Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > وفیات معارف > مولاناسید منت اﷲ رحمانی

وفیات معارف |
قرطاس
وفیات معارف

مولاناسید منت اﷲ رحمانی
ARI Id

1676046599977_54338290

Access

Open/Free Access

Pages

498

مولانا سید منت اﷲ رحمانی مرحوم
دارالمصنفین میں یہ خبر نہایت غم و ندوہ کے ساتھ سنی گئی کہ امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے امیر، مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری، مسلم مجلس مشاورت کے بانی ممبر، دارالعلوم دیوبند و ندوہ کی مجلس انتظامیہ کے رکن اور خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشین مولانا سید منت اﷲ رحمانی کا انتقال ۳ رمضان المبارک ۱۹؍ مارچ کی شب میں ہوگیا، اناﷲ وانا الیہ راجعون۔
ان کا مرثیہ صرف ایک عالم کا نہیں بلکہ ایک عالم کا ماتم ہے، ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ان جیسی ستودہ و صفات ہستیاں اس دور قحط الرجال میں نعمت سے کم نہیں اور اس نعمت کے چھن جانے سے حرمان و نقصان کی کیفیت اور شدید ہوجاتی ہے۔
انھوں نے ایسے ماحول میں آنکھیں کھولیں جو علم و معرفت اور شریعت و طریقت کی دولت سے مالا مال تھا ان کے والد ماجد مولانا سید محمد علی مونگیریؒ، شاہ فضل رحمن گنج مراد آبادیؒ سے تعلق، رد عیسائیت، تحریک ندوۃ العلماء اور ردقادیانیت میں اپنے کارناموں کے سبب نمونہ سلف اور طبقہ علماء و مشائخ میں ممتاز حیثیت رکھتے تھے، ان کی اقامت کانپور میں تھی لیکن ہدایت و ارشاد کے لیے وہ مونگیر اور اس کے اطراف میں برابر تشریف لے جایا کرتے تھے، جب وہاں قادیانیت کا فتنہ زیادہ سنگین ہوا تو اس کا مکمل قلع قمع کرنے کے لیے ۱۳۲۰؁ھ میں انھوں نے مستقل طور پر مونگیر میں اقامت اختیار کی، مولانا منت اﷲ رحمانی ۱۳۳۲؁ھ میں پیدا ہوئے، اپنے بھائیوں میں وہ سب سے چھوٹے تھے، مولانا مونگیریؒ کے انتقال کے وقت ان کی عمر تقریباً دس برس تھی، ان سے بیعت تو حاصل ہوئی لیکن استفادہ کا زیادہ موقع نہ ملا، انھوں نے بعد میں دیوبند اور ندوہ میں بھی تعلیم حاصل کی، ندوہ میں وہ اپنے بھائی مولانا نوراﷲ صاحب کے ساتھ آئے اور تقریباً چار سال قیام کیا، انکے زمانہ طالب علمی کے رفقاء میں مولانا محمد عمران خاں ندوی ازہری مرحوم بھی تھے، جن کی اولوالعزمی اور شاہانہ حوصلہ نے تاج المساجد بھوپال کی تعمیر کی تکمیل پوری کردکھائی تو مولانا منت اﷲ صاحب نے بڑے پرلطف انداز میں فرمایا کہ اور کچھ ہو نہ ہو عمران خان صاحب نے اپنی جنت تو پکی کرلی۔
ان کے اساتذہ میں مولانا حفیظ اﷲ اعظمی، مولا نا حیدر حسن خاں ٹونکی، مولانا شبلی فقیہ، مولانا عبدالرحمن نگرانی ندوی جیسے ارباب فضل و کمال تھے، دیوبند میں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابراہیم بلیاوی، مولانااعزاز علی، مولانا سید اصغر حسین اور مفتی محمد شفیع سے استفادہ کیا، حاحی محمد شفیع بجنوری خلیفہ مولانا فضل رحمن گنج مراد آبادی کی خدمت میں پانچ سال رہے، بعد میں وہ اپنے والد ماجد کے خلیفہ مولانا محمد عارف ہر سنگھ پوری سے مجاز خلافت بھی ہوئے اور اپنے برادر اکبر مولانا لطف اﷲ صاحب کے انتقال کے بعد خانقاہ رحمانی کی مسند ارشاد پر فائز ہوئے۔
ملک و ملت کی خدمت کا جذبہ ابتدا ہی سے تھا، خوش قسمتی سے ان کو مولانا ابوالحاسن محمد سجاد کی توجہ بھی حاصل ہوگئی جو ایک دقیقہ رس عالم و فقیہ تھے اور جن کا خمیرامت کے لیے پیہم عمل، سوز و ساز، درد و داغ، جستجو و آرزو اور بے کلی و بیقراری اور ایک اضطراب مسلسل سے تیار ہوا تھا، ان کے متعلق مولانا سید سلیمان ندویؒ نے لکھا ہے کہ ’’وہ اکیلے تھے لیکن لشکر تھے، پیادہ تھے مگر برق رفتار تھے، وہ قال نہ تھے سراپا حال تھے‘‘ ان کی سرپرستی میں مولانا منت اﷲ رحمانی ۱۹۳۶؁ء میں سہرسہ سے بہار اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے، لیکن مولانا محمد سجاد کی زندگی کا سب سے اہم کارنامہ امارت شرعیہ کا قیام تھا، جو دراصل ۱۸۵۷؁ء کے انقلاب کے بعد مسلمانوں کی زبوں حالی انتشار، احساس شکست اور قنوطیت کے خلاف نئی بیداری اور نئی شیرازہ بندی کا پیام تھی، علماء و مفکرین اس کی ضرورت سے باخبر تھے، چنانچہ ۱۸؁ء کے معارف میں مولانا سید سلیمان ندویؒ نے اس خیال کو پیش کیا، یورپ سے واپسی کے بعد پھر انھوں نے اس ساز کو چھیڑا لیکن ان کے بقول ’’اس عہد کے جدید تعلیم یافتہ علمبرداروں نے اس کو کسی طرح نہ چلنے دیا‘‘۔ تاہم مخالفتوں کے باوجود مولانا سجاد کی قوت عمل نے بہار میں اس کو وجود کا قالب بخش دیا، سید صاحبؒ نے اسے ان کی سب سے بڑی کرامت سے تعبیر کیا کہ زمین شور میں سنبل پیدا کرنا اور بنجر علاقہ میں لہلہاتی کھیتی کھڑی کرلینا ہر ایک کا کام نہیں، نظام شرعی کے قیام کی نیت کی برکت تھی کہ اس تحریک کو ملک کے علماء و مشائخ کی تائید حاصل ہوئی، چنانچہ اپنے عہد کے جنیدؒ و شبلیؒ، مولانا شاہ بدرالدین پھلواروی اور پھر بعد میں مولانا شاہ محی الدین پھلواروی، شاہ قمرالدین پھلواروی کے علاوہ مولانا مونگیری، مولانا آزاد اور مولانا عبدالصمد رحمانی اس تحریک کی قیادت و سرپرستی فرماتے رہے۔
مولانا منت اﷲ رحمانی امارت شرعیہ کے چوتھے امیر تھے، ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے اسلاف کی اس میراث و روایت کو اپنے علم و فضل رسوخ فی الدین، استقامت، فہم و فراست، اعتدال و توازن اور اعتماد و تعاون سے صرف قائم ہی نہیں رکھا بلکہ اسے مزید ترقی و وسعت بھی دی، گویا ان کی تنہا ذات میں پھلواروی شریف کے بزرگوں اور مولانا مونگیری و مولانا سجاد کی برکات جمع ہوگئی تھیں، امیر منتخب ہونے کے بعد انھوں نے اپنی ایک تقریر میں ’’ہندوستان میں آزاد اسلام‘‘ کی جرأت مندانہ بات کہی تو مولانا عبدالماجد دریا بادی نے لکھا کہ ’’وہ اپنے اس مومنانہ اقدام کے لیے مستحق تبریک و تحسین ہیں‘‘۔ آج امارت شرعیہ کے شعبہ دارالقضاء شعبہ افتاء، بیت المال وغیرہ اپنے امیر کی کامیاب قیادت کے نقیب و شاہد ہیں۔
ان کا دوسرا روشن اور نہایت اہم کارنامہ مسلم پرسنل لا بورڈ کا قیام ہے، یکساں سول کوڈ کے مطالبہ نے جب زور پکڑلیا تو اس خطرہ کی شدت و سنگینی کومحسوس کرنیوالوں میں وہ پیش پیش تھے، ان کی مساعی کی بدولت ۷۲؁ء میں ممبئی کے ایک بڑے اجلاس میں مسلمانوں کے مختلف حلقہ فکر کے رہنما ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے اور انھوں نے بورڈ کی تشکیل کی جس نے شاہ بانو کیس کے سلسلہ میں بڑا قابل قدر اور موثر کردار ادا کیا۔ مولانا کی یادگاروں میں جامعہ رحمانی بھی ہے جسے انھوں نے ۴۵؁ء میں قائم کیا تھا۔ جامعہ نے فقہ و افتاء کے شعبہ میں ممتاز اور قابل ذکر علماء پیدا کئے، اس کے کتب خانہ کو بھی انھوں نے بڑی وسعت دی۔
ندوہ سے ان کو خاص تعلق تھا، اپنے والد مولانا مونگیری سے اس کے رشتہ کو انھوں نے ہمیشہ ملحوظ رکھا، ندوہ کے ناظم اور دارالمصنفین کے روح رواں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی سے بھی ان کا بڑا لگاؤ اور مخلصانہ روابط تھے اکثر قومی و ملی مسائل میں دونوں کو ایک دوسرے کا تعاون اور اشتراک عمل حاصل رہتا تھا ندوہ کا عظیم الشان ۸۵ سالہ جشن منایا گیا تو اس کے آخری اہم اجلاس کی صدارت انھوں نے کی اور انہی کی دعا پر یہ جشن ختم ہوا، دارالمصنفین، علامہ شبلیؒ، مولانا سید سلیمان ندویؒ اور معارف کے وہ قدر شناس تھے، علامہ شبلیؒ کے متعلق ایک جگہ لکھا کہ ’’وہ عالم اسلام کے مشہور عالم، ادب و تاریخ کے امام اور قدیم و جدید کے سنگم تھے‘‘ انھوں نے مولانا گیلانی کا یہ قول بھی نقل کیا کہ ’’بلاشبہ مولانا شبلیؒ قدیم و جدید علمی طبقہ کے درمیان ایک برزخی وجود کا مقام حاصل کیے ہوئے تھے‘‘ اختلاف مسلک کو انھوں نے کبھی وجہ تلخی نہیں بنایا مکاتیب گیلانی کے ایک حاشیہ میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے متعلق ان کی چند سطریں کئی بڑے مضامین پر بھاری ہیں۔
انھوں نے مقالات و مضامین کثرت سے لکھے، وقتی مسائل پر انکے رسائل بھی ہیں، گو مولانا کو تصنیف و تالیف کا بھی اچھا سلیقہ تھا مگر قومی و ملی زندگی کی مصروفیتوں نے انہیں اس جانب متوجہ نہیں ہونے دیا کچھ عرصہ پہلے انھوں نے مولانا مناظر احسن گیلانی کے خطوط کا ایک مجموعہ مکاتیب گیلانی کے نام سے مرتب کر کے شایع کیا تھا اس میں انھوں نے مکتوب الیہ کا مختصر حال تحریر کرنے کے علاوہ مفید حواشی و تعلیقات بھی لکھے ہیں، اس سے مولانا کے حسن ذوق کا اندازہ ہوتا ہے مولانا گیلانی کا ہر خط عمدہ معلومات پر مشتمل ہوتا تھا اس لیے مولانا منت اﷲ صاحب نے ان منتشر جواہر پاروں کو شایع کر کے بڑی مفید علمی و دینی خدمت انجام دی ہے، فاضل مرتب نے قارئین کی سہولت کے لیے ہر مکتوب کی مفصل فہرست بھی شایع کی ہے۔
مولانا کی زندگی اپنے کارہائے نمایاں کی وجہ سے اگر قابل رشک رہی تو ان کی مبارک موت بھی حسن خاتمہ اور حسن قبول کی بشارت لائی، ۳ رمضان المبارک کو عشاء اور تراویح کی ابتدائی چند رکعات کے بعد وہ اپنے خالق حقیقی سے جاملے، اﷲ تعالیٰ ان کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے، ان کے پسماندگان خصوصاً ان کے صاحبزادہ مولانا محمد ولی رحمانی اور تمام متعلقین کو صبر و رضا کی توفیق دے اور قوم و ملت اور امارت شرعیہ کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، آمین۔ ( عمیر الصدیق دریابادی ندوی ، اپریل ۱۹۹۱ء)

نوٹ:ـ مولانا سید منت اﷲ رحمانی مرحوم پر مولوی عمیر الصدیق صاحب کا مضمون بہت اچھا ہے مگر وہ ایک بات لکھنی بھول گئے، یعنی مرحوم کانگریس کی کسی تحریک میں گرفتار ہوکر قید وبند سے بھی دوچار ہوئے تھے۔ (’’شیخ نذیر حسین‘‘، مئی ۱۹۹۱ء)

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...