Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا ابواللیث

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا ابواللیث
ARI Id

1676046599977_54338287

Access

Open/Free Access

Pages

492

ڈاکٹر ابواللیث صدیقی مرحوم
گزشتہ ستمبر میں اردو کے نامور استاد محقق و نقاد اور ماہر لسانیات جناب ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کا کراچی میں ۸۰ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا، اِناﷲ وَاِنا اِلَیہ رَاجِعُون۔
وہ بدایوں میں پیدا ہوئے، علی گڑھ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی، رشید احمد صدیقی اور مولانا احسن مارہروی وغیرہ سے اکتساب فیض کیا اور رشید صاحب کی زیر نگرانی لکھنؤ کے دبستان شاعری پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے یہ اعزاز حاصل کرنے والے وہ پہلے شخص تھے، بعد میں یہ مقالہ کتابی شکل میں متعدد بار شائع ہوا اور یہی ان کی شہرت کا اصل سبب بھی بنا، مضمون نگاری کا شوق زمانہ تعلیم سے تھا چنانچہ اسی زمانہ میں ان کے مضامین معارف کے علاوہ دوسرے رسالوں میں بھی شائع ہوئے، درس و تدریس کا سلسلہ بھی مسلم یونیورسٹی سے شروع ہوا، جہاں وہ شعبہ اردو میں لکچرر مقرر ہوئے بعد میں پاکستان بننے کے بعد وہ کچھ عرصہ لاہور کے اورینٹل کالج میں اور پھر کراچی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے استاد ہوئے، ترقی اردو بورڈ کراچی کے معتمد ہوئے اور ریٹائر ہونے کے بعد کراچی یونیورسٹی میں پروفیسر ایمریٹس ہوئے، مضامین کثرت سے لکھے اور متعدد کتابیں بھی لکھیں۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے خود نوشت سوانح بھی لکھے تھے جو رسالہ تہذیب میں قسط وار چھپتے رہے ہیں لیکن غالباً ابھی کتابی شکل میں طبع نہیں ہوئے، ’’سرسید احمد خاں کی اسباب بغاوت ہند‘‘ کو بھی حواشی و تعلیقات کے ساتھ کراچی سے شائع کیا، ان کے حسب ذیل مضامین معارف میں بھی شائع ہوئے۔ میر کا فارسی کلام، میرحسن کی ایک نادر مثنوی رموز العارفین، محسن کاکوروی اور ان کی خصوصیات اور مناقب ذوالنورین المعروف بہ بہارستان سخن وغیرہ، متانت اور سلاست کے علاوہ ان کی تحریریں وسعت مطالعہ منطقی استدلال اور اعتدال کا نمونہ ہیں، قدیم مصادر ادب سے وہ واقف تھے اور ان سے متاثر بھی، علامہ شبلی کے طرز تحریر کا اثر بھی ان پر تھا اور وہ ان کی تحریروں سے استفادہ بھی کرتے تھے، پروفیسر کلیم الدین احمد کے متعلق ایک جگہ لکھتے ہیں ’’کلیم صاحب نے مغربی ادب سے استفادہ کیا ہے، لیکن ان خیالات کو آئے ہوئے اردو میں زمانہ گزرا، مولانا شبلی شعرالعجم کی جلد چہارم میں انہی مباحث کو تشریح اور تفصیل کے ساتھ لکھ چکے ہیں ’’ایک جگہ لکھا کہ‘‘ باربار مولانا شبلی کا حوالہ ممکن ہے ناظرین پر بار گزرے اس لئے اس مرتبہ حالی کی طرف رجوع کرتے ہیں‘‘ میرتقی میر پر ان کی تحریریں مطالعہ میرؔ کے لیے نہایت مفید ہیں، میرؔ کے وہ مرتبہ شناس تھے، لیکن اس کے باوجود ان کا خیال تھا کہ خدائے سخن کے لقب کے مستحق میر سے بڑھ کر اقبال ہیں، اقبالیات میں ان کی دو کتابیں اقبال اور مسلک تصوف اور ملفوظات اقبال نمایاں ہیں، ان کا ایک اور بڑا کارنامہ چھ جلدوں میں اردو لغت کی تدوین ہے جس کے متعلق جناب سید صباح الدین عبدالرحمن مرحوم نے معارف میں لکھا تھا کہ یہ ایک ایسا عظیم الشان کارنامہ ہے جس پر نہ صرف اردو زبان بلکہ علم و ادب کو بھی ناز ہوسکتا ہے، کاش یہ سلسلہ وہ مکمل کردے۔
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ انہیں دنیا کی طرح آخرت میں بھی کامیابی و سرخروئی عطا فرمائیں، آمین۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، جنوری ۱۹۹۵ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...