Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > سید صباح الدین عبدالرحمن

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

سید صباح الدین عبدالرحمن
ARI Id

1676046599977_54338258

Access

Open/Free Access

Pages

468

آہ! سید صباح الدین عبدالرحمن!!
مسند شبلی و سلیمان اجڑ گئی
جناب سید صباح الدین عبدالرحمن ناظم دارالمصنفین و اڈیٹر معارف ہم سب کو چھوڑ کر اب خدائے رحمان کے آغوش رحمت میں چلے گئے، گذشتہ ماہ ۱۸؍ نومبر کو ٹیلیفون اور ریڈیو سے دن میں دو ڈھائی بجے کے درمیان ان کی المناک شہادت کی خبر دارالمصنفین میں بجلی بن کر گری اور ان کے متعلقین و وابستگان دارالمصنفین کی امیدوں اور آرزوؤں کے خرمن کو خاک و سیاہ کرگئی، مولانا سید سلیمان ندویؒ، مولانا عبدالسلام ندویؒ اور مولانا شاہ معین الدین احمد ندویؒ کے بعد دارالمصنفین کی بزم علم و ادب اسی چراغ سے روشن تھی لیکن افسوس کہ باد حوادث کے جھونکوں نے اسے بھی گل کردیا:
صبح تک تو نے نہ چھوڑی وہ بھی اے باد صبا
یادگار گل شمع تھی کل تک جو پروانے کی خاک
وہ بالکل ٹھیک تھے، ۱۰؍ نومبر کو لکھنؤ روانہ ہونے سے پہلے فجر بعد ہی مجھے نومبر کے معارف کے شذرات دیے اور ۹ بجے دن میں انھیں کاتب کے حوالے کرنے کی تاکید کی اور عین روانگی کے وقت فرمایا کہ ۱۹؍ نومبر کے بعد واپس ہوں گا، میں ان کی مشایعت کے لیے ان کے پیچھے ہوگیا تو مڑکر میری جانب دیکھا اور فرمایا کہ بیٹھیے! میں نے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو انھوں نے مصافحہ کرتے ہوئے خدا حافظ کہا اور آگے بڑھ گئے، میری طبیعت نہ مانی اور میں ان کو رخصت کرنے کے لیے پھاٹک تک گیا، وہاں دوسرے رفقاء اور وابستگان دارالمصنفین بھی ان کو رخصت کرنے کے لیے پہلے سے موجود تھے، سب سے رخصت ہوکر وہ رکشہ پر بیٹھ کر روانہ ہوگئے، ۲۰؍ نومبر کو جمعہ تھا، جمعہ چھوٹ جانے کے اندیشہ سے وہ اس دن سفر نہیں کرتے، اس لیے خیال تھا کہ ۲۱؍ نومبر کو واپس تشریف لائیں گے مگر کیا معلوم تھا کہ دارالمصنفین کے افق علم پر مسلسل باون برس سے چمکنے والا سورج اب غروب ہونے والا ہے اور اس عالم ناسوت میں ہم اس کی دید سے محروم ہوجائیں گے۔
۱۸؍ نومبر کو ناشتہ سے فارغ ہوکر وہ ندوۃ العلماء سے اپنے عزیز وہم وطن جناب سید شہاب الدین دسنوی کے ہم راہ مولانا مفتی محمد رضا انصاری سے ملنے کے لیے ان کے دولت کدہ پر جارہے تھے مگر ڈالی گنج کے پل ہی پر جان لیوا حادثہ پیش آگیا۔ دسنوی صاحب فوراً انھیں مڈیکل کالج لے گئے مگر ڈاکٹر نے بتایا کہ اﷲ کو پیارے ہوچکے ہیں، وہ نہ بیمار پڑے، نہ سکرات الموت کی شدتیں جھیلیں، نہ کسی سے کوئی بات کی اور نہ کسی کو اپنی خدمت کا کوئی موقع دیا، بلکہ اپنے مستقر سے دوری اور عزیزوں سے مجبوری کے عالم میں جان جان آفریں کے سپرد کردی اور دارالمصنفین کے درودیوار کو روتا اور تڑپتا ہوا چھوڑ گئے، یہ ان کی خوش نصیبی تھی کہ لکھنؤ میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ نے ان کے جنازہ کی نماز پڑھائی، رات ہی میں نعش دارالمصنفین پہنچی اور دس بجے دن میں ان کی وصیت کے مطابق مسجد کے سامنے علامہ شبلیؒ کے پہلو میں ان کی تدفین ہوئی، ان کو علامہ شبلیؒ اور مولانا سید سلیمان ندویؒ سے والہانہ تعلق تھا، ان کے خلاف ایک لفظ سننا پسند نہ کرتے تھے، اور اگر کوئی ان کے خلاف کچھ لکھ دیتا تھا تو وہ ہمیشہ کے لیے ان کی نگاہ میں گرجاتا تھا، وہ ان سے بڑا کسی کو ادیب، انشاء پرداز، محقق اور مصنف ماننے کے لیے تیار نہ ہوتے تھے، یہ عجیب اتفاق ہے کہ مولانا شبلیؒ ہی کی طرح ان کے اس عاشق و شیدائی کی وفات بھی اسی چہار شنبہ ۱۸؍ نومبر کو ہی ہوئی اور وہ ان ہی کے پہلو میں دفن بھی ہوا ع پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
وہ ۱۹۱۱؁ء میں صوبہ بہار کی اس مردم خیز بستی دیسنہ میں پیدا ہوئے جس کو ان کے استاد محترم مولانا سید سلیمان ندویؒ کے مولد ہونے کا شرف حاصل ہے، ان کی ولادت سے قبل ہی ان کے والد جناب سید محی الدین کا انتقال ہوچکا تھا اور سات برس کے ہوئے تو والدہ ماجدہ بھی اﷲ کو پیاری ہوگئیں، مگر ان کے دوسرے عزیزوں کی پرورش و پرداخت نے انھیں کبھی اپنے یتیم ہونے کا احساس نہ ہونے دیا، ان کے خاندان میں کئی پشتوں سے انگریزی تعلیم کا رواج تھا، اس لیے انھوں نے بھی انگریزی تعلیم شروع کی اور پٹنہ یونیورسٹی سے بی۔اے اور ایم۔اے کیا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ٹریننگ کالج سے بھی ڈگری لی، اور جامعہ ملیہ میں بھی کچھ مدت گزاری، پھر مولانا سید سلیمان ندویؒ کی نگاہ انتخاب ان پر پڑی اور ۱۹۳۵؁ء میں وہ دارالمصنفین آگئے، یہاں تصنیف و تالیف کے کام سے ایسی دلچسپی اور مناسبت پیدا ہوئی کہ مرنے کے بعد ہی اس سے تعلق منقطع ہوا، ان کی غیر معمولی صلاحیت و قابلیت کی وجہ سے ناممکن تھا کہ کوئی ادارہ، یونیورسٹی اور انسٹی ٹیوٹ ان کا خیر مقدم نہ کرتا، جب کبھی بیش قرار تنخواہوں اور بڑے عہدوں کی پیشکش کی گئی تو انھوں نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ:
بردایں دام برمرغ دگرنہ کہ عنقارا بلند است آشیانہ
کیا کیا انقلابات رونما ہوئے، مشکلات اور دشواریاں بھی پیش آئیں، کتنے رفقاء آئے اور گئے، مگر وہ ثبات و استقلال کی چٹان بنے رہے اور دارالمصنفین کے قلیل مشاہرہ پر قانع ہوکر اسی سے وابستہ اور علم و فن کی خدمت پر خوش و خرم رہے، اﷲ تعالیٰ نے ان کے اس ایثار و قربانی کا صلہ دیا، مرکزی حکومت نے ان کے علم و فضل کا اعتراف فارسی میں سند اور خلعت عطا کرکے کیا، اس سلسلہ میں ان کو پانچ ہزار سالانہ وظیفہ ملتا تھا، ان کو دوسرے ایوارڈ بھی ملے، بعض اداروں اور اردو اکیڈمیوں نے بھی ان کی قدردانی کی۔وہ جب دارالمصنفین تشریف لائے تو یہ اس کے عروج و شباب کا زمانہ تھا، اس وقت اس کے سپہر علم و ادب پر مولانا سید سلیمان ندویؒ آفتاب اور مولانا عبدالسلام ندویؒ ماہتاب بن کر ضوفشاں تھے، ان کے گرد مختلف سیارے بھی حلقہ زن ہوکر اپنی چمک دمک دکھا رہے تھے، سید صباح الدین صاحب نے بھی ان سیاروں میں شامل ہوکر اپنا علمی سفر شروع کیا، اور تاریخ ہند کو اپنا خاص موضوع بنایا، انھوں نے اس کا ایسا گہرا مطالعہ کیا کہ اس کے ماہر اور اتھارٹی ہوگئے اور اس میں مضامین و تصنیفات کا انبار لگا دیا، تصوف، شعر و ادب اور تنقید و تحقیق کے میدان میں بھی ان کا اشہب قلم رواں دواں رہتا تھا، بالآخر وہ دارالمصنفین کے سربراہ شبلی و سلیمان کی مسند پر متمکن ہوئے تو انھوں نے اس کا بھی اپنے کو پوری طرح اہل ثابت کردیا اور دارالمصنفین کی گذشتہ علمی عظمت اور قدیم روایات کو برقرار رکھنے میں اپنی ساری صلاحیتیں اور توانائیاں صرف کردیں اور اپنی سعی بلیغ سے دارالمصنفین کے معیار و وقار، اس کی نفاست و آرائش اور خوش انتظامی اور خوش سلیقگی میں کوئی فرق محسوس نہ ہونے دیا۔
دارالمصنفین کے علمی پروگرام میں ہندوستان کی تاریخ کا سلسلہ بھی شامل تھا، یہ کام یہاں کے دوسرے رفقاء و مصنّفین نے بھی انجام دیا، لیکن سید صباح الدین صاحب نے ہندوستان کے عہد وسطیٰ اور مسلمانوں کے دور حکومت کے گوناگوں پہلوؤں پر جو محققانہ اور مہتم بالشان کام انجام دیا، اس کی مثال اردو لٹریچر میں مشکل ہی سے ملے گی، انھوں نے سلسلۂ تاریخ ہند کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے متعدد جلدیں لکھیں جو ان کے گہرے علم و مطالعہ کا نچوڑ ہیں، ہندوستان کے مملوک اور تیموری سلاطین کی رزمیہ داستانیں تو تمام ہی مورخین سناتے رہے ہیں مگر ان کے علمی و ادبی کارناموں کو نمایاں کرنے اور علوم و معارف کی بزم آراستہ کرنے کا سہرا ان کے سر ہے، دارالمصنفین کے سلسلہ تاریخ ہند کا خاص مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے مسلم فرماں رواؤں کے متعلق انگریزوں اور دوسرے فتنہ پرداز مورخین نے جو شبہات اور بدگمانیاں پیدا کردی ہیں ان کو دور کرکے ان کے زریں اور درخشاں کارناموں کو اس طرح پیش کیا جائے کہ ملک کے مختلف فرقوں اور طبقوں میں اتحاد و ہم آہنگی، محبت اور خیرسگالی کے جذبات فروغ پائیں اور تفریق، اختلاف، نفرت، کشمکش اور تصادم کی فضا کو ختم کیا جائے، ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم نے دارالمصنفین کے جشن طلائی کے خطبۂ صدارت میں اس کی تاریخ نگاری کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اس مکتب فکر کے مصنفوں نے جہاں کہیں اسلامی تہذیب کے تعلقات قدیم یونانی، ایرانی، ہندی تہذیب سے دکھائے ہیں وہاں فصل کے بجائے وصل کے پہلو کو ابھارا ہے اور قصۂ سکندر دارا سنانے پر حکایت مہر و وفابیان کرنے کو ترجیح دی ہے․․․․․ جب کہ ہمارے اکثر مورخ قرون وسطیٰ کے ہندوستان کو ایک سحر طوفان خیز بناکر پیش کرتے تھے جس میں اسلامی تہذیب اور ہندو تہذیب کے دھارے ایک دوسرے سے الجھتے اور ٹکراتے رہتے تھے، دارالمصنفین کے مورخوں نے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ ان دونوں کا ملنا تصادم نہیں بلکہ امتزاج ’’سنگھرش نہیں بلکہ سنگم تھا‘‘، انھوں نے تصانیف کے علاوہ اپنے مضامین اور معارف کے شذرات میں بھی ملک کی وحدت و سالمیت کو برقرار رکھنے، یہاں کی مختلف قوموں میں میل جول اور اتحاد و یک جہتی کو قائم رکھنے اور تصادم، نفرت بعد اور بیگانگی کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
انھوں نے تصوف کا گہرا مطالعہ کیا تھا، اس میں ان کی علمی نظر وسیع تھی، وہ اس کی تاریخ، اکابر صوفیہ کے حالات و واقعات، ان کے اقوال و ملفوظات اور ان کے سلاسل سے بخوبی آگاہ تھے، ان مسائل پر جب گفتگو کرتے تو ان کی باخبری کا پورا اندازہ ہوتا، ہندوستان کے صاحب تصانیف اور اکابر صوفیہ پر ایک ضخیم کتاب لکھ کر ان سے محبت و عقیدت کا حق بھی ادا کیا ہے، صوفیہ اور علمائے ربانی کے خلاف اگر ناروا اعتراضات کیے جاتے تو ان کا بہت مدلل جواب دیتے، جب ایک انگریزی کتاب ’’سولہویں صدی میں شمالی ہند میں مسلمان مجددوں کی تحریکیں‘‘ شائع ہوئی جس کا اصل مقصد حضرت مجدد الف ثانیؒ کے خلاف زہر افشانی کرنا تھا تو اس کا معارف کے کئی نمبروں میں محققانہ جواب لکھا جس کو علمی حلقہ میں بہت پسند کیا گیا، تصوف کے بعض مراکز سے بھی ان کا رابطہ تھا، اپنے وطن جاتے تو پھلواری کے مشہور علمی و دینی خانوادے کے بزرگوں سے ملتے، وہ ان کے سلسلہ کے بعض اذکار و اشغال کے پابند بھی تھے، مولانا سید ابوالحسن ندوی سے ہمیشہ ہی تعلق رہا، ان کی معیت میں شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ کی خدمت میں بھی تشریف لے گئے اور ان سے باقاعدہ بیعت ہوئے۔
شعر و ادب، تحقیق و تنقید سے بھی ان کو شغف رہا، ابتدا ہی میں انجمن ترقی اردو سے دیوان فغاں مرتب کرکے اپنے مقدمہ کے ساتھ شائع کیا، بزم تیموریہ اور بزم مملوکیہ بھی ان کے ادبی و تحقیقی ذوق کا ثبوت ہیں، ’’غالب مدح و قدح کی روشنی میں‘‘ لکھ کر اپنی تنقیدی بصیرت کا ثبوت دیا، اقبال کے افکار و نظریات اور فلسفہ شاعری پر بڑے باوزن مضامین لکھے اور مختلف اردو شعراء کے کلام پر بھی ان کی نگارشات معارف میں شائع ہوئیں، فارسی شعر و ادب پر ان کی اچھی اور گہری نظر تھی، امیر خسرو ان کے محبوب شعراء میں تھے، ان پر کئی کتابیں لکھیں جو آج علمی و تحقیقی کام کرنے والوں کا اچھا ماخذ ہیں۔
وہ برابر سفر بھی کرتے رہتے تھے، لیکن ان کے اکثر سفر علمی ہوتے تھے، مختلف علمی و ادبی انجمنوں اور تعلیمی و تحقیقی اداروں کے ممبر تھے، آئے دن علمی مذاکروں، اہم کانفرنسوں اور بین الاقوامی سمیناروں کے دعوت نامے ان کو موصول ہوتے تھے، ہندوستان اور پاکستان کے مختلف علاقوں کے علاوہ لندن اور امریکہ کے سمیناروں میں بھی شریک ہوئے، ان کی شرکت سے علمی جلسوں کی رونق بڑھ جاتی اور سمیناروں میں جان پڑجاتی تھی، جب بحث و مباحثہ میں حصہ لیتے تو سب پر چھا جاتے، اس وقت ان کی گل افشانی گفتار دیکھنے کے لایق ہوتی، تحریر و تقریر دونوں کشوروں میں یکساں ان کا سکہ رواں تھا، وہ جب کسی علمی کانفرنس کی روداد معارف میں لکھتے تو وہ اس قدر جامع، مکمل، موثر اور دلچسپ ہوتی کہ پڑھنے والا محسوس کرتا کہ وہ خود اجلاس میں شریک ہے، خود ان کے زیر اہتمام دارالمصنفین کی گولڈن جبلی منائی گئی، آل انڈیا اسلامک اسٹڈیز کانفرنس ہوئی اور ’’اسلام اور مستشرقین‘‘ کے موضوع پر ایک بین الاقوامی سمینار منعقد ہوا جن میں ملک و بیرون ملک کے علماء و دانشور، اسلامی ملکوں کے سفراء اور ارباب دول اور ارکان حکومت بھی شریک ہوئے، اور یہ ساری تقریبات بخیر و خوبی انجام پائیں اور ہر اعتبار سے کامیاب رہیں۔
۳۵؁ء ہی سے معارف میں ان کے مضامین نکلنے لگے جن کا سلسلہ آخر دم تک قائم رہا، اس عرصہ میں گوناگوں مسائل و مباحث پر انھوں نے جو کچھ لکھا وہ لطف و لذت سے پڑھا گیا، اپنے احباب اور معاصر مشاہیر و فضلاء کی رحلت پر جو غم ناک اور اثر انگیز مضامین لکھے وہ سب ان کے مخصوص اور دلچسپ طرز تحریر کی وجہ سے مقبول ہوئے، جن کے دو مجموعے بھی چھپ چکے ہیں، معارف میں نکلنے والے ان کے شذرات بھی بہت پسند کیے جاتے تھے، کبھی کبھی ان میں بعض ایسے سلسلہ وار مضامین لکھے جو مستقل رسالہ کی حیثیت رکھتے ہیں، چودہویں صدی کے اختتام اور پندرہویں صدی کے آغاز کی مناسبت سے جو شذرات لکھے وہ دراصل گذشتہ صدیوں کی ملی تاریخ کا مرقع اور مسلمانوں اور ان کی حکومتوں کے عروج و زوال کی داستان ہے، ’’بابری مسجد‘‘ کی داغ بیل بھی معارف کے شذرات ہی میں پڑی تھی، اس کتاب میں نہایت محنت، جانفشانی، تلاش اور تحقیق سے تمام واقعات و حقائق کو بے کم وکاست پیش کیا گیا ہے، اور یہ اس موضوع پر مستند وثیقہ اور معتبر علمی و تاریخی دستاویز ہے۔
ان میں غیر معمولی قوت عمل تھی اور وہ دھن اور ارادے کے بڑے پکے تھے، جس کام کا بیڑا اٹھا لیتے اسے پایۂ تکمیل تک پہنچائے بغیر دم نہ لیتے تھے، تھکنا، ہمت ہارنا اور گھبرانا جانتے ہی نہ تھے، مسلسل محنت کرتے اور شب و روز علمی اشغال میں لگے رہتے، لکھنے پڑھنے بیٹھ جاتے تو اٹھنے کا نام نہ لیتے، سفر میں بھی ان کا علمی انہماک جاری رہتا، دفتری و انتظامی امور کو بھی بڑے شوق اور دلچسپی سے انجام دیتے تھے، دارالمصنفین کے نازک اور پیچیدہ مسائل میں الجھے رہنے اور سراسر غیر علمی کاموں میں لگے رہنے کے باوجود ان کے نشاط اور تازگی میں کمی نہ آتی تھی اور اس کے بعد بھی وہ پوری دلجمعی سے کاموں میں مشغول ہوجاتے، بڑھاپے میں بھی وہ جس قدر شوق و محنت سے دارالمصنفین کے علمی و انتظامی کاموں کو انجام دیتے تھے، اسے دیکھ کر جوانوں کو رشک ہوتا تھا، ان کو قدرت نے علمی ذوق کے ساتھ انتظامی سلیقہ بھی بخشا تھا، یہ دونوں متضاد اوصاف کم ہی لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔
ملک کی تقسیم کے بعد دارالمصنفین موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہوگیا تھا، مولانا سید سلیمان ندوی جاچکے تھے، اور مولانا مسعود علی ندوی حالات کی شدتوں سے بددل اور اپنی علالت اور پیرانہ سالی کی وجہ سے معذور ہوگئے تھے، ایسے نازک دور مین ان کی مخفی صلاحیتیں وفعتہ بیدار ہوگئیں، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی نے انھیں سراپا متحرک و سرگرم عمل بنادیا اور وہ دارالمصنفین کے بچانے سنبھالنے اور اس کی ساکھ کو باقی رکھنے میں کامیاب ہوگئے، اس کی علمی سرگرمیاں بھی بدستور جاری رہیں اور تعمیری و انتظامی کام بھی خوش اسلوبی سے انجام پاتے رہے، شاہ صاحب کی وفات کے بعد سارا بوجھ تنہا ان کے کندھوں پر آگیا مگر وہ تازہ دم رہے اور ان کا حوصلہ پست نہ ہوا، ان کی دماغ سوزی نے دارالمصنفین کا لہوگرم رکھا اور وہ علمی، انتظامی اور تعمیری لحاظ سے ترقی کرتا رہا، انھوں نے اس کو مالی حیثیت سے بھی مضبوط و مستحکم رکھا۔
وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے، سنن و نوافل بھی التزام سے ادا کرتے، روزانہ کلام پاک کی تلاوت ضرور کرتے، سفر میں بھی اس میں ناغہ نہ ہوتا، عمرہ اور خانہ کعبہ کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے تھے، ان کی نجی زندگی صاف ستھری اور پاکیزہ تھی، طبیعت میں شرافت، مروت، لینت اور دلنوازی تھی، ان میں مذہبی و دینی حمیت اور قومی و ملی غیرت بھی تھی، ملت کے افتراق و انتشار اور تحزب کو سخت ناپسند کرتے تھے، مسلمانوں کی نئی نسل کی دینی تعلیم سے محرومی اور اردو زبان سے ناواقفیت پر اکثر اظہار افسوس کرتے، کسی کو تکلیف میں دیکھتے تو پریشان ہوجاتے، ان کی سعی و سفارش سے بہت سے لوگوں کے کام ہوگئے اور انھیں ملازمت اور وظائف مل گئے، طلبہ اور ریسرچ اسکالروں کو ان کی ذات سے بڑا فیض پہنچتا تھا، ان میں ضبط و تحمل اور عفو و حلم تھا، باوجود قدرت کے نہ کسی سے انتقام لیتے اور نہ اسے نقصان پہنچاتے، مہمانوں کی ضیافت میں ان کو خاص لطف ملتا تھا، دارالمصنفین میں جب کوئی مہمان آتا تو بہت خوش ہوتے اور اس کے آرام وراحت کا پورا خیال کرتے۔
ان کی وفات دارالمصنفین کے لیے واقعی جانکاہ حادثہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے، وہ اس وقت جس آزمائش میں مبتلا ہے، اس میں ان کی رہنمائی اور سربراہی کی بڑی احتیاج تھی، مگر مصلحت خداوندی کو کون جانتا ہے، وہ عمر طبعی کو ضرور پہنچ گئے تھے مگر ان کی قوت کار، جوش عمل، قلم کی تازگی و شگفتگی اور تحریر کی رعنائی و دلکشی پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی تھی، اور وہ مزید سرگرمی و جانفشانی سے اس کے علمی و انتظامی کاموں کو انجام دے رہے تھے، ان کی ذات دارالمصنفین کے لیے بڑا سہارا تھی، آج دارالمصنفین کا چپہ چپہ ان کی جدائی پر اشکبار اور ماتم گسار ہے۔
بارالٰہا! اپنے اس نیک بندہ اور دارالمصنفین کے بے لوث خدمت گزار کو اپنے دامن رحمت سے ڈھانک لے، اور اس کی تربت کو پرانوار کر۔ اللّٰھمّ صبِّب علیہ شأٰبیب رحمتک و رضوانک یا ارحم الراحمین۔
اے کاروان شبلی کے مسافر الوداع! اے مملکت سلیمان کے تاجدار الفراق!!
(ضیاء الدین اصلاحی، دسمبر ۱۹۸۷ء)

 

سید صباح الدین عبدالرحمن
(ڈاکٹر عبدالمغنی )
علامہ شبلیؒ نے ایک خواب دیکھا، علامہ سید سلیمان ندویؒ نے اس کی تعبیر نکالی، دارالمصنفین قائم ہوگیا۔ اس نے اتنی ترقی کہ علم و ادب کی اجتماعی کوششوں کا ایک نمونہ بن گیا اور اس کی مثال دی جانے لگی۔ کیا تصنیف و تالیف، کیا کتابت و طباعت، دارالمصنفین نے اردو کتب و رسائل کی اشاعت کا ایک معیار دنیا کے سامنے پیش کیا، اس کے مکتبے سے جو کتابیں شائع ہوئیں انھوں نے تاریخ بنائی اور وہ تاریخیں لکھیں جنھوں نے مغرب کی ذہنی دست برد کے مقابلے میں مشرق کے حوصلے بلند کردیئے اور متعدد ان موضوعات کا فیصلہ مشرق کے حق میں کردیا جن کے متعلق اہل مغرب کے اس کم علم و کم نظر طبقے نے جسے مستشرقین کہا جاتا ہے طرح طرح کی غلط فہمیاں دانستہ یا نادنستہ بلکہ دونوں طورپر خود اہل مشرق کے جدید تعلیم یافتہ افراد کے درمیان پیدا کردی تھیں۔ چنانچہ ان افراد نے دارالمصنفین کے اس عظیم الشان کارنامے کا احسان مانا اور برملا اس کا اقرار کیا، اپنے وقت کے سب سے بڑے مغربی تعلیم یافتہ، ڈاکٹر علامہ سید سلیمان ندویؒ کو جوئے اسلام کا فرہاد بھی کہا اور خیام پر ان کی تصنیف کو اپنے موضوع پر تمام مباحث کا خاتم بھی قرار دیا۔
دارالمصنفین اعظم گڑھ اس لحاظ سے بھی منفرد و ممتاز ہے کہ اسے مصنفین ہی نے قائم کیا، اور ترقی دی، جب کہ عام طورپر ایسا ادارہ یا تو کسی حکومت کی سرپرستی میں چلتا ہے یا سرمایہ داروں کے بل پر۔ پھر یہ ادارہ ایک غلام ملک اور سامراجی دور میں تشکیل پاکر اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گیا۔ اس کا ارتقاء وقت کے عام رجحان کے خلاف ہوا اور اس نے رجحان زمانہ کو بدل دیا۔ علمی سطح پر یہ ایک بے نظیر انقلاب آفرینی تھی جو عہد آفرین ثابت ہوئی۔ وقعہ یہ ہے کہ بیسویں صدی میں سیاسی، معاشی اور صنعتی تقاضوں کے برخلاف مشرق کی محیرالعقول نشاۃ ثانیہ کا ایک اہم ترین نشان دارالمصنفین اعظم گڑھ ہے، لیکن برصغیر کی آزادی اور تقسیم کے وقت اس کی بقا ایک سوالیہ نشان بن گئی۔ اس بحرانی دور میں اس کے بانی علامہ سید سلیمان ندوی، اس کے تحفظ کا ابتدائی سامان کر کے دنیا سے رخصت ہوگئے اور ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا جس کا پر کرنا محال نظر آنے لگا۔
اس امر محال کو ممکن بنانے کے لیے سب سے پہلے مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی مرحوم سامنے آئے اور کتابوں کی اشاعت سے ’’معارف‘‘ کی ادارت تک انھوں نے دارالمصنفین کی مسلسل زندگی اور ترقی کی توقعات پیدا کیں۔ لیکن وہ بھی جلد دنیا سے رخصت ہوگئے اور یہ سوال پھر پیدا ہوگیا کہ اب کیا ہوگا۔ کون جانشین ہوگا اور طوفان حوادث میں کشتی کی ناخدائی کر کے اسے ساحل مقصود کی طرف کون لے جائیگا؟ جناب سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم اس سوال کا جواب بن کر سامنے آئے۔ وہ اپنے پیش رودوں کی طرح سند یافتہ عالم دین اور عربی و فارسی تو کیا، اردو کے بھی فارغ التحصیل نہیں تھے، انھوں نے پٹنہ یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم۔اے کیا تھا۔ علامہ سید سلیمان ندوی کے ہم وطن تھے اور ان کے زیر تربیت تصنیف و تالیف میں مشغول لیکن جب انھوں نے معارف کی ادارت سنبھالی اور ا س کے شذرات لکھنے لگے تو محسوس ہوا کہ دارالمصنفین کا آسمان ابھی ستاروں سے خالی نہیں ہوا۔
ایک طرف بزم تیموریہ سے بزم صوفیہ تک جناب سید صباح الدین عبدالرحمن کی تصنیفات و تالیفات اور دسری طرف ان کے قلم سے ہر ماہ نکلنے والے معارف کے شذرات نے اردو دنیا کو یقین دلا دیاکہ نہ تو شبلیؒ کا خواب گم ہوا ہے، نہ سید سلیمان ندویؒ کی تعبیر ختم ہوئی ہے، نہ شاہ معین الدین احمد ندوی کی کوششیں رائیگاں گئی ہیں۔ چنانچہ دارالمصنفین کا نظام شمسی اب سید صباح الدین عبدالرحمن کی ذات سے وابستہ ہوکر گردش کرنے لگا۔ ماہ و سال گزرتے رہے، بیسویں صدی اپنی آخری دہائی کی طرف بڑھتی رہی اور دارالمصنفین اپنے منصوبہ و مقدر کی تعمیل و تکمیل کرتا رہا۔ اس عظیم الشان ادارے کا وقار برقرار رہا۔ اس کی سرگرمیاں جاری رہیں، اس کی خدمات کا تسلسل قائم رہا۔
پچھلے دس ۱۰ سال میں راقم السطور کو مرحوم سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع بار بار اور مختلف جہتوں سے ملا۔ اکثر و بیشتر ان سے ملک کے علمی و ادبی جلسوں میں ملاقاتیں ہوتی رہیں اور بعض وقت تھوڑی دیر کے لیے ساتھ سفر کرنے کا اتفاق بھی ہوا۔ اس کے علاوہ جب کبھی وہ پٹنہ آئے یا یہاں سے گزرے تو بالعموم ملے۔ اور بارہا دیر تک ساتھ رہے، باتیں کیں بحثیں کیں، کچھ معاملات کے سلسلے میں ان کے خطوط بھی آتے رہے خاکسار کے چند مضامین معارف میں شائع کیے اور خاص کر اس کی دوکتابوں پر مسبوط تبصرے کیے جن میں ایک ’’اقبالؔ کا نظام فن‘‘ پر پورا تنقیدی مقالہ بن گیا۔ جس میں بہت زیادہ توصیف و تحسین کے ساتھ کچھ ’’چھیڑ چھاڑ‘‘ بھی تھی، لیکن جب اس چھیڑ کا قدرے مفصل جواب مصنف نے دیا تو ایک مکتوب میں مدیر معارف نے ایسے تفہیم کی کہ اشاعت پر اصرار نہ کیا جائے۔
ان باتوں سے محسوس ہو کہ جناب سید صباح الدین عبدالرحمان مرحوم ایک بہت حساس، رقیق القلب، مخلص اور گرم جوش انسان ہیں۔ بزرگوں کے نہایت عقیدت مند ہیں اور عزیزوں کے ساتھ حد درجہ شفیق، گفتگو میں اپنا نقطہ نظر پورے زور سے پیش کرتے ہیں۔ اور بعض وقت چبھتا ہوا انداز اختیار کرتے ہیں۔ جس سے محفل میں ایک تاثر پیدا ہوتا ہے اور لوگ اس نکتے کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں جو اٹھایا گیا ہے۔ مرحوم کے مضامین میں ثقاہت اور بشاشت کا وہی امتزاج ہے جو دبستان شبلی کی خصوصیت سمجھی جاتی ہے۔ اس دبستان کے بانی سے مرحوم کی عقیدت ۲؍ ستمبر ۱۹۸۷؁ء کے اس خط سے بھی آشکارا ہے جو راقم السطور کے نام دارالمصنفین میں شبلی کی تنقید نگاری پر تو سیعی لکچر کا دعوت نامہ ہے۔
’’میرا خیال ہے کہ آپ مولانا شبلی بحیثیت نقاد کے موضوع پر مقالہ لکھیں تو زیادہ بہتر ہو، لیکن یہ مقالہ ایسا ہو کہ ایک چھوٹے سے رسالہ میں شائع بھی کیا جاسکے یعنی مختصر نہ ہو۔ پھر یہ واضح رہے کہ دارالمصنفین کا پلیٹ فارم ہوگا۔ اس لیے اس میں کوئی ایسی بات نہ ہو جو مولانا شبلی کی علمی و ادبی شان کے خلاف ہو۔ ظاہر ہے کہ آپ اس کا خود خیال رکھیں گے‘‘۔
جس چیز نے مجھے یہ دعوت قبول کرنے پر آمادہ کہ کیا وہ اقتباس کا آخری جملہ ہے۔ جس سے مکتوب الیہ پر اعتماد اور اس کے ساتھ خلوص کا اظہار ہوتا ہے، ورنہ مرحوم نے مجھ سے خود اپنی آخری ملاقات میں، جو جناب سید شہاب الدین دسنوی کے مکان پر پٹنہ میں ہوئی تھی، بتایا کہ اردو کے ایک بزرگ ترین نقاد شاید ’’مولانا شبلیؒ کی علمی و ادبی شان کے خلاف‘‘ کچھ نہ کہنے کی پابندی پر گویا، اتنے خفا ہوئے کہ انھوں نے دعوت نامے کا جواب نہیں دیا۔ بہر حال، جناب سید صباح الدین عبدالرحمن کے الفاظ۔ مولانا شبلی کے ساتھ ان کی عقیدت میں غلو کے باوجود، اشارہ کرتے ہیں کہ مرحوم نے کس محبت اور محنت کے ساتھ اپنے وقت میں دارالمصنفین اور اس کے مکتبہ فکر کی حفاظت و حمایت اور خدمت کی، پوری نصف صدی تک اپنی تمام ذہنی و جسمانی قوت مشرق کے اس مایہ ناز ادارے کی آبیاری و شادابی پر صرف کرتے رہے اور مر کر بھی اسی کی خاک میں دفن ہوئے۔ یقینا یہ ایک ایسے جنون عشق کا انداز ہے جو اقبالؔ کے لفظوں میں عقل کے چاک بھی سیتا اور کارساز ہوتا ہے۔ اپنے ایسے مجنوں کی رحلت پر دارالمصنفین کا مستقبل ایک بار پھر سوال کررہا ہیـ:
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق؟

لب ساتی پہ مکر رہے صلا میرے بعد!

غالب)
(فروری ۱۹۸۸ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...