Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا محمد عمران خان ندوی الازہری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا محمد عمران خان ندوی الازہری
ARI Id

1676046599977_54338255

Access

Open/Free Access

Pages

465

آہ! مولانا محمد عمران خان ندوی الازہری
۲۲؍ اکتوبر ۸۶؁ء کو یکایک خبر ملی کہ مولانا حافظ محمد عمران خان ندوی ازہری اپنے خاندان والوں کو دل فگار اور اپنے جاننے والوں کو دل گیر چھوڑ کر تہتر (۷۳) سال کی عمر میں اس عالم فانی سے عالم جادوانی کو سدھارے، اس خبر سے جسم و دماغ پر ایک بجلی گر پڑی۔
ان کی موت ایک خاص قسم کی قوت عمل، عزم، ادارہ، خوش انتظامی، خوش سلیقگی، خوش فکری، اور خوش و ضعی کی موت ہے، وہ اپنے پیچھے ایک درس چھوڑ گئے کہ عمل پیہم اور یقین محکم سے کس طرح اہم اور بڑے سے بڑا، کام انجام دیا جاسکتا ہے، بے سرو سامانی میں کیسے کیسے سازوسامان پیدا کیے جاسکتے ہیں، یا س کے عالم میں مخلص کارکنوں کی جماعت کی تنظیم کیسے کی جاسکتی، اور ناداری کے عالم میں بھی وہ کام انجام دیا جاسکتا ہے جو بڑی دولت کے ذریعہ سے نہیں کیا جاسکتا۔
وہ بھوپال کے رہنے والے تھے، ۱۹۴۷؁ء کے بعد جب بھوپال کا فرماں روا خاندان بھوپال چھوڑ کر دوسری جگہ پناہ گزین ہوگیا تھا تو مولانا عمران خان ندوی نے اپنی قوت ارادی کو بروئے کارلاکر بھوپال کے لوگوں کے دلوں پر اپنی فرماں روائی شروع کردی اور یہ نمونہ پیش کیا کہ تاج و تخت کے بغیر بھی اخلاص کی پاکیزگی، نیت کی طہارت اور عمل کی پختگی کے ساتھ فرماں روائی ہوسکتی ہے۔
انھوں نے تاج المساجد کی تعمیر جس طرح ازسرنو کی اور اس کی زینت و آرایش میں جس طرح اضافہ کیا، اور پھر اس کے ذریعہ سے جو دینی حمیت اور ایمانی حرارت پیدا کی، وہ ایسا کارنامہ ہے کہ دنیا کی بڑی مسجدوں کی تعمیر کی جب تاریخ لکھی جائے گی تو ان کا نام نامی بھی اس تاریخ میں ضرور لکھا جائے گا، بڑی مسجدیں تو شاہی خزانوں اور حکومت کی مالی امداد سے بنتی رہیں، لیکن تاج المساجد کی تعمیر مولانا عمران خان ندوی کے کاسۂ گدائی سے انجام پائی، یہ اس کی مثال ہے کہ کاسۂ گدائی کو جام جمشید کس طرح بنایا جاسکتا ہے تاج المساجد کو بھوپال کا فرماں روا خاندان اپنے خزانہ سے نہ بناسکا، لیکن مولانا عمران خان نے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر یہ مثال پیش کی کہ عمل پیہم ہو تو آسمان ہُن برسا سکتا ہے اور زمین دولت اُگل سکتی ہے، انھوں نے تاج المساجد کے ارد گرد اتنی مختلف قسم کی عمارتیں بنوادی ہیں کہ یہ مسجد کے لیے شاہی خزانہ سے زیادہ مفید ثابت ہوں گی، ان عمارتوں کے کرایہ سے جو آمدنی ہوگی وہ شاید تاج المساجد کے اخراجات کے لیے کافی ہو، مرحوم کی مساعی جمیلہ سے اس مسجد کے ساتھ ایک عربی اور دینی مدرسہ بھی دارالعلوم تاج المساجد کے نام سے قائم ہے جس کی شہرت اس وقت تمام ملک میں پھیل چکی ہے، وہ اس کے امیر جامعہ تھے، انھوں نے اپنے شفیق استاد حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کی یاد میں ایک ’’بزم سلیمانی‘‘ کی بھی تاسیس کی ہے جو شاید آگے چل کر ایک اہم علمی ادارہ ہوجائے، ان ہی کی سرپرستی میں پندرہ روزہ جریدہ "نشان منزل" شایع ہوتا رہا جو دارالعلوم تاج المساجد کا ترجمان ہے۔
دارلمصنفین سے ان کا تعلق تقریباً چھپن ۵۶ سال تک رہا، وہ حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کے عزیز شاگرد تھے اپنی شاگردی کا حق انھوں نے حضرت سید صاحبؒ پر ایک سیمینار منعقد کر کے اور ’’مطالعہ سلیمانی‘‘ کی دلآدیز جلدشایع کر کے ادا کیا ، وہ مولانا مسعود علی ندوی کے بڑے معتمد علیہ تھے، ان کے خاندان والوں سے آخر وقت تک بڑی وضعداری اور محبت سے ملتے رہے، ملازمت ندوہ کے مہتمم کی حیثیت سے شروع کی، تاج المساجد کی خاطر بھوپال چلے گئے، لیکن ندوہ کو حرزجاں بنائے رکھا اور مولانا ابوالحسن علی ندوی کے ساتھ مل کر ندوہ کے تمام مسائل کو حل کرنے میں برابر کے شریک رہے، دارالمصنفین کے ہر چھوٹے بڑے جلسہ میں اس کی مجلس انتظامیہ کے رکن کی حیثیت سے برابر شرکت کر کے اس کی رہنمائی کرتے رہے۔
وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اپنی فقیری میں امیری، اپنی بے سروسامانی میں میر سامانی اور اپنی تنگدستی میں کشادہ دستی کے لیے مشہور رہے، ان کے جسم پر لباس بہت ہی سادہ رہتا، لیکن اس سادگی میں ان کی عزیمت کی چمکاری نظر آتی، وہ پرانے بزرگوں کی طرح اپنی وضعداری کے لیے ہر جگہ عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے، وہ اپنے معاصروں اور دوستوں سے اختلاف کرتے تو اس میں بھی ان کی مروت اور شرافت اخلاق کے موتی جھلملاتے رہتے وہ اپنے ماتحتوں کو ڈانٹتے تو ان کی ڈانٹ میں اخلاص ہوتا اور ان کی پھٹکار میں کریم النفسی چھپی رہتی، ان کے گھر میں بڑا خوش ذائقہ کھانا پکتا جس کو وہ بہت ہی خوش سلیقگی سے کھاتے اور کھلاتے، وہ منبر پر وعظ کہنے یا تقریر کرنے بیٹھتے تو اپنی بذلہ سنجیوں کے پھولوں کو سامعین پر نچھاور کرتے رہتے جس میں وہ ایمان کی شمامہ کی نکہت بیزی محسوس کرتے۔
ان کی موت سے ان کا خاندان ایک شفیق باپ، دارالعلوم ندوہ ایک نامور فرزند، تاج المساجد ایک بے مثال نگہبان، تبلیغی جماعت ایک انتہائی متحرک رہنما، بھوپال ایک جلیل القدر شہری اور ملک ایک معزز شخصیت سے محروم ہوگیا، ان کی اولاد اپنے آنسوؤں کے موتیوں کی لڑیوں کے ساتھ ان کی شفقت و محبت کو یاد کرتی رہے گی، دارالعلوم ندوہ دعا گو رہے گا کہ ان کا ثانی پھر پیدا ہوجائے، تاج المساجد کے چپہ چپہ پر چشم بینا ان کا نام منقش دیکھے گی، اس مسجد میں جو سالانہ تبلیغی اجتماع ہوگا تو اس کے تمام حاضرین ان کی خوش انتظامی کو اپنی نم آنکھوں سے یاد کر کے ان کے ایصال ثواب کے لیے دعائیں کرتے رہیں گے، ملک کے برادر ان وطن جوان سے ملتے رہے وہ بھی ان کو اس حیثیت سے یاد کرتے رہیں گے کہ ان کے ایسا اخلاص ملک کے تمام لوگوں میں پیدا ہوجائے تو ان کی دھرتی سونے کی ہوجائے۔
جانے والے جا! رخصت، الوداع! تیری تربت مغفرت الٰہی کی خوشبوؤں سے معطر رہے، تیری ابدی آرام گاہ انوار الٰہی سے منور ہو، سلام، لاکھوں سلام۔
وہ مجدوی سلسلہ کے مشہور بزرگ اور کامل طریقت حضرت شاہ محمد یعقوب عرف ننھے میاں قدس سرۂ العزیز سے بیعت ہوکر زیر تربیت بھی رہے اور ان کے بہت ہی محبوب اور چہیتے مرید اور مجاز بیعت تھے، ان ہی کی ہدایت پر تاج المساجد کے کھنڈر کی ازسرنو تعمیر شروع کی، اس خانقاہ کے موجودہ سجادہ نشین حضرت شاہ سعید میاں کو بہت ہی عزیز رکھتے تھے، اور حضرت سعید میاں ان کی رحلت سے ایسے ہی مغموم اور ملول ہوں گے جیسے اپنے خاندان کے کسی شفیق بزرگ کی وفات سے ہوتے، اسی تعلق کی بنا پر مرحوم کی ابدی خوابگاہ ان کے مرشد کے پہلو میں ہے، حالانکہ ان کی ابدی نیند کی اصلی جگہ تاج المساجد کے کسی گوشہ ہی میں ہونی چاہیے تھی، مگر شاید خود ان کو اپنے مرشد کی قربت زیادہ عزیز تھی۔
مرحوم کا جنازہ بڑی دھوم سے اٹھا، ان کی میت کے پیچھے بھوپال کے ایک لاکھ لوگ سوگوار اور گریہ کناں تھے، وہ بھوپال کے عاشق تھے اور اس عاشق کا جنازہ اسی دھوم سے نکلنا چاہیے تھا۔
وہ عالم بقا کو جارہے تھے لیکن ان کی میت کی غمناک فضا ان کی طرف سے لوگوں سے یہ کہہ رہی تھی:
رفتم و از رفتن عالمے تاریک شد
من گر شمعم چو رفتم بزم برہم ساختم
(’صباح الدین عبدالرحمن، نومبر ۱۹۸۶ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...