Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > ڈا کٹر احمد عبدالستار الجواری

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

ڈا کٹر احمد عبدالستار الجواری
ARI Id

1676046599977_54338277

Access

Open/Free Access

Pages

485

ڈاکٹر عبدالستار الجواری
عربی زبان کے عاشق شیدائی اور اسلامی علوم خصوصاً قرآنیات کے خادم کی حیثیت سے ڈاکٹر احمد عبدالستار الجواری کا نام عرب کے علمی حلقوں میں تعارف کا محتاج نہیں۔ ۲۲؍ جنوری ۸۸؁ء کو وہ نماز جمعہ کی تیاری کررہے تھے کہ اچانک ان کا پیمانہ عمر لبریز ہوگیا، انتقال کے وقت ان کی عمر ۶۲، ۶۳ سال تھی اور وہ علم کے بام عروج پر پہنچے ہوئے تھے۔
وہ ۱۹۲۵؁ء میں بغداد کے قدیم تاریخی محلہ کرخ میں پیدا ہوئے، اس محلہ کے خانوادے اور گھرانے آج بھی قدیم عربی روایات و خصوصیات کے حامل ہیں، ڈاکٹر احمد نے بھی ایک شریف و معزز خاندان میں آنکھیں کھولیں، بی اے تک کی تعلیم بغداد میں حاصل کی اور طہ الراوی، مہدی البصیر، عبدالوہاب عزام اور زکی مبارک جیسے ممتاز اساتذہ سے استفادہ کیا، بعد میں قاہرہ سے ایم اے کیا وہاں ان کو طہ حسین، احمد امین، احمد الشائب، مصطفی السقا اور امین الخولی جیسے مشاہیر فضلا کی عنایات بھی حاصل رہیں۔ تعلیم کے بعد وہ عراق کی مختلف اعلیٰ تعلیمی و انتظامی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوتے رہے، ۱۹۷۹؁ء تک وہ کئی محکموں کے وزیر بھی رہے لیکن یہ انتظامی سرگرمیاں ان کی علمی و تحقیقی راہ میں کبھی حائل نہ ہوئیں، عالم عرب کے اہم سمیناروں اور باوقار علمی مجلسوں میں برابر شریک ہوتے رہے۔ ان کے مقالوں اور خطبوں میں عموماً اسلامیات اور امت عربی کے مسائل زیر بحث آتے جو علمی متانت و سنجیدگی کی وجہ سے بڑی توجہ سے سنے جاتے۔ ان علمی خدمات کے اعتراف میں ۶۵؁ء میں ان کو عراق کی المجمع العلمی کا رکن بنایا گیا، بعد میں وہ دمشق اور قاہرہ کی علمی اکیڈمیوں کے بھی رکن مقرر ہوئے، ۶۹؁ء میں عرب کی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اساتذہ کی انجمن اتحاد معلمین عرب کے صدر منتخب ہوئے۔
ان کے قلم سے کئی عمدہ کتابیں نکلیں، مضامین کے مجموعے چھپے، کئی امہات کتب کی تحقیق اور مختلف علوم کی مصطلحات کی ترتیب میں وہ بعض دوسرے محققین کے ساتھ شریک رہے، بقول ڈاکٹر عدنان خطیب ان کی تمام کتابیں مفید و وقیع اور بلندپایہ ہیں، جن سے ان کی دقت نظر، وسعت فکر، ایمان و یقین کی پختگی اورعلمی جرأت کا اندازہ ہوتا ہے، ان کی ایک کتاب ’نحوا القرآن‘ خاص طور سے قابل ذکر ہے جس میں انہوں نے قرآنی آیات اور عبارتوں کی نحوی اور لغوی خوبیوں بلکہ قرآنی اسلوب کے اعجاز پر ماہرانہ بحث کی ہے۔ وہ علمائے نحو کو یہ حقیقت اپنے پیش نظر رکھنے کی تلقین کرتے ہیں کہ قرآن مجید کے اصول ان کے قواعد و کلیات کی کسوٹی سے زیادہ اہم ہیں۔ اس لئے اصل محور اسی کو بنانا چاہئے۔ اس کتاب میں انہوں نے علم نحو کے گیارہ پیچیدہ مسائل پر گفتگو کی ہے۔ سب سے عمدہ بحث ’حذف القول‘ کی ہے جس کے نظائر و شواہد قرآن مجید میں بکثرت ملتے ہیں، انہوں نے الفاظ کی رمزیت، کنایہ کے زور، اجمال و تفصیل اور سیاق کلام کی معنویت و تاثیر کے متعلق بڑی لطیف اور عالمانہ بحث کی، امام زمخشری کے اس قول کہ ’’ان ھٰولاء محکی بعد قول مضمر‘‘ کی تشریح میں لکھا کہ ’’اس خوبصورت اسلوب میں تعبیر کے کئی دلکش فنی مظاہر ہیں، جس میں حذف نحوی ’ایجاز‘ ’فصل‘ وغیرہ شامل ہیں‘‘۔ عام نحوی اصولوں پر بھی ان کی محققانہ بحث پڑھنے کے لائق ہے۔
ان کا عقیدہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب ذکرمبین کے لئے جس زبان کو شرف انتخاب بخشا اس کی حفاظت ایک دینی فریضہ ہے اور اس کی حمایت کے لئے سینہ سپر ہونا، راہ شہادت پالینے کے مترادف ہے، اﷲ تعالیٰ ان کے جذبہ ایمانی کے طفیل میں انہیں عالم آخرت میں اپنی رضا و خوشنودی سے سرفراز فرمائے۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، ستمبر ۱۹۸۹ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...