Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا شاہ امان اﷲ پھلواروی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا شاہ امان اﷲ پھلواروی
ARI Id

1676046599977_54338244

Access

Open/Free Access

Pages

451

آہ! حضرت مولانا شاہ امان اﷲ پھلوارویؒ
یہ خبر نہایت غم و الم سے سنی گئی کہ خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف پٹنہ کے سجادہ نشین حضرت مولانا شاہ امان اﷲؒ ۲۵؍ شعبان کو دن گذار کر شب جمعہ کو دو بجے عالم جادوانی کو سدھارے، ان کے خاندان، خانقاہِ مجیبیہ پھلواری شریف، پوری ریاست بہار، بلکہ اس سے باہر ان کے جاننے والے حلقوں میں غمناکی اور سوگواری کی جو کیفیت چھاگئی اس کا صحیح اندازہ ہے، وہ ہزاروں کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے ہوئے تھے، جو بھی ان سے ملا ان کی نیک نفسی اور پاک باطنی کا نقش اپنے دل پر بنا کر اٹھا، ان کے مریدین تو ان میں ان کے بزرگوں کے زہد و اتقاء کی ساری نشانیاں پاتے، خانقاہ مجیبیہ کی وجہ سے پھلواری شریف کی بڑی اہمیت ہوگئی ہے، یہ پٹنہ ہی کا ایک محلہ ہے، بہار شریف پہلے پٹنہ ہی ضلع میں تھا، اب نالندہ کا صدر مقام ہے، یہاں بڑے بڑے اولیائے کرام مدفون ہیں، ان کی روحوں کی برکتوں سے پوری ریاست کے مسلمان اب بھی سیراب ہورہے ہیں، پھلواری شریف موجودہ دور کا بہار شریف بنتا جارہا ہے، یہاں کے بزرگوں کی روحیں بھی بہار کے مسلمانوں کی دینی حمیت اور ایمانی غیرت کی ضامن بنی ہوئی ہیں، ان ہی روحوں میں اب جناب مولانا شاہ امان اﷲ کی روح شامل ہوگئی ہے، بہار کے لوگ معلوم نہیں ان کی کن کن باتوں کو یاد کرکے کب تک غمزدہ رہیں گے۔
یاد آتا ہے کہ تقریباً ۳۹ سال پہلے دارالمصنفین کے احاطہ میں ایک صاحب چکن کی شیروانی زیب تن کیے سر پر ایک خوشنما ٹوپی، پاؤں میں سلیم شاہی جوتے پہنے اور جوانی نہیں بلکہ نوجوانی کی رعنائی بکھیرتے ہوئے داخل ہوئے ان کی آنکھیں سرمگیں تو نہیں، لیکن شرمگیں ضرور تھیں، چہرہ کا رنگ گوری چنبیلی کاسا تھا، اس سے درویشانہ جمال عیاں ہورہا تھا، وہ خراماں خراماں بلکہ معطر معطر بڑھتے چلے آرہے تھے، تو آنکھیں دیکھ رہی تھیں کہ حسن کا نور پیکر بن کر متحرک ہے، جناب شاہ معین الدین احمد ندوی مرحوم سابق ناظم دارالمصنفین کا مسکن سامنے تھا، وہ اس کے برآمدہ میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھ ایک شخص نے کہا یہ ہیں خانقاہِ مجیبیہ پھلواری شریف کے جناب مولانا شاہ امان اﷲ صاحب، اس وقت وہ سجادہ نشین نہیں ہوئے تھے، ہم لوگوں نے ان کی مخلصانہ تواضع کی، دامن دل ان کی طرف بہ صد کرشمہ و ناز کھنچتا چلا جارہا تھا۔
ان کے خانوادہ سے دارالمصنفین والوں کا بڑا لگاؤ رہا، ہم سب کے استاد محترم حضرت مولانا سید سلیمانؒ ندوی نے کچھ دنوں اپنی ابتدائی تعلیم اس خانقاہ میں حاصل کی حضرت مولانا شاہ محی الدینؒ کے زیر تربیت رہے، ان سے بعض کتابیں بھی پڑھیں، نجی صحبتوں میں ان کا جب ذکر آجاتا تو ان کا تذکرہ بڑی محبت اور احترام سے کرتے، ان کی وفات پر اپنے تعزیتی مضمون میں لکھا کہ مجھے خانقاہ (خانقاہ مجیبیہ) میں خاص حضرت شاہ صاحب مرحوم کے قریب قیام اور ایک ساتھ طعام کی اور زیرِ درس کتابوں میں شاگردی کی جو سعادت حاصل ہوئی مجھے اس نسبت پر فخر اور انہیں اس پر مسرت تھی، انہیں جب دیکھتا تھا عہد اول یاد آجاتا تھا اور ان کو بھی خوشی ہوتی تھی، افسوس کہ اس بزرگانہ تبسم کا منظر اب ہمیشہ کے لیے آنکھوں سے پنہاں ہوگیا۔ (یاد رفتگان، ص ۳۴۸)
مولانا شاہ امان اﷲ ان ہی کے اکلوتے صاحبزادے تھے ، وہ دارالمصنفین آئے تو ان سے مل کر بڑی خوشی ہوئی، ہم لوگ ایک دوسرے سے اس طرح مل رہے تھے جیسے ایک خاندان کے لوگ ملا کرتے ہیں، وہ مل کر چلے گئے تو برابر خیال رہا کہ ان کے ساتھ اچھے لمحات گذرے، گو ہم لوگوں سے عمر میں بہت چھوٹے تھے۔
استاذی المتحرم حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ نے مولانا شاہ محی الدین پھلوارویؒ پر اپنے درد و غم کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ یہاں یعنی خانقاہ مجیبیہ میں ظاہر و باطن اور علم و عمل دونوں کے سرچشمے آکر ملتے ہیں، شروع سے اس کے سجاد نشین علم شریعت و طریقت دونوں کے جامع رہے ہیں، یعنی ہر صاحب سجادہ صوفی صافی ہونے کے ساتھ علم دین بھی ہوتے آئے ہیں، دستار فضیلت اور خرقہ مشیخت دونوں یہاں ایک جسم پر آراستہ ہے، (یادرفتگان ص: ۳۹۳) مولانا شاہ امان اﷲ میں بھی یہ سارے اوصاف تھے، پھلواری شریف میں تعلیم پانے کے علاوہ اعظم گڑھ، فرنگی محل اور اجمیر شریف جاکر بھی تحصیل علم کی، سند حاصل کرنے کے بعد خانقاہ مجیبیہ کے مدرسہ میں درس بھی دیتے رہے، چارچار حج بیت اﷲ کے شرف سے مشرف ہوئے، رسالہ ’’المجیب‘‘ میں بھی کچھ نہ کچھ تحریر فرماتے رہتے اپنے حلقہ میں مذہبی استفسارات کے جوابات بھی دیتے رہتے، دارالمصنفین سے علمی خط و کتابت برابر کرتے رہے، اس راقم کی حقیر تالیف بزم صوفیہ شایع ہوئی تو اس کو خاص طور سے منگوایا، اس میں حضرت جلال الدین جہانیان جہان گشت کے ملفوظات کے ایک مجموعہ سراج الہدایہ کا ذکر تھا، یہ غیر مطبوعہ ہے، اس کو خاص طور سے نقل کراکے اپنے لیے منگوایا۔
یہ راقم ۱۹۶۷؁ء میں ایک آپریشن کے لیے پٹنہ کے محلہ راجندر نگر کے ایک نرسنگ ہوم میں داخل ہوا، جناب شاہ صاحب کو اس کی خبر ہوئی تو پہلے اپنے صاحبزادہ کو بہت سے پھلوں کے ساتھ عیادت کے لیے بھیجا پھر ان کے چچا اور خسر حضرت مولانا شاہ نظام الدینؒ اور ان کے بعد محب مکرم مولانا شاہ عون احمد عیادت کے لیے تشریف لائے، اس عزت افزائی سے یقین ہوتا گیا کہ میرا آپریشن کامیاب رہے گا، اور واقعی رہا، خافقاہ مجیبیہ کے آداب میں ہے کہ اس کے سجادہ نشین معمولی ضروتوں کے لیے باہر نہیں جاتے، اس لیے حضرت شاہ صاحب نے خود تو قدم رنجہ نہیں فرمایا مگر اپنے عزیزوں کو بھیج کر ہر قسم کی کرم فرمائی اور عنایت گستری کرتے رہے، میرے لیے دعائیں بھی جاری رکھیں، یہ پیام بھی برابر پہنچتا رہا کہ آپریشن کے بعد میری حاضری خانقاہ میں ضرور ہو، آپریشن کے بعد چلنے پھرنے کی اجازت ملی تو قدم بوسی کے انتہائی جذبہ شوق کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوا، وہاں ان سے ملنے ملانے کے بڑے آداب و ضوابط ہیں، مگر انھوں نے فوراً اپنے حجرہ میں طلب کیا، جہاں ایک تخت پر مصلّٰی رکھا ہوا تھا، فضا معطر ہورہی تھی، چاروں طرف کتابوں کا انبار تھا، اندازہ ہوا کہ اس مصلّٰی اور ان کتابوں کے ساتھ تزکیہ نفس اور طہارت طبع کے لیے معلوم نہیں کیا کیا منزلیں طے ہوچکی ہوں گی اور اسی حجرہ میں ان کے بزرگوں نے انوارایزدی کے سہارے حقیقت و معرفت کے کیا کیا جلوے نہ دیکھے ہوں گے، ان کے چہرے پر نظر پڑی تو ان میں پہلے ساجمال یوسفی نہ تھا، مگر عبادت کے تب و تاب اور ریاضت کی گرم نفسی سے ان کی داڑھی سے تقدس اور چہرے سے درویشانہ بزرگی کے پورے آثار عیاں تھے وہ گذشتہ بیس (۲۰) سال سے اپنے والد بزرگوار کی مسندپر بیٹھ کر خاندانی روایات کو سینے سے لگائے ہوئے تھے، اپنی عمر سے کچھ زیادہ معلوم ہوئے، شاید فغان نیم شبی اور آہ سحر گاہی کا اثر ہو، کچھ اونچا بھی سننے لگے تھے ان کے پاس مودب ہوکر بیٹھنے پر مجبور تھا، باتیں شروع ہوئیں تو عرض کیاکہ بزم صوفیہ کے حقیر مصنف ہونے کے باوجود دل جاری نہ ہوسکا، جہاں پہلے تھا اب بھی وہی ہوں، آپ کی نظر کیمیا اثر کی بھیک مانگنے آیا ہوں، جو جو اب ملا اس سے قلب میں تلاطم پیدا ہوگیا، فرمایا اس کی طلب فضول ہے، وہ اس گدی پر بٹھا دیے گئے ہیں اس لیے بیٹھ گئے ہیں، ورنہ اپنے میں نظر کیمیا اثر کہاں، اب جو کچھ حاصل ہوتا ہے اپنی محنت سے ہوتا ہے، گفتگو کچھ آگے بڑھی تو اپنے خانوادہ کا ایک درود شریف عطا کیا، فرمایا اس کو باوضو روزانہ بلا ناغہ پڑھا جائے، یہاں تک کہ سوا لاکھ کی تعداد ہو جائے، تو شاید دل جاری ہوجائے، عرض کیا کہ دعاء فرمائیں کہ اس درود کی توفیق ہو، گفتگو میں دیر ہورہی تھی تو خادم نے خبر دی کہ دستر خوان لگا دیا گیا ہے، وہاں پہنچا تو یہ بہت پرتکلف تھا، پھلواری شریف کی مخصوص روٹیوں اور مٹھائیوں سے سجا تھا، کھانے کے بعد جناب مولانا شاہ نظام الدین اور جناب مولانا شاہ عون احمد سے مل کر رخصت ہوا تو ایسا محسوس ہوا کہ زندگی کہ بہترین ساعتیں یہاں گذریں۔
پٹنہ جب جاتا تو خانقاہ مجیبیہ میں ضرور حاضری دیتا، اگر بے وقت پہنچتا تو حضرت شاہ صاحب اپنے حجرے میں طلب کرلیتے، وہ نماز باجماعت کے لیے حجرے سے نکلتے تو خدام اور حاضرین دوردیہ باادب کھڑے ہوجاتے، نقیب مسجد میں ان کی تشریف آوری کی صدا دیتے، مسجد میں ان کی مخصوص جگہ بنی تھی، نماز باجماعت ادا کرتے، پھر حجرے میں واپس ہوجاتے، عصر کی نماز کے بعد مغرب تک ایک مخصوص جگہ پر آکر بیٹھ جاتے، تسبیح پڑھتے رہتے، مریدین، معتقدین اور مستفیدین اس وقت رجوع کرتے، اور معلوم نہیں اپنے دل و دماغ کے لیے کتنے تحفے اور سوغات لے جاتے، کبھی یہ عاجز عصر کے وقت پہنچ جاتا تو اسی مسجد میں ان سے فیض حاصل کرتا، بے تکلفی میں کچھ کہہ جاتا تو ہنس دیتے، جس سے ان کی پان سے آلودہ عقیقی رنگ کی بتیسی کھل جاتی، اس میں بھی ایک خاص کیفیت ہوتی۔
ابھی کچھ دنوں پہلے ان کے چچا اور خسر جناب مولانا شاہ نظام الدینؒ کی وفات ہوئی، جس سے حضرت شاہ صاحب بہت متاثر تھے، ان کے متحرک فیوض و برکات سے پورا بہار فیض یاب ہورہا تھا، دردیشانہ اخلاق و صفات کے اعلیٰ نمونہ تھے، ان کا غم غلط نہ ہوا تھا کہ جناب شاہ عون احمد کے بڑے لڑکے مولوی نصر احمد ندوی جوانی کے عالم میں اﷲ کو پیارے ہوگئے، ان سے ہم لوگوں کا عزیزانہ تعلق ا س لیے بھی ہوگیا تھا کہ وہ دارالمصنفین آکر یہاں تین (۳) سال تک رہے، اپنی کم عمری کے باوجود غیر معمولی علمی صالحیت اور اچھی مضمون نگاری کا ثبوت دیا، معارف میں ان کا مضمون ’’امام الحرمین‘‘ پر شایع ہوا تو لوگوں کو یقین نہیں آیا کہ کسی کمسن لڑکے کا لکھا ہوا ہے، اس کم عمری میں اﷲتعالیٰ نے ان کو اپنے جوار رحمت میں لے لیا۔ ۴؍ دسمبر ۱۹۸۵؁ء کو راقم رفقائے دارالمصنفین کے ساتھ ان کی تعزیت کے لیے خانقاہ مجیبیہ میں حاضر ہوا تھا، تو جناب مولانا شاہ عون احمد کے علاوہ حضرت شاہ صاحبؒ سے بھی ملنے کا شرف حاصل ہوا تھا، عصر کی نماز کے بعد اپنے مصلّے پر فروکش تھے، ان کے پاس جاکر بیٹھا تو جب جب ان کی طرف نظر اٹھی، بنوع دیگر اٹھی،کیا معلوم تھا کہ یہ ان سے آخری ملاقات ہے۔
عزیزی نصر احمد کی جوانمرگی کا غم حضرت شاہ صاحبؒ کے دل سے ابھی دور نہ ہوا تھا کہ خود نہ صرف اپنے خاندان کے لوگوں بلکہ خدا جانے کتنے مداحوں اور عقیدت مندوں کو بسمل کی طرح تڑپنے کے لیے چھوڑ کر عالم جاودانی کو سدھارے، رحلت کے وقت ان کی عمر عیسوی سنہ کے لحاظ سے ۶۴ سال تھی، ان کی ولادت مسعود ۱۹۲۱؁ء میں ہوئی تھی۔
ان کا حجرہ سونا ہوگیا، ان کے خدام ان کو حجرہ سے نکل کر مسجد میں آتے نہ دیکھ سکیں گے، ان کے متبعین اور خانقاہ کے زائرین عصر کی نماز کے بعد مسجد میں ایک مصلّٰی پر بیٹھا ہوا دیکھ کر اپنے دلوں کو سرور نہ پہنچا سکیں گے، بہارؔ ایک پاکیزہ اخلاق رکھنے والے شیخ سے محروم ہوگیا، لیکن انھوں نے اپنی درویشانہ صفات کی بدولت اپنے خاندانی بزرگوں کی روایت، عزت اور وقار کو قائم رکھ کر اپنے خرقہ طریقت کا وزن جس طرح قائم رکھا، اس کی یاد آئے گی اور اکثر آئے گی، اﷲ تبارک و تعالیٰ ان کو اپنی رحمت کے کوثر اور مغفرت کی تسنیم سے اعلیٰ علیین میں سیراب رکھے، اور ان کے غمزدہ اور سوگوار پسماندگان کو اپنی نصرت بیکراں سے سرفراز کرے، آمین، ثم آمین۔ (صباح الدین عبدالرحمن، جون ۱۹۸۵ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...