1676046599977_54338288
Open/Free Access
493
مولانا قاضی سجاد حسین
(پروفیسر مختار الدین )
علمی و دینی حلقوں میں یہ خبر افسوس کے ساتھ سنی گئی کہ اواخر دسمبر ۱۹۹۰ء میں قاضی سجاد حسین دہلی میں رحلت فرماگئے۔ خدا ان کی مغفرت فرمائے اور انھیں اعلیٰ علیین میں جگہ دے۔
قاضی صاحب اپنے وطن کرت پور ضلع بجنور میں ۱۳۲۸ھ؍ ۱۹۱۰ء میں پیدا ہوئے۔ متوسطات کی تعلیم حاصل کرکے وہ دارالعلوم دیوبند گئے جہاں ۱۹۲۸ء میں ۱۸ سال کی عمر میں انھوں نے علوم اسلامی کی تکمیل کی۔ انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان بھی دیا اور اعزاز کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ فراغت کے بعد ان کا تعلق مدرسہ عالیہ عربیہ فتحپوری دہلی سے ہوا جہاں وہ ۴۵ سال تک تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ انھوں نے تقریباً تیس ۳۰ سال تک اسی مدرسے میں شیخ الحدیث کے فرائض انجام دیے۔ وہ عرصے تک اس مدرسے کے صدر مدرس رہے ان کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں تک پہنچے گی۔ ۱۹۶۷ء میں حکومت ہند نے ان علمی خدمات کے اعتراف میں انھیں پریسیڈنٹ ایوارڈ تفویض کیا۔
تالیف و تصنیف و ترجمے کا شوق انھیں ابتدا ہی سے تھا۔ ان کی پہلی تصنیف جو راقم الحروف کی نظر سے گزری وہ ’’التوشیحات علی السبع المعلقات‘‘ تھی۔ سبعہ معلقہ کی اردو میں ان کی یہ شرح عرصہ ہوا شایع ہوئی تھی، اب عام طور پر نہیں ملتی۔ قاضی صاحب کی دوسری تصانیف حسب ذیل ہیں۔
۱۔ ترجمہ گلستان سعدی سب رنگ کتاب گھر، دہلی، ۱۹۵۳ء
۲۔ ترجمہ بوستان سعدی سب رنگ کتاب گھر، دہلی، ۱۹۶۱ء
۳۔ حاشیہ مالا بدمنہ مصنفہ قاضی ثناء اﷲ پانی پتی (متوفی ۱۲۲۵ھ) اس کے آخر میں کلمات الکفر منقول از فتاواے برہانی، وصیت نامہ قاضی ثناء اﷲ پانی پتی، احکام اضحیہ و وجوب آں اور رسالۂ احکام عقیقہ از مولانا عبدالغفار لکھنوی بھی بطور ضمائم شامل ہیں۔ سب رنگ کتاب گھر، دہلی ۱۹۵۶ء
۴۔ ترجمہ دیوان حافظ سب رنگ کتاب گھر، دہلی، ۱۹۶۳ء
۵۔ ترجمہ مثنوی مولانا روم (دفتر اول تاششم) سب رنگ گھر، دہلی ۱۹۷۴ء- ۱۹۷۸ء
ان کے علاوہ قاضی صاحب نے دو فارسی و عربی متون مرتب کر کے شایع کیے ہیں:
۶۔ سراج الہدایہ (ملفوظات مخدوم جہانیاں جہاں گشت ۷۰۷ھ، ۷۸۵ھ) یہ پرفیسر سید نورالحسن کی توجہ سے انڈین کونسل آف ہسٹاریکل ریسرچ، نئی دہلی سے ۱۹۸۳ء میں شایع ہوئی، کتاب کا تعارف پروفیسر سید نورالحسن کے قلم سے ہے۔
۷۔ قاضی صاحب مرحوم و مغفور کی زندگی کے آخری پانچ سات سال، آٹھویں صدی ہجری کے ممتاز حنفی عالم و فقیہ شیخ عالم بن العلاء، الانصاری الاندرینی الدھلوی (متوفی ۷۸۶ھ؍ ۱۳۸۴ء)کی ضخیم کتاب الفتاویٰ التاتا رخانیہ کی تصحیح و اشاعت میں گزرے۔ عہد فیروز شاہ (۷۵۲ھ؍ ۷۹۰ھ) کے اس مصنف نے تقریباً تیس ۳۰ فقہی مصادر سے (جن میں متعدد اب مفقود ہیں) یہ ضخیم کتاب مرتب کی تھی۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہوسکتا ہے کہ جب اس کتاب کی ترتیب کی خبر فیروز شاہ تغلق (متونی ۷۹۶ھ) کو ملی تو اس نے مصنف سے خواہش ظاہر کی کہ وہ یہ کتاب اس کے نام پر فتاواے فیروز شاہی رکھیں۔ مصنف نے خدا ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے بادشاہ وقت کی خوہش کا احترام نہ کرتے ہوئے اس کے ایک سردار تاتار خاں کے نام پر اپنی کتاب کا نام رکھا۔ ہر چند نزھۃ الخواطر میں اس کا نام ’’زادالسفر‘‘ یا ’’زادالمسافرین‘‘ لکھا ہے (ممکن ہے پہلے مصنف کے ذہن میں یہی نام ہو) لیکن یہ کتاب ’’الفتاویٰ التاتار خانیہ‘‘ ہی کے نام سے مشہور ہوئی۔
ڈاکٹر زبید احمد مرحوم نے اس کے نسخہ قاہرہ، پیشاور، رام پور، حیدر آباد، بانکی پور کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے۔ قاضی صاحب کے پیش نظر چار نسخے رہے جن میں دو تو یہی آصفیہ حیدر آباد اور کتب خانہ خدا بخش کے نسخے ہیں لیکن انھیں دو نئے نسخے بھی حاصل ہوگئے۔ ایک مفتی عبدالشکور کے کتب خانہ خاص میں اور دوسرا متحف سالار جنگ حیدر آباد میں۔ آخر الذکر دونوں نسخوں کا اکتشاف بعد کو ہوا اس لیے ڈاکٹر زبید احمد کی کتاب ان کے ذکر سے خالی ہے۔ قاہرہ کا نسخہ راقم کی نظر سے گذرا ہے، بہت اچھا نسخہ ہے، میں نے قاضی صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ اس کا بھی عکس منگوالیں لیکن اس کی طرف توجہ کا انھیں موقع نہ مل سکا۔ بہرحال نسخہ سالار جنگ مکمل نسخہ ہے جو ۹ جلدوں میں تمام ہوا ہے اور بہت اچھی حالت میں ہے، اس سے مرتب کو بہت مدد ملی ہوگی۔
فتاویٰ کی ضخامت کے پیش نظر نویں صدی ہجری میں اس کی تلخیص کا کام ہوا، مولانا سید مناظر احسن گیلانی مرحوم نے ’’ہندوستانی مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت‘‘ میں لکھا ہے کہ علمائے حلب میں ایک عالم ’’ابراہیم بن محمد‘‘ نے اس کی تلخیض الفوائد المنتخبہ، کے نام سے کی ہے۔ وہ بظاہر مصنف کی تشخیص نہ کرسکے کہ یہ کون بزرگ ہیں۔ ابراہیم بن محمد سے تو کوئی کچھ نہیں سمجھ سکتا۔ یہ اس صدی کے مشہور عالم و مصنف اور محدث سبطا ابن العجمی (متونی ۸۴۱ھ) ہیں جن کا نام برہان الدین ابو اسحاق ابراہیم بن محمد بن خلیل سبط ابن العجمی تھا۔ یہ صاحب تصانیف کثیرہ ہیں اور ان کی چند کتابیں شایع بھی ہوچکی ہیں۔ متعلقات حدیث پر ان کے تین رسالوں کے نسخے جو مصنف کی نظر سے گزر چکے ہیں اور جن پر ان کی ترمیمات و اضافات ہیں۔ راقم اشاعت کے لیے مرتب کررہا ہے۔
خدا جزائے خیر دے پروفیسر سید نورالحسن کو جو ہندوستان کے عہد وسطی کی تاریخ کے ماہروں میں ہیں اور جنھیں فیروز شاہ کے عہد سے خاص دلچسپی ہے، جب انھوں نے وزارتِ تعلیمات کا قلم دان سنھبالا تو ’’الفتاویٰ التاتار خانیہ‘‘ کی اہمیت کے پیش نظر اس کی ترتیب و تصحیح کی طرف قاضی سجاد حسین کو متوجہ کیا اور اس کی تصحیح و ترتیب و اشاعت کے لیے لاکھوں روپے حکومت ہند سے منظور کرائے۔
پروفیسر سید نورالحسن نے جب وہ علی گڑھ میں صدر شعبۂ تاریخ تھے ایک بار مجھ سے فرمایا کہ فقہی اہمیت تو اس کتاب کی ظاہر ہے لیکن اس کی تاریخی و معاشرتی اہمیت بھی ہے، اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ عہد فیروز شاہ میں کس قسم کے مسائل سے لوگوں کا سامنا تھا اور کس قسم کے استفسارات، عوام و خواص مفتیانِ دین سے کیا کرتے تھے، فتاوائے تاتار خانیہ سامنے آجائے تو ان مسائل پر روشنی پڑ سکتی ہے۔
’’الفتاویٰ التاتار خانیہ‘‘ کی طباعت کا اہتام مطبع دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد میں ہوا، اس کی جلد اول و دوم ۱۹۸۴ء میں تیسری جلد ۱۹۸۶ء میں اور چوتھی ۱۹۸۷ء میں شایع ہوئی۔ ممکن ہے ایک آدھ جلد اور چھپی ہو لیکن وہ میری نظر سے نہیں گزری۔ خدا کرے قاضی صاحب مغفور نے بقیہ مجلدات کی ترتیب و تصحیح کا کام مکمل کرلیا ہو اور کسی دن پوری کتاب زیور طبع سے آراستہ ہوجائے۔
قاضی سجاد حسین کی وفات دہلی میں ۵؍ جمادی الآخر ۱۴۱۱ھ مطابق ۲۴؍ دسمبر ۱۹۹۰ء کو ہوئی۔ دوسرے دن اینگلو عربک اسکول میں نمازہ جنازہ ہوئی اور حوض رانی دہلی میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ رحمہ اﷲ رحمۃ واسعۃ۔ (فروری ۱۹۹۱ء)
ضروری تصحیح: معارف (فروری) میں قاضی سجاد حسین کی وفات پر ایک نوٹ شایع ہوا ہے، اس میں مرحوم کی سات تصانیف کا ذکر کیا گیا ہے، اس عرصے میں ان کی ایک کتاب اخلاق محسنی (مترجم) میرے کتاب خانے میں نکل آئی جسے انھوں نے دہلی میں ۳۰؍ مئی کو مجھے اپنی دوسری تصانیف کے ساتھ مرحمت فرمایا تھا، یہ ۳۰۳ صفحوں کی کتاب ہے فارسی کی ہر سطر کے نیچے اردو ترجمہ درج ہے، سال طبع درج نہیں لیکن قمر سنبھلوی کے قطعۂ تاریخ سے ۱۲۸۴ھ کے اعداد مستخرج ہوتے ہیں اور اس کتاب پر جو شاہ معین الدین احمد ندوی مرحوم، رفیق دارالمصنفین اعظم گڑھ کا پیش لفظ ہے وہ ۲۵؍ اگست کا لکھا ہوا ہے۔ سال طباعت ۶۴ء سمجھنا چاہئے۔
دوسری کتاب پندنامہ (محشیٰ) ہے، یہ پہلی کتاب سے کچھ پہلے چھپی اس لیے کہ اخلاق محسنی کے آخر میں اس کا اشتہار درج ہے۔ دونوں کتابیں قاضی صاحب مرحوم ہی کے ادارے سب رنگ کتاب گھر، گلی قاسم جان دہلی سے شائع ہوئی ہیں۔ اس طرح قاضی سجاد حسین مرحوم کی تصانیف کی تعداد ۹ تک پہنچتی ہے۔ اس لیے کہ اخلاق محسنی کے آخر میں اس کا اشتہار درج ہے، دونوں کتابیں قاضی صاحب مرحوم ہی کے ادارے سب رنگ کتاب گھر، گلی قاسم جان دہلی سے شائع ہوئی ہیں۔ اس طرح قاضی سجاد حسین مرحوم کی تصانیف کی تعداد ۹ تک پہنچتی ہے۔
(۲) معارف ص ۱۵۳۔ ابراہیم بن محمد نام کے دو مصنف حلب میں گزرے ہیں، ایک محمد بن ابراہیم تو یہی سبط بن العجمی (متوفی ۸۴۱ھ) ہیں، دوسرے ابراہیم بن محمد، متاخر العہد ہیں اور ملتقی الابحر اور غنیۃ المستملی کے مصنف جو بحیثیت عالم و مصنف مقدم الذکر کے مقابلے میں شہرت نہیں رکھتے۔ انھوں نے استانبول میں ۹۵۶ میں وفات پائی۔ فتاوی التاتار تارخانیہ کی تلخیص الفوائد المنتخبہ انہی بزرگ کی کی ہوئی ہے، برہان الدین ابراہیم بن محمد سبط ابن العجمی کی نہیں۔
( ’’مختار الدین احمد‘‘، اپریل ۱۹۹۱ء)
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |