ اسلام کے وسیع النظر محقق، اردو زبان کے ادیب، اور سوباتوں کی ایک بات یہ کہ مولانا سید سلیمان ندویؒ کے صحیح جانشین اور ان کے قائم مقام تھے، اور اس میں شک نہیں کہ تقسیم ہند کے بعد سے ابتک انھوں نے دارالمصنفین کے علمی وقار اور مرتبہ کو قائم رکھا، اور ملک کے نہایت سخت طوفانی دور میں بھی اس باغیچہ علم و ادب کی جس طرح حفاظت کی اور دل و جان سے اس کی آببیاری کی وہ ان کی قبائے فضل و کمال کا تکمۂ زریں ہے علم و فضل اور تحقیق و تصنیف کے علاوہ اخلاق و عادات اور کردار عمل کے اعتبار سے بھی وہ سلف صالحین کا نمونہ تھے، نہایت مخلص، بے لوث، عابد زاہد، خندہ جبین، شگفتہ طبع، ملنسار متواضع اور مرنجاں مرنج تھے‘‘۔ (برہان، جنوری ۱۹۷۵؁ء)
ان کے دل میں حضرت سید صاحبؒ، دارالمصنفین، اور یہاں کے لوگوں کے لیے جو انتہائی نرم گوشہ تھا اس کے بعد ان کی ذات گرامی کی طرف کیوں نہ کشش ہوتی، وہ محبوب بھی تھے اور حبیب بھی، دلبر بھی اور دلربا بھی:
تصور چاہیے رونے میں اس کے روئے خنداں کا
جب میری کوئی کتاب شایع ہوتی تو اس کو اصرار کر کے ضرور منگواتے اور رسالۂ برہان میں اس پر تبصرہ کرتے، میری حقیر تصانیف بزم تیموریہ، بزم صوفیہ، ہندوستان کے عہد وسطیٰ میں فوجی نظام، ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے عہد کے تمدنی جلوے، غالبؔ مدح و قدح کی روشنی میں، اور صوفی امیر خسرو پر اس رسالہ میں جو کچھ لکھ دیا ہے، اس سے ان کے وزن اور اہمیت میں ضرور اضافہ ہوگیا ہے، لیکن بعض اوقات ایسی باتیں لکھ جاتے جن کا مستحق اپنے کو نہ سمجھتا، مثلاً میری کتاب ہندوستان کے عہد وسطیٰ کے فوجی نظام پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ:
’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اردو تو اردو کسی زبان میں بھی اس خاص موضوع پر اس قدر عظیم مواد اور وہ بھی اس ترتیب کے ساتھ کہیں یکجا نہ ملے گا، مولانا سید سلیمان ندویؒ کی کتاب عرب و ہند کے تعلقات کے بعد اس پایہ کی دوسری کتاب ہے، جو تاریخ ہند کے ایک بالکل نئے موضوع پر اردو میں پہلی مرتبہ شایع ہوئی ہے اور جس نے اردو لٹریچر کو چار چاند لگادیے ہیں‘‘۔
(رسالہ بُرہان، دسمبر ۱۹۶۳؁ء، ۳۸۳)
اس کو پڑھ کر اس حیثیت سے انقباضی کیفیت پیدا ہوئی کہ میری اس کتاب کا ذکر حضرت ؒ الاستاذ کی بے مثال تصنیف کے ساتھ نہ کیا جاتا، اس کے بعد مولانا سے فوراً ہی ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے احتجاجاً کہا کہ خاک کو عالم پاک سے کیا نسبت جو آپ نے یہ لکھ دیا ہے، کہنے لگے کہ ان پر جو اثر ہوا وہ لکھ دیا ہے، لیکن اپنے متعلق ان کی ایسی تحریروں سے کوئی غلط فہمی یا خوش فہمی کبھی پیدا نہیں ہوئی، البتہ ان کی کریم النفسی اور قلمی فیاضی کے بار سے دبا رہا۔
نومبر ۱۹۸۴؁ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کی طرف سے حضرت سید صاحبؒ پر ایک سیمینار تھا، جس نشست میں مجھ کو اپنا مقالہ پڑھنا تھا اس کی صدارت مولانا ہی نے کی، اپنی صداراتی تقریر میں میرے مقالہ پر اپنی محبت میں بہت کچھ کہہ رہے تھے کہ یکایک رک گئے، پھر ہنسے اور ہنس کر اپنی تقریر کا رخ دوسری طرف موڑدیا، جیسے کوئی خاص بات ان کی نوک زبان پر آگئی تھی، وہ کہنا چاہتے تھے، لیکن کہہ نہ سکے، جلسہ ختم ہوا تو تنہائی میں مجھ سے کہا کہ تمھارے متعلق ایک دلچسپ جملہ زبان پر آگیاتھا لیکن کہنا مناسب نہیں سمجھا، پوچھا وہ کون سا جملہ تھا؟ برملا کہہ دیا، وہ بھی ہنسے، مجھ کو بھی ہنسی آگئی، لیکن میں نے اپنی بے تکلفی میں ان سے عرض کیا کہ وہ یہ کہہ دیتے تو میں اس وقت صدارت کی کرسی کے پاس پہنچ کر گریبان گیر ہونے کی جرات تو نہ کرتا لیکن دامن گیر ضرور ہوجاتا۔
اس کے دوسرے دن اپنے گھر پر مدعو کیا، جو علی گڑھ میں ایک بہت ہی آرام دہ بنگلہ بنالیا تھا جس کو اپنی خوش سلیقگی سے سجائے رکھتے تھے، وہ بڑی اچھی رہائش کے عادی رہے، اپنے خوردو نوش کا بھی بڑا اہتمام کرتے، کھانے پر مدعو کرتے تو ان کے دسترخوان کی آرایش دیکھنے کے لایق ہوتی، ان کا بس چلتا تو کھانے کے تمام اقسام سے اس کو سجادیتے، بہت عمدہ باورچی اپنے یہاں ملازم رکھتے، ان کی دعوت قبول کرنے میں ہچکچاتا، ان کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر اپنے کام و دہن کی لذت کی تسکین تو خوب ہوجاتی، لیکن ان کو اس کے لیے جھمیلوں کا جو سامنا کرنا پڑتا اس کو سوچ کر تردد ہوتا، مگر ان کی زندگی کی ایک بڑی لذت یہی تھی کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھ کر اچھا وقت گزاریں۔
یہ میری ان سے آخری ملاقات تھی، اس موقع پر ان کی باتوں میں پہلے جیسی شگفتگی اور رعنائی نہ تھی، کچھ عرصے پہلے ان کی رفیقۂ حیات کی رحلت ہوگئی تھی، ان کی دائمی جدائی پر برہان کے نظرات میں جو اپنے غم ناک جذبات ظاہرکیے تھے وہ سوگوارانہ رومانی ادب کا ایک شہ پارہ ہے، ان کے بڑے لڑکے کی وفات بھی ہوگئی تھی، ان کے ہمدم اور غم گسار مفتی عتیق الرحمن بھی حال ہی میں ان سے جدا ہوگئے تھے، پھر وہ یکایک یرقان میں مبتلا ہوگئے، ایک کتے نے بھی ان کو کاٹ لیا تھا اور ان امراض سے وہ جان بر تو ہوگئے تھے، لیکن صحت گر رہی تھی، اپنی ایک لڑکی کی پریشانیوں سے بھی پریشان تھے، مگر دلگیر اور دل فگار ہونے کے باوجود اپنی خوش طبعی کا کچھ نہ کچھ اظہار کرتے رہے، ان کی دونواسیاں یونیورسٹی میں تعلیم پارہی تھیں، وہ وہاں سے واپس آئیں تو ان کو دیکھتے ہی پکارا کہ آؤ! معارف کے شذرات یہاں بیٹھے ہیں، ان سے مل لو ، ان سب کے ساتھ میں بھی ہنس پڑا۔
کچھ دنوں کے بعد خبر ملی کہ وہ اپنے علاج کے لیے پاکستان چلے گئے ہیں، ان کی خیریت ان کے داماد ڈاکٹر محمد اسلم شعبۂ تاریخ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے معلوم کرتا رہا، ۲۴؍ مئی ۱۹۸۵؁ء کو یکایک ریڈیو سے سننے میں آیا کہ وہ اﷲ کو پیارے ہوگئے۔
اس خبر کو سنتے ہی آنکھوں کے سامنے فلمی پردہ کی طرح وہ آتے جاتے رہے، وہ آرہے ہیں، وہ جارہے ہیں، قدم قدم پر نئے نئے گل کھلارہے ہیں، سمینار میں بول رہے ہیں، کانفرنس میں مقالہ پڑھ رہے ہیں، اپنے دسترخوان پر طرح طرح کی چیزیں کھلارہے ہیں، آہ! ان کی ملاقاتیں کیسی پرکیف ہوتیں، ان میں گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح رنگینی اور عطر مجموعہ کی طرح شامہ نوازی ہوتی، ان کے قہقہے، چہچہے، برجستہ اشعار، علمی فکاہات، ادبی مطائبات اور دلچسپ مذاکرات اب کہاں سننے میں آئیں گے۔ ان کے ساتھ جو ساعتیں گذریں اب وہ کسی اور جگہ کہاں میسر ہوں گی، مگر اب ان کی یادوں کی جو تربت میرے دل میں بن گئی ہے، اس کے لوح تعویذ پر ان کی ساری باتیں کندہ ضرور نظر آئیں گی۔
آہ! ان کے بربط ہستی کا سرود اب خاموش ہے، علم کا ایک طائر ملکوتی عالم بقا کی فضائے بسیط میں پرواز کرگیا، اس برصغیر کا علمی حلقہ ایک باوقار اہل علم، ایک شگفتہ قلم اور ایک باوزن انداز بیان سے محروم ہوگیا، معاشرہ سے ایک خاص آب و رنگ کی شخصیت کی دلآویزی اور رعنائی چھین لی گئی، ان کے دوستوں کی بزم سے ان کے تفردات کی شیوہ بیانی اور شیریں گفتاری ختم ہوگئی، ان کے ہم جلیسوں پر ان کی قربت کا جو نشاط تھا، وہ جاتا رہا، ان کی جبیں پر ان کی شگفتگی جو ہنستی رہتی، وہ اب ان کے ملنے والے کہاں دیکھیں گے، سلام علیک و رحمتہ الی یوم التلاق۔
اے ذوالجلال والاکرام! ان کی علمی خدمات کی بدولت جس سے انھوں نے بعض اسلامی رویات کو سربلند کرنے کی کوشش کی ، ان کے دینی جذبات کی خاطر جن سے وہ کبھی بے حد مضطرب اور بے چین رہے ، ان کی بے نفسی اور پاک طینتی کے بدلے میں جن سے وہ اپنے معاصروں میں مقبول رہے ان کو اپنی عاطفت کے سایے میں لے کر وہی جگہ عطا فرما جہاں تیری بے پناہ رحمت کا لازوال نورتاباں اور درخشاں رہتا ہے، آمین ثم آمین۔ (صباح الدین عبدالرحمن، جولائی ۱۹۸۵ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...