Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > شوکت سلطان

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

شوکت سلطان
ARI Id

1676046599977_54338246

Access

Open/Free Access

Pages

453

آہ !شوکت سلطان
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دلِ ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
۸؍ ۹جنوری ۱۹۸۶؁ءکو دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں اسلامی ادب پر ایک بین الا قوامی سیمینار تھا، جس میں ہندوستان کے علاوہ عرب ممالک کے علماء اور فضلاء بھی کافی تعداد میں شریک تھے، وہیں جناب سید حامد صاحب سابق وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے یہ اندوہ ناک خبر دی کہ شبلی نیشنل پوسٹ گریجویٹ کالج کے سابق پرنسپل جناب شوکت سلطان کی وفات ہوگئی، یہ خبر سننے کے لیے تیار نہ تھا، اعظم گڑھ سے ۶؍ جنوری کو لکھنؤ گیا تھا، اس وقت تک ان کی کسی علالت کی کوئی اطلاع نہ تھی وہ اپنی بڑی لڑکی سے ملنے علی گڑھ گئے ہوئے تھے، اعظم گڑھ سے لکھنؤ ان کی وفات کی کوئی خبر نہیں تھی، بے حد پریشان اور ملول ہوا، خیال ہوا کہ علی گڑھ سے ان کی میت اعظم گڑھ ضرور آئے گی، اور شبلی منزل کے احاطہ ہی میں ان کی ابدی آرام گاہ بنائی جائے گی، نہایت پریشانی میں لکھنؤ سے اعظم گڑھ روانہ ہوا، کہ شاید جنازہ میں شرکت ہوجائے، یہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ ۳۰؍ دسمبر ۱۹۸۵؁ء کو اپنی اہلیہ کے ساتھ لڑکی سے ملنے کے لئے للت پور گئے، ۵؍ جنوری کو فجر کی نماز کے لیے اٹھے، وضو کا پانی مانگا تو کچھ تکلیف محسوس کی، چارپائی پر لیٹ گئے تو پھر ابدی نیند سوگئے، وہیں اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کی آغوش میں سپرد کردیے گئے، اس سانحہ کی خبر۸؍ جنوری کی شام کو اعظم گڑھ پہنچی، میں ۱۰؍ جنوری کو دارالمصنفین پہنچا تو جمعہ کی نماز کے بعد اسی کے احاطہ میں ان کے جنازہ کی غائبانہ نماز پڑھی گئی، اس میں شریک تو ہوگیا، مگر یہ خیال اب تک چھایا ہوا ہے کہ جہاں ان کی زندگی پروان چڑھی، جہاں کے لوگوں کے دلوں میں انھوں نے جگہ بنائی تھی، جہاں کی تاریخ میں ان کے روشن کارناموں کی یاد برابر باقی رہے گی، وہاں سے دور ایک دیارغیر میں ان کی آخری آرام گاہ بننے میں کیا مصلحتِ خداوندی ہے، ان کے وطن میں ان کا جنازہ دھوم سے اٹھتا، یہاں کے قابل ذکر ہندو مسلمان میں شاید ہی کوئی ایسا ہوتا جو اس میں شریک نہ ہوتا، اور ان کے کارنامے کا ذکر ان کی نوک زبان پر نہ ہوتا، اس فانی دنیا کی زمین کا ہر خطہ تو اﷲ تعالیٰ ہی کا ہے، وہ جس جگہ سپرد خاک کیے گئے وہ بھی رب العالمین ہی کی ہے، مگر یہ اعظم گڑھ کی سرزمین کی محرومی ہے کہ اس کے ایک نامور فرزند کی تربت اس کے یہاں کے بجائے اس نیلے فام آسمان کے نیچے کہیں اور بن گئی۔
ان کاسال پیدائش ۱۹۱۳؁ء تھا، بہتر (۷۲) سال کی زندگی گذار کر ۵؍ جنوری ۱۹۸۶؁ء کو اپنے اہل و عیال، عزیزوں اور قدر دانوں کو اپنی یاد میں آنسو بہانے کے لیے چھوڑ گئے، ان کی اچانک موت انسانی زندگی کے لیے یہ پیام ہے کہ زندگی کیا ہے محض ایک طائر ہے جو، شاخ پر بیٹھا، کوئی اور چہچہایا، اڑگیا
ان کی زندگی طوفانی ہنگاموں کی تو نہ تھی، لیکن تعمیری کاموں سے ضرور معمور رہی، وہ اعظم گڑھ کے ایک بہت ہی سربرآور دہ خاندان سے تھے، ان کے دادا جناب مرزا محمد سلیم نے دیوبند میں تعلیم پائی، مگر وکالت کا پیشہ اختیار کیا، علامہ شبلیؔ نعمانی نے اپنے باغ میں دارالمصنفین قائم کیا تو جناب مرزا محمد سلیم نے اسی سے ملحق اپنے باغ کی زمین بھی اس کے لیے وقف کی، ان کے فرزند ارجمند جناب مرزا سلطان احمد اپنے زمانہ کے بڑے نامی گرامی سرکاری عہدیدارتھے، پہلے ڈپٹی کلکٹر کے عہد ہ پر فائز ہوئے، پھر ترقی کرکے کلکٹر ہوگئے، آخر میں بورڈ آف ریونیو کے ممبر بن کر پنشن پائی، وہ اپنی شرافت اخلاق کے لیے بھی مشہور رہے، ان کا دل ہیرے کی طرح صاف اور شفاف تھا، وہ دارالمصنفین کی مجلس انتظامیہ کے بھی رکن رہے، ان کے بعد ان کے چھوٹے بھائی جناب مرزا احسان احمدنے بھی اس ادارہ کی مجلس انتظامیہ کا رکن بننا منظور کیا، وہ بڑے اچھے شاعر اور ادیب کی حیثیت سے بھی مشہور تھے، جگرؔ مراد آبادی کو ان ہی نے شعر و ادب کی دنیا میں روشنا س کیا، جناب شوکت سلطان، جناب مرزا سلطان احمد کے بڑے لڑکے اور مرزا احسان احمد کے بھتیجے تھے، ان کی شادی علامہ شبلی نعمانی ؒکی منجھلی پوتی سے ہوئی تھی، دارالمصنفین سے ان کے خاندانی تعلقات کی وجہ سے اس کی مجلسِ انتظامیہ و مجلس ارکان کے رکن بھی بنائے گئے۔
انھوں نے الہ آباد یونیو رسٹی سے فارسی میں ایم۔اے اور ایل۔ایل بی بھی کیا، اعظم گڑھ میں کچھ دنوں وکالت کرنے کے بعد شبلی نیشنل کا لج میں فارسی کے لکچرار ہوگئے، جس کے بعد وہ اس کالج کے لیے لازم و ملزوم بن گئے، یہ کالج ۱۹۴۰؁ء تک محض ایک ہائی اسکول تھا، مگر اس کی اہمیت اس لیے تھی کہ علامہ شبلی نعمانیؒ نے اس کو ۱۸۸۴؁ء میں قائم کیا تھا، جب جناب بشیر احمد صدیقی مرحوم اس کے ہیڈ ماسٹر ہوئے تو انھوں نے اپنی مساعی جمیلہ سے اس کو ۱۹۴۰؁ء میں انٹر کالج بنایا جو اس ضلع میں پہلا انٹر کالج تھا، اس لیے اس کے معرض وجود میں آنے پر غیر معمولی خوشی منائی گئی، جناب بشیر احمد صدیقی ہی کی کوشش سے یہ انٹر کالج ۱۹۴۶؁ء میں ڈگری کالج ہوگیا، اور جب وہ یہاں سے ۱۹۵۰؁ء میں پاکستان جانے لگے تو انھوں نے جناب شوکت سلطان کو اپنا جانشین بنایا۔
پرنسپل کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد انھوں نے اپنی دانا، بینا اور توانا شخصیت کو بہت ہی متحرک، جاندار، بارسوخ اور بااثر بنادیا، تعلیم کے کسی محکمہ میں پہنچ جاتے تو مشکل سے مشکل کام اپنی خواہش کے مطابق کرالیتے، یہ کالج پہلے آگرہ یونیورسٹی سے ملحق تھا، پھر گورکھپور یونیورسٹی سے منسلک ہوگیا، ان دونوں یونیورسٹیوں کے کسی جلسہ میں شریک ہوتے تو ان کی موثر شخصیت ان کے جلو میں ہوتی، کسی بھی دفتر کے قلم کو اپنی پاٹ دار آواز کی تلوار سے کاٹ کر رکھ دیتے، وہ کسی منطقیانہ نتیجہ کو ثابت کرنے میں صغریٰ کو کبریٰ اور کبریٰ کو صغریٰ بنانے میں ماہر تھے، وہ جب کسی سے باتیں کرتے تو اپنی آواز کی کڑک اور گرج سے اپنے مخاطب کو سرنگوں ہونے پر مجبور کردیتے۔
وہ کالج میں پرنسپل کے کمرہ میں ہوتے تو اس کے در و دیوار بھی ان کے سامنے جھکتے نظر آتے، وہ اس کمرے سے نکل پڑتے تو معلوم ہوتا کہ کوئی ضیغم اپنے کچھار سے نکل پڑا ہے، اساتذہ، طلبہ اور تمام ملازمین اپنی اپنی جگہوں پر ساکت و صامت دکھائی دیتے، اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں مشغول ہوجاتے، یو۔پی کے ڈگری یاپوسٹ گریجویٹ کالجوں کے نامور پرنسپلوں کی جب کبھی تاریخ مرتب کی جائے گی تو اس میں ان کا ذکر خیر جلی حرفوں سے کیا جائے گا، ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے اس کالج کو یہاں کے لوگوں کی تعلیمی امیدوں کا مرغزار اور ان کی زندگی کی امنگوں کا سمن زار بنادیا، جب یہ ڈگری کالج بنا تھا تو خیال تھا کہ یہ مشکل سے اپنی زندگی کے مراحل طے کرسکے گا، مگر انھوں نے اپنی غیر معمولی کارکردگی سے اس میں پہلے لاکلاس، پھر بی ایڈ کلاس کھلوائے، اور پھر بہت جلد سوشیالوجی، اردو، ہندی، سائیکلوجی، جغرافیہ، فزکس، کیمسٹری، زولوجی، بوٹونی اور میتھمیٹکس کے لیے ایم۔اے کلاسز کھلوانے میں کامیاب ہوئے، وہ اپنی اس کامیابی پر بجاطور سے ناز کرسکتے تھے، ضلع کے لوگ بھی برابر ان کو یاد کرکے ان کی ذات پر فخر کریں گے کہ ان کی وجہ سے گھر گھر اعلیٰ تعلیم پھیلی، اب تک اس کالج کی بدولت خدا جانے کتنے وکیل ہوچکے ہیں، بی ایڈ کی ڈگری کی وجہ سے سینکڑوں خاندانوں کی پروروش ہورہی ہے، بہت سے طلبہ سائنس کی تعلیم پاکر ملک کے مختلف حصوں میں بر سر روزگار ہوگئے ہیں، وہ اگر ریٹائر نہ ہوتے تو شاید انجینئرنگ اور میڈیکل کالج قائم کرکے اس کو یونیورسٹی بھی بنادیتے، ان کے زمانہ میں بڑی بڑی عمارتیں بھی تعمیر ہوئیں، وہ اس کے احاطہ میں گھومتے تو اس کو دیکھ کر ایسے ہی خوش ہوتے جیسے ایلورا اور اجنتا کے مصوروں کو اپنی مصوری دیکھ کر خوشی ہوتی ہوگی، اس کے در و دیوار ان کو یاد کرکے برابر کہتے رہیں گے۔
؂ یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے
کالج کے نظم ونسق میں وہ فولاد کی طرح سخت رہے، اس کی خاطر ان کی زبان بھی فولادی بن جاتی، مگر ان کا دل حریر دبیرینان کی طرح نرم رہا، ان کے والد بزرگوار ہی کی طرح ان کا دل ہیرے کی طرح صاف اور آبدار تھا، اپنی پرنسپلی کے زمانہ میں کسی کو مالی نقصان نہیں پہنچایا، ان کے ما تحت ازکار رفتہ یا مفلوج ہی کیوں نہ ہوجاتے، ان کو کسی نہ کسی طرح کالج کی ملازمت سے وابستہ رکھتے۔
ان کی نجی زندگی بڑی پاکیزہ رہی دو (۲) مرتبہ حج بیت اﷲ کا شر ف حاصل کیا، صوم و صلوٰۃ کے بڑے پابند رہے، شا ید ہی کبھی رمضان شریف کے روزے چھوڑے ہوں، نماز باجماعت کا بڑا اہتمام کرتے، فجر کی نماز کے بعد تلاوت کلام پاک ضرور کرتے، ریل کے سفر میں بھی پلیٹ فارم پر بیٹھے تلاوت کرتے دکھائی دیتے، رمضان شریف میں کبھی بارہ تیرہ ختم قرآن کرتے، اشراق، چاشت اور اوابین کے بھی پا بند ہوگئے تھے، بزرگان دین کی خدمت میں بھی حاضر ہونے کا شوق تھا، کبھی کبھی رمضان شریف کے آخری عشرہ کے کچھ دن ان کے یہاں گذارتے، غیبت سے سخت نفرت کرتے، کسی کو کچھ کہنا ہوتا تو برملا اس کے منہ پر کہہ دیتے، اس کی غیبت کرنا یا سننا پسند نہ کرتے، غریبوں کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتے، زکوٰۃ پابندی سے ادا کرتے، موت سے بالکل نہیں ڈرتے، ان کو شاید یہ خیال کبھی نہیں آیا کہ
؂ موت اک چبھتا ہوا کانٹا دلِ انسان میں ہے،
اپنی آخر زندگی میں وہ اس کا ذکر کرتے تو معلوم ہوتا کہ
؂ موت سے ہورہے ہیں نازونیاز
وہ للت پور پہنچے تو ایک روز گھومتے ہوئے وہاں کے قبرستان پہنچ گئے، اس کو دیکھتے ہی بولے بڑی خوبصورت جگہ ہے، کیا معلوم تھا کہ ان کے حسن انتخاب کی داد ان کو فوراً ہی مل جائی گی، ان کو سفر کرنے کا بڑا شوق رہا، حضر سے زیادہ ان کو سفر پسند تھا، کھانے اور کھلانے کا بھی ذوق رہا، بہت کم کھاتے، مگر دعوتوں میں شریک ہوکر بہت لطف اندوز ہوتے۔دارالمصنفین سے ان کو بڑا قلبی لگاؤ رہا، اس کی تعمیر اور ترقی کے مشوروں میں برابر شریک رہے، اعظم گڑھ میں اس ادارہ کے باوقار قدردانوں اور باوزن ہمدردوں کا جو پرانا حلقہ تھا، اس میں زیادہ تر اس دار فانی سے رخصت ہوچکے ہیں، مرزا سلطان احمد، مرزا احسان احمد، مرزا مرتضےٰ بیگ، اقبال سہیل، شاہ محمد اسحاق وکیل، شاہ علاء الحق وکیل، محمد صابر مختار، ظہور احمد مختار، قاضی محمد صادق وکیل، صلاح الدین وکیل، ضیاء الدین وکیل، حکیم محمد اسحق، مبین احمد ڈپٹی کلکٹر صاحبان دارالمصنفین سے جو مخلصانہ تعلقات رکھتے تھے اس کی یادوں کی جوت سے ذہن اب بھی جگمگا اٹھتا ہے، شوکت سلطان صاحب اپنی وضعداری اور محبت میں اسی زریں سلسلہ کی ایک کڑی تھے، اجل نے اس کے ایک اور مہربان کو اس سے چھین لیا۔
وہ دنیا سے اس لحاظ سے خوش اور مطمئن گئے کہ ان کے تینوں لڑکے اچھے اچھے عہدوں پر مامور ہیں اور ان کے تینوں داماد بھی اچھی اچھی ملازمتوں پر فائز ہیں، وہ اپنی تمام اولاد کی زندگیوں کی بہاریں دیکھ کرگئے، البتہ ان کی اہلیہ اب ان کی یادوں کے سوز پنہاں کا مزار اپنے دل کے اندر بنائے رکھیں گی، ہاں یادش بخیر ان کی ساس یعنی علامہ شبلی نعمانی ؒ کی بہو ابھی بقید حیات ہیں، اس سے پہلے اپنے بڑے اور منجھلے داماد کی وفات پر خون کے آنسو، بہا چکی ہیں، اس سانحہ کے بعد ان کے دیدۂ گریاں اور دلِ بریاں کی جو کیفیت ہوگی اس کا صرف اندازہ کیا جاسکتا ہے، دعا ہے کہ اس خاندان کو صبر جمیل عطا ہو، آمین۔
مرحوم سے میری ملاقات ۱۹۳۵؁ء میں ہوئی، جب ان کا مستقل قیام اعظم گڑھ میں رہنے لگا توروز بروز ان سے قریبی تعلقات بڑھتے گئے، خدا جانے کتنے مسائل اور معاملات میں ان کا تعاون حاصل رہا، ایسا بھی ہوا کہ وہ کبھی تیز اور گرم گفتگو کرجاتے، مگر ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ تھوڑی ہی دیر میں یہ محسوس کرادیتے کہ جیسے کوئی گفتگو ہی نہیں ہوئی، اس لیے ہم دونوں کے تعلقات میں کبھی ناخوشگواری اور دوری پیدا نہیں ہوئی، بلکہ ان کے اخلاص اور محبت پر مکمل اعتماد رہا۔
جانے والے تو جا چکا، جا! الوداع! خدا حافظ، تجھ کو سلام، ہزاروں سلام، تجھ پر لاکھوں سلام، ہر بنِ مو سے یہ دعا نکل رہی ہے کہ تیری لحد میں رحمت الٰہی تیری ہم آغوش ہو، برکتِ خداوندی تجھ سے ہم کنار ہو، اور بارگاہِ ایزدی میں اس کے بے پایاں اکرام کی کوثر اور بے انتہا الطاف کی تسنیم سے تو برابر سیراب ہوتا رہے، آمین ثم آمین۔
(صباح الدین عبدالرحمن، جنوری ۱۹۸۶ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...