1676046599977_54338278
Open/Free Access
486
ڈاکٹر صبیحی المحمصانی
ڈاکٹر صبیحی المحمصانی عالم عرب میں شریعت اسلامی اور اس کے جدید ملکی و بین الاقوامی قوانین کے مرجع اور سند سمجھے جاتے تھے، انگریزی اور فرانسیسی زبانوں پر ان کو یکساں عبور تھا، ان کا انتقال پیرس میں ستمبر ۱۹۸۶ء میں ہوا، لیکن مجمع اللغۃ العربیہ اکتوبر ۸۸ء کے شمارہ میں ان کی شخصیت پر تعزیتی مضمون تاخیر سے شائع ہوا، ان کی قابل قدر علمی زندگی خصوصاً قانون کے موضوع پر ان کے اہم اور یادگار کارناموں کی وجہ سے ان کی وفات کا غم آج بھی تازہ ہے۔
وہ ۱۹۰۶ء میں بیروت میں پیدا ہوئے، اعلیٰ تعلیم کے لئے فرانس گئے۔ ۱۹۳۲ء میں ڈاکٹریٹ کیا، ۳۵ء میں لندن یونیورسٹی سے بھی ڈگری لی، دوران تعلیم ان کے خاص مضامین قانون اور معاشیات تھے، تعلیم کے بعد لبنان میں اعلیٰ قانونی عہدوں پر فائز ہوئے، ۶۶ء میں وہ لبنان کے وزیر اقتصادیات بھی ہوئے، لیکن سیاسی زندگی کی شورشیں اور بکھیڑے ان کے مزاج کے مطابق نہیں تھے اس لیے اس سے کنارہ کش ہوکر علمی اور تدریسی سرگرمیوں میں مشغول ہوئے اور پھر تصنیف و تالیف کے لئے یکسو ہوگئے، وہ ۴۷ء میں دمشق کی مجمع العلمی کے رکن بنے، مسلم ممالک میں اسلامی قانون کے نفاذ کے سلسلہ میں انہوں نے کئی اہم کانفرنسوں میں خصوصی مدعو کی حیثیت سے شرکت کی۔ ان کی تصنیفات کا زیادہ حصہ اسلامی قانون سے متعلق ہے، ان کی ایک کتاب فلسفۃ التشریع فی الاسلام بہت مقبول ہوئی، انگریزی اور فارسی میں اس کے ترجمے ہوئے، اردو میں بھی اس کا ترجمہ لاہور سے ۱۹۵۵ء میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ النظریات العامہ للموجبات و العقود فی الشریعۃ الاسلامیۃ، الاوضاع التشریعیہ فی الدول العربیہ، المبادی الشرعیہ و القانونیہ، مقدمہ فی احیاء علوم التراث، القانون و العلاقات الدولیہ فی الاسلام، الدعائم الخلفیہ للقوانین الشرعیہ، ارکان حقوق الانسان فی الشریعۃ الاسلامیہ، الاوزاعی و تعالیمہ القانونیہ والانسانیۃ، المجتہدون فی القضاء، تراث الخلفاء الراشدین فی الفقہ وغیرہ کتابوں کی اہمیت ان کے نام سے ہی ظاہر ہے۔ اول الذکر کتاب کو نقادوں نے اپنے موضوع پر بہترین کتاب قرار دیا ہے، اس میں مستند فقہی مصارسے اخذ و استدلال کے بعد یورپ کے قانونی ماخذ سے ان کا موازنہ خالص علمی انداز میں کیا گیا اور پھر فقہ اسلامی کی برتری ثابت کی گئی ہے، امام ابو یوسف اور علامہ ابن قیم کے فقہی اور اجتہادی کارناموں پر بھی انہوں نے کتابیں لکھیں، التشریع اللبنانی میں انہوں نے لبنان کے مختلف مذاہب اور فرقوں کے لئے یکساں سول کوڈ کی وکالت کی اور اس کے لئے شریعت اسلامی کے قوانین کو جامع ثابت کیا، ان کی ایک کتاب المجاہدون فی الحق۔ تذکارات من مالک الی السنہوری میں امام مالک سے لے کر ڈاکٹر عبدالرزاق سنہوری تک کے نامور فقہاء اور قانون دانوں کا ذکر ہے، کتاب کا خاتمہ انہوں نے علامہ اقبال کے ذکر پر کیا، وہ علامہ اقبال کے فلسفہ احترام آدمیت اور ان کے عالمگیر اسلامی جذبہ اخوت کے بڑے معترف تھے، انہوں نے کلام اقبال کے دوررس اثرات کا بڑی خوبی سے تجزیہ کیا ہے۔
اپنے وطن لبنان کے خون آشام واقعات سے وہ ملول تھے، ان کا کہنا تھا کہ اجتماعی و معاشرتی سکون صرف روحانی انقلاب سے مل سکتا ہے اور یہ روحانی انقلاب ہمارے عظیم دینی و اخلاقی ورثہ سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔اﷲ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشیں اور جنت نعیم میں جگہ عطا فرمائیں۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، ستمبر ۱۹۸۹ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |