Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > اہلیہ سید سلیمان ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

اہلیہ سید سلیمان ندوی
ARI Id

1676046599977_54338257

Access

Open/Free Access

Pages

467

اہلیہ محترمہ مولانا سید سلیمان ندوی ؒ
کراچی کے ایک مکتوب سے یہ المناک خبر ملی کہ استاذی المعظم حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کی اہلیہ محترمہ ۲۳؍ جولائی ۱۹۸۷؁ء کو اپنی اولاد کو آنسوؤں کے سیل رواں میں چھوڑ کر عالم جاودانی کو سدھاریں۔ اِنَّا ﷲ وَاِنَّا اِلیہ راجعون۔
یہ تعزیتی تحریر دارالمصنفین کے احاطہ میں اس گھر میں لکھی جارہی ہے جہاں حضرت استاذی المحترم نے اپنی زندگی کے بہترین بلکہ بہار آفریں اور مشک آگیں دور گزارے ہیں، وہ یہاں کے کتب خانہ میں اپنی میز پر سیرۃ النبیؐ، معارف کے شذرات، علمی، مذہبی اور ادبی مضامین میں اپنے علم و عرفان کے مروارید، نظر و فکر کے زمرد اور ادب و انشا کے درشا ہوار بکھیر کر داخل ہوتے تو پہلے اپنی سب سے چھوٹی اولاد کو اپنی آغوش شفقت میں لیتے، پھر ان کی اور اولادیں ان کے یمین ویسار میں سما جاتیں، جس کے بعد علمی میز پر ان کو جو تکان ہوتی وہ یکایک دور ہوجاتی، اور ان کے چہرے پر بشاشت، ان کی ہر ادا میں نزہت اور ان کی بزرگی میں روحانیت دکھائی دیتی، وہ اپنے بچوں کے شگفتہ چہروں کو دیکھتے تو ان کی آنکھیں جنت بن جاتیں، ان کی معصوم باتوں کو سنتے تو ان کے کان فردوس گوش بن جاتے، پھر فضا میں پدری مہرومحبت کی کوثر و سلسبیل نظر آتیں، اسی فضا میں ان کی اہلیہ محترمہ نے بھی زندگی گزاری، اس گھر میں وہ تقریباً ۱۰ برس رہیں۔
سید صاحب اپنی گھریلو زندگی میں بہت ہی نفاست پسند تھے، ان کی ہر چیز بہت سلیقہ، صفائی اور ستھرائی سے رہتی، مرحومہ بھی فطری طور پر بہت ہی سلیقہ مند، مہذب، عبادت گزار اور باوقار تھیں، جس سے سید صاحب کو اپنی زندگی میں بڑی مدد ملتی رہتی، دارالمصنفین کی قلیل آمدنی میں دونوں کی زندگی نہ صرف صاف ستھری بلکہ کیف و سرور سے معمور رہی۔ سید صاحبؒ کے ساتھ بھوپال بھی گئیں، پھر کراچی منتقل ہوگئیں، لیکن آخر وقت تک فرماتی رہیں کہ جو مسرت اور انبساط بھری زندگی دارالمصنفین گزری وہ کہیں اور نہیں ملی۔
اﷲ تبارک و تعالیٰ نے ان کو چار بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا، سید صاحب کی پہلی اہلیہ محترمہ مرحومہ سے ایک بیٹا ابو سہیل خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں، مرحومہ اپنی محبت بھری وضعداری میں جب کبھی کوئی خط لکھتیں تو آخر میں والدہ ابو سہیل ہی لکھ کر اس کو ختم کرتیں، ان کے فرزند ارجمند عزیزی ڈاکٹر سلمان ندوی نے اپنا نام علمی دنیا میں اونچا کیا ہے، لیکن عالی ظرفی میں والدہ سلمان لکھنے کے بجائے زیادہ تر والدہ ابو سہیل ہی لکھنا پسند کرتیں۔
وہ اپنی تمام اولاد کو اپنی زندگی میں آباد، خوش اور خرم دیکھ کر اس دنیا سے رخصت ہوئیں، اپنے نواسے، نواسیوں اور پوتی کی زندگی کی بہاریں بھی دیکھیں، ایک خوش نصیب ماں کی حیثیت سے اس دارفانی سے رخصت ہوئیں، البتہ اپنے اور ہر دلعزیز شوہر کی وفات کے بعد تقریباً ۳۴ سال بیوگی کی زندگی گزاری، مگر ان کی یادوں کی جوت جگا کر ہر طرح شاکر رہنے کی کوشش کی، ان کی وفات کے ۱۶ برس کے بعد حکومت پاکستان نے ان کے لئے ایک وظیفہ مقرر کردیا تھا، یہ کوئی بڑی رقم نہ تھی، مگر قناعت، توکل، صبر اور رضا کو اپنی نسوانی زندگی کا زیور اور ہنسی خوشی کے موتیوں کو اپنے گلے کا ہار بناکر بچوں کے ساتھ اپنی زندگی گزاری۔
یہ راقم ۱۹۳۵؁ء سے ان کی زندگی کے آخری لمحات تک ان کی مخلصانہ شفقت کی تسنیم سے سیراب ہوتا رہا، ایک ماں کی مہرومحبت کی جتنی ضیاء باری ہوسکتی ہے، وہ ایک حقیقت بن کر میری زندگی کے ذرہ ذرہ میں چمکتی رہی، میری جوانی ایک اندوہ ناک سانحہ سے بالکل برباد اور تباہ ہونے کو تھی، لیکن انھوں نے دستگیری کی، اور اس کو سنوار کر ازسرنو بسر کرنے میں فرشتۂ رحمت بن گئیں، ۱۹۵۵؁ء سے کراچی برابر جاتا رہا ہوں، یہ شہر میری نگاہوں میں اس لیے جاذب ہے کہ یہیں استاذی المحترم کا مزار پر انوار ہے، پھر جب وہاں پہنچ کر مرحومہ کی خدمت میں حاضر ہوتا، تو ایسا معلوم ہوتا کہ مہر مادری کی مہتابی چھٹکی ہوئی ہے، اور میں گلشن محبت کی خوشبوؤں سے معطر ہورہا ہوں، گزشتہ مہینہ پاکستان کے سفر میں ۳؍ جولائی ۱۹۸۷؁ء کو ان کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہ اپنی تشویش ناک علالت کی وجہ سے نیم بے ہوشی کے عالم میں تھیں، ان کی آنکھ کھلیں تو پہچانا، ہاتھ پکڑ کر بولیں بیٹا! اچھا ہوا تم آگئے، آخری ملاقات ہوگئی، اب دنیا سے رخصت ہورہی ہوں، ان پر موت کا کوئی ہراس طاری نہ تھامجھ کو دیکھ کر ان کی اگلی سی توانائی آگئی، زندگی کی بزم رفتہ کی کہانی شروع کردی، اس وقت ایسا معلوم ہوا کہ وہ قضاء کی دلہن بنی ہوئیں ہیں، ۱۶؍ جولائی تک ان کی عیادت کے لئے برابر حاضر ہوتا رہا۔
حضرت سید صاحبؒ کی سیرۃ النبیؐ جلد ہفتم پر پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے ایک لاکھ روپے کے انعام کا اعلان کیا تھا، حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی نے یہ طے فرمایا تھا کہ اس میں سے ۵۰ ہزار روپے کی رقم مرحومہ کی خدمت میں پیش کی جائے، اور بقیہ ۵۰ ہزار دارالمصنفین کو ملے، کوشش تھی کہ یہ رقم مرحومہ کی زندگی میں ان کے پاس پہنچ جائے، ان کو کم از کم یہ تسلی ہوکہ ان کو بھی اپنے نامور شوہر کی علمی ناموری سے کچھ نہ کچھ مادی اور مالی فائدہ پہنچا، مگر یہ رقم ان کے پاس اس وقت پہنچی، جب وہ کائنات کی ساری دولت سے بے نیاز ہوچکی تھیں۔
حضرت سید صاحب کے روحانی خلیفہ جناب مولانا غلام محمد نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:
’’وقعت الواقعۃ [الواقعۃ:۱]کل بروز پنج شنبہ ۲۶، ذی قعدہ ۱۴۰۷؁ھ؍ ۲۳، جولائی ۱۹۸۷؁ء کو صبح کے ٹھیک ۷بجے علیا پیرانی صاحبہ رحلت کرگئیں، بڑے سایۂ شفقت اور بڑی دعاؤں کی پشت پناہی سے ہم سب محروم ہوگئے، اﷲ تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت کرے، اور درجات عالیہ عطا فرمائیں، آخری وقت تک وہی بے ہوشی کی سی کیفیت رہی، نماز جنازہ جامع مسجد بیت المکرم گلشن اقبال میں نماز عصر کے فوراً بعد پڑھی گئی، امامت کی سعادت سلمان میاں اور سب اہل خانہ کے اصرار پر راقم حقیر ہی کے حصہ میں آئی، ماشاء اﷲ! پیرانی صاحبہ پر سکینت کا یہ عالم تھا کہ جیسے ہی جنازہ کے قریب آیا، محسوس ہوا کہ کسی نے میرے سینہ میں برف رکھ دی، جنازہ میں اہل اخلاص و محبت کا خاصا اجتماع رہا، مولانا ناظم ندوی، پروفیسر فخرالحسن، حاجی علی محمد صاحب، مولانا عبدالشکور، جناب نومی والا اور آپ کے داماد ڈاکٹر راشد مصطفےٰ وغیرہ شریک تھے، بیت المکرم کے وسیع رقبہ میں سات بڑی صفیں ہوگئی تھی، الحمدﷲ ریڈیو پر بھی اطلاع نشر ہوئی، اخباروں میں بھی خبر چھپی، گورنر سندھ اور عمائدین حکومت کی طرف سے اخبارات میں تعزیتی بیانات چھپے، ملک پلانٹ سے متصل قبرستان میں ایک صاف ستھری جگہ پر ایک نیم کے سایہ دار درخت کے نیچے مرحومہ کی ابدی خواب گاہ بنی ہے۔ رحمہما اﷲ تعالیٰ رحمۃ دائما۔ یوں تو گھر کا ہر فرد و فور غم میں مبتلا تھا، مگر میری اہلیہ بتارہی تھیں کہ منجھلی اور چھوٹی صاحبزادیوں کا حال بہت ہی برا تھا، مگر ہمت سے کام کررہی تھیں، پیرانی صاحبہ کو غسل خود صاحبزادی نے اپنے ہاتھوں سے دیا، ماں کی کیسی خوش نصیبی اور بیٹیوں کی کتنی بڑی سعادت اندوزی ہے‘‘۔
وہ وہاں جاچکیں، جہاں ایک روز سب کو جانا ہے، اپنے جلیل القدر شوہر کی ناموس اور عظمت کو اپنی بیوگی میں جس زہدو عبادت سے برقرار رکھا، پھر جس سے ملیں اس کو اپنی بزرگانہ محبت سے جس طرح سرشار اور اپنے پیچھے اپنے آن بان کی جو روایتیں چھوڑ گئی ہیں، ان کی یادوں کی شمع روشن کرکے، ان کی اولاد ان کی خوبیوں کے جلووں سے اپنی خلوتیں آباد کرتی رہے گی، ان کے جاننے اور ملنے والوں میں کون ہے، جو یاد کرکے سوگوار نہ ہوگا، میرے لیے ان کی یاد کی بے کلی مخزن تسکین بنی رہے گی، حضرت سید صاحب کے سایہ عاطفت اور مرحومہ کی شفقت مادری کے جلو میں دارالمصنفین کے احاطہ کی زندگی میں جو کشش، یہاں کی جو دلکشی، یہاں کی شام میں جو دل فریبی اور یہاں کی رات میں جو دل افروزی پائی، ان کی یادوں کے غم کو آغوش میں چشم اشک آگیں کے ساتھ بقیہ زندگی گزرے گی، دعا ہے کہ سیرۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاک طینت اور پاک صفات مصنف کی شریک حیات کی تربت کو اﷲ جل شانہ اپنی رحمتوں اور برکتوں کے پھولوں سے ہمیشہ نکہت بیز رکھے، آمین ثم آمین۔
کُلُ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ وَیبْقٰی وَجْہُِ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاکْرَام۔ [الرحمن:۲۶۔۲۷ ]
(صباح الدین عبدالرحمن، اگست ۱۹۸۷ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...