Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈاکٹر سید عبداﷲ

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈاکٹر سید عبداﷲ
ARI Id

1676046599977_54338254

Access

Open/Free Access

Pages

462

ڈاکٹر سید عبداﷲ
ڈاکٹر سید عبداﷲ ۱۴؍ اگست ۱۹۸۶؁ء کو لاہور میں اس عالم فانی کو چھوڑ کر عالم جاودانی کو سدھارے، اس خبر کو سن کر دل کو ویسی ہی چوٹ لگی جیسے اپنے خاندان کے کسی عزیز فرد کی دائمی جدائی سے لگ سکتی تھی، ان کی رحلت سے علم و ادب کی ایک زمردیں مسند خالی ہوگئی، وہ علمی حلقوں میں عربی زبان کے قدر شناس، فارسی شعر و ادب کے رمز شناس، اردو کے عناصر خمسہ اور شعراء کے اداشناس، علامہ محمد اقبال کے جوہر شناس، اور اپنی نظر و فکر کے نکتہ شناس کی حیثیت سے یاد کیے جائیں گے، پاکستان میں اردو کو قومی زبان بنانے میں شاہین اور عقاب بن کر جس طرح جھپٹے، پلٹے اور پلٹ کر جھپٹے، اس کی یادیں بھی لوگوں کے دلوں کو گرماتی رہیں گی، ان کی تصانیف سے یونیورسٹی کے اساتذہ نے اردو کے ادیبوں اور شاعروں کو سمجھ کر جس طرح طلبہ کو سمجھایا، اس کی عنبریں یادیں بھی زریں حروف سے لکھی جائیں گی، اور پھر انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کی تکمیل کر کے لوگوں کی دیرینہ آرزوؤں کے ریگ زار کو جس طرح شاداب مرغزار بنادیا، اس کی یادوں کے کنول بھی ہمیشہ کھلے رہیں گے، اور کس کو اس سے انکار ہوسکتا ہے کہ وہ علم و فن کے سیاروں میں عطارد بن کررہے، اور ساٹھ ۶۰ سال کی علمی خدمت کے بعد اسی حیثیت سے رخصت ہوئے۔
میری یادوں کی شبستان میں وہ اس طرح دکھائی دیں گے کہ وہ مجھ سے مل رہے ہیں، گلے لگارہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ میں تو اپنے کو مولانا سید سلیمان ندویؒ کا فرزند معنوی سمجھتا ہوں، ان ہی کی تحریروں سے تحقیق کرنا سیکھا ہے، میں تم سے ملتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ سگے بھائی سے مل رہا ہوں ان کی یہ باتیں فردوس گوش بنی ہوئی ہیں، ان پر آیندہ ایک مفصل مضمون لکھ کر اپنا غم ہلکا کروں گا، ابھی تو ہر بن مو سے ان کی مغفرت کے لیے دعائیں نکل رہی ہیں۔ (صباح الدین عبدالرحمن، ستمبر ۱۹۸۶ء)

آہ ڈاکٹر سید محمد عبداﷲ
( شیخ نذیر حسین)
پاکستان کے ممتاز عالم نامور ادیب اور معروف نقاد اور اردو زبان کے محسن ڈاکٹر سید محمد عبداﷲ نے ۱۴؍ اگست ۱۹۸۶؁ء کو ۸۰ برس کی عمر میں اس عالم فانی کو الوداع کہا۔ ان کی وفات سے پنجاب یونیورسٹی اور اورینٹل کالج کی وہ علمی روایت اختتام کو پہنچی جس کا آغاز مولوی فیض الحسن ۱؂ سہارنپوری اور مفتی محمد عبداﷲ ۲؂ ٹونکی کی علم پرور مساعی سے ہوا تھا اور اس کو مولوی محمد شفیع، سید اولاد حسین شادان بلگرامی رام پوری، مولوی عبدالعزیز میمن اور حافظ محمود شیرانی مرحومین نے پروان چڑھایا تھا۔
ڈاکٹر سید عبداﷲ ۱۹۰۶؁ء میں قصبہ منگلور تحصیل و ضلع مانسہرہ صوبہ سرحد میں پیدا ہوئے، وہ گورنمنٹ ہائی اسکول ایبٹ آباد کی نویں جماعت میں زیر تعلیم تھے کہ تحریک خلافت کا غلغلہ بلند ہوا، اور وہ علی گڑھ جاکر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں داخل ہوگئے، علی گڑھ میں ان کا دل نہ لگا تو وہ چند ماہ کے بعد لاہور چلے آئے اور اہل حدیث کے مشہور مدرسہ مسجد چینیان والی میں درس نظامی کی تحصیل میں مصروف ہوگئے اور کافیہ اور مشکوٰۃتک یہیں تعلیم پائی۔ اس اثناء میں وہ قید بھی ہوئے، پھر اورینٹل کالج کی مولوی عالم کلاس میں جاشامل ہوئے، جہاں ان کے مشہور استاد مولوی عبدالعزیز میمن سبعہ معلقہ اور ادب کی دوسری کتابیں پڑھاتے تھے، ساتھ ہی وہ مولوی احمد علی صاحب (انجمن خدام الدین، لاہور) کے درس قرآن میں شریک رہتے تھے، مرحوم سے انھوں نے حجۃ اﷲ البالغہ پڑھی، اور غالباً صحیح مسلم بھی، مولوی احمد علی صاحب کی دینی خدمات اور ان کی زاہدانہ زندگی کا اثر ان پر آخر آخر تک رہا۔ فرماتے تھے کہ ایک دفعہ مولوی صاحب نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھا تھا اور اس کی ٹھنڈک آج تک محسوس ہورہی ہے، ۱۹۲۳؁ء میں منشی فاضل، ۱۹۲۵؁ء میں ایم۔اے (فارسی) ۱۹۳۲؁ء میں ایم۔اے (عربی) کے امتحانات پرائیوٹ طور پر پاس کئے اور ۱۹۳۵؁ء میں ڈی لٹ کی ڈگری حاصل کی۔
سید صاحب نے مختلف حیثیتوں میں ساٹھ برس تک پنجاب یونیورسٹی کی لگاتار خدمت کی جو ایک شاندار ریکارڈ ہے، وہ ۱۹۲۶؁ء میں عربی و فارسی مخطوطات کے فہرست نگار مقرر ہوئے، ۱۹۳۴؁ء میں شعبہ عربی پنجاب یونیورسٹی لائبریری کے نگراں ہوئے، جہاں پانچ برس تک کام کرتے رہے، اس زمانے میں یونیورسٹی لائبریری کے بیشتر فارسی اور عربی مخطوطات ان کے مطالعے میں آئے، جن پر ان کے حواشی ثبت ہیں، ۱۹۳۸؁ء میں وہ جونیر لیکچرار فارسی اورینٹل کالج مقرر ہوئے۔ تقسیم ہند کے پرآشوب زمانے میں انھوں نے جس طرح پنجاب یونیورسٹی لائبریری کی حفاظت کی وہ ان کے احساس ذمہ داری کی بہترین مثال ہے۔ ۱۹۵۳؁ء میں یونیورسٹی پروفیسر اردو ہوئے اور ۱۹۵۴؁ء- ۱۹۶۶؁ء پرنسپل رہے، اور ۱۹۶۶؁ء میں اردو دائرۃ معارف اسلامیہ کے صدر شعبہ متعین ہوئے اور اپنی وفات اگست ۱۹۸۶؁ء تک فائز رہے۔
وہ ۸؍ مارچ ۱۹۸۶؁ء کو دفتر میں کام کررہے تھے کہ ان پر اچانک فالج کا حملہ ہوا اور وہ ہسپتال پہنچائے گئے، تین ہفتوں کے بعد تھوڑا فاقہ ہوا تو وہ ۲۰؍ اپریل ۱۹۸۶؁ء کو گھر گئے، علالت کے ایام میں گورنر پنجاب مخدوم محمد سید سجاد حسین قریشی دو دفعہ ان کی عیادت کو آئے اور علاج معالجہ کے اخراجات کے لیے ایک لاکھ روپے کا چیک پیش کیا۔ صدر پاکستان جناب جنرل ضیاء الحق صاحب نے اپنا خصوصی معالج بھیجا، لیکن وہ بہترین طبی امداد کے باوجود ۱۴؍ اگست ۱۹۸۶؁ء کو حج بیت اﷲ کے دن اپنے خالق حقیقی سے جاملے، جب میدان عرفات لبیک اللھم لبیک کی صداؤں سے گونج رہا تھا۔
ڈاکٹر عبداﷲ کی زندگی مسلسل جدوجہد اور عمل پیہم سے عبادت تھی، پڑھنا اور لکھنا ان کا اوڑھنا اور بچھونا تھا۔ انھوں نے جس کلام میں ہاتھ ڈالا اس کو پورا کرکے دکھایا، مخالفوں کی مخالفت کی انھوں نے کبھی پروا نہیں کی۔ وہ صبر و سکون سے اپنے کام میں لگے رہتے تھے اور ان کے حریف بالآخر میدان سے بھاگ جاتے، وہ نہ کبھی تھکے نہ مایوس ہوئے۔
سید صاحب وسیع النظر، وسیع الخیال اور وسیع القلب تھے، ان کا حلقہ احباب بڑا وسیع تھا، مساجد کے خطیب سے لے کر صحافی، وکیل اور بڑے بڑے نامور ادیب و دانشور اور اعلیٰ عہدہ دارانِ حکومت ان کی بزم ادب میں بلاروک ٹوک اور بلاتکلف آتے رہتے تھے، ان کی مجلسیں بزرگوں کے سبق آموز حالات، قومی تحریکات کے ذکر، سیاسی حالات پرلطیف تبصرے اور لطائف و ظرائف اور شعرو شاعری کے تذکرے سے معمور رہتی تھیں، سید صاحب کو عربی، فارسی اور اردو کے ہزاروں، اشعار یاد تھے، ان کی کتاب اخلاق کا سنہری باب ان کی بردباری، معتدل مزاجی، نرم خوئی اور خندہ روئی ہے، اگرچہ وہ عقائد اور اعمال میں اکابر علمائے دیوبند کے ہم خیال تھے لیکن ان کے شیعہ، سنی، اہل حدیث اور بریلوی علماء سے بھی یکساں تعلقات تھے، وہ غلو اور شدت پسندی سے نفور تھے، اور کہا کرتے تھے کہ میرا مسلک، مسلک محبت ہے، وہ بزرگوں کے ادب شناس تھے، اسی میانہ روی کا نتیجہ یہ تھا کہ انھوں نے کسی دینی یا سیاسی رہنما کی تنقیص یا توہین نہیں کی، وہ عوام و خواص میں مقبول اور ایوان حکومت میں معزز و محترم تھے، حکومت پاکستان نے ان کو کئی اعزازت سے نوازا ہے۔
سید صاحب کی قوت تدریس حیرت انگیز تھی، وہ ایک دن میں مختلف کلاسوں یعنی ایم۔اے (عربی)، ایم۔اے (فارسی) اور ایم۔اے (اردو) کو پڑھا دیتے تھے، وہ اپنے شاگردوں سے بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے، ہونہار اور محنتی طلبہ جلد ہی ان کی توجہ کا مرکز بن جاتے تھے، غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے، ان کی سعی اور سفارش سے پچاسوں بے روزگار نوجوانوں نے ملازمت حاصل کی۔
سیدصاحب، اردو زبان کے شیدائی و فدائی تھے، انھوں نے اپنے جسم و جان اور صحت کو اردو کی تردیج اور اشاعت کے لیے وقف کر رکھا تھا، فرمایا کرتے تھے کہ پاکستان کو دو چیزیں متحد رکھ سکتی ہیں، اسلام اور اردو زبان، اردو کو قومی زبان بنانے کے لئے انھوں نے جلسے کئے، جلوس نکالے اور کانفرنسیں منعقد کیں، بازاروں میں جاکر دوکانداروں کو اردو میں سائن بورڈ لکھوانے کی تاکید اور چوراہوں میں کھڑے ہوکر کار والوں کو روک کر پلیٹ کا نمبر اردو میں لکھوانے کی تلقین کی۔ اردو سے غیرمعمولی شغف کی بنا پر انھیں بعض اوقات ارباب اقتدار کی ناراضی اور برہمی کا بھی سامنا کر پڑا، لیکن ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی، فرمایا کرتے تھے کہ عربی رسم الخط ایک قسم کا شارٹ ہینڈ اور اﷲ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے۔ اور اتحاد اسلام کی اساس ہے، وہ مسلم ممالک جنھوں نے عربی، فارسی رسم الخط کو چھوڑ کر کوئی دوسرا رسم الخط اختیار کرلیا ہے، اسلام کی عالمگیر برادری سے منقطع اور اسلام کے چودہ سوسالہ علمی ورثے کے فیوض و برکات سے محروم ہوگئے ہیں، اس بارے میں وہ جدید ترکی کی مثال دیا کرتے تھے۔
اردو زبان سے غیرمعمولی شغف کا دوسرا مظہر مغربی پاکستان، اردو اکیڈمی کا قیام ہے، اس کا مقصد سائنسی علوم کو اردو میں منتقل کرنا ہے، چنانچہ سید صاحب کے دور نظامت میں اردو اکیڈمی نے مختلف سائنسی موضوعات، جوہری توانائی، نباتیات، حیوانیات، نفسیات اور نظریۂ اضافیت پر ساٹھ کتابیں شائع کرکے اردو زبان کو جدید سائنسی معلومات سے مالا مال کردیا ہے۔
تصانیف: سید صاحب علمی اور تعلیمی زندگی میں مولوی محمد شفیع اور حافظ محمود شیرانی سے زیادہ متاثر اور عمر بھر ان دونوں کے علمی نظریات اور روایات کے امین اور علمبردار رہے، انھوں نے تیس بتیس کتابیں لکھیں، جن میں اہم ترین یہ ہیں:
تحقیقی کتابیں: (۱) لطائف نامہ فخری امیر علی شیر کی کتاب مجالس النفائس (ترکی) کا فارسی ترجمہ، جو فخری بن امیر نے کیا تھا، اور سید صاحب کی تحقیق اور تحشیہ سے اورینٹل کالج میگزین میں شائع ہوتا رہا۔ (۲)تذکرہ مردم دیدہ (فارسی) عبدالحکیم لاہوری نے معاصر شعراے فارسی کا تذکرہ مرتب کیا تھا، جو سید صاحب نے تصحیح کے بعد چھوایا۔ (۳)نوادر الالفاظ اور ہندوستان کے آخری دور کے عظیم محقق سراج الدین علی خان آرزو کی فارسی میں اردو زبان کی لغت جو سید صاحب نے متعدد قلمی نسخوں سے مقابلے کے بعد ایڈٹ کی اور انجمن ترقی اردو کراچی نے شائع کی۔
۲۔ فکری کتابیں: مباحث (طبع دوم) (مختلف علمی، ادبی اور تاریخی مضامین کا مجموعہ) جس کے دو ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ (۲)ولی سے اقبال تک (اردو کے نامور شعراء پر مضامین)۔ (۳)نقدمیرؔ۔ خداے سخن میرتقی میر کے حالات اور اس کی شاعری پر تبصرہ۔ (۴)وجہی سے عبدالحق تک (اردو نثر کی تاریخ اور مشہور نثرنگاروں کی تخلیقات کا ناقدانہ جائزہ) کتاب کے ایک باب بعنوان ’’ابوالکلام آزاد اور امام عشق و جنون‘‘ کے تحت مولانا آزاد کی شخصی اور مزاجی کیفیات کا تجزیہ جس عمدگی سے کیا ہے، اور ان کے علم و فضل کے جلوہ ہائے صدرنگ کی جس چابکد ستی اور خوبصورتی سے مصوری کی ہے، وہ خاصے کی چیز ہے اور انشائے عالیہ کا بہترین نمونہ ہے۔ (۵)اشارات تنقید و نقد الادب کی تاریخ، یورپ کے تنقید نگاروں اور اسلامی دور کی تنقید کا تذکرہ، تنقید کے دور جدید اور اس کے مختلف تصورات کا بیان۔ (۶)سرسید احمد خان اور ان کے رفقاء کی نثر کا فکری جائزہ طبع چہارم، لاہور (سرسید اور ان کے نامور رفقاء کی علمی اور تصنیفی سرگرمیوں کا جائزہ) اردو ادب پر ان کے اثرات و احسانات کا تذکرہ)۔ (۷)ادبیات فارسی میں ہندوؤں کا حصہ طبع دوم، انجمن ترقی ادب، لاہور۔ ہندوؤں میں فارسی زبان کی ترویج و اشاعت کی تاریخ، فارسی گوہندو شاعروں کا تذکرہ، ہندو فضلا کی لکھی ہوئی تاریخوں، تذکروں، کتب نصاب اور قواعد لغت کی تصانیف کا تفصیلی تعارف، یہ وقیع کتاب ان کے نام اور کام کو ہمیشہ زندہ رکھے گی، یہ کتاب سید صاحب نے سب سے پہلے انگریزی میں لکھی تھی، جس پر پنجاب یونیورسٹی نے انھیں ڈی لٹ کی ڈگری دی تھی، بعد میں اس کا اردو ترجمہ انجمن ترقی اردو دہلی نے شائع کیا۔
(۸) سہل اقبال۔ (۹)مسائل اقبال (علامہ اقبال کی شاعری کے مختلف موضوعات پر مضامین کا مجموعہ)۔ (۱۰)فارسی زبان و ادب (طبع مجلس ترقی ادب، لاہور) فارسی شاعری کے مختلف ادوار کی تاریخ، مشاہیر شعراے فارسی کا تذکرہ، نئی فارسی شاعری کی خصوصیات، ایران جدید کی علمی و ادبی سرگرمیوں کا ناقدانہ جائزہ۔
(۱۱) سید عبداﷲ صاحب نے پنجاب یونیورسٹی لائبریری کی عربی، فارسی اردو وغیرہ کی قلمی کتابوں کی مشرح فہرست بھی مرتب کی جو پہلے انگریزی اور پھر اردو میں منتقل ہوئی، مذکور کتابوں کے علاوہ سید صاحب نے دو ڈھائی سو مضامین مختلف ادبی، دینی اور قومی موضوعات پر لکھے ہیں، ستر کے قریب کتابوں پر ان کے مقدمے اور تبصرے ہیں، انھوں نے کئی کتابوں کے مسودے بھی چھوڑے ہیں، جن میں عزیز و محترم قابل ذکر ہے، اس میں بزرگوں، دوستوں اور عزیزوں کے متعلق شخصی تاثرات ہیں۔
ڈاکٹر سید محمد عبداﷲ کی علمی و تصنیفی زندگی کا زندہ جاوید کارنامہ اردو دائرہ معارف اسلامیہ کی تکمیل ہے، ان کے پیش رو مولوی محمد شفیع مرحوم کے زمانے میں اگرچہ انگریزی انسائیکلوپیڈیا آف اسلام لائیڈن کی تمام جلدوں کا منقح ترجمہ ہوچکا تھا، اور اس کی دو جلدیں بھی شائع ہوچکی ہیں، لیکن اس کی حقیقی تکمیل کا سہرا ڈاکٹر سید عبداﷲ کے سر ہے، انھوں نے اس میں دینی اور قومی روح پھونک دی ہے، خود بھی ایک سو کے قریب مقالات لکھے اور بیرونی فضلاء سے بھی سینکڑوں مقالات لکھوا کر اس کو مستقل حیثیت عطا کردی ہے، اسی زمانے میں عربی، فارسی اور ترکی انسائیکلوپیڈیا کے بعض اجزاء بھی اشاعت پذیر ہوئے تھے لیکن پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکے اور ان کی حکومتوں نے اس بھاری پتھر کو چوم کر رکھ دیا تھا، عربی انسائیکلوپیڈیا، جس میں مصر کے مشہور محقق عالم قاضی احمد محمد شاکر کے مختصر سے ذیلی حواشی ہیں، حرف ’’ص‘‘ سے آگے نہ بڑھ سکا۔
اس کے مقابلے میں اردو دائرہ معارف اسلامیہ کی بیس جلدیں شائع ہوچکی ہیں، اور دو زیر طباعت ہیں، جن کے بعد اصل کام دو ڈھائی سالوں میں مکمل ہوجائے گا، انشاء اﷲ تعالیٰ کویت اور جامع ازہر نے اس کو عربی میں منتقل کرنے کی اجازت طلب کی ہے، سید صاحب نے اپنے پیچھے سینکڑوں شاگرد چھوڑے ہیں، جو ان کی فروزاں کی ہوئی شمع علم و عرفان کی روشنی میں اپنا علمی سفر طے کررہے ہیں، دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے دین و ادب کی خدمت کے صدقے میں مرحوم کے درجات بلند کرے، اور انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔
بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں (ستمبر ۱۹۸۶ء)

۱؂
Ùمولوی فیض الحسن سہارنپوری ۱۸۸۷؁ء عربی زبان کے مشہور ادیب و شاعر، دیوان الحماسہ اور سبعہ معلقہ کے نامور شارح۔
۲؂
مفتی محمد عبداﷲ ٹونکی (م۱۹۳۰؁ء) اورینٹل کالج سے ریٹائر ہوکر پہلے دارالعلوم ندوۃ العلماء اور پھر کلکتہ مدرسہ میں مدرس رہے، اردو میں اقلیدس کا ترجمہ اور دیوان ابوالعتاہیہ کی شرح ان کی علمی یادگار ہیں۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...