Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا ابوالعرفاں خان ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا ابوالعرفاں خان ندوی
ARI Id

1676046599977_54338270

Access

Open/Free Access

Pages

479

مولانا ابوالعرفان خاں ندوی مرحوم
جناب مولانا ابوالعرفان خاں ندوی صاحب ۱۷؍ نومبر کو تقریباً ساڑھے تین بجے شب میں اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
عالمِ کی موت کو عالم کی موت سے تعبیر کیا جاتا ہے، مولانا مرحوم کی وفات ہوئی تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ علوم کا ایک جہان ویران ہوگیا ہے، ان کے احباب و رفقاء اور متعلقین و تلامذہ ہی خوب جانتے ہیں کہ کیسی مجموعۂ فضائل ہستی کو انھوں نے سپردخاک کردیا۔
مولانا مرحوم کا وطن شیرازہند دارالخیور جونپور تھا، لیکن جونپوری کی نسبت محض ایک وطنی نسبت نہیں تھی، ان کی شخصیت میں علم و ادب، فلسفہ و کلام، وقار و استغناء تواضع، منکسر المزاجی، مہمان نوازی بلکہ دلنوازی کی وہ تمام روایات مجتمع تھیں جن کے لیے خطہ جونپور کبھی رشک ہرات و نیشاپور تھا اور جن کی وجہ سے صاحبقران بادشاہ شاہجہاں نے کہا تھا کہ پورب شیراز ماست۔
وہ جونپور کے ایک علمی خانوادہ میں پیدا ہوئے ان کے والد جناب مولانا دین محمد صاحب اس علاقہ کے مشہور عالم دین تھے اور مولانا حافظ عبداﷲ غازیپوریؒ کے خاص شاگرد تھے جو اتباع سنت اور زہد و ورع میں بھی ممتاز تھے۔
والد ماجد سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں زیر تعلیم رہے، دارالعلوم دیوبند میں بھی داخلہ لیا، مگر جلد ہی ۳۹؁ء میں ندوہ آگئے اور یہیں تعلیم مکمل کی، فراغت کے بعد دارالمصنفین میں مولانا سید سلیمان ندویؒ کی رہنمائی میں فلسفہ و کلام اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کیا، اس کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء میں درس و تدریس کی خدمت پر مامور ہوئے اور دمِ واپسیں تک ندوہ سے ان کا رشتہ استوار رہا، ۶۷؁ء میں شیخ عبداﷲ مرحوم کی دعوت پر کشمیر کے ایک تعلیمی ادارہ سے بھی وابستہ رہے لیکن جلد ہی ندوہ واپس تشریف لے آئے۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء کے سابق مہتمم مولانا حافظ محمد عمران خاں ندوی مرحوم کے بھوپال میں مستقل قیام پذیر ہونے کے بعد مولانا ابوالعرفان خاں ندوی نے ۵۷؁ء سے ۶۷؁ء تک ان کی جانشینی کی۔
وہ معقولات کے متبحر عالم تھے، منطق، فلسفہ، کلام اور بلاغت و معافی کے فن پر ان کو عبور حاصل تھا، نقلی علوم میں بھی ان کا پایہ بلند تھا، خصوصاً تفسیر، تاریخ اور شعروادب میں اچھی دستگاہ تھی، مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی مرحوم تحریر فرماتے ہیں ’’مولانا ابوالعرفان ندوی اچھا تاریخی ذوق رکھتے ہیں، ہندوستان کی تاریخ سے ان کو خصوصی دلچسپی ہے‘‘ ہندوستان کی اسلامی تاریخ کے سب سے بڑے حکیم و فلسفی ملامحمود جونپوری صاحب شمس بازغہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انھوں نے فلسفہ میں ادب کی اور ادب میں فلسفہ کی شان پیدا کی تھی، ان کے چار سوسال بعد شیراز ہندہی کے اس نامور فرزند اور ملاصاحب کے ایک ہم وطن مولانا ندوی کے متعلق بھی یہی کہا جاسکتا ہے۔ عربی اشعار ان کے نوک زبان رہتے تھے، اردو شاعری کا بھی اچھا ذوق تھا، کلام اقبال کے تو گویا وہ حافظ تھے۔
علوم جدیدہ سے واقف تھے، عصری افکار و نظریات اور جدید تعلیمی تقاضوں سے بھی باخبر تھے، اس لیے کئی یونیورسٹیوں کے تعلیمی شعبوں اور نصاب کمیٹیوں کے ممبر بنائے گئے، لکھنؤ کے بورڈ آف اورینٹل اسٹڈیز عربی و فارسی کے وہ ۶۸؁ء سے رکن تھے، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ان سے وقتاً فوقتاً مشورے لیتا تھا۔ بعض سرکاری وفود میں بھی وہ شریک کیے گئے، درحقیقت وہ تحریک ندوۃ العلماء کے اغراض و مقاصد کے ترجمان اور ان کا علمی نمونہ تھے، قدیم بنیادوں پر استوار وہ ایسی مستحکم عمارت کی مانند تھے جس پر جدید رنگ و روغن کی میناکاری نہایت دلکش و دلآویز منظر پیش کرتی تھی۔
مدارس دینیہ کی طرح جدید دانش گاہوں کی علمی مجالس میں وہ خاص طور پر مدعو ہوتے، سمیناروں میں ان کے غور و فکر پر مبنی مقالے اپنے توازن و اعتدال اور متانت و وقار کے سبب اہل علم کی نظر میں باوزن قرار پاتے تھے، کئی برس قبل ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ دہلی نے فکر اسلامی کی تشکیل جدید کے موضوع پر سیمینار کیا تھا اس میں انھوں نے ’’فکر اسلامی کی تشکیل جدید، ضرورت و اہمیت‘‘ کے عنوان سے جو مختصر مقالہ پڑھا وہ بڑا پرمغز تھا۔
دارالمصنفین سے ان کے روابط دیرینہ تھے، وہ حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کے فیض یافتہ تھے، دارالعلوم تاج المساجد بھوپال میں سید صاحبؒ پر ایک سمینار ہوا تو اس میں انھوں نے ’’دیدوشنید‘‘ کے عنوان سے حضرت سید صاحبؒ کے چند افادات پیش کئے جن سے طالب و مطلوب کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے، دارالمصنفین سے ان کی کتاب ’’اسلامی علوم و فنون ہندوستان میں‘‘ شائع ہوئی جو مولانا حکیم سید عبدالحئی سابق ناظم ندوۃ العلماء کی کتاب الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند کا ایسا سلیس و شگفتہ ترجمہ ہے جس پر اصل کا گمان ہوتا ہے، دارالمصنفین سے ان کا تعلق ہمیشہ قائم رہا، وہ یہاں کی علمی ترقیوں کے لیے برابر مشورے دیتے، وقت نکال کر تشریف بھی لاتے اور نئے رفقاء کی رہنمائی و حوصلہ افزائی بھی فرماتے، وہ معارف کی مجلس ادارت کے رکن تھے۔
مولانا مدۃ العمر درس و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے اس لیے تصنیف و تالیف کی جانب توجہ نہیں کرسکے، تاہم ان میں ایک کامل الفن کی تمام صلاحیتیں موجود تھیں، مکتبہ جامعہ نے ان کی ایک مختصر کتاب ’’ائمہ اربعہ‘‘ شائع کی تھی جو اوسطہ درجہ کے اردو خواں قارئین کے لیے لکھی گئی تھی، مگر معلومات اور اسلوب کے لحاظ سے وہ ہر طبقہ کے لیے مفید ہے، سمیناروں کے مقالوں کے علاوہ مختلف رسائل و جرائد میں ان کی تحریریں وقتاً فوقتاً شائع ہوئی ہیں، اگر ان کے مطبوعہ و غیرمطبوعہ مضامین کا مجموعہ شائع کیا جائے تو یہ مفید علمی خدمت ہوگی۔
نجی زندگی میں مرد قلندر کی طرح سادہ و آزاد تھے، ان میں علم کے پندار و تفوق کا کوئی شائبہ نہ تھا، ان کی سادگی دیکھ کر یقین نہ آتا کہ اس پرسکون سمندر کی تہہ میں علم کے بیش قیمت موتی بھی موجود ہوں گے، وہ بار رعب اور وجیہہ تھے مگر اپنے شاگردوں اور نیاز مندوں کے سامنے بھی شاخ ثمر بار کی مانند خم ہوجاتے، چہرہ متبسم رہتا، ان کی گل افشانی گفتار دیکھنے سے تعلق رکھتی، باتوں سے گلوں کی خوشبو آتی، عمدہ کھانوں کے شوقین تھے، لیکن اس سے زیادہ کھلانے کا شوق تھا۔
ان کی وفات سے علماء کی جماعت میں جو کمی ہوئی ہے وہ برسوں محسوس کی جائے گی وہ ہماری جماعت کے اہم رکن تھے، خاص طور سے ندوہ کے لیے یہ بڑا جانکاہ حادثہ ہے اس کے حلقہ تدریس میں مولانا محمد اویس ندوی نگرامی مرحوم کے بعد یہ دوسرا بڑا خلا پیدا ہوا ہے، اﷲ تعالیٰ اس کو پر کرے اور ان کے پسماندگان اور ہم سب کو اس حادثہ فاجعہ پر صبر کی توفیق دے، ان کی نیکیوں کو قبول کرے اور اعلیٰ علیین میں بلند سے بلند درجات سے سرفراز فرمائے، آمین۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، دسمبر ۱۹۸۸ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...