Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > امین الدین

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

امین الدین
ARI Id

1676046599977_54338247

Access

Open/Free Access

Pages

456

امین الدین !
اٹھ گئیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں
روئیے کس کس کو اور کس کا ماتم کیجئے
جناب شوکت سلطان کی وفات پر دل بے انتہا پژمردہ اور افسردہ تھا کہ دارالمصنفین کے ایک اور انتہائی ہمدرد، مونس اور غم گسار کی رحلت پر آنکھیں پھر اشکبار ہوئیں، اور وہ جناب امین الدین صاحب تھے، وہ کوئی صاحب قلم نہ تھے، شاعر بھی نہ تھے، علی گڑھ کے ایم۔اے، ال۔ ال۔ بی تھے، وکالت شروع کی، تو شہر میں مقبول بہت ہوئے، کچھ دنوں حکومت ہند کے آدرڈے نینس محکمہ میں بھی ملازم رہے، وہاں سے مستعفی ہوکر آئے۔ تو آنریری مجسٹریٹ ہوئے، پھر ریونیو افسر ہوگئے اور آخر میں شبلی نیشنل کالج میں قانون کے استاد اور اس کے شعبہ کے صدر ہوگئے۔ وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد خوش لباس، خوش رہائش، خوش کلام اور خوش باش بن کر بقیہ زندگی گزاری اور بالآخر ایک طویل علالت کے بعد ۳۱؍ جنوری ۱۹۸۶؁ء میں تقریباً ۸۵ برس کی عمر میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے، انَّاﷲِ وَاِنَّا اِلیہ رَاجعُونَ۔ بس یہی ان کی زندگی کی مختصر روداد رہی ہے، مگر انھوں نے۱۹۳۰؁ء سے دارالمصنفین سے جس اخلاص، وضعداری اور محبت سے اپنے تعلقات کا سونا پگھلایا تھا وہ اس ادارہ کے لئے بیش قیمت سرمایہ رہا، وہ اس کے کسی قسم کے عہدیدار بھی نہ تھے، اس کی کسی مجلس کے رکن بھی نہ ہوئے لیکن ہر لمحہ اس کے دمساز رہے، وہ اس کے پھاٹک میں داخل ہوتے ہی اپنی محبت کے پھول بکھیرتے نظر آتے، اپنی بذلہ سنجیوں، لطیفہ گوئیوں اور شیریں بیانیوں سے ہم میں سے ہر شخص کو شاداں و فرحاں اور یہاں کی مجلس کو زعفران زار کردیتے، یہاں کی دعوتوں میں شریک ہوتے تو دسترخوان کو اس کے کھانوں سے زیادہ اپنی گفتار کی شیرینی سے لذیز تر بنادیتے، وہ فانیؔ کے بڑے قدرداں رہے، ان کے اشعار کو کبھی برجستہ سنا کر ان کے کلام کی لذت کو دوبالا کردیتے، مجلس آرائی کے بڑے شوقین رہے، ہر وقت ان کے یہاں ان کے دوستوں اور ملنے والوں کا مجمع رہتا، اور گھنٹوں ان سے مہرومحبت اور لطف و لذت کی باتیں کرتے، خود بھی محظوظ ہوتے اور دوسروں کو بھی مسرور کرتے، ان کی اہلیہ کی وفات اس وقت ہوئی جب ان کی عمر ۳۲- ۳۳ برس کی رہی ہوگی۔ مگر ان کی یاد میں پوری زندگی گزار دی، ان سے ان کے ایک لڑکی تھی، اس کی پرورش کرتے رہے اور جب اس کی شادی اپنے ایک بہت ہی لائق اور سعادت مند عزیز جناب اختر انیس سے کردی تو ان کو ایسا معلوم ہوا کہ ان کو کونین کی ساری دولت مل گئی ہے، ان کے داماد بینک کے ایک بڑے عہدیدار بن کر لندن میں رہنے لگے، ان کی بیگم بھی ان کے ساتھ رہنے لگیں، جن سے دو بچے ہوئے، ایک لڑکی اور ایک لڑکا، جناب امین الدین صاحب اپنی بیٹی، نواسی اور نواسے سے ملنے لندن بھی جاتے رہے، جب وہاں ہوتے تو انگریزی پوشاک اتنے آداب کے ساتھ پہنتے کہ خود وہاں کے متمول انگریز اتنا اہتمام نہ کرتے ہوں گے، اس کو پہن کر وہ جوان رعنا ہوجاتے، وہ فطری طور پر اپنے رہنے سہنے، کھانے پینے، ملنے ملانے میں بہت ہی شائستہ اور مہذب تھے، ان کی زندگی کا سب سے بڑا سانحہ اس وقت ہوا جب ان کی اکلوتی پیاری بیٹی کا انتقال لندن میں ہوگیا، پھر ان کا دل جو ان کی شگفتہ بیانی کی وجہ سے گلزار بنا رہتا، ان کے داغِ دل کا لالہ زار بن گیا، اپنی نواسی اور نواسہ اور اپنے انتہائی نیک اور سعید داماد کو دیکھ کر بقیہ زندگی گزارتے رہے۔
ان کو اپنے چھوٹے بھائی جناب مبین الدین صاحب سے بھی بڑی محبت رہی، وہ ڈپٹی کلکٹر ہونے کے بعد کواپرٹیو سوسائٹی کے رجسٹرار بن کر ریٹائر ہوئے، پنشن پانے کے بعد ان ہی کے ساتھ رہنے لگے، پھر تو دونوں سرخاب کے جوڑے بنے ہر جگہ دکھائی دیتے۔ جناب مبین الدین صاحب کو بھی دارالمصنفین سے بڑی محبت رہی، دونوں بھائی یہاں کے ہر قسم کے مسائل کو سلجھانے اور بڑی سے بڑی تقریبات کو انجام دینے میں یہاں کے لوگوں کے ساتھ آخر وقت تک برابر شریک رہے، دونوں کی محبت اور یگانگت بھی مشہور رہی، جناب مبین الدین صاحب ۳۱؍ مئی ۱۹۸۵؁ء کو اﷲ کو پیارے ہوئے، خود امین الدین صاحب بستر علالت پر تھے، خیال تھا کہ اس صدمہ کو برداشت نہ کرسکیں گے، ان کے بھتیجے افضال مبین کراچی سے آئے اور ان کو اپنے ساتھ وہاں لے گئے تاکہ ان کا وہاں علاج بھی ہوسکے لیکن ان کا وہاں جی نہ لگا، اور جلد واپس آگئے۔ اعظم گڑھ سے شاید اپنے مرقد اور مدفن کی تلاش میں اپنے آبائی گاؤں سلطانپور چلے گئے، جہاں کچھ دنوں رہ کر اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی اور جب ہم لوگ ان کو سپردخاک کرنے کے لیے وہاں پہنچے تو ان کی طویل علالت کے بعد ان کی میت کو دیکھا تو ایسا معلوم ہوا کہ:
موت کی نیند آگئی بیمار کو
غیب سے سامانِ شفا ہوگیا
اور جب اپنے مرقد میں لٹائے گئے تو آنسو کے قطرے گررہے تھے کہ ایک دیرینہ ہمدم ایک وضعدار دوست، ایک مخلص دمساز اور غمگسار، ایک عندلیب شیوا بیان اﷲ کی رحمتوں اور برکتوں سے ہم آغوش ہورہا ہے، وہ برابر یاد آتے رہیں گے، اور جب یاد آئیں گے تو محسوس ہوگا کہ:
؂ سینے میں جیسے کوئی دل کو ملا کرے ہے
ان کے لیے دل سے دعا ہے کہ ان کو بشری کمزوریوں کو اﷲ تعالیٰ اپنے بے نیاز عفووکرم سے معاف فرمائیں اور ان کی خوبیوں کی بدولت ان کو اپنے سایۂ عاطفت میں لے کر نوازیں۔ (آمین) وہ نماز کے بڑے پابند تھے، خوش عقیدہ بھی رہے، بزرگان دین سے محبت کرتے، ان کی باتوں کو بڑی توجہ سے سنتے اور پھر اپنی زندگی میں جو ایک مثال پیش کی، وہ ہندوستان کے ہندومسلم دونوں کے لئے قابل تقلید ہے۔
وہ جب ریونیو افسر تھے، تو ان کے ماتحت ایک اہل کار ہرندر سنگھ تھے، جو اپنی ایمانداری کے لیے پوری کچہری میں مشہور تھے۔ جناب امین الدین صاحب ان کے کچھ ایسے گرویدہ ہوئے کہ ان کی یہ گرویدگی برابر قائم رہی، ان کی ریونیو افسر کی ملازمت ختم ہوگئی، تب بھی ہرندر سنگھ ان کی زندگی کے ضروری جز بنے رہے، ہرندر سنگھ نے اپنی ایمانداری کی وجہ سے ان کی ریونیو افسری کے زمانے میں کوئی مالی منفعت حاصل نہیں کی، پھر بھی اپنی ٹھکرائیت کی آن بان کے ساتھ ان کی ہمدمی کرتے رہے۔ دونوں پنشن پاکر ریٹائر ہوئے۔ تب بھی ایک دوسرے کی وضعداری قائم رہی، ہرندر سنگھ ہر جگہ خصوصاً دفتری اور سرکاری حلقوں میں بڑے مقبول تھے، اس لئے اپنی مقبولیت کی وجہ سے امین الدین صاحب اور ان کے بھائی مبین الدین صاحب کا ہر مشکل کام انجام دے کر ان کو خوش کرتے رہتے، کبھی یہ دونوں بھائی ان کی کچھ مالی مدد کرنا چاہتے تو ان کا احسان مند ہونا اپنی ٹھکراہیت کی شان کے خلاف سمجھتے، وہ سیاسی حیثیت سے․․․․․․ اس کے کارکن بلکہ مقامی طور پر اس کے رہنما بھی بن گئے تھے، مگر اپنے سیاسی عقیدہ کی وجہ سے دونوں بھائیوں کے تعلقات میں فرق نہیں آنے دیا، وہ منظر بڑا ہی سبق آموز ہوتا جب یہ دونوں بھائی طویل علالت میں مبتلا ہوئے، تو ہرندر سنگھ صبح و شام دونوں وقت ان کے یہاں حاضری دیتے اور ان کی ضروریات کو پورا کرتے۔
امین الدین صاحب کی علالت کے آخری دنوں میں ہرندر سنگھ ہی ان کے سارے پسماندہ سرمائے کے امین ہوگئے تھے، بینک میں اپنے نام سے اچھی خاصی رقم رکھ چھوڑی تھی، بینک کے پاس بک میں مشترکہ نام اپنے کسی عزیز کے بجائے ہرندر سنگھ ہی کا رکھوایا، وہی بینک سے ان کے لیے رقمیں نکالا کرتے تھے، اور جب بالکل آخر زمانے میں وہ اپنے گاؤں چلے گئے تو ہرندر سنگھ کو معلوم ہوا کہ ان کی بیماری اور بے چارگی سے فائدہ اٹھا کر ان کے ہریجن ملازمین ان کی تقریباً تین لاکھ کی زمین اپنے نام لکھانا چاہتے ہیں۔ تو ہرندر سنگھ وہاں پہنچ گئے۔ اور سارے کاغذات اپنے قبضہ میں کرلئے اور اعلان کیا کہ تھوڑی سی زمین تو ان ہریجنوں کو دی جاسکتی ہے، بقیہ امین الدین صاحب کے وارثوں کی ہوگی، ان کے اس فیصلہ کو کوئی قوت بدل نہیں سکتی تھی، وہ کچھ ایسے مقبول اور بااثر تھے کہ سرکاری حکام بھی وہی کرتے جو وہ چاہتے اور جب امین الدین صاحب سپردخاک کردیے گئے تو اسی وقت ہرندر سنگھ ان کے دوستوں اور عزیزوں سے کہہ رہے تھے کہ بینک میں جو ان کی رقم ہے وہ ان کی وصیت کے مطابق کچھ تو خیرات کی جائے گی اور بقیہ ان کو دی جائے گی۔ جن کے لیے وہ کہہ گئے ہیں، یہ سن کر جو آنکھیں امین الدین صاحب کی موت پر آنسو بہارہی تھیں، وہی آنکھیں ان کے گاؤں کے بنگلہ کی فضا میں ہرندر سنگھ کی وفاداری، دیانت داری، تعلقات کی وضعداری اور مہرومحبت کی پاسداری کا پرچم لہراتا ہوا دیکھ رہی تھیں اور یہی فضا زبان حال سے یہ بھی کہہ رہی تھی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ہر ہندو ہرندر سنگھ اور ہر مسلمان ہندوؤں کے لئے امین الدین ہوجائے تو اس کی دھرتی پر باہمی مہرومحبت کی گنگا اور اعتماد و اخلاص کی جمنا برابر بہتی دکھائی دے۔
؂ جو دلوں کو فتح کرے وہی فاتح زمانہ
(صباح الدین عبدالرحمن، فروری ۱۹۸۶ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...