Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > جنرل ضیاء الحق

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

جنرل ضیاء الحق
ARI Id

1676046599977_54338266

Access

Open/Free Access

Pages

476

آہ! جنرل ضیاء الحق
گزشتہ مہینہ کا معارف اشاعت کے آخری مرحلہ میں تھا کہ اس اذیت ناک خبر نے ہوش و حواس پراگندہ کردیا کہ پاکستان کے صدر جنرل محمد ضیاء الحق ایک ہوئی حادثہ میں جاں بحق ہوگئے، اِناﷲ وَ اِنا اِلیہ رَاجِعُونْ۔ ان کے ساتھ امریکی سفیر، پاکستانی فوج کے تقریباً ایک درجن اعلیٰ افسر اور دوسرے کئی افراد بھی چشم زدن میں ہلاک ہوگئے، جنرل ضیاء الحق کی اس غیرمتوقع اور اچانک شہادت سے پاکستان میں کہرام مچ گیا، ساری دنیائے اسلام میں ماتم بپا ہوگیا اور ان لوگوں کو بڑا دھکا لگا جو سمجھتے تھے کہ مرحوم دنیا کی امامت کا بارا اٹھانے کے لیے امت مرحومہ کو پھر شجاعت و عدالت کا سبق پڑھنے کی تلقین فرما رہے تھے، وہ ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے تھے، والد کی تربیت اور ماحول کے اثر سے ان میں بھی دینداری اور عقیدہ و عمل کی پختگی رچ بس گئی تھی، جس کا مظاہرہ ان کی ذاتی اور نجی زندگی سے لے کر قومی و بین الاقوامی ہر سطح پر ہوتا رہتا تھا، وہ جس درجہ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے، اسی درجہ ان کی زندگی اور سیرت پاکیزہ تھی، وہ دن میں امور مملکت کی گھتیاں سلجھاتے اور رات کا آخری پہر تسبیح و تہلیل، دعاء و مناجات اور توبہ و استغفار میں گزارتے اور رمضان المبارک کے آخری ایام حرمین شریفین کے لیے وقف رکھتے ؂
تجھ سے ہوا آشکار بندۂ مومن کا راز

اس کے دنوں کی تپش ، اس کی شبوں کا گداز
جب پاکستان کی زمام کار ان کے ہاتھوں میں آئی تو انھوں نے اسے ان خطوط پر چلانے کا مصمم ارادہ کرلیا جن کے لیے یہ وجود میں آیا تھا، ہر قسم کی دشواریوں کے باوجود اسلام کا بول بالا اور احکام شریعت کا نفاذ ان کی جدوجہد کا خاص محور رہا، شریعت کی بالادستی قائم کرنے اور اسلامی طرز حیات کو رائج کرنے کے لیے انھوں نے مختلف آرڈی ننس جاری کیے اپنے ان جلیل مقاصد اور عظیم عزائم کی بناء پر وہ ان تمام لوگوں کی امیدوں کا مرکز بن گئے تھے، جو دنیا کی پریشانی اور انسانیت کے دکھوں کا مداو اسلام ہی کو خیال کرتے ہیں، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ، نے ایک بار ان کے متعلق فرمایا تھا، ع ترکش مارا خدنگ آخریں۔
پاکستان کے گزشتہ اور موجودہ ارباب سیاست اور حکمرانوں میں وہ اس حیثیت سے علانیہ ممتاز تھے کہ اسلام کا نام لینے میں ان کو کبھی کوئی گھبراہٹ اور ہچکچاہٹ نہیں ہوتی تھی، وہ جہاں جاتے، جس مجمع میں ہوتے، ہر جگہ اسلام کا گن گاتے اور اپنی تقریروں میں اس کی عظمت و برتری کو واضح کرتے، اس میں کسی سیاسی مصلحت کو دخل نہ ہوتا، بلکہ یہی ان کے دل کی آواز ہوتی تھی، وہ بین الاقوامی اجتماعات میں بھی اسلام کی صداقت و حقانیت کا اعلان کرنے سے باز نہیں رہتے تھے، ۸۰؁ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پندرہویں صدی ہجری کے آغاز کی مناسبت سے ان کی جو تقریر ہوئی، اس میں دنیا کے اکثر ملکوں کے سربراہ موجود تھے، اس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے خطبہ حجۃ الوداع کے حوالہ سے بتایا کہ اسلام ہی ساری دنیا کے لیے خیروبرکت کا ضامن ہے، وہ رنگ و نسل کی تفریق مٹاکر وحدت، اخوت اور محبت کی تعلیم دیتا ہے، اس سے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کو درپیش مسائل حل ہوسکتے ہیں۔
صدر ضیاء الحق نے پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کے لیے عدل و مساوات کو فروغ دینے اور ملک میں پھیلی ہوئی بے راہ روی اور بدعنوانی کو دور کرنے کی طرف پوری توجہ کی، انھوں نے فوجی و اقتصادی حیثیت سے پاکستان کو مضبوط و مستحکم کرکے اور دنیا میں اس کا وقار بلند کرکے عوام کا دل جیت لیا تھا، ان کے طویل دور حکومت میں نہ کوئی بڑا ہنگامہ و انتشار رونما ہو اور نہ کوئی فتنہ سراٹھا سکا، جو مسائل پیدا ہوئے، ان کے تدبر اور ہوش مندی سے حل ہوگئے، وہ اپنی سوجھ بوجھ دور اندیشی اور فراست سے نازک مراحل طے کرلینے اور پاکستان کو بحران سے بچانے میں ہمیشہ کامیاب رہے، حکومت کی خوبی کا معیار جمہوریت ہی تو نہیں ہے جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے۔
ضیاء الحق کی عملی زندگی کا آغاز ایک فوجی کی حیثیت سے ہوا، مگر سربراہ مملکت ہونے کے بعد وہ اچھے مدبر، کامیاب اور ماہر سیاست داں بھی ثابت ہوئے، اسلامی ملکوں سے تو ان کا برادرانہ رشتہ ہی تھا، دوسرے ملکوں سے بھی انہوں نے خوشگوار تعلقات قائم رکھے، ہندوستان سے تعلقات میں اتار چڑھاؤ ضرور رہا مگر وہ ہمیشہ اچھے تعلقات کے لیے فکر مند رہے، ان کا حلم و تدبر ان کے جوش و جذبہ پر غالب ہوتا، اس لیے دونوں ملکوں میں کبھی جنگ کی نوبت نہیں آئی، بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر مسٹر اٹل بہاری باجپئی نے مرحوم ضیاء الحق کے جنازہ میں شرکت سے واپس آنے کے بعد کہا: ’’جنرل ضیاء الحق کی ذاتی زندگی نہایت صاف ستھری تھی، وہ ایک بڑے سیاست داں تھے اور ان کا شمار دنیا کے بڑے سیاستدانوں میں تھا، وہ ہندوستان سے کسی حال میں بھی لڑائی مول لینا نہیں چاہتے تھے‘‘۔
جنرل ضیاء الحق ایک شریف النفس انسان تھے، ان میں فخر و غرور کا شائبہ نہ تھا، وہ اپنی تواضع، انکسار اور خوش خلقی سے اپنے مخالفین کا دل موہ لیتے تھے اور ان کی مخالفانہ سرگرمیوں کو بھی ضبط و تحمل سے انگیز کرتے تھے، ان کی زندگی صاف ستھری اور بے داغ تھی، ان پر بدعنوانی، کنبہ پروری اور اپنے عہدہ کے بیجا استعمال کا الزام نہیں لگا، وہ سادہ زندگی گزارنے کے عادی تھے، صدر ہونے کے بعد بھی اس عالیشان قصر صدارت میں منتقل نہیں ہوئے جو ان سے پہلے ایک کروڑ کی لاگت سے تعمیر کرایا گیا تھا، وہ مضبوط قوت ارادی کے مالک تھے، بعض بڑی طاقتوں کی مخالفت کے باوجود افغان مجاہدین کے پشت پناہ بنے رہے اور عالمی رائے عامہ کے دباؤ کے باوجود مسٹر بھٹو کے معاملہ میں عدالت کے فیصلہ پر عمل درآمد سے باز نہ آئے، وہ اپنے اساتذہ کا بڑا احترام کرتے، مولانا سعید احمد اکبر آبادی مرحوم ان کے استاد تھے، ان کے لیے بچھ جاتے تھے، علماء کے بھی قدردان تھے، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کا بڑا اعزاز کرتے، مولانا امین احسن اصلاحی سے ملاقات کے لیے ان کی قیام گاہ پر پہنچ جاتے تھے، دارالمصنفین سے اچھی طرح واقف تھے، جناب سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم سے بعض کانفرنسوں میں ملاقات ہوئی تو ان کی جانب بڑا اعتناء کیا، مولانا سید سلیمان ندویؒ کی سیرۃ النبی جلد ہفتم ان کو اتنی پسند آئی کہ اس کی بیس ہزار جلدیں خرید کر تقسیم کرائیں اور اس پر ایک لاکھ کا انعام بھی دیا۔
اسلام آباد میں فیصل مسجد کی تعمیر بڑے ذوق و شوق سے کرائی تھی، یہی ان کی آخری آرام گاہ بنی، اﷲ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے خلاء کو پر کرے، ان کی شخصیت کسی قدر متنازع فیہ ضرور رہی مگر اس میں شبہ نہیں کہ انھوں نے نہایت خلوص، ایمانداری اور دیانتداری سے اپنے ملک کی بے لوث خدمت کی، جس کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ (ضیاء الدین اصلاحی، ستمبر ۱۹۸۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...