Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولانا حافظ محمد تقی امینی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولانا حافظ محمد تقی امینی
ARI Id

1676046599977_54338289

Access

Open/Free Access

Pages

495

مولانا حافظ محمد تقی امینی
ڈاک کا نظام اس قدر اتبر ہے کہ مہینوں سے دارالمصنفین میں اردو کا کوئی اخبار نہیں آرہا ہے، اس لیے ضروری اور اہم خبروں کا بھی علم نہیں ہوتا، پروفیسر مختارالدین احمد صاحب کو اﷲ تعالیٰ جزائے خیر دے جن کے گرامی نامہ سے دارالمصنفین کے ایک مخلص کرم فرما مولانا حافظ محمد تقی امینی کی حسرتناک وفات کی اطلاع تاخیر سے ملی۔
مولانائے مرحوم مسلمانوں کے قدیم و جدید دونوں طبقوں میں مقبول اور ہر دلعزیز تھے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انھوں نے بڑی نیک نامی اور عزت حاصل کی، وہ ایک عالم دین اور اسلامیات کے فاضل و محقق اور مصنف کی حیثیت سے پورے ملک میں مشہور تھے، دینی علوم میں بلند پائیگی کے ساتھ ساتھ وہ اخلاص، عمل، ﷲیت، بے نفسی اور زہد و اتقا میں بھی ممتاز تھے، ان کی وفات سے علمی و دینی حلقوں میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پر ہونا مشکل ہے۔
۱۹۵۰؁ء میں میں عربی کا متبدی تھا اور اسی زمانے سے معارف کی ورق گردانی کرتا تھا، اس کے جن مضمون نگاروں کے نام لوح دل پر ثبت ہوگئے تھے ان میں مولانا کا نام بھی تھا کیونکہ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد برابر ان کے مضامین معارف میں شائع ہوتے رہتے تھے، سنہ تو یاد نہیں لیکن ان سے پہلی ملاقات دارالمصنفین میں اس وقت ہوئی جب وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات کے ناظم ہوچکے تھے اور گرمیوں میں مطالعہ و کتب بینی کے لیے اعظم گڑھ تشریف لائے تھے۔
وہ مولانا شاہ معین الدین احمد ندوی مرحوم سابق ناظم دارالمصنفین کے مہمان تھے جن کے ساتھ ہی میرا کھانا پینا بھی ہوتا تھا، شاہ صاحب نے مولانا کا پلنگ میرے کمرے میں لگوا دیا تھا اس طرح تقریباً ایک ماہ تک ہر وقت میرا ان کا ساتھ رہا اور مجھے ان سے فیض یاب ہونے اور ان کے مخلصانہ مشوروں سے فائدہ اٹھانے کا پورا موقع ملا۔ مولانا بڑے خوش طبع اور باغ و بہار شخص تھے، اپنی دلچسپ باتوں اور لطائف و ظرائف سے معمور گفتگو سے مجلس کو زعفران زار بنادیتے تھے ان کی صحبت میں بہت جی لگتا اور یہ چند روز بڑے پرکیف اور نہایت خوش گوار گزرے۔
چہ مبارک سحرے بودوچہ فرخندہ شبے
آں شب قدر کہ تازہ براتم داوند
اس ملاقات کے بعد مولانا سے خلوص و محبت کا جو رشتہ قائم ہوا وہ اب ان کی وفات کے بعد ہی ختم ہوا، میں جب علی گڑھ جاتا تو ان سے ضرور ملاقات کرتا، وہ بہت خوش ہوتے اور میں بھی ان سے ملنے کو ملاقات مسیحا و خضر سے بہتر خیال کرتا، کسی جلسہ اور سیمینار میں ملتے تو برابر اپنے ساتھ رکھتے اور فرماتے:
؂ ’’ غنیمت جان لو مل بیٹھنے کو ‘‘
وہ خطوط کم لکھتے تھے مگر جب کبھی ان کو جواب طلب خط لکھا تو اس کا جواب فوراً دیا، ان کی کوئی کتاب چھپتی تو ضرور بھجواتے اور خط لکھ کر تبصرے کا تقاضا کرتے، فرماتے کہ اب دو ہی ایک رسالوں میں کتاب پڑھ کر تبصرہ ہوتا ہے، معارف کے بعد مجھے کسی کے تبصرے کا انتظار نہیں رہتا۔ میری کوئی تحریر پسند آجاتی تو خط لکھ کر حوصلہ افزائی فرماتے، معارف کی ادارت کا بارگراں میرے دوش ناتواں پر آیا تو ایک شمارے ملاحظہ فرمانے کے بعد جو ہمت افزا خط لکھا اس سے مجھے بڑی تقویت ملی۔ حال ہی میں میرا ایک تبصرہ ان کی نظر سے گزرا تو بہت پسند کیا اور فوراً مبارک باد کا خط لکھا جس میں یہ اصرار بھی تھا کہ ان کا خط معارف میں شائع کردیا جائے۔ جب ملاقات ہوئی تو پھر داد دی اور خط شائع نہ کرنے کے میرے فیصلے سے اتفاق فرمایا۔
مولانا کی ولادت صبیحہ (ضلع بارہ بنکی) میں ۱۹۲۶؁ء میں ہوئی، یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد مدرسہ الٰہیات کان پور میں داخلہ لیا، لیکن تعلیم کی تکمیل مولانا مفتی محمد کفایت اﷲ شاہجہاں پوری کے سایہ عاطفت میں مدرسہ امینیہ دہلی میں ہوئی۔
فارغ التحصیل ہونے کے بعد درس و تدریس کا مشغلہ اختیار کیا اور وقتاً فوقتاً مختلف مدارس سے وابستہ رہے، دارالعلوم معینیہ اجمیر کے صدر مدرس بھی رہے، اسی زمانہ میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ناظم ندوۃ العلماء کی دعوت پر موجودہ دور کے اہم پیچیدہ اور نازک مسائل کا متفقہ حل تلاش کرکے مسلمانوں کی مناسب رہنمائی کے لیے مجلس تحقیقات شرعیہ کا قیام عمل میں آیا، اس مجلس کی ذمہ داری مولانا محمد تقی امینی کو تفویض کی گئی، یہ کام ان کے ذوق اور دلچسپی کا تھا جس کو انھوں نے خوش اسلوبی سے انجام دیا۔
ندوۃ العلماء لکھنؤ میں چند برس قیام کرنے کے بعد وہ ۱۹۶۴؁ء میں علی گڑھ آئے اور مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ دینیات میں لکچرر اور ناظم سنی دینیات مقرر ہوئے، اور ترقی کرکے صدر شعبہ سنی دینیات اور ڈین فیکلٹی آف تھیالوجی ہوئے اور ۸۹؁ء میں ریٹائر ہوئے۔ علی گڑھ کو انھوں نے اپنا وطن ثانی بنالیا تھا۔ وفات کے بعد اسی کی خاک کا پیوند ہوئے اور یونیورسٹی کے قبرستان میں دفن ہوئے۔
مولانا کا اصلی کارنامہ ان کی تصنیفات ہیں، ان میں تصنیف و تالیف کا ذوق فطری تھا، علی گڑھ کی علم پرور فضا میں ان کا یہ جوہر زیادہ کھلا مختلف موضوعات پر انھوں نے ایک درجن سے زیادہ کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جن کے نام یہ ہیں، (۱)کائنات میں انسان کا مقام، (۲)عروج و زوال کا الٰہی نظام، (۳)لامذہبی دور کا تاریخی پس منظر، (۴)اسلام کا زرعی نظام، (۵)فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، (۶)مسئلہ اجتہاد پر تحقیقی نظر، (۷)احکام شرعیہ میں حالات و زمانہ کی رعایت، (۸)تہذیب کی تشکیل جدید، (۹)انشورنس کی شرعی حیثیت، (۱۰)امت مسلمہ کی رہنمائی حضرت عمرؓ کی تعلیمات کی روشنی میں، (۱۱)مقالات امینی، (۱۲)حدیث کا درایتی معیار، (۱۳)خطبات عیدین، (۱۴)مراسلات، (۱۵)حکمت القرآن، (۱۶)ہدایت القرآن (نامکمل تفسیر قرآن)۔
ان کتابوں کی اہمیت کی وجہ سے عربی و انگریزی میں بعض کے ترجمے ہوئے جن لوگوں نے ان کا بغور مطالعہ کیا ہے وہ مولانا کی علمی و دینی پختگی اور وسعت نظر کی شہادت دیں گے۔
اس زمانہ میں احکام و مسائل اور فقہی جزئیات پر نظر رکھنے والے اشخاص کی کمی نہیں ہے لیکن مسائل پر پھیل کر سوچنے اور غور کرنے والے مفقود ہیں مولانا کی تصنیفات میں جن مسائل کا ذکر ہے فقہ کی قدیم کتابیں ان سے خالی ہیں اور موجودہ لوگوں نے بھی ان کی جانب کم توجہ کی ہے اور جنھوں نے کی ہے ان کے اور مولانا کے انداز فکر میں نمایاں فرق ہے، ان کا تعلق اس صاحب نظر طبقہ سے تھا جو اسلامی فقہ کے جمود و تعطل کو ختم کرکے اجتہاد کا بند دروازہ کھولنا چاہتا تھا، اس سلسلہ میں ان کا رسا ذہن اور دقیقہ بیں نظر جہاں اور جن گوشوں تک پہنچی ہے وہاں تک رائے عام سے مرعوب اور شذوذ و تفرد کے اندیشوں میں گرفتار لوگ نہیں پہنچ سکے، مولانا کو زمانے کے بدلے ہوئے حالات اور شرعی احکام کی نزاکتوں دونوں کا پورا احساس ہے، اس لیے انھوں نے ٹھیٹ مذہبی حلقوں کو اپنا انداز فکر و نظر بدلنے اور اجتہاد کا بند دروازہ کھولنے کی دعوت دی ہے اور نئی جلوہ گاہوں کے مدہوشوں کو ہوش و حواس درست کرنے اور اجتہاد کے نشیب و فراز سے واقف ہونے کا مشورہ دیا ہے آج چاہے ان کی رائے کو شک و شبہہ کی نظر سے دیکھا جائے لیکن جلد ہی اس کا وزن محسوس کیا جائے گا، انھوں نے بہت پہلے شورائی اجتہاد کو اس دور کے لیے مناسب بتایا تھا اب اس کی اہمیت عام طور پر تسلیم کی جانے لگی ہے، غور و فکر، اجتہاد و اختراع اور تفریح و استنباط اس امت کا خاص وصف و امتیاز تھا مسلمانوں کے اس تاریخی کردار اور کارنامہ کو مولانا نے اپنی تصنیفات میں تفصیل سے قلمبند کیا ہے۔
جس طرح مولانا امینی کو اسلامی فقہ و قانون کی تشکیل جدید اور ازسرنو تدوین کی ضرورت کا شدید احساس تھا اسی طرح ان کو احادیث کی ازسر نو تدوین و تبویب کی ضرورت کا بھی احساس تھا، وہ اس پر غور و فکر تو برابر کرتے رہے مگر فقہ اسلامی کی طرح اس کے متعلق اپنے خیالات کو تو پیش کرنے کا انہیں موقع نہیں ملا، یا وہ یہ سمجھتے تھے کہ ابھی لوگ ان کے ان خیالات کے متحمل نہیں ہوسکیں گے۔
جس طرح فقہ کی نئی تدوین و تشکیل کا مقصد قدیم فقہا کی خدمات اور کارناموں پر پانی پھیرنا نہیں ہے، اسی طرح حدیث کی نئی ترتیب و تدوین اور اس کے لیے نئے اصول روایت و درایت وضع کرنے کا مقصد بھی احادیث نبوی کا انکار اور قدیم محدثین کے کارناموں کو نظر انداز کرنا نہیں ہے مگر یہ عجیب بات ہے کہ قدمانے جس انداز پر کتب حدیث مرتب کی ہے اب اس سے سرمو انحراف کو وہ لوگ حدیث کی مخالفت سمجھتے ہیں جو ہر قسم کی تقلید کو نارواخیال کرتے ہیں۔
مولانا تقی امینی نے حدیث کا روایتی معیار کے نام سے جو کتاب لکھی ہے اس میں یہ واضح کیا ہے کہ صحیح و غلط حدیثوں میں امتیاز کے لیے محدثین نے روایت کی طرح درایت کے بھی اصول وضع کیے تھے لیکن اصول روایت کے مقابلہ میں اصول درایت پر کم توجہ کی گئی خصوصاً اردو میں تو اس موضوع پر بہت کم کام ہوا ہے، مصنف نے درایت کا مفہوم اور قرآن مجید، احادیث نبویؐ اور اقوال صحابہ سے اس کی اہمیت اور ثبوت پیش کرکے اس بارے میں محدثین کی کوششوں کا جائزہ لیا ہے، فن روایت میں سند حدیث یعنی راویوں کے حالات کی چھان بین کی جاتی ہے، مولانا کے نزدیک یہ خارجی نقد حدیث ہے اور فن درایت میں روایت کے مضمون و متن پر نقد و جرح کرکے اس کی قوت و ضعف کا فیصلہ کیا جاتا ہے، مولانا اسے داخلی نقد حدیث کہتے ہیں۔ ان دونوں میں ٹکراؤ کے وقت اولاً تو تطبیق کی کوشش کرنی چاہئے لیکن اگر یہ ممکن نہ ہوتو داخلی (درایت) کو خارجی (روایت) پر ترجیح حاصل ہوگی۔
اس کتاب میں مولانا نے حدیث کی معرفت و درایت کے قدیم اصول و ضوابط کو منضبط کرکے ان کی تشریح اس لیے کی ہے تاکہ درایت کے نئے قواعد و قوانین مرتب کرنے کی راہ ہموار ہو۔ اس کے شروع میں ذات نبویﷺ پر مختلف حیثیتوں سے جو بحث کی گئی ہے، وہ بڑی اہم ہے، اور اس کا مقصد نبوت و رسالت کی اہمیت اور نبی و رسولﷺ کی عظمت کو واضح کرنا ہے، مولانا کے نزدیک شعورِ نبوت کو بڑی اہمیت حاصل ہے اور اس کی وضاحت انھوں نے اپنی مختلف کتابوں میں کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی کو من جانب اﷲ علم و ادراک، فہم و بصیرت اور حکمت و نورانیت عطا ہوتی ہے اور امور دین سے متعلق رسول اکرمﷺ کے تمام ارشادات وحی الٰہی سے مستنبط ہوتے ہیں، منصب نبوت، پیغمبرانہ خصوصیات اور نبی کے علم و فہم اور حکمت و شعور کی یہ مبسوط اور فاضلانہ تشریح اس لیے کی گئی ہے کہ نبوت کے سرچشمہ فیض سے جاری ہونے والی حدیثوں کی خصوصیت، عظمت اور نوعیت پوری طرح سامنے آجائے۔
جس طرح فقہ و اجتہاد میں مولانا کے بعض خیالات کو شذوذوتفرد پر محمول کیا گیا اسی طرح حدیث کے درایتی معیار پر جب ان کی محققانہ کتاب کے بعض حصے معاف میں چھپے تو طرز کہن پر اڑنے والے بعض لوگوں کو ناگواری ہوئی۔ مولانا کے نزدیک ثقہ راویوں سے منقول مستند کتب حدیث کی روایتیں بھی شان نبوت کے منافی ہونے کی صورت میں قابل رد ہوں گی، لیکن تاویل و توجیہہ کے گورکھ دھندے میں پڑنے والے لوگوں کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی جو قبول روایت کا مسلمہ اصول ہے، ان حضرات کو نسخ کے بارے میں بھی مولانا کے اس خیال پر شرح صدر نہ ہوا ہوا ہوگا کہ اس کاتعلق قدیم کتب آسمانی سے ہے نہ کہ قرآن مجید سے، وہ قرآن مجید کے احکام میں ردوبدل کا تعلق ذات سے نہیں اوصاف سے بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے حضرت عمرؓ کے بعض فیصلوں کی نوعیت و حکمت لوگوں پر واضح نہیں ہوسکی اور انھوں نے اسے قرآن کے احکام میں ردوبدل پر محمول کردیا۔
مولانا تہذیب کی تشکیل جدید کے داعی و حامی تھے اور اس بارے میں بھی ان کے خیالات عام سطح سے بلند اور مختلف تھے، وہ جوہر انسانیت کے تربیتی پروگرام کے اس خاکہ کی وضاحت اپنی تحریروں میں کرتے ہیں جس کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن حکیم کے کلیات پر غور کرکے مرتب کیا تھا، انھوں نے عروج و زوال کے الٰہی نظام اور کائنات میں انسان کے مقام و مرتبہ کی تشریح بھی اسی لیے کی ہے۔ قرآن مجید کے خزانہ علم و حکمت کے لعل و گہر کا سراغ لگانے کی کوشش حکمت القرآن میں کی گئی ہے، یہی حکمت بشریت اور تہذیب انسانی کا اصلی تمغا ہے، دراصل مولانا دین اور حکمت دین سے واقفیت کے لیے ممتاز تھے اور وہ دین کی اصل حقیقت و روح اور اس کی حکمت و نورانیت کو سمجھانا چاہتے تھے لیکن وجدانی مسائل کی تشریح و وضاحت بہت نازک کام ہے اس لیے ان کی بعض چیزیں عام لوگوں کی فہم سے بالاتر ہوتی تھیں جن کی قدر اہل علم ہی کرسکتے تھے، مولاناعبدالماجد دریابادی اور مولانا عبدالباری ندوی وغیرہ مولانا کے بڑے قدرداں تھے۔
مولانا تقی امینی نے ’’احتساب‘‘ کے نام سے ایک پندرہ روزہ اخبار بھی ادارۂ علم و عرفان علی گڑھ سے نکالا تھا، لیکن اس کی حیثیت عام اخباروں جیسی نہیں تھی بلکہ اس میں مولانا کے اہم اور دقیق خیالات پر مشتمل مضامین شائع ہوتے تھے، اسی میں مختلف استفسارات کے عالمانہ جواب بھی شائع ہوتے تھے جن کا ایک علیحدہ مجموعہ ۸۶؁ء میں شائع ہوا تھا جس میں اور مفید باتوں کے علاوہ جماعت اسلامی ہند کے ایک سوالنامہ کا بڑا حقیقت پسندانہ جواب دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو قومی زندگی سے علیحدہ اور الگ تھلگ رکھنے کی پالیسی درست نہیں ہے۔
ابتداء میں مولانا کو مناظرہ سے بھی شغف تھا مگر جلد ہی وہ اس سے کنارہ کش ہوگئے البتہ وعظ و تقریر ان کا معمول بن گیا تھا، مسلم یونیورسٹی کی جامع مسجد میں جمعہ اور عیدین کے خطبے اہتمام اور پابندی سے دیتے تھے جو بہت مفید اور پرمغز ہوتے تھے، عیدین کے خطبوں کا ایک مجموعہ مکتبہ جامعہ دہلی نے ۸۳؁ء میں شائع کیا تھا، وہ پیشہ ور مقرر نہیں تھے لیکن کبھی کبھی جلسوں میں شرکت کے لیے سفر بھی کرتے تھے۔
فراخدلی، وسیع المشربی، مروت، شرافت، سادگی، اخلاص، دردمندی، اور عفو و درگزر ان کی سیرت و اخلاق کا نمایاں جوہر تھا، وہ بڑے مرنج و مرنجان شخص تھے، سب سے محبت، گرم جوشی اور بے تکلفی سے ملتے تھے اس کی وجہ سے ہر شخص ان کا گرویدہ ہوجاتا تھا، ان کی سادگی اور بے تکلفی کی وجہ سے سن و سال اور علم و مرتبہ میں کمتر لوگ بھی ان سے شوخ اور گستاخ ہوجاتے تھے، وہ چھوٹوں پر بڑی شفقت فرماتے، ان کی دل جوئی اور حوصلہ افزائی میں بخل سے کام نہ لیتے، اگر ان کی غلطیوں پر متنبہ کرنا ہوتا تو اس کے لیے حکیمانہ انداز اختیار کرتے، بات کرنے میں لاگ لپیٹ سے کام نہ لیتے، ہمیشہ صاف اور کھری باتیں کرتے تھے، ان میں بڑی جرأت اور خود اعتمادی تھی، حق بات کہنے میں کسی کی رورعایت نہ کرتے، اس کی وجہ سے بعض لوگ ناراض ہوجاتے مگر وہ اس کی پروا نہ کرتے۔
انھوں نے بڑی نرم اور گداز طبیعت اور دردمند دل پایا تھا۔ وہ ہر ایک کے درد و دکھ کو اپنا درد و دکھ سمجھتے تھے، کسی کو مصیبت میں دیکھتے تو بے قرار ہوجاتے اور اس کی پریشانی دور کرنے کی فکر کرتے، ایک برس پہلے یونیورسٹی میں ایک داخلہ کے سلسلہ میں میں کافی پریشان رہا میرا کام تو نہیں ہوا لیکن مولانا اور سید حامد صاحب سابق وائس چانسلر نے میری مدد کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔
مولانا جب دارالمصنفین میں میرے ساتھ قیام پذیر تھے تو ایک روز رات میں دس بجے ایک صاحب تشریف لائے جن سے ہم لوگ واقف نہ تھے، میں ان کے سونے کا انتظام کرنے میں لگ گیا، اتنے میں مولانا کو معلوم ہوا کہ نووارد بھوکے ہیں، انھوں نے مجھ سے فرمایا کہ پہلے ان کے کھانے کا انتظام ہونا چاہئے، اگر یہاں ممکن نہ ہوتو چلو ہم دونوں بازار سے کھانا لائیں، میں نے عرض کیا اس وقت بازار میں کھانا نہیں ملے گا۔ اس وقت یہ صرف چائے اور بسکٹ پر اکتفا کرلیں مولانا نے برہم ہوکر فرمایا اگر ان کی جگہ میں اور تم ہوتے تو ہمارا کیا حال ہوتا، میں لاجواب ہوگیا، تھوڑی دیر کے بعد خیال ہوا کہ محترمی سید صباح الدین عبدالرحمان صاحب کے یہاں جو اہل و عیال کے ساتھ رہتے تھے بچا کھچا کھانا ہوگا مولانا مجھے لے کر فوراً ان کے یہاں پہنچے، تھوڑی دیر کے بعد کھانا آگیا اور جب ان صاحب نے کھالیا تو مولانا کی پریشانی اور بے چینی دور ہوئی۔
ان کے نیک اور پاک دل میں کسی کی دلآزاری کا کبھی خیال بھی نہیں آیا ہوگا، چند برس پہلے میں قصبہ صبرحد ضلع جون پور کے مدرسہ فاروقیہ کے سالانہ جلسہ میں گیا تو معلوم ہوا کہ مولانا امینی بھی تشریف لانے والے ہیں اور ڈاکٹر محمد صابر نائب مدیر فکرو نظر علی گڑھ کے گھر پر مولانا ہی کے ساتھ میری رہائش کا بھی انتظام کیا گیا ہے، میں نے مذاق میں کہا اب معلوم ہوا کہ علالت کا عذر محض بہانہ ہوتا ہے، آپ یہاں تک چلے آئے اور بیماری مانع نہ ہوئی، فرمایا کہ ڈاکٹر صابر کے اصرار کے سامنے میری کچھ نہ چلی، یہ بیچارے مجھ سے محبت کرتے ہیں ان کی دل شکنی کیسے کرتا۔
ان کی زندگی ریاو نمود اور نمائش و بناوٹ سے خالی تھی، غیبت اور دوسروں کی عیب جوئی سے ان کو نفرت تھی ان میں کبر و نخوت اور علووپندار کا شائبہ بھی نہ تھا کہیں سے اپنی عظمت اور بڑائی ظاہر نہیں ہونے دیتے، اگر ان کو کبھی اس کا احساس ہوجاتا کہ ان کی کسی بات سے دوسرے کو تکلیف پہنچی ہے تو وہ بے تکلف اس سے اسی وقت معافی مانگ لیتے، اپنی غلطی سے رجوع کرلینے میں ان کو تامل نہیں ہوتا تھا۔
ایثار، صبر اور قناعت ان کا شیوہ تھا، اپنے حال میں مست رہتے اور صبر و شکر سے گزر بسر کرتے، ان کی خانگی زندگی خوشگوار نہ تھی، اہلیہ کو دماغی فتور تھا مگر کبھی وہ حرف شکایت زبان پر نہ لاتے۔
مولانا عرصہ سے علیل تھے، نقرس کی تکلیف کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے، لکھنے کا سلسلہ بھی موقوف ہوگیا تھا، میں نے اور لوگوں کی طرح ان سے بھی مضمون کی فرمائش کی تو جواب دیا کہ اب اسے بھول جاؤ، اﷲ تعالیٰ کو جو کام لینا تھا وہ لے چکا۔ بالآخر ۲۱؍ جنوری کو پیام اجل آگیا۔ اِنا ﷲ وَاِنا اِلیہ رَاجِعونْ۔
اس قحط الرجال میں مولانا جیسے صاحب علم و نظر اور بلند پایہ عالم دین کا اٹھ جانا قوم و ملت کا بڑا خسارہ ہے، اﷲ تعالیٰ اس کی تلافی کرے، مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔ (ضیاء الدین اصلاحی، مارچ ۱۹۹۱ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...