Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر عبدالحئی عارفی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر عبدالحئی عارفی
ARI Id

1676046599977_54338249

Access

Open/Free Access

Pages

459

ڈاکٹر عبدالحئی عارفی ؒ
مارچ ۱۹۸۶؁ءکی آخری تاریخوں میں ہم لوگ مولانا سید ابوالحسن ندوی کے ساتھ مدینہ منورہ میں تھے، تو ایک صاحب نے کراچی میں ڈاکٹر عبدالحئی کی رحلت کی خبر دی، جس کو سن کر سب ہی ملول اور افسردہ ہوئے، مولانا علی میاں نے تو فوراًتعزیت کا تار لکھوا کر کراچی بھجوایا۔ میری نظروں میں ڈاکٹر صاحب کا وہ چھریرا جسم، منور چہرہ اور مطہر آنکھیں گھومنے لگیں، جب ان کو ۱۹۴۴؁ء میں پہلی دفعہ جونپور میں دیکھا تھا، اس زمانہ میں استاذی المحترم حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کے منجھلے داماد برادرم سید حسین وہاں ڈپٹی کلکٹر تھے، ان کے کرایہ کا مکان ٹھیک ڈاکٹر صاحب مرحوم کے وسیع اور کشادہ مکان کے سامنے تھا، وہیں حضرت سید صاحبؒ ان سے ملنے گئے ہوئے تھے، میں بھی وہاں دو چار روز کے لیے پہنچ گیا تھا، عصر کی نماز کے بعد حضرت سید صاحبؒ کی نشست ڈاکٹر صاحب مرحوم کے گھر پر ہوتی، دونوں حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلفاء میں تھے، ڈاکٹر صاحب مرحوم حضرت سید صاحبؒ سے تقریباً پندرہ سال چھوٹے تھے، اس لئے ان کے ملنے کا انداز بالکل خوردانہ اور عزیز انہ تھا، مگر جس روحانی رشتے میں دونوں منسلک تھے، ان میں لطف وکرم، مہر و محبت، اور یگانگت و موانست کی نکہت بیزی اور شامہ نوازی کے سوا اور کیا ہوسکتی تھی، یہ خاکسار بھی ان نشستوں میں شریک رہتا، اس کے تھوڑے دن پہلے حضرت تھانویؒ کے بڑے مشہور خلیفہ مولانا محمد عیسیٰؒ کی وفات جونپور ہی میں ہوئی تھی، اس موقع پر امداد غیبی سے حضرت تھانویؒ کے اور خلفائے مجازین جنازہ میں شرکت کی غرض سے جس محبت سے پہنچ گئے تھے، اس کا ذکر زیادہ تر ان نشستوں میں ہوتا کہ کس طرح ایک نے غسل دیا، دوسرے نے نماز جنازہ پڑھائی اور دو نے قبر میں اتارا، اور گفتگو اس پر بھی ہوتی کہ وہ سلوک وطریقت، مسلک و مشرب، صورت و سیرت، حتیٰ کہ نشست و برخاست اور خط وکتابت میں اپنے مرشد کے کامل نمونہ تھے، حضرت سید صاحبؒ نے اپریل ۱۹۴۴؁ء کے معارف میں ان پر ایک تعزیتی تحریر لکھ کر اپنے رنج وغم کا بھی اظہار کیا ہے۔جونپور کے اسی قیام میں ڈاکٹر صاحب مرحوم کی سیرت وصورت کا جو اثر پڑا وہ آخر وقت تک قائم رہا، پھر ۱۹۴۴؁ء میں دو چار روز ایسا معلوم ہوا کہ حضرت تھانویؒ کا برج خلافت دارالمصنفین میں منتقل ہوگیا ہے، حضرت تھانویؒ کے چہیتے اور محبوب خلیفہ جناب خواجہ عزیز الحسن غوری مجذوبؔاپنے پیر بھائی مولانا محمدحسن امرت سری کے ساتھ یہاں جلوہ افروز ہوئے تو فتح پورتال نر جا سے مولانا وصی اﷲ تشریف لے آئے، مولانا عبدالغنی پھول پوری بھی آگئے، مولانا ابرار الحق ہر دوئی سے آ پہنچے، پھر ڈاکٹر عبدالحئی جونپور سے آکر اس محفل میں شریک ہوئے، سید صاحب مجاز بیعت اور مولانا مسعود علی ندوی مجاز صحبت تو میزبان ہی رہے، تین چار روز کی محفل میں حضرت مجذوب ہی چھائے رہے، وہ اپنی نظمیں سناتے غزلیں سامعہ نواز کرتے، اور اپنے خاص ترنم سے سب کو مسحور اور محظوظ کرتے رہے، کسی کو کچھ بولنے کا موقع نہ دیتے، اور جب ان کے نغمے سب کے فردوس گوش ہورہے تھے، تو کوئی کیوں کچھ بول کر محفل کی پرکیف اور روحانی فضا میں خلل انداز ہوتا، خواجہ صاحب کے ایسا غضب کا حافظہ کسی اور میں نہ پایا گیا، اشعار سناتے کیا بلکہ ان کا سیلاب بہاتے، کہیں نہیں اٹکتے جھوم جھوم کر اپنا کلام پڑھتے، سامعین سے زیادہ خود ہی اس سے لطف لیتے ،شعر گوئی کی اصل تعریف یہ ہے کہ بانسری بجانے والے کی طرح شاعر خود ہی اپنے کلام سے مست ہوتا رہے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بھی اور سامعین کی طرح اس محفل میں ساکت و صامت ہی رہے، مگر ان کی ذات گرامی زبان حال سے کہتی رہی کہ اس محفل کو منور کرنے میں وہ بھی برابر کے شریک وسہیم ہیں۔
۱۹۴۷؁ءکے بعد ہندوستان میں جو غیر معمولی سیاسی انقلاب آیا، تواس میں تھانہ بھون کے برج خلافت کے بعض سیارے کراچی منتقل ہوگئے، حضرت سید صاحبؒ کے علاوہ مولانامحمد شفیع، مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا عبدالغنی پھول پوری اور ڈاکٹر عبدالحئی وہاں کیا پہنچے کہ اس شہر کی دھرتی کو اپنے زہد و ورع، سلوک و طریقت اور مقامات مستجاب الدعوات اور واردات صحیحہ سے سر فراز کرنے میں لگ گئے، حضرت سید صاحبؒ کی وفات ہوئی تو ڈاکٹر عبدالحئی مرحوم ہی نے ان کے جنازے کی نماز پڑھائی، جس سے ان کی ذات گرامی سے اور لگاؤ پیدا ہوگیا۔
کراچی برابر جانے کا اتفاق ہوا، جونپور اور اعظم گڑھ کے بعد وہاں ان سے شرف نیاز حاصل ہوا، تو کافی مدت کا وقفہ ہوچکا تھا، اس عرصہ میں ان میں پیر طریقت کی خوبیاں اچھی طرح پیدا ہوچکی تھیں، چہرہ پہلے سے زیادہ منور ہوچکا تھا، پیشانی پر ایک خاص قسم کی چمک تھی، زیر لب تبسم میں پہلے سے زیادہ اضافہ تھا، حضرت سید صاحبؒ کے تعلق سے بڑی محبت سے ملے، باتیں عارف باﷲ ہی جیسی کیں، کراچی کے ایک اور سفر میں مسلم کمر شل بینک کے وائس پریسیڈینٹ جناب عابد حسین زبیری کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوا، تو اپنا رسالہ معمولات یومیہ ومختصر نصاب اصلاح نفس پڑھنے کو دیا، اس میں زندگی اور عاقبت سنوارنے کی بہت سی دعائیں جمع کردی گئی ہیں حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے تصوف کی جو تعریف بیان کی تھی وہ بھی اس میں نمایاں طور پر درج ہے، اور وہ یہ ہے۔
ــ’’وہ ذرا سی بات جوحاصل ہے، تصوف کا یہ ہے، کہ جس طاعت میں سستی محسوس ہو سستی کا مقابلہ کرکے اس طاعت کو کرے، اور جس گناہ کا تقاضا ہو، تقاضے کا مقابلہ کرکے اس گناہ سے بچے، جس کو یہ بات حاصل ہوگئی اس کو پھر کچھ بھی ضرورت نہیں، کیونکہ یہی بات تعلق مع اﷲ پیدا کرنے والی ہے، یہی اس کی محافظت ہے، اور یہی اس کو بڑھانے والی ہے۔‘‘
جس سادگی اور گہرائی سے یہ بات کہی گئی ہے، وہ منکرین تصوف کے لئے قابل غور اور لایق مطالعہ ہے۔
ایک بار ڈاکٹر صاحب کی ایک مجلس میں بھی شریک ہوا جو ہفتہ میں ایک بار ان کے یہاں ہوتی تھی، ان کا اثر کراچی کے بڑے بڑے سرکاری عہدیداروں، متمول لوگوں اور تاجروں میں برابر بڑھتا جارہا تھا، انھوں نے اپنے مرشد سے جو کچھ پایا تھا، وہ دوسروں تک پہنچاتے رہے، اسی لئے مآثر حکیم الامت، بصائر حکیم الامت اور معارف حکیم الامت کو ترتیب دے کر زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی، اسوۂ رسول اکرمﷺ اور اصلاح المسلمین کے نام سے بھی ان کی تصانیف ہیں، ان کی زندگی اس لحاظ سے قابل رشک رہی کہ وہ کسی دینی مدرسہ کے باضابطہ سند یافتہ عالم نہ تھے بلکہ علی گڑھ اور لکھنؤ میں انگریزی تعلیم پاکر وکیل ہوئے۔ دس سال تک وکالت کی، اس پیشہ سے بر گشتہ ہوئے، تو ہومیوپیتھی کی ڈاکٹری شروع کی، اور اسی حیثیت سے مشہور ہوئے، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ان کو متروک الوکالت ہونے کے بجائے تارک الوکالت پایا تو ۱۹۳۵؁ء میں مجازین بیعت میں داخل فرما لیا، پھر وہ مدارج حاصل کیے جو بڑے سے بڑے عالم دین کو ہوسکتا ہے، وہ شاعر بھی تھے، تخلص عارفیؔ تھا، ان ہی کا یہ شعر ہے،
عارفیؔ پیر مغاں نے ایسی کچھ ڈالی نظر
میری ہستی مظہر اعجاز ہو کر رہ گئی
۱۸۹۸؁ء میں ان کی ولادت شاید کانپور میں ہوئی تھی، ۱۹۸۶؁ء میں وفات پائی، کل عمر تقریباً اٹھاسی سال کی ہوئی، جس میں تقریباً اکاون سال مسند رشد وہدایت پر بیٹھ کر خواص وعوام کو مستفیض کیا، اﷲ اﷲ اتنی طویل دینی اور روحانی خدمت کی سعادت کم بزرگوں کو حاصل ہوئی ہوگی، معلوم ہوا کہ وہ کل تین دن علیل رہے، اور ۲۶؍ مارچ ۸۶؁ء مطابق ۲۴؍ رجب المرجب ۱۴۰۶؁ھ کو ان کی پاک روح قفس عنصری سے پرواز کرکے اعلیٰ علیین کو پہنچ گئی کراچی میں مولانا محمد شفیع کے دارالعلوم کے قبرستان میں ان ہی کے سرہانے اپنی ابدی خوابگاہ میں لٹائے گئے، اس طرح تھانہ بھون کی کتاب کے مزید ایک اہم باب خاتمہ ہوگیا، آئندہ نسل یاد کرے گی کہ تھانہ بھون کے فیوض کی تسنیم اور برکات کی کوثر کی مضطرب موجیں اور بے چین لہریں دور دور تک پھیلیں اور ان ہی سے روحانی جام ومینا پُر کرکے جو یائے حق اپنی روحانی تشنگی بجھاتے رہے، ان بزرگان دین کی وجہ سے مختلف․․․․․․ علاقوں میں ایمان کی جو بہاریں آتی رہیں، ان کے صلہ میں معلوم نہیں بارگاہ ایزدی میں وہ کن کن رحمتوں سے سر فراز ہوتے رہیں گے، دعا ہے کہ ان کی تربتوں پر فضل الٰہی کی پھوہاریں برابر پڑتی رہیں، آمین۔ (صباح الدین عبدالرحمن، جون ۱۹۸۶ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...