1676046599977_54338272
Open/Free Access
481
سید اطہر حسین آئی ۔ اے ۔ ایس
جناب سیٹھ عبدالعزیز انصاری صاحب کا غم ابھی تازہ ہی تھا کہ دارالمصنفین کی مجلس انتظامیہ کے ایک اور بہت معزز اور باوقار رکن جناب سید اطہر حسین صاحب آئی۔اے۔ایس بھی رحلت فرماگئے، اناﷲوانا الیہ راجعون۔
وہ یکم مارچ ۱۹۲۰ء کو پیدا ہوئے اعلیٰ تعلیم کے لیے الٰہ آباد یونیورسٹی میں داخل ہوئے، اور ایم۔ایس۔سی کی ڈگری لینے کے بعد ۱۹۴۲ء میں سرکاری ملازمت میں آگئے، ڈپٹی کلکٹری سے ترقی کر کے آئی۔اے۔ایس ہوئے اور حکومت اترپردیش کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، تقریباً سات برس تک مرکزی حکومت سے وابستہ رہے، ملازمت کے دوران مصر و امریکہ کے سفر بھی کیے، آخر میں ریاستی حکومت کے سکریٹری کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوکر فیض آباد میں مستقل طور پر قیام پذیر ہوگئے تھے کہ یہیں ۲۰ دسمبر کو قلبی عارضہ میں انتقال ہوگیا، والبقاء ﷲ وحدہ۔
جناب سید اطہر حسین صاحب نے سرکاری ملازمت کی گوناگوں مشغولیتوں کے باوجود تحریر و تصنیف کا مشغلہ بھی جاری رکھا، اور انگریزی اور اردو میں اسلام کے مختلف پہلوؤں پر چھوٹی بڑی درجنوں کتابیں یاد گار چھوڑیں، شعر و سخن کا بھی عمدہ ذوق تھا، اس کی ابتداء رفیقہ حیات کی غمناک موت سے ہوئی، وہ بڑے زودگو تھے، بہت جلدان کی غزلوں کے کئی مجموعے شائع ہوئے، پھر نعتیہ اور مذہبی شاعری کی طرف متوجہ ہوئے، بڑے اچھے مترجم بھی تھے، متعدد اہم دینی کتابوں کے ترجمے انگریزی میں کئے ، انتقال سے ایک ماہ قبل جناب سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم کی کتاب ’’اسلام میں مذہبی رواداری‘‘ کا انگریزی ترجمہ مکمل کر کے دارالمصنفین بھیجا، ان کو ترجمہ پر حیرت انگیز قوت تھی، ۸۲ء میں وہ کسی سرکاری کام سے دہلی گئے تھے، اسی زمانہ میں ہمدرد نگر میں بین الاقوامی قرآن کانگریس ہورہی تھی، اپنی دلچسپی کی وجہ سے اس میں بھی شریک ہوئے، وہ کوئی مقالہ لکھ کر نہیں لے گئے تھے، مگر جب انھیں بلایا گیا تو انھوں نے میرے مقالہ ’’قرآن مجید کا تصور توحید‘‘ کے ضروری حصوں کا انگریزی ترجمہ فی البدیہہ کر کے سنا دیا جو اسی جلسہ میں چند منٹ پہلے پڑھا گیا تھا۔
جناب سید اطہر حسین صاحب نے اپنی دیانت داری، ایمان داری، اصول پسندی اور خوش انتظامی کی وجہ سے بڑی نیک نامی اور اچھی شہرت حاصل کی، سرکاری حلقوں میں وہ مسلمانوں کے معاملات کے بڑے واقف کار سمجھے جاتے تھے، اور مسلمانوں کے بارے میں حکومت ان سے صلاح و مشورہ کرتی تھی، مسلمانوں کو بھی ان پر اعتماد تھا، جناب سید صدیق حسن صاحب مرحوم کے بعد وہ مسلمان عہدہ داروں میں اس حیثیت سے ممتاز تھے، اوقاف کی اصلاح و تنظیم میں انھوں نے نمایاں جدوجہد کی، فیض آباد میں ان کی کوششوں سے انیسؔ و چکبست لائبریری قائم ہوئی اور لکھنو میں مسلم مسافر خانہ کی تعمیر بھی ان کا کارنامہ ہے، وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے، سرکاری ملازمت کے زمانہ میں اپنے چیمبر میں ظہر کی نماز ادا کرتے، اس پر بعض لوگوں کو اعتراض ہوا مگر انھوں نے کوئی پروا نہیں کی، سرکاری ملازمت کے سلسلہ میں مصر گئے تو موقع نکال کر عمرہ بھی کیا اور روضہ اطہر کی زیارت بھی کی، اپنی آپ بیتی ’’ایک سویلین کی سرگزشت‘‘ میں اس کا ذکر بہت والہانہ انداز میں کیا ہے، ان کو دارالمصنفین سے بڑا تعلق تھا، اور وہ اس کے بڑے متحرک اور سرگرم ممبر تھے، ان کی وفات دارالمصنفین کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے، اﷲ تعالیٰ انھیں غریق رحمت کرے، اور ان کے اعزہ و متوسلین کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، جنوری ۱۹۸۹ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |