Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا مفتی حافظ محمد رضا انصاری فرنگی محلی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا مفتی حافظ محمد رضا انصاری فرنگی محلی
ARI Id

1676046599977_54338281

Access

Open/Free Access

Pages

487

مولانا مفتی حافظ محمد رضا انصاری فرنگی محلی
افسوس ہے کہ مولانا مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی کا ۵ فروری کو لکھنؤ میں انتقال ہوگیا، عمر تقریباً ۷۰ برس کی تھی، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
خانوادہ فرنگی محل گذشتہ تین سو برس سے ہندوستان میں علم و عمل کی شمع روشن کیے ہوئے ہے، اس خاندان میں علم کی دولت جس طرح محفوظ رہی اور نسلاً بعد نسل اس میں جس قدر اضافہ ہوتا گیا، ہندوستان میں چند خاندانوں کے علاوہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، ملا قطب الدین شہید ان کے فرزند استاذ الہند ملا نظام الدین محمد بانی درس نظامیہ کے بعد ملا حیدر، ملا مبین، ملا حسن، مولانا عبدالعلی بحرالعلوم، مولانا عبدالحئی اور مولانا عبدالباری اسی خاندان کے سلسلہ الذہب کی روشن مثالیں ہیں، بقول علامہ شبلیؒ لکھنؤ کا فرنگی محل، علم و فن کا معدن بن گیا، آج جہاں علوم عربیہ کا نام و نشان باقی ہے، اسی خاندان کا پرتو فیض ہے، ہندوستان کے کسی گوشہ میں جو شخص تحصیل علم کا احرام باندھتا ہے اس کا رخ فرنگی محل کی طرف ہوتا ہے۔
ہمارے عہد میں مفتی محمد رضا انصاری مرحوم اپنے اسی نامور خاندان کی علمی و تہذیبی روایتوں کے وارث تھے، ان کے والد مولوی محمد سخاوت اﷲ، مدرسہ عالیہ نظامیہ میں ریاضی کے استاد تھے، بعد میں وہ حیدر آباد دکن میں محکمہ امور عامہ میں ملازم ہوئے،، ان کی عدم موجودگی میں مفتی صاحب مرحوم کی تعلیم و تربیت ان کے رشتہ کے چچا مفتی محمد عبدالقادرؒ کی زیر نگرانی ہوئی جو علم و عمل میں اپنے اسلاف کرام کا نمونہ تھے اور جن سے شاہ معین الدین ندوی مرحوم نے بھی مختصر المعانی کا درس لیا تھا۔
مفتی صاحب مرحوم کی بسم اﷲ مولانا عبدالباری فرنگی محلیؒ نے کرائی تھے، خاندانی روایت کے مطابق سب سے پہلے حفظ قرآن کی دولت سے سرفراز ہوئے، پھر معقولات و منقولات کا علم مفتی محمد عنایت اﷲ، مولانا محمد قطب الدین، مولانا محمد صبغتہ اﷲ شہید، مولانا سید علی زینبی، مولانا سید علی نقی مجتہد اور ڈاکٹر مصطفی حسن علوی کا کوروی وغیرہ سے حاصل کیا۔
لکھنؤ میں اردو صحافت کا آغاز ہوا تو فرنگی محل کے خانوادہ نے بھی اس سے دلچسپی لی، مفتی صاحب کی زندگی کی ابتدا بھی صحافت سے ہوئی، ۱۹۳۸؁ء میں ماہنامہ نیا ادب لکھنؤ سے شایع ہوا تو اس کی مجلس ادارت میں سید سبط حسن، مجاز اور علی سردار جعفری کے ساتھ وہ بھی شریک تھے، بعد میں ۱۹۴۳؁ء میں فرنگی محل سے نیا ادب کے انداز پر ایک رسالہ منزل نکالا، ۱۹۴۶؁ء میں وہ روز نامہ ہمدم سے متعلق ہوئے، ۱۹۴۷؁ء میں یہ بند ہوا تو ۱۹۴۸؁ء میں وہ روز نامہ قومی آواز سے وابستہ ہوئے اور تقریباً بیس ۲۰ برس تک اس سے وابستہ رہے، اس میں جدید مطبوعات پر تبصرے ان ہی کے قلم سے شائع ہوتے تھے جو علمی و ادبی حلقوں میں بہت پسند کیے جاتے تھے، ۱۹۷۰؁ء میں وہ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات میں استاد مقرر ہوئے، وہاں سے سبکدوش ہوئے تو کچھ عرصہ کے لیے یوپی اردو اکیڈمی کے چیرمین بھی رہے۔ گو ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ صحافت و تدریس میں گذرا لیکن اس میں بھی وہ تصنیف و تالیف کے لیے وقت نکال لیتے تھے، ۱۹۴۶؁ء میں انجمن ترقی اردو نے ان کی کتاب ’’ادب جاہلی‘‘، شایع کی جو ڈاکٹر طہٰ حسین کی کتاب الادب الجاہلی کا ترجمہ ہے، ۱۹۵۷؁ء میں ان کی کتاب ’’مجذوبؔ اور ان کا کلام‘‘ شایع ہوئی جس کے حسن ترتیب اور خوش سلیقگی کی بڑی داد ملی، شاہ معین الدین مرحوم نے اسے ’’انتخاب لاجواب‘‘، قرار دیا، ۱۹۶۵؁ء میں اپنے مربی و مشفق چچا مولانا مفتی عبدالقادر فرنگی محل کے فتاویٰ کا مجموعہ مرتب کر کے فتاویٰ فرنگی محل موسوم بہ فتاویٰ قادریہ، کے نام سے شائع کیا، اس سے پہلے انھوں نے مفتی عبدالقادر مرحوم کی یاد میں، ’’مفتی صاحب‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی شایع کی تھی، ۱۹۶۵؁ء میں ان کو فریضۂ حج کی سعادت نصیب ہوئی، واپس ہوئے تو قومی آواز میں اپنا سفر نامہ لکھا، بعد میں یہ ’’حج کا سفر‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں طبع ہوا، جولائی ۱۹۷۰؁ء سے مارچ ۱۹۷۱؁ء تک ملا نظام الدین محمد پر ان کا مقالہ معارف میں مسلسل شایع ہوا، اس سلسلہ کو مرتب کرکے انھوں نے ’’بانی درس نظامی‘‘ کے نام سے ۱۹۷۳؁ء میں شایع کیا یہ کتاب تحقیق، ترتیب، محنت اور دیدہ ریزی کا عمدہ نمونہ ہے، معارف میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا گیا کہ ’’لایق مصنف نے اپنے خاندان کی محفوظ دستاویزوں، قدیم یادداشتوں اور مخطوطات کے علاوہ بعض دوسرے مآخذ کی مدد سے یہ کتاب سلیقہ سے مرتب کی ہے۔ واقعات کی تحقیق اور چھان بین میں بڑی کاوش سے کام لیا گیا ہے، اس کے لیے وہ مشرقی علوم کے قدر دانوں کے شکریہ کے مستحق ہیں‘‘، معارف میں ان کے اور مضامین بھی شایع ہوئے جن میں مولانا محمد یوسف فرنگی محلی اور علمائے فرنگی محل کے شجرۂ نسب پر ایک نظر، علمی حلقہ میں قدر کی نظر سے دیکھے گئے، ان کی آخری تصنیف و تذکرہ حضرت سید صاحب بانسویؒ، کی بھی بڑی پذیرائی ہوئی، خاندان فرنگی محل تین صدیوں سے سید شاہ عبدالرزاق بانسویؒ کے سلسلہ عالیہ قادریہ رزاقیہ سے وابستہ رہا ہے۔ مفتی صاحب مرحوم نے لکھا کہ ’’علمائے فرنگی محل کی تین سو سالہ تاریخ کا آغاز اگرچہ بظاہر استاذ الہند ملا نظام الدین فرنگی محلی اور ان کے مرتبہ درس نظامی سے ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس خاندان کی علمی سر بلندی اور تدریسی سربراہی کا سرچشمہ ایک ’’امی سید زادہ والا تبار‘‘ کے آستانہ سے پھوٹا ہیـ‘‘ پوری کتاب اسی اجمال کی تفصیل ہے۔ان کو شعر و ادب کا اچھا اور ستھرا ذوق تھا، ابتدا میں ترقی پسند تحریک سے بھی ان کا تعلق رہا، نقوش کے شخصیات نمبر میں مجذوب اور ’’انتخاب کلام حسرت موہانی‘‘ میں حسرت موہانی پر ان کے مضامین سے ان کے عمدہ و شستہ ادبی ذوق کی جھلک صاف نمایاں ہے۔
حسن اخلاق، شرافت، مروت، درد مندی، سادگی اور زندہ دلی میں وہ فرنگی محل اور لکھنؤ کی دیرینہ تہذیب کے نمایندہ اور نمونہ تھے، عقیدہ و عمل میں متقشف نہیں تھے لیکن دینی شعائر کا احترام ان کے ہر عمل سے ظاہر تھا، فتاویٰ قادریہ کا مقدمہ انھوں نے سفر حج کے دوران لکھا تو بڑے جذب و کیف کے ساتھ یہ تحریر سپرد قلم کی کہ ’’عجب خوش بختی ہے کہ جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں حرم نبویؐ کا خوش الحان موذن جمعہ کی اذان کہتے ہوئے اشھد ان محمد رسول اﷲ کی صدا بلند کررہا ہے:
جان رگ رگ سے کھنچی آتی ہے کانوں کی طرف
کس قیامت کی کشش اف تری آواز میں ہے ‘‘
دارالمصنفین سے ان کا بڑا گہرا تعلق تھا علامہ شبلیؒ اور مولانا سید سلیمان ندویؒ سے بڑی عقیدت رکھتے تھے اور دونوں کے علمی پایہ سے بخوبی واقف تھے مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی مرحوم کی بیشتر تعلیم فرنگی محل میں ہوئی تھی اس لحاظ سے یہاں کے تمام لوگوں سے ان کے تعلقات تھے، وہ مفتی صاحب مرحوم سے بھی عزیزانہ تعلق رکھتے تھے اور ان کے مضامین کو معارف میں دلچسپی سے شایع کرتے تھے وہ یہاں جب بھی آتے ہر شخص پر اپنی محبت کے نقوش چھوڑ جاتے، سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم ان سے خاص تعلق اور معاملہ شفقت رکھتے تھے، وہ لکھنؤ جاتے تو وقت نکال کر فرنگی محل ان سے ملنے ضرور جاتے، سید صاحب مرحوم کا سفر آخرت بھی ندوۃ العلما سے فرنگی محل جاتے ہوئے ہوا، ان کے ہمراہ سید شہاب الدین و سنوی صاحب بھی تھے کہ ڈالی گنج کے پل پر وفات کا حادثہ پیش آیا، اس سے ایک ہی روز قبل مفتی صاحب مرحوم پاکستان کے لیے روانہ ہوئے تھے اور ابھی وہ دلّی ہی میں تھے کہ ان کو یہ خبر ہوئی اپنے تعزیت نامہ میں لکھا کہ ’’ایسے شفیق بزرگ کا ان حالات میں ہمارے درمیان سے اٹھ جانا کس قدر و لخراش صدمہ ہے، میرے لیے ایک اور ایک ہی ایسا بزرگ اٹھ گیا جو محبوب بھی تھا اور شفیق بھی‘‘ اس قحط الرجال میں مفتی صاحب مرحوم جیسے صاحب علم و کمال کا اٹھ جانا ایک بڑا سانحہ اور مذہب، علم اور تہذیب کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے، فرنگی محل میں ان کی کمی عرصہ تک محسوس کی جائے گی، اب سے تقریباً سو سال پہلے علامہ شبلیؒ نے ملا نظام الدینؒ کے اسی آستانہ کی زیارت کی تھی تو فرمایا تھا کہ ’’اﷲ اکبر! ہمارے ہندوستان کا کیمبرج یہی ہے، یہی خاک ہے جس سے عبدالعلی بحرالعلوم اور ملا کمال پیدا ہوئے، افسوس اب یہ کعبہ ویران ہوتا جاتا ہے‘‘، مفتی صاحب کی وفات سے اس کعبہ علم کی ویرانی اور بڑھ گئی، دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مفتی صاحب مرحوم کو اعلی علیین میں جگہ دے اور فرنگی محل کے کعبہ علم و فن کو پھر سے آہوان علمِ نبوت سے آباد کردے، آمین۔
( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، مارچ ۱۹۹۰ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...