Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا عبدالقدوس ہاشمی ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا عبدالقدوس ہاشمی ندوی
ARI Id

1676046599977_54338274

Access

Open/Free Access

Pages

482

مولانا عبدالقدوس ہاشمی ندوی
معاصر امپیکٹ انٹر نیشنل لندن مورخہ ۹؍ مارچ سے یہ افسوسناک خبر ملی کہ ۶؍ جنوری ۸۹؁ء کو کراچی میں مولانا عبدالقدوس ہاشمی ندوی کا انتقال ہوگیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
وہ ۱۹۱۱؁ء میں پیدا ہوئے، ان کا آبائی وطن بہار کے ضلع گیا کا ایک گاؤں مخدوم پور ہے جو حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ کے وطن دیسنہ سے صرف سولہ سترہ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔
۱۹۲۲؁ء میں جب وہ گیارہ برس کے تھے تو اپنے والد مولانا اوسط حسین صاحب کے سایہ شفقت سے محروم ہوگئے، اسی سال ان کو مؤ کے مدرسہ عالیہ میں مولانا عبدالرحمن صاحب کے سپرد کردیا گیا جو میاں سید نذیر حسین محدث دہلویؒ کے شاگرد اور ان کے والد کے ہم سبق تھے، مدرسہ عالیہ میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ۲۶؁ء میں دارلعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں داخل ہوئے اور ۲۹؁ء میں سند تکمیل حاصل کی۔
بچپن سے نیک اور سعید تھے، مؤ میں جب وہ تعلیم حاصل کررہے تھے تو ان کی عمر ۱۲۔ ۱۳ سال کی تھی، اسی زمانہ میں وہاں تحریک ترک موالات کا ایک جلسہ ہوا اس میں جب ہزاروں کے مجمع میں انھوں نے تقریر کی تو تمام لوگوں نے اسے حیرت و مسرت سے سنا حضرت سید صاحبؒ اس جلسہ کے صدر تھے، انھوں نے بھی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے سر پر ہاتھ رکھ کر دعادی، مولانا ہاشمی عمر بھر اس دست شفقت کی گرمی کو محسوس کرتے اور حضرت سید صاحبؒ کی عنایات و ہدایات سے مستفید ہوتے رہے، ندوہ میں سید صاحبؒ نے ان کے درجہ میں تاریخ اسلام پر کئی لکچر دیے، سید صاحبؒ وفد خلافت کے رکن کی حیثیت سے حجاز گئے، واپس تشریف لائے تو ندوہ کے اساتذہ و طلبہ کی طرف سے ایک استقبالیہ جلسہ ہوا، اس میں مولانا ہاشمی نے ایک قصیدہ پیش کیا، طالب علمی کے دور کا یہ قصیدہ بعد میں وہ خود بھی بھول گئے مگر یہ دو شعر ذہن میں محفوظ رہ گئے تھے۔
بر سر اوج ما ابر خراماں آمد
مثردہ اے بلبل شیدا کہ بہاراں آمد
سید آمد بہ وطن روح بہ گردید بہ تن
گل رفتہ زچمن باز بہ بستاں آمد
ان کی علمی صلاحیت اور استعداد کو دیکھ کر سید صاحبؒ نے ان کو دارالمصنفین میں بلانا چاہا مگر اتفاق سے اسی زمانہ میں ان کو رام پور کے کتب خانہ میں مخطوطات پر کام کرنے کی دعوت بھی ملی جس کے لیے وہ پہلے سے رضامند ہوچکے تھے، اس لیے دارالمصنفین تشریف نہ لاسکے مگر وہ سید صاحبؒ کی خدمت میں برابر حاضری دیتے رہے کچھ عرصہ بعد وہ حیدرآباد دکن چلے گئے جہاں نواب بہادر یار جنگ نے مجلس اتحاد المسلمین کی بنیاد رکھی تھی اور دارالسلام کی عمارت میں ایک قومی کتب خانہ، ایک اسلامی دارالاقامہ اور علوم مشرقیہ کی ایک چھوٹی سی درسگاہ بھی قائم کی تھی، اپنے سیاسی و مذہبی خیالات کی آبیاری کے لیے نواب بہادر یار جنگ کی نظر انتخاب مولانا ہاشمی پر پڑی، چنانچہ ان اداروں کی سربراہی ان کو سونپ دی گئی، حضرت سید صاحب اس انتخاب پر بہت خوش ہوئے اور بعد میں ایک موقع پر بطور فخر و شکر یہ لکھا کہ ’’ندوہ کے لیے یہ شکر کا مقام ہے کہ دین و دنیا کی جامعیت کے ساتھ جب کہیں کوئی کام شروع ہوتا ہے تو اس کے فرزند اس کے لیے بہترین اہل ثابت ہوتے ہیں، مولوی عبدالقدوس جو تکمیل کے بعد ہمیشہ علمی مشاغل میں مصروف رہے، نواب بہادر جنگ کی رفاقت کے بہترین رفیق ثابت ہوئے‘‘۔
حیدرآباد میں ندوہ کے لیے جو کوششیں ہوئیں ان کا ذکر سید صاحبؒ نے مولانا مسعود عالم ندوی مرحوم کے نام ایک خط میں اس طرح کیا۔
’’․․․․․․․ اس دفعہ حیدرآباد میں ندوی برادری نے بھی کام کیا دائرۃ المعارف والوں نے دوسو اور تنہا عزیزی عبدالقدوس ہاشمی نے جو نواب بہادر یار جنگ کے دست راست ہیں آٹھ سو پورے کیے‘‘۔
مولانا ہاشمی جہاں بھی رہے، سید صاحب سے ربط و تعلق میں کوئی کمی نہیں آئی انھوں نے علامہ محمود حسن خاں ٹونکی کی نگرانی میں معجم المصنفین کی تالیف میں بھی حصہ لیا ایک مصنف احمد طغرل بک کے حالات تلاش کرنے میں دشواری ہوئی تو انھوں نے یورپ کے جن مشاہیر مشرقین کو خطوط لکھے ان میں پروفیسر مارگولیوتھ نے جو جواب دیا اس سے وہ مطمئن نہیں ہوئے، اپنے شبہات کے اظہار کے ساتھ انھوں نے سید صاحبؒ کی خدمت میں پروفیسر موصوف کاجواب بھیج دیا اور رائے بھی مانگی، سید صاحبؒ نے جو جواب دیا اس کو وہ ہمیشہ حرزجان بنائے رہے، درحقیقت یہ تلاش و تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک عمدہ ہدایت ہے، سید صاحبؒ فرماتے ہیں:
’’․․․․․․ دوسرے علماء اور مستشرقوں کی تخفیف نہ کیا کرو، یہ طریقہ اہل علم کی شان سے بعید ہے، دوسروں کی تخفیف و تغلیط میں جو وقت صرف کیا جاتا ہے، ضایع ہوجاتا ہے، جب تک خود تحقیق نہ کرلو کچھ نہ لکھو، دوسروں کی تحقیق کو اس وقت تک کے لیے قبول کرو جب تک خود تحقیق نہ کرلو‘‘۔
سید صاحبؒ سے وہ اسی طرح فیض اٹھاتے رہے، کراچی میں سید صاحبؒ دارالمصنفین کی طرح کا ایک تحقیقی ادارہ قائم کرنا چاہتے تھے۔ اس کی نظامت کے لیے ان کی نظر مولانا ہاشمی پر پڑی مگر نامساعد حالات نے یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے نہیں دیا، ابھی چند برس پہلے دائرۃ السلیمانیہ کے نام سے کراچی میں ایک بڑے علمی ادارہ کا پروگرام مرتب ہوا تو اس کے سرپرستوں میں مولانا ہاشمی کا نام سرفہرست تھا۔
سید صاحب ان کی صلاحیتوں کے جس قدر معترف تھے، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ جب دستور پاکستان کی ترتیب کے متعلق سید صاحبؒ نے جلسہ منعقد کیا اور اس میں مولانا مودودی، مولانا بنوری، مولانا عبدالحامد بدایونی اور مختلف فکر و مسلک کے جو ۳۲ علماء شریک ہوئے ان میں ایک مولانا ہاشمی بھی تھے۔
طالب علمی کے زمانہ ہی میں ان کی جس صلاحیت کو سید صاحب کی نگاہ جوہر شناس نے دیکھا تھا، اس کا ظہور برابر ہوتا رہا، پاکستان میں وہ معزز علمی عہدوں پر فائز ہوئے، ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد قائم ہوا تو اس کے کتب خانہ کے وہ ناظم ہوئے، بیرون پاکستان ان کی پذیرائی یوں ہوئی کہ وہ موتمر عالم اسلامی کے شعبہ تحقیقات کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے، رابطہ عالم اسلامی کی مجمع الفقہی کے وہ اہم ممبر تھے، انھوں نے اس کثرت سے بیرونی ممالک کے سفر کیے کہ ان کو علم و تحقیق کا جہانیاں جہاں گشت کہا جاسکتا ہے۔
معاصر امپیکٹ نے لکھا ہے کہ وہ تقریباً چالیس ۴۰ کتابوں کے مصنف تھے ان کا ایک مختصر رسالہ مستشرقین اور تحقیقات اسلامی کے نام سے بہت مقبول ہوا، کئی برس پہلے اس رسالہ کی تلخیص راقم الحروف نے معارف میں پیش کی تھی، ان کی تحقیقی کاوشوں کا ایک نمونہ کتاب تقویم تاریخی (قاموس تاریخی) کی شکل میں سامنے آیا جو ہجری اور عیسوی سنین کا ایک تقابلی تقویم ہے، مزید فائدہ کے لیے اس میں انھوں نے مشاہیر اسلام کے وفیات اور تاریخ اسلامی کے مشہور واقعات کی توقیت بھی کردی ہے۔
پاکستان کے رسالہ فکر و نظر میں ان کے مضامین اہل نظر بڑی دلچسپی سے پڑھتے، قمری تقویم، ہجری رویت ہلال کی حقیقت، صفہ اور اصحاب صفہ، نظام خانقاہی تربیت گاہ نفس انسانی، سیرت طیبہ کا مطالعہ، اسلام میں اجتہاد و قیاس کا مقام، تعمیر بیت اﷲ الحرام اور سیرت انبیاء کمال انسانیت وغیرہ مضامین اہم ہیں، سیرت انبیاء کمال انسانیت تو اسلوب و طرزِ نگارش کے لحاظ سے خطبات مدراس کا ایک جز و معلوم ہوتا ہے۔
ان کو صحافت سے بھی تعلق رہا ہے، حیدرآباد دکن سے ایک ہفتہ وار اخبار تاجر کے نام سے نکالا تھا۔ گیاسے رسالہ ندیم جاری ہوا تو وہ بھی عملاً اس کی ادارت میں شریک رہے رسالہ فکر و نظر کے بھی وہ کچھ عرصہ تک مدیر رہے۔
دارالمصنفین سے ان کو بڑی عقیدت تھی، جب وہ یہاں آتے تھے تو بڑی عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے جناب سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب مرحوم کو جب پاکستان جانے کا اتفاق ہوتا تو ان سے خاص طور پر ملاقات کرتے تھے اور معارف میں بڑے کیف و لذت سے پرلطف صحبتوں کا ذکر کرتے، ایک بار لکھا کہ ’’مولانا عبدالقدوس ہاشمی ندوی تو علم و فن کے بلبل ہزار داستان ہیں۔ مذہبی، فقہی، تاریخی، علمی اور ادبی موضوعات پر ان سے زیادہ فاضلانہ اور پر مغز گفتگو کرنے والا میں نے کہیں نہیں دیکھا‘‘۔
دارالمصنفین میں جب اسلام اور مستشرقین پر ۸۲؁ء میں ایک بین الاقوامی سمینار ہوا تو وہ ادارہ تحقیقات اسلامی کے موقروفد کے ساتھ باوجود پیرانہ سالی کے تشریف لائے اور اس کو زندہ تابندہ دیکھ کر باغ باغ ہوئے، سمینار میں اپنی سادگی، لہجہ کے خلوص اور علمی شان کی وجہ سے وہ مرکز کشش بنے رہے، ان کا تعارف کراتے ہوئے سید صباح الدین عبدالرحمن صاحب مرحوم نے فرمایا تھا کہ ’’اگر فقہی، مذہبی، تاریخی، سیاسی اور دنیا بھر کے معلومات کا پیکر بنایا جائے تو وہ مولانا عبدالقدوس ہاشمی کی ذات ہوگی‘‘۔
افکار و خیالات میں توسع کے باوجود دین کے بنیادی عقائد میں وہ مداہنت پسند نہیں کرتے تھے، بینک کے سود کو حرام سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ تو فرض ہے کہ مسلمان جہاں اور جس ملک میں طاقت رکھتے ہوں وہاں کے معاشی اور اقتصادی نظام کو ربولی آلودگیوں سے پاک رکھیں، البتہ جہاں وہ اقلیت میں ہیں ان کے لیے بینک کے سود کو بعض حدود قیود کے ساتھ جائز سمجھتے تھے۔
اﷲ تعالیٰ ان کی دینی خدمات اور نیک اعمال کو شرف قبولیت بخشیں اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائیں، آمین۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، مئی ۱۹۸۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...