Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا حافظ محمدیوسف کوکن مدراسی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا حافظ محمدیوسف کوکن مدراسی
ARI Id

1676046599977_54338286

Access

Open/Free Access

Pages

490

افضل العلماء حافظ محمد یوسف کوکن مرحوم
تار کے ذریعہ یہ افسوسناک خبر ملی کہ دارالمصنفین کی انتظامیہ کے رکن اور مدراس یونی ورسٹی کے سابق صدر شعبہ عربی و فارسی، افضل العلماء حافظ محمد یوسف کو کن کا انتقال ۶؍ اکتوبر کو مدراس میں ان کے گھر پر ہوگیا، اِنا ﷲ واِنا الیہِ راجعُون۔
انہوں نے سرزمین مدارس میں مشرقی و دینی علوم کی قابل قدر خدمت جس خاموشی، محنت اور انہماک سے انجام دی اس کی وجہ سے برسوں ان کی کمی محسوس کی جائے گی۔ وہ ۴؍ نومبر ۱۹۱۵؁ء مدراس سے تقریباً ۹۵ میل دور ایک مردم خیز قصبہ مینمبور میں پیدا ہوئے یہ قصبہ مشہور قلعہ جبنحی سے متصل ہے، اس مضبوط قلعہ کو مسلمان فاتحین نے کئی بار اپنے قبضہ میں لیا، آخری بار نواب سعادت اﷲ خاں نے ۱۱۲۵؁ھ میں اس پر قبضہ کیا، چونکہ ان کا تعلق نوائط سے تھا اس لیے اکثراہل نوائط وہاں جاکر آباد ہوئے، مینمبور قصبہ کی ساری آبادی نائط مسلمانوں کی ہے جو اپنے حسب نسب، عزوشرف، دینی اور دنیوی وجاہت اور اپنے بعض مخصوص رسم و رواج کی وجہ سے جنوبی ہند میں امتیازی شان رکھتے ہیں، یہ لوگ شافعی المسلک ہوتے ہیں لیکن مینمبور کے نوائط عام طور سے حنفی ہیں، کوکن خاندان بھی حنفی المسلک ہے، گویہ خاندان عرصہ سے مدراس میں آباد ہے لیکن اس کی مادری زبان اردو ہے اور نصف صدی قبل اس کی علمی زبان فارسی تھی۔
کوکن مرحوم نے جامعہ دارالسلام عمر آباد میں تعلیم حاصل کی ، بعد میں انہوں نے گورنمنٹ مسلم کالج مدراس سے افضل العلماء اور منشی فاضل کی سند حاصل کی، دارالسلام عمرآباد کے مقاصد میں یہ بات بھی تھی کہ جامعہ کے طلبہ میں عربی اور فارسی کے ساتھ اردو کا اعلیٰ ذوق اور تصنیف وتالیف کا سلیقہ و ملکہ پیداہو، اسی مقصد سے کوکن مرحوم کو مزید تربیت حاصل کرنے کے لیے دارالمصنفین بھیجا گیا، یہاں وہ ۳۵؁ء سے ۴۰؁ء تک مولانا سید سلیمان ندویؒ کی نگرانی میں بحیثیت رفیق علمی کاموں مشغول رہے، اس عرصہ میں معارف میں ان کے کئی اہم مضامین مثلاً حافظ ابن القیم، امام ذہبی، نویری کی نہایۃ الارب، مسلمانوں کے مستعمل سنہ وغیرہ شائع ہوئے، یہاں کے قیام میں ان کا بڑا کارنامہ یہ بھی تھا کہ آہستہ آہستہ انہوں نے قرآن مجید کو حفظ کرنا شروع کیا اور دو تین برسوں میں مکمل حافظ بن کر دارالمصنفین کی مسجد میں محراب بھی سنائی، سید صاحبؒ نے خوش ہوکر معارف کے شذرات میں خاص طور پر اس کا ذکر کیا، انہوں نے ان کے ذوق و مناسبت طبع کے پیش نظر ان کے لیے سوانح ابن تیمیہؒ کا موضوع تجویز کیا، امام ابن تیمیہؒ کی حقیقی عظمت و منزلت سے اردو داں طبقہ کو سب سے پہلے روشناس کرانے والے علامہ شبلیؒ تھے، انہوں نے ۱۹۰۸؁ء کے الندوہ میں امام ابن تیمیہؒ کو سب سے بڑا مجدد اور اصل رفارمر ثابت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مجددیت کی اصل خصوصیتیں جس قدر امام ابن تیمیہؒ کی ذات میں پائی جاتی ہیں اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے، سید صاحبؒ کی خواہش کے مطابق کوکن مرحوم نے دو سال میں امام ابن تیمیہ کے سوانح، خدمات و تالیفات پر خاصا مواد فراہم کرلیا تھا مگر اسی عرصہ میں وہ جدید تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے وطن مدراس واپس تشریف لے گئے تاہم وہ اپنے موضوع سے کبھی غافل نہیں رہے اور برابر نئے معلومات جمع کرتے رہے سید صاحب انہیں کتاب کی اشاعت کے لیے بار بار توجہ بھی دلاتے رہے ، بالآخریہ کتاب ۵۹؁ء میں طبع ہوئی، ۶۷۲ صفحات کی یہ ضخیم کتاب امام ابن تیمیہ کے سوانح کا بالاستیعات احاطہ ہے اور اپنے موضوع پر اب تک نہایت جامع و مکمل ہے۔
انگریزی تعلیم کا شوق دامن گیر ہوا تو انہوں نے مدراس یونیورسٹی سے ایم۔اے کیا، اس کا شعبہ عربی و فارسی ہمیشہ ممتاز اوراپنے لایق اساتذہ کی وجہ سے نیک نام رہا ہے، ایک زمانہ میں مولوی محمد حسین صدیقی محوی لکھنوی وغیرہ اس سے وابستہ رہے ہیں، یونیورسٹی سے کوکن مرحوم کا طالب علمانہ رشتہ ختم ہوا تو جلد ہی تدریسی ربط قائم ہوگیا، اس ماحول میں ان کی علمی صلاحیتوں کو مزید جلا ملی۔ انہوں نے جنوبی ہند اور خا ص طور پر مدارس وکرناٹک کے کتب خانوں میں موجود اہم قدیم مخطوطات کی ترتیب و تدوین کو زیادہ لائق توجہ سمجھا، چنانچہ ۵۴؁ء میں انہوں نے میرمحمد اسماعیل خاں ابجدی ملک الشعرائے دربار والا جاہی کی کلیات ابجدی کو بڑے اہتمام اور فاضلانہ مقدمہ کے ساتھ شایع کیا، ۶۶؁ء میں ابجدی کی فارسی مثنوی ہفت جوہر بھی شائع کی، بعد میں مولوی غلام عبدالقادر ناظر مدراسی کی فارسی تصنیف بہاراعظم جاہی کو فارسی اور انگریزی مقدمہ و حواشی کے ساتھ شایع کیا، فن تصوف میں سید شاہ عبدالقادر مہرباں فخری مدراسی کی ایک ضخیم اور اہم غیر مطبوعہ عربی تالیف اصل الاصول فی بیان مطابقۃ الکشف بالمعقول والمنقول کو بڑی محنت سے حواشی و تعلیقات سے مزین کر کے شایع کیا، اس کے علاوہ ملا جلال الدین دوانی کی شواکل الحورنی شرح ہیکل النور اور باقر آغا کی مقامات کو بھی فاضلانہ مقدموں اور حواشی کے ساتھ طبع کرایا، عربی میں انہوں نے چند درسی کتابیں مثلاً العرب وادبہم، القرآۃ العربیہ وغیرہ تیار کیں، امیر خسروؒ پر بھی ایک کتابچہ لکھا، ۵۷؁ء میں وہ حکومت ہند کے وظیفہ پر ایک سال کے لیے قاہرہ یونیورسٹی گئے، وہاں ڈاکٹر طہٰ حسین ، ڈاکٹر سہیر قلماوی اور ڈاکٹر شوقی ضیف سے براہ راست استفادہ کے نتیجہ میں ان کو جدید عربی ادب کے تغیرات اور رجحانات سے واقفیت ہوئی، بعد میں کالی کٹ یونیورسٹی میں انہوں نے اسی موضوع پر خطبات دیے جن کی تین جلدیں اعلام النثزدالشعرقی العصر الحدیث کے نام سے شایع ہوچکی ہیں، پہلی جلد میں محمد علی، شیخ رفاعۃ رافع طہطاوی سے امیر شکیب ارسلان تک ڈیڑھ سو برس کے ۳۳ نامور ادباء و شعراء کا ذکر ہے، دوسری جلد میں ۵۲ مہجرین ادباء و شعراء اور تیسری جلد میں احمد لطفی السید سے ڈاکٹر شوقی ضیف تک ۴۶ ادیبوں کے حالات ہیں۔ جدید عربی ادب کے مطالعہ کے لیے یہ نہایت مفید کتاب ہے، اردو میں انہوں نے نواب غلام اعزالدین خاں بہادر مستقیم جنگ کی مثنوی نوبہار عشق کو مرتب کیا، ان کی شاہکار تصنیف تو امام ابن تیمیہ ہے لیکن خانوادہ قاضی بدرالدولہ، بھی ان کی نہایت عمدہ تالیف ہے، یہ کتاب امام العلماء قاضی بدرالدولہ مرحوم اور ان کے خاندان کے بعض باکمال اہل علم و قلم کے تذکرہ پر مشتمل ہے، لیکن درحقیقت یہ جنوبی ہند میں عربی، فارسی اور اردو کے علوم ومعارف کی ایک مکمل اور جامع تاریخ ہے، انگریزی میں ان کی ایک وقیع کتاب Arabic and Persian in Carnatic ہے، اصلاً یہ ایم لٹ کا مقالہ ہے جسے انہوں نے ۶۵؁ء میں تیار کیا تھا۔
وہ ترجمہ کے فن پر بھی قدرت رکھتے تھے، چنانچہ ڈاکٹر الیکسس کارل کی مین دی ان نون کا ترجمہ نامعلوم انسان اور مورلینڈ اور چٹرجی کی اے شارٹ ہسٹری آف انڈیا کا ترجمہ مختصر تاریخ ہند کے نام سے شایع کیا۔
ان کی زندگی کا بیشتر حصہ علم و حکمت کے جواہرریزوں کو خاموشی سے چننے سمیٹنے اور لڑیوں میں پرونے میں گزرا، تاہم کبھی کبھی وہ اپنے گوشہ عافیت سے باہر بھی نکلتے تھے، مصر و شام، لبنان و ایران اور سرزمین حجاز کی سیاحت و زیارت بھی کی، وہ دارالمصنفین اور ندوۃ العلماء کی مجلس انتظامیہ کے ممبر تھے لیکن صلاح و مشورہ کا ربط زیادہ تر خطوط کے ذریعہ رہا، کئی برس پہلے وہ اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ ایک جلسہ میں شرکت کے لیے تشریف لائے تو اپنی شرافت، نیکی اور فروتنی کا نقش ہر دل پر ثبت کرگئے، شہر میں اپنے بعض پرانے احباب کے گھر بھی گئے، آئندہ کے لیے آنے کا وعدہ کرگئے مگر دو برس پہلے ایک حادثہ میں وہ صاحب فراش ہوگئے، اسی زمانہ میں اتفاقاً مولانا ضیاء الدین اصلاحی صاحب مدراس پہنچے تو ان کی عیادت کے لیے بھی گئے مرحوم بڑے لطف و شفقت سے پیش آئے اور علالت و معذوری کے باوجود بڑا پرتکلف کھانا کھلایا، اب یہ خبر سن کر نہایت ملال ہو ا کہ وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے، حیات دنیوی کی نعمت و امانت کو انہوں نے بڑی ایمانداری سے استعمال کیا اور با مقصد اور کامیاب زندگی بسر کی، دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کو آخرت کی اصل اور ابدی زندگی میں بھی انعام و اکرام سے نوازے اور ان کی اہلیہ محترمہ اور تمام متعلقین کو صبر جمیل کی توفیق دے۔ دارالمصنفین کے لیے بھی ان کی موت ایک سانحہ ہے۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، نومبر ۱۹۹۰ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...