Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا ابوسلمہ شفیع احمد

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا ابوسلمہ شفیع احمد
ARI Id

1676046599977_54338248

Access

Open/Free Access

Pages

457

آہ! مولانا ابوسلمہؒ
(پروفیسر مسعود حسن)
۲۲؍ دسمبر کی دوپہر کو کلکتہ کے مسلمان ایک بڑے المناک سانحہ سے دوچار ہوئے، یہ سانحہ حضرت مولانا ابوسلمہ شفیع احمد صاحبؒ کی رحلت ہے، جو ۵-۴ ماہ کی طویل اور صبر آزما علالت کے بعد ۷۳ سال کی عمر میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون، دوسرے دن صبح ۳۰:۱۲ بجے ان کے ہزاروں عقیدت مندوں اور جان نثاروں نے ان کے جسدخاکی کو پارک سرکس سے متصل ایک قبرستان میں جس کا نام ہم ’گورغریباں‘ ہے، یہ کہہ کر سپردخاک کیا کہ:
اے تیرہ خاک خاطرِ مہماں نگاہ دار
کیں نورچشم ماست کہ دربر گرفتہ ای
نور اﷲ مرقدہٗ و برد اﷲ مضجعہ
مولانا مرحوم کے نام اور مقام سے مجھے بہت پہلے سے واقفیت تھی، البتہ باقاعدہ نیاز اور تقریب ۱۹۵۹؁ء میں حاصل ہوا، جب مجھے مدرسۂ عالیہ کلکتہ کی پرنسپلی تفویض ہوئی اور میں مدرسہ پہنچا، مولانا مدرسہ کے ممتاز ترین اساتذہ میں تھے، تفسیر اور حدیث ان کے خاص موضوع تھے اور ان دونوں فنون کی بیشتر متداول کتابوں پر ان کی گہری نظر تھی، وہ مدرسہ کی اونچی جماعتوں میں درس دیتے تھے اور بڑی عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ میں مدرسہ میں کم و بیش ۵ سال رہا۔ اس پوری مدت میں میرے ان کے تعلقات مخلصانہ رہے اور جب میں وہاں سے رخصت ہوا تو اس کے بعد بھی ان کا اخلاص برابر جاری رہا۔ وہ اکثر میرے غریب خانہ پر تشریف لاتے، گھنٹوں بیٹھتے تھے۔ راقم الحروف بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا، ان ملاقاتوں میں اکثر علمی گفتگو ہوا کرتی تھی، کبھی کبھی حالات حاضرہ پر بھی تبصرہ ہوا کرتے تھے، مولانا ان مجلسوں میں علم و حکمت کے موتی بکھیر دیتے تھے۔
مولانا کو لکھنے پڑھنے اور تصنیف کا شوق اوائل عمر ہی سے تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے انھوں نے ۱۹۴۸؁ء میں امام بیہقی ؒ متوفی ۴۵۸؁ھ کی ۱؂ کی معرفۃ السنن والآثار کی پہلی جلد بہت محنت سے تصحیح کرکے شائع کی۔ ان کا دوسرا اہم کام ابن حزم الاندلسی (متوفی ۴۵۶؁ھ کی اسماء الصحابہ والرواۃ کا پہلا ایڈیشن ہے، جسے دائرۃ ترجمہ و تالیف کلکتہ نے ۱۹۸۳؁ء میں شائع کیا۔ اس کتاب پر مولانا نے مفید حواشی بھی لکھے۔ اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کی کتابت مولانا نے خود اپنے قلم سے کی ہے۔ ۱۹۷۲؁ء میں انھوں نے ایک ادارہ ادارہ ترجمہ و تالیف کے نام سے قائم کیا، جس کے اغراض و مقاصد میں سیرۃ کے موضوع پر نایاب مطبوعہ اور غیرمطبوعہ کتابوں کا شائع کرنا بھی تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں انھوں نے ابن قتیبہ کی مشہور تصنیف کتاب المعارف کا وہ حصہ جس کا تعلق سیرت سے ہے، اپنے چھوٹے صاحبزادے مولوی طلحہ بن ابوسلمہ ندوی سے اردو میں ترجمہ کرایا اور اسے بڑے اہتمام سے چھپوایا۔ مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی، البنی الخاتم جسے علامہ سید سلیمان ندوی صاحبؒ بہت پسند فرماتے تھے۔ عرصہ سے نایاب تھی، ادارہ نے اسے بھی بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ مولانا کو کتابیں جمع کرنے کا بھی بڑا شوق تھا۔ وہ اپنی قلیل آمدنی کا بڑا حصہ اسی پر صرف کرتے تھے۔ ان کی زندگی ہمیشہ عسرت میں گذری۔ خصوصاً سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد پنشن ملنے میں کئی سال کی دیر ہوئی اور وہ سخت مالی دقتوں میں گرفتار ہوگئے تھے۔ مگر اس زمانے میں بھی وہ کتابوں پر بے دریغ روپے خرچ کرتے تھے، راقم الحراف نے ان کے کتب خانے کے ذخیرے کا بڑا حصہ دیکھا ہے اور بلاخوف تردید کہہ سکتا ہے کہ کلکتہ میں کسی ذاتی کتب خانہ میں عربی مطبوعات کا اتنا بڑا ذخیرہ موجود نہیں ہے۔ وہ خود فرماتے تھے کہ مکہ معظمہ کی تاریخ پر کوئی ایسی مستند چھپی ہوئی کتاب نہیں ہے جو میرے کتب خانے میں موجود نہ ہو۔ وہ چار مرتبہ حج کے لیے تشریف لے گئے۔ ان موقعوں پر وہ حج کے معمولات ادا کرنے کے بعد مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے مختلف کتب خانوں میں پابندی سے جاتے تھے۔ اور کتب فروشوں کی دکانوں پر بھی گھنٹوں بیٹھتے اور اپنی پسند کی کتابیں خریدتے تھے۔ حج کے آخری سفر میں مکہ معظمہ کے کسی کتب خانے میں ان کی نظر تیسری صدی کے مشہور لغوی ابن درید کی جمہرۃ اللغۃ پر پڑی جو حال ہی میں مصر سے شائع ہوئی تھی۔ مولانا کو اس کا مقدمہ بہت اہم معلوم ہوا۔ اور انھوں نے اس کو نقل کرنا شروع کیا۔ اتفاقاً کتب خانے کے مہتمم کی نظر پڑی تو اس نے مقدمے کی عکسی نقل فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ مولانا جب ہندوستان واپس ہوئے تو یہ عکسی نقل اپنے ساتھ لائے۔ واپسی کے بعد راقم الحروف سے پہلی ملاقات ہوئی تو انھوں نے مقدمہ اسے پڑھنے کے لیے عنایت کیا۔ مولانا اس کے بعد سخت بیمار ہوگئے۔ مگر اپنے مرض الموت میں بھی وہ اس کتاب کو بھولے نہیں اور ہسپتال اور نرسنگ ہوم میں اس کے متعلق دریافت کرتے رہے۔ ۱۹؍ دسمبر کو یعنی وفات سے تین دن پہلے جب میں نرسنگ ہوم میں ان کو دیکھنے گیا تو ان کو بہت نحیف اور کمزور پایا، انھیں سخت زکام ہوگیا تھا اور کھانس بھی رہے تھے۔ آواز بھراّئی ہوئی تھی۔ میں کچھ فاصلہ پر بیٹھا ہوا تھا۔ انھوں نے مجھے اشارے سے قریب بلایا۔ اور کچھ بولے آواز صاف نہیں تھی۔ اس لئے کتاب اور ایک آدھ لفظ کے علاوہ میں کچھ سمجھ نہیں سکا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ جمہرۃ اللغۃ ہی کے متعلق کچھ دریافت کررہے تھے۔ میں انھیں کچھ بتانا چاہتا تھا۔ مگر ان کے تیمارداروں نے مجھے روکا اور ڈاکٹروں کی ہدایت کا ذکر کیا اور میں خاموش رہا۔ اس طرح جمہرۃ اللغۃ کے متعلق کچھ حاصل کرنے کی حسرت مولانا کے دل میں اور انھیں کچھ ضروری باتیں اس کتاب کے متعلق بتانے کی حسرت میرے دل میں رہ گئی۔
مولانا ایک خوش بیان اور کہنہ مشق مقرر بھی تھے، قدرت نے انھیں بلند آواز بھی عطا کی تھی۔ اسی بنا پر کلکتہ میدان میں عیدین کی نماز کی امامت کے لیے ایک مناسب خطیب اور عالم کی ضرورت پیش آئی تو نظر انتخاب مولانا ہی پر پڑی۔ کلکتہ میدان میں نماز عیدین کی جماعت کلکتہ کی سب سے بڑی جماعت ہوتی ہے، چند سال پہلے اس کی امامت امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد فرمایا کرتے تھے۔ جب مولانا آزاد اس سے دست بردار ہوئے تو ان کی جگہ پر مولانا ابوسلمہ مقرر ہوئے۔ اور تاحیات یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ اس موقع پر ان کے خطبات کلکتہ کے روزناموں میں رسالوں کی شکل میں چھپتے تھے۔ اور دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے۔ اسی امامت کی بنا پر مولانا بعد میں پورے ملک میں ’’امام عیدین‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔
مگر مولانا کا اصلی میدان تبلیغ و ارشاد تھا۔ وہ ساری عمر زبان اور قلم سے اشاعت اسلام اور مسلمانوں کی دینی اور اخلاقی اصلاح کا کام انجام دیتے رہے۔ انھوں نے شہر کے مختلف حصوں میں درس قرآن کے حلقے قائم کئے جن میں وہ خود قرآن مجید کی تعلیمات کی وضاحت کرتے اور مسلمانوں کو شریعت کے احکامات سے روشناس کراتے تھے۔
شہر کے تمام مذہبی جلسوں میں شرکت کرتے اور ان میں نمایاں حصہ لیتے۔ تبلیغ کے لئے بہار، اڑیسہ اور مغربی بنگال کے دور افتادہ مقامات کا سفر کرتے۔ اکثر میلوں پیدل چلتے۔ ریل کے ڈبے میں بھیڑ کی وجہ سے کبھی کبھی گھنٹوں کھڑے کھڑے سفر کرتے۔ جلسوں میں بہت رات گئے تک بیٹھے رہتے، جو ملتا اور جب ملتا کھالیتے۔ مسجد میں بھی سورہتے، جوانی اور کہولت میں ان کی عام صحت قابل رشک تھی۔ مگر ان بے اعتدالیوں نے ضعیفی میں ان کی صحت پر برا اثر ڈالا اور وہ بیمار رہنے لگے۔ اخیر زندگی میں ان پر یرقان کا حملہ ہوا جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے۔
تبلیغ کے کاموں کو مزید وسعت دینے کے لیے انھوں نے ’’ادارۂ ترجمہ و تالیف‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس میں وہ تنہا کام کرتے تھے۔ اس ادارہ سے جیسا کہ راقم السطور نے اوپر بیان کیا ہے۔ سیرت پر متعدد چھوٹے بڑے رسالے شائع ہوئے۔ جو ملک میں بے حد مقبول ہوئے۔ مقامی ضرورتوں کے پیش نظر وقتاً فوقتاً پوسٹر اور ہینڈبل بھی شائع کرتے، قرآن و حدیث کے منتخب ارشادات جلی حروف میں کپڑے پر لکھواکر مسلماں محلوں کی مرکزی جگہوں پر آویزاں کرتے۔
مرحوم علم و عمل اور وضع و اخلاق میں علماء سلف کی یادگار تھے۔ وہی زہد و تقویٰ، وہی فقروا ستغنا، وہی عبادت و ریاضت، وہی ذکر و فکر، وہی جوش عمل، وہی اﷲ کی خشیت، وہی ہر کام میں ﷲیت جو ان بزرگوں کی خصوصیات تھیں۔ مولانا کی زندگی کا طرۂ امتیاز تھیں۔ ہمیشہ گاڑھے کا کرتہ، گاڑھے کا پاجامہ اور گاڑھے ہی کی دوپلیا ٹوپی زیب تن فرماتے۔ زیادہ تر پیدل چلتے اور جب ضرورت پیش آتی سستی سواریوں مثلاً بس اور رکشے پر اکتفا کرتے۔ چنانچہ اکثر بھری بس یا ٹرام میں ان کی جیب کتر جاتی۔ آل رسولؐ اور اصحاب رسولؐ سے ایسے محبت اور شیفتگی تھی کہ گھر میں کسی بچے کا نام رکھنا ہوتا تو ان ہی کے نام ذہن میں آتے۔ چنانچہ اس وقت ان کے خاندان میں ماشاء اﷲ طلحہ، عروہ، خزیمہ، قتاوہ، اُسامہ، ہریرہ، حذیفہ سبھی موجود ہیں۔ چار مرتبہ حرمین کی زیارت سے مشرف ہوئے آخری بار ۱۹۸۵؁ء میں حج کے لیے تشریف لے گئے۔ روانگی سے پہلے یرقان کا حملہ ہوگیا تھا۔ مکہ معظمہ پہنچے تو مرض نے شدت اختیار کرلی مشکل سے مناسک حج ادا کرسکے۔ کلکتہ واپس ہوئے تو مرض نے ایسی خطرناک شکل اختیار کی اور ان کو ہسپتال میں داخل کرنا پڑا اور پھر آخرت کا سفر پیش آیا۔
مرحوم نے بستر علالت سے ایک خط مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کو لکھا تھا۔ اس کے ایک ایک لفظ سے مولانا مرحوم کی جسمانی تکلیف و اذیت اور قوم کی زبوں حالی پر ان کا روحانی کرب اور اضطراب ظاہر ہوتا ہے۔ اس خط کا ایک اقتباس درج ذیل ہے:
’’․․․․ شفا خانے کی کوٹھری نما کمرے میں مبحوس ہوکر رہ گیا ہوں۔ جملہ مشاغل یک قلم موقوف ہیں۔ امت مرحومہ کی موجودہ زبوں حالی بالخصوص مسلم پرسنل لاء پر دشمنوں کے رکیک حملے اور ہماری تہی دستی و بے بسی پر دل کڑھتا ہے۔ مگر مجبور محض ہوکر رہ گیا ہوں یہ چند سطور جو دراصل اپنی غم خواری اور دلسوزی کا برملا اظہار ہیں۔ وقت کی اہم ضرورت سمجھتے ہوئے لکھوا رہاں ہوں‘‘۔
مولانا مرحوم کے اساتذہ میں حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ، مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا عبداﷲ محمد بن یوسف السورلی اور مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانیؒ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، جن بزرگوں کا ذکر خیر وہ اکثر کیا کرتے تھے ان میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ابوالمحاسن محمد سجادؒ، مولانا عبدالماجد دریابادیؒ، مولانا حبیب الرحمن خانؒ شروانی اور علامہ سید سلیمان ندویؒ، مجھے اچھی طرح یاد ہیں، سید صاحبؒ سے انھیں والہانہ عقیدت تھی۔ جب سید صاحب گرمیوں میں دیسنہ تشریف لاتے تو مولانا بالالتزام ہر سال ان سے ملنے کے لیے بہار شریف سے دیسنہ جاتے اور دو تین دن ان کے مہمان رہتے۔ راقم الحروف سے انھوں نے سید صاحب سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر جو پٹنہ جنکشن اسٹیشن پر ہوئی تھی کئی بار مزہ لے لے کر کیا۔ دیسنہ کی ان مجلسوں کا ذکر بھی لطف لے کر کرتے تھے، جن میں سید صاحب اپنے باغ کے آم خود کاٹ کاٹ کر لوگوں میں پیش کرتے تھے۔ مولانا سید صاحب کے منتخب مطبوعہ مضامین کتابی شکل میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ مگر صرف ایک مجموعہ شائع کرسکے۔ جو مکتبۂ علم و حکمت، بہار شریف کے زیر اہتمام طبع ہوا۔ پھر انھوں نے ان کے دو پرانے مضامین رسول وحدت اور ایمان رسالوں کی شکل میں ادارۂ ترجمہ و تالیف کلکتہ سے شائع کئے، اوپر جن بزرگوں کے نام مذکور ہیں ان میں سے اکثر سے ان کی خط و کتابت تھی اور چند کے خطوط مولانا کے کتب خانے میں محفوظ ہیں۔ شاگردوں کی ایک کثیر تعداد برصغیر ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں علمی و تعلیمی خدمات انجام دے رہی ہے۔
مولانا کی وفات کے بعد میں اپنی زندگی میں ایک خلا محسوس کررہا ہوں۔ ان کی خوش گفتاری، ان کا زور خطابت ان کا اخلاص اور ان کی علمی صحبتیں یاد آتی ہیں تو آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں، مگر مولانا ایسی جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں سے لوگ واپس نہیں آتے! ع
عرفی اگربہ گریہ میسر شدے وصال صدسال می تواں بہ تمنا گریستن
(مارچ ۱۹۸۶ء)

۱؂ یہ کتاب اور اس کے علاوہ موادر الظمان الی زوائد ابن حبان (مولف حافظ نورالدین ہیثمی اور کتاب الزامات علی الصحیح البخاری (المسلم مولفہ امام ابوالحسن علی دارقطنی) کی مولانا ابوسلمہ شفیع احمد نے اپنے خوشخط قلم سے کتابت کی تھی اور یہ تینوں نسخے انھوں نے دارالمصنفین کو عنایت فرمائے)۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...