Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولوی حافظ محمد منصور نعمانی ندوی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولوی حافظ محمد منصور نعمانی ندوی
ARI Id

1676046599977_54338282

Access

Open/Free Access

Pages

488

آہ! جناب مولوی حافظ محمد منصور نعمانی ندوی مرحوم
دارالعلوم تاج المساجد بھوپال کے استاد جناب مولوی سید شرافت علی ندوی کے ایک خط سے معلوم ہوا کہ دارالمصنفین کے سابق رفیق مولوی منصور نعمانی ندوی صاحب کا اچانک حرکت قلب بند ہوجانے سے ۱۶؍ فروری کو بھوپال میں انتقال ہوگیا۔ اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
ان کا سانحہ وفات ان کے والدین، اعزہ اور احباب کے لیے نہایت سخت اور اندوہناک ہے، بظاہر وہ توانا، متحرک، چاق و چوبند اور صحت مند تھے، بیماری دل کا تو شبہہ بھی نہ تھا، اپنے خانگی مسائل سے فکر مند ضرور تھے مگر کسے پتہ تھا کہ رخت سفر سمیٹنے میں ایسی عجلت کریں گے :
آہ کتنی مشکل زندگی ہے! کس قدر آساں ہے موت
وہ ندوہ کے باصلاحیت فرزندوں میں تھے، تعلیم کے دوران ہی ان کی صلاحیتیں ظاہر ہونے لگی تھیں، چنانچہ اسی زمانہ میں ان کے مراسلے صدق جدید میں بار پانے لگے تھے، وہ ندوہ کی انجمن الاصلاح کے ناظم ہوئے تو ان کے دور نظامت میں رشید احمد صدیقی مرحوم نے وہ اہم توسیعی خطبہ دیا جسے عزیزان ندوہ کے نام سے شایع کیا گیا حصول تعلیم کے بعد وہ تاج المساجد میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے، ساتھ ہی نشان منزل کے عملاً مدیر بھی رہے ان کی سعی اور تدبیر سے اسکا معیار بلند ہوا، ۱۹۷۷؁ء میں وہ دارالمصنفین کے رفیق کی حیثیت سے تشریف لائے یہاں انھوں نے حافظ سخاوی، شیخ عبدالقادر عیدروس اور حافظ سخاوی کی تصانیف جیسے علمی مقالے سپرد قلم کیے، تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند کی بعض اہم فروگذاشتوں پر انھوں نے جس وقت نظری سے توجہ دلائی اس کا وزن محسوس کیا گیا، بعض اسباب کی وجہ سے وہ یہاں زیادہ دنوں قیام نہ کرسکے اور تلاش معاش میں سعودی عرب چلے گئے، وہاں سے واپس آنے کے بعد بھوپال میں ہی مستقل قیام رہا، رہین ستم ہائے روزگار ہونے کے باوجود انھوں نے قلم و قرطاس سے اشتغال قائم رکھا مقامی اخبارات میں برابر لکھتے رہے، مولانا سید سلیمان ندویؒ پربھوپال میں جو سمینار ہوا، اس میں انھوں نے بڑی محنت کی، اور ایک نہایت کامیاب شعری نشست کا انعقاد کیا، بھوپال کے عالموں، ادیبوں اور شاعروں سے ان کے اچھے روابط تھے، ادھر بھوپال میں نواب سید صدیق حسن خاں کی علمی یاد گار قائم کرنے کے لیے فکر مند تھے، وہ بڑی خوبیوں کے مالک تھے، خوش دل اور خوش مزاج تھے، طبیعت میں تواضع، انکسار اور حد درجہ سادگی بلکہ بھولاپن تھا، دوسروں کی خدمت میں لذت محسوس کرتے، مہمان نوازی تو ان کے پورے خاندان کا نمایاں وصف ہے، مگر وہ اس میں کچھ سواہی تھے، تحفے تحائف دینے میں بھی بڑی فیاضی کا ثبوت دیتے، ابھی ٹھیک ایک مہینہ قبل جب ان سے رخصت ہو کر آیا تھا تو کسے خبر تھی کہ اس سراپا پیکر اخلاص کی اس عالم ناسوت میں یہ آخری دید ہے، زندگی انھوں نے حوصلہ سے گذاری، ان کی موت بھی قابل رشک رہی جمعہ کے دن ٹھیک نماز جمعہ سے پہلے مسجد میں وہ سنتیں ادا کررہے تھے عین اسی حالت میں وہ وصال رب سے ہمکنار ہوئے، ان کی جواں مرگی ان کی اہلیہ، چھوٹے چھوٹے بچوں، والدہ اور خاص طور سے ان کے والد ماجد مولانا محمد نعمان خاں ندوی مدظلہ، کے لیے یقینا جاں گسل صدمہ ہے لیکن جس آن سے وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے وہ باعث تسکین بھی ہے، اﷲ تعالیٰ اپنے اس معصوم صفت بندہ کے درجات بلند فرمائے، زندگی کی دشوار گذار راہوں میں ان کی اہلیہ اور بچوں کی اپنے فضل خاص سے دستگیری فرمائے جن کے پاس ع اک متاع دیدۂ تر کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، مارچ ۱۹۹۰ء)

 
Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...