Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > پروفیسر مشیر الحق

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

پروفیسر مشیر الحق
ARI Id

1676046599977_54338283

Access

Open/Free Access

Pages

489

پروفیسر مشیرالحق مرحوم
دارالمصنفین اور پوری علمی دنیا میں جناب پروفیسر مشیر الحق مرحوم وائس چانسلر کشمیر یونیورسٹی کے سانحہ قتل کی خبر نہایت رنج و غم کے ساتھ سنی گئی، ان کو یرغمال بنائے جانے کی خبر ہی باعث تشویش اور اضطراب تھی، لیکن یہ امید نہ تھی کہ ایک حلیم الطبع، نرم شائستہ و شگفتہ مزاج انسان کے خرمن ہستی کو آتش چنار اس طرح جلاکر خاک کردے گی۔
ان کی زندگی ماہ و سال کے لحاظ سے بہت زیادہ نہیں ہے لیکن محنت، صبر، استقلال عزم اور مقصد کی یافت کے لحاظ سے یہ حیات مختصر بڑی قابل قدر اور قابل رشک رہی۔ ان کے علمی سفر کا آغاز دارالعلوم ندوۃ العلماء کی طالب علمی سے اور اختتام کشمیر یونیورسٹی کی وائس چانسلری پر ہوا، حق یہ ہے کہ قدیم و جدید کے خوشگوار اور متوازن امتزاج کی یہ دلکش مثال ہے۔
وہ غازی پور یوپی کے قصبہ بحری آباد میں پیدا ہوئے، کم عمری میں والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوگئے، تعلیم کے لیے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ آئے، یہاں سے عالمیت کی سند لی، انھوں نے انگریزی تعلیم پر بھی توجہ کی اور بڑے نامساعد حالات اور سخت معاشی پریشانیوں کے باوجود انھوں نے علم و فن کی تحصیل جاری رکھی ان کے علمی شوق و ذوق کو ان کے محبوب و مشفق استاذ مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی مرحوم کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کبھی کم نہ ہونے دیتی، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بی اے اور علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم اے کیا، ۶۱؁ء میں انھوں نے کناڈا کی میک گل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند بھی حاصل کی، دوران تعلیم ان کے قلب و نظر پر مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی، پروفیسر محمد مجیب، پروفیسر سید عابد حسین اور پروفیسر الفریڈ کینٹویل اسمتھ کے نقوش خاص طور پر مرتسم ہوئے۔
پٹیالہ اور مسلم یونیورسٹی میں کچھ عرصہ تک تدریسی ذمہ داریاں انجام دینے کے بعد وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامیات و عرب ایرانین اسٹڈیز کے صدر ہوئے۔ ۸۷؁ء میں وہ کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔
ان کی زندگی کا زیادہ حصہ درس و تدریس میں گزرا لیکن اس کے باوجود وہ تصنیف و تالیف کے لیے بھی وقت نکال لیتے تھے، شروع میں انھوں نے مولانا عبدالسلام قدوائی ندوی مرحوم کی زیرنگرانی بچوں کے لیے صحابہ کرامؓ کے حالات بڑے موثر انداز میں تحریر کیے تھے جو ادارۂ تعلیمات اسلام لکھنؤ سے شائع ہوئے، یہیں سے ۴۸؁ء میں مولانا قدوائی مرحوم نے پندرہ روز تعمیر جاری کیا، جس کے مدیروں میں ان کے اور مولانا ابوالحسن ندوی صاحب کے علاوہ مشیر صاحب کا نام بھی تھا جس میں وہ مضامین کے علاوہ افسانے بھی لکھتے تھے، جامعہ ملیہ اور پھر میک گل یونیورسٹی نے ان کے فکر و نظر کو مزید وسعت دی، ۷۲؁ء میں ان کی کتاب ’امریکہ کے کالے مسلمان‘ شائع ہوئی جو مختصر ہونے کے باوجود اپنے موضوع پر اردو میں پہلی کتاب تھی، ۷۳؁ء میں ان کی ایک اور کتاب ’مسلمان اور سیکولر ہندوستان‘ شائع ہوئی، اس میں مذاہب، سیکولرزم دینی تعلیم، دینی رہنمائی، قانون اور شریعت جیسے موضوعات پر انھوں نے دعوت غور و فکر دی ہے لیکن اس میں ظاہر کیے گئے بعض خیالات سے سنجیدہ علمی و دینی حلقوں کو اختلاف رہا، ۷۴؁ء میں ’مذہب اور جدید ذہن‘ کے نام سے جب ان کے چند مضامین کا ایک مجموعہ طبع ہوا تو اس سے بھی اصحاب علم و دین نے مکمل طور پر اتفاق نہیں کیا وہ بظاہر جمود پسند ذہنوں میں ہلچل پیدا کرنے کے لئے اس قسم کے مضامین لکھتے تھے، لیکن اہل علم ان کے ضرر رساں پہلوؤں کو بھانپ لیتے تھے ان کو بھی معروضیت میں غلو تھا، سمیناروں میں ان کی موجودگی ضروری خیال کی جاتی، ان کے مقالوں پر مباحثہ و مناقشہ زیادہ ہوتا، لیکن وہ اپنے خیالات کو تسلیم کیے جانے پر کبھی اصرار نہیں کرتے اور اپنے نرم لہجہ، متبسم چہرہ اور کسی تیکھے جملہ سے مجلس میں جان پیدا کردیتے۔
۸۲؁ء میں دارالمصنفین میں ہونے والے مستشرقین پر بین الاقوامی سمینار میں وہ بھی شریک ہوئے اور اپنے استاد اور مشہور مستشرق کینٹویل اسمتھ کے حالات میں ایک مقالہ پڑھا، جس پر خاصی بحث ہوئی، جناب سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم نے سمینار کے روداد میں ان کے متعلق بڑی محبت سے لکھا کہ ’’ڈاکٹر مشیر الحق ندوی ابھی جوان ہیں ان کے مقالہ نگاری میں جوانی کی ساری ترنگیں اور امنگیں ہوتی ہیں‘‘۔
ان کے بعض علمی و مذہبی خیالات محل نظر ہوسکتے ہیں، لیکن ان کی شرافت، مروت، دل نوازی اور نرم خوئی مسلم تھی، وہ بڑی بے ساختہ اور بے تکلف گفتگو کرتے تھے جس سے نہ عہدہ منصب کی بڑائی کا اندازہ ہوتا تھا اور نہ کسی قسم کی رعونت کا اظہار ہوتا تھا، دینوی وجاہت کے مدارج طے کرنے کے بعد بھی انھوں نے اپنے قدیم بزرگوں اور دوستوں سے ربط و متعلق میں کوئی فرق نہیں آنے دیا۔
گزشتہ دسمبر میں غالب اکیڈمی دہلی میں جناب سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم کی یاد میں ایک سمینار ہوا تو اس کی صدارت کے لیے وہ خاص طور پر کشمیر سے آئے اور دن بھر سمینار کی نشستوں میں موجود رہے، دارالمصنفین سے ان کی گہری واقفیت اور غیر معمولی اخلاص و تعلق کا علم اس دن کی ان کی تقریر سے ہوا، جس کی لذت آج تک فراموش نہیں ہوسکی ہے۔
ادھر کشمیر میں سیاسی بے چینی بڑھتی جارہی ہے، کشمیریوں کے ایک طبقہ کا عرصہ سے یہ احساس ہے کہ،
آج وہ کشمیر ہے محکوم و مجبور و فقیر
کل جسے اہل نظر کہتے تھے ایران صغیر
مگر اس کے لیے مشیر صاحب کے خون ناحق کا وبال لینا سراسر نادانی ہے، حکومت کشمیر کا رویہ بھی بعض حلقوں میں مستحسن نہیں سمجھا گیا، ایک قیمتی جان کو بچانے کے لیے جس ذمہ داری کی ضرورت تھی اس کو خاطر خواہ پورا نہیں کیا گیا، بہرحال قضا و قدر کا فیصلہ یہی تھا، وہ اب اپنے رب کے حضور میں ہیں، رمضان المبارک کے مہینہ میں مظلومیت و بے کسی کے عالم میں انھوں نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی، اﷲ تعالیٰ بال بال مغفرت فرمائے اور ان کی اہلیہ، صاحبزادیوں اور دوسرے تمام اعزہ و احباب کو صبر کی توفیق دے، آمین۔ جامعہ ملیہ کے گورغریباں میں ڈاکٹر انصاری مرحوم کی لوح مزار پر کندہ یہ آیت ان کو بہت پسند تھی، کیا عجب آج ان کی قبر سے یہی صدا آتی ہو: یالیت قومی یعلمون بما غفرلی ربی وجعلنی من المکرمین۔[ےٰسین:۲۶۔۲۷] ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، اپریل ۱۹۹۰ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...