Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > استاد محمد احمد دہمان

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

استاد محمد احمد دہمان
ARI Id

1676046599977_54338276

Access

Open/Free Access

Pages

484

استاذ محمد احمد دہمان
استاذ محمد احمد دہمان کا شمار دمشق کے ان علماء میں ہوتا ہے، جنہوں نے عربی زبان و ادب کی نشاء ثانیہ کے لیے اپنے کو وقف کردیا تھا، وہ ۱۸۹۹؁ء میں دمشق میں پیدا ہوئے، ان کے والد شیخ احمد دہمان بھی ایک مشہور قاری و عالم تھے، محمد احمد دہمان کی تعلیم و تربیت دمشق میں ہوئی، ان کے اساتذہ میں شیخ ابوالخیر میدانی متوفی ۱۹۶۱؁ء اور شیخ محمد قطب متوفی ۱۹۲۷؁ء بھی ذی علم اور صاحب فضل و کمال تھے لیکن وہ سب سے زیادہ متاثر شیخ عبدالقادر بدر ان کی شخصیت سے ہوئے جو ایک وسیع النظر عالم اور مصلح قوم تھے، انہوں نے ابن عساکر کی شہرہ آفاق تاریخ دمشق کی ترتیب و تدوین کے علاوہ منادمۃ الاطلال و سامرۃ الخیال کے نام سے ایک اہم کتاب بھی تالیف کی تھی، شیخ محمد قطب مظلوم طبقہ کے حامی تھے اور ان کے لئے عدل و انصاف کی آواز بھی بلند کرتے تھے جس کی وجہ سے انہیں مصائب و آلام سے دو چار ہونا پڑا۔ علم و عمل کی اس جامع شخصیت نے استاذ دہمان کو بہت متاثر کیا۔ چنانچہ ان کے عہد شباب میں جب مدارس کے مقاطعہ اور تعلیم کو ترک کرنے کی ایک تحریک چلی تو انہوں نے اس کی سخت مزاحمت کرنے کے لیے ایک رسالہ ’’المصباح‘‘ جاری کیا، بعد میں ان کے بلند پایہ مضامین مجلہ التمدن الاسلامی اور مجلہ مجمع العلمی العربی میں برابر چھپتے رہے، انہوں نے مدرسہ عادلیہ میں اسلامی علوم کا شعبہ قائم کیا، جہاں دوسرے اہل فکر و نظر کے علاوہ وہ خود بھی عربی ادب اور اسلامی تہذیب و تمدن کے موضوع پر مقالے پیش کرتے رہے، مقصد یہ تھا کہ نوجوان نسل فرانسیسی اور یورپی علم و تہذیب سے مرعوب نہ ہونے پائے۔ علوم اسلامی خصوصاً تاریخ پر گہری نظر تھی، تاریخ میں بھی ان کو دمشق کی تاریخ سے خاص شیفتگی تھی اور اس سے متعلق کئی قدیم کتابوں کو انہوں نے سلیقہ اور محنت سے مرتب کیا اربلی کی مدارس دمشق، ابن کنان کی المروج السندسیہ، ابن طولون کی القلائد الجوہریہ فی تاریخ الصالحیہ، اعلام الوریٰ اور رحلۃ الامیریشبک الدوادار وغیرہ ان کی مورخانہ دیدہ روی اور محققانہ ژرف نگاہی کا ثبوت ہیں، جامع اموی پر انہوں نے خود بھی ایک کتاب لکھی، عہد ممالک کی تاریخ کا انہوں نے بڑی دقت نظر سے مطالعہ کیا تھا، اس موضوع پر ان کی تالیف ولاۃ دمشق فی عہد الممالیک قابل ذکر ہے، ان کی ایک کتاب فی رحاب دمشق میں دمشق کے علمی اور تمدنی جلوے دکھائے گئے ہیں، وہاں کے آثار قدیمہ، مساجد و معابد، مدارس و کتب خانوں اور اس کے تاریخی پہاڑ جبل قاسیون کے متعلق جو کتابیں لکھی ہیں ان میں موضوع کی خشکی کو رنگینی و دلفریبی میں تبدیل کردیا ہے، ان کو دمشق سے اپنی والہانہ محبت کا احساس تھا، چنانچہ لکھتے ہیں: ’’کانت دمشق و مازالت کل دنیای‘‘ (پہلے اور آج بھی میرے لیے تو دمشق کل جہان ہے) دمشقیات کے علاوہ انہوں نے ابن جزری کی کتاب النشر فی القراء لت العشر ابن قدامہ مقدسی کی مختصر القاصدین، محمد بن وضاح قرطبی کی کتاب البدع و النہی منہا، ابو عمرو عثمان بن سعید الدانی کی کتاب المقنع فی مرسوم مصاحف اہل الامصار اور سنن دارمی کو مرتب کرکے شائع کیا، تاریخ و رجال میں انہوں نے ابن حجر عسقلانی کی کتاب ابناء الغمر بانباء العمر کی پہلی جلد کو بڑے اہتمام سے شائع کیا، ان کی ساری کتابیں تحقیق و کاوش اور محنت و دیدہ ریزی کا بہترین نمونہ ہیں، ان کو اپنی قدیم روایات نہایت عزیز تھیں، تحقیق میں وہ عجلت و سہولت پسند نہیں کرتے تھے، انہوں نے العقائد الجوہریہ کی تحقیق و تدقیق میں دس برس صرف کرنے کے بعد یہ نادر تحفہ علمی دنیا کے سامنے پیش کیا، تاریخی الفاظ کی ایک معجم بھی بڑی محنت سے مرتب کی جس میں عہد ممالیک میں رائج الفاظ کے اصول و ماخذ کا جائزہ لسانیات کے جدید طرز و انداز پر لیا ہے۔ رضوان بن محمد ساعاتی کی کتاب علم الساعات و العمل بہا کو ایڈٹ کیا تو اس میں گھڑی کی صنعت اور فن کے متعلق ارشمیدس اور دوسرے علماء کے مقالات بھی شامل کئے اور سو صفحات کا خود ایک مقدمہ بھی لکھا جس میں عرب اور مسلمان ماہرین فن اور کاریگروں کی اختراعات پر سیر حاصل تبصرہ کیا، علمی حلقوں میں ان کی کتابوں کے مقدمے اور حواشی ہمیشہ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
ان کی نجی زندگی بھی قابل تقلید اور مثالی نمونہ تھی، وہ عزم و صبر کا پیکر تھے، نامساعد حالات میں بھی ان کا دل امید و حوصلہ سے معمور رہتا تھا، وہ اکثر بیمار رہتے، اضعف بصر میں مبتلا تھے لیکن ان کی علمی جدوجہد میں یہ چیزیں کبھی رکاوٹ نہ بنیں اور وہ خاموش اور سرگرمی کے ساتھ علم و ادب کی خدمت انجام دیتے رہے۔ دو شنبہ ۷؍ مارچ ۱۹۸۸؁ء کو ان کا انتقال ہوا۔ اﷲ تعالیٰ مغفرت فرمائے، آمین۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، ستمبر ۱۹۸۹ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...